آصف فرخی بحیثیت مترجم


ڈاکٹر آصف فرخی ایک ہمہ جہت تخلیق کار ہیں۔ انہیں ایک پختہ افسانہ نگار، سنجیدہ نقاد اور قابل مدیر کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے۔ تراجم کے میدان میں انھوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ بین الاقوامی ادب کو اردو کے قالب میں ڈھالا، اور پاکستان کے مقامی ادب کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اردو میں لکھنے کا آغاز ”نیا ناول“ نامی مضمون سے ہوا۔ آنے والے برسوں میں باقاعدگی سے لکھا۔ انگریزی زبان میں بھی لکھا۔ ابتدائی تحریریں ”مارننگ نیوز“ اور ”کرنٹ“ میں شائع ہوئیں۔ پھر ”ہیرالڈ“ اور ”ڈان“ کے لئے لکھا

ہارورڈ یونیورسٹی کے زمانے میں تراجم کا سلسلہ شروع ہوا۔ اپنے ہم عصر شعراء کے کلام کو انگریزی میں ڈھالا، جو AN EVENING OF CAGED BEASTS کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔ آنے والے برسوں میں ترجمے کے میدان میں جم کر کام کیا۔ کشور ناہید کی نظموں کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ عطیہ داؤد کے کلام کو ”RAGING TO BE FREE“ کے نام سے پیش کیا۔ قیام پاکستان کے پچاس سالہ جشن کے موقع پر ”افسانہ: بہ طور پاکستان کی تاریخی دستاویز“ کا خیال سامنے رکھتے ہوئے کہانیاں اکٹھی کیں، جو ایف آئی آر ES IN AN AUTUMN GARDEN کے عنوان سے شایع ہوئیں۔

شیخ ایاز کے منتخب کلام کو انگریزی میں پیش کیا۔ شاہ محمد پیرزادہ کے ساتھ شیخ ایاز پر دو کتابیں ”ذکر ایاز“ اور ”فکر ایاز“ مرتب کیں۔ ہرمین ہیسے کے لازوال ناول ”سدھارتھ“ کا اردو میں ترجمہ کیا۔ نجیب محفوظ کی تخلیقات کو ”یادوں کی باز گشت“ اور ”خواب نامہ“ کے عنوان سے پیش کیا۔ ساتھ ہی ستیہ چیت رے، عرب مصنف رفیق شامی اور لاطینی امریکی ادیب عمر راوابیلا کے ناولوں کا بھی اردو میں ترجمہ کیا۔ ان کے تنقیدی مضامین کے دو مجموعے ”عالم ایجاد“ اور ”نگاہ آئینہ ساز میں“ کے عنوان سے شائع ہوئے۔ لاطینی امریکہ کی کہانیوں کے ترجمے ”موت اور قطب نما“ پر انہیں 95 ء میں وزیر اعظم ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ جاپانی افسانوں کا ترجمہ ”شجر گلنار“ کے نام سے کیا۔

تراجم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک دفعہ آصف فرخی نے کہا تھا کہ میں نے سب سے پہلے جو باضابطہ ترجمہ کیا وہ ”ہرمین ہیسے“ کا ایک چھوٹا سا ناول ہے ”سدھارتھ“ میں نے وہ ناول انگریزی میں پڑھا۔ اور جب میں نے وہ کتاب انگریزی میں پڑھنا شروع کی تو مجھے پہلا جو احساس ہوا کہ میں اس کو پڑھ انگریزی میں رہا تھا اور سن اردو میں رہا تھا۔ یعنی وہTEXT میرے ذہن میں RECEIVE ہو رہا تھا اس لیے کہ اس کا ماحول برصغیر کی قدیم تہذیب کا ماحول تھا اس کے اندر جو ایک مرکزی کردار کی حیثیت ہے وہ ایک نوجوان ہے جو اپنی روایات اور تجربے سے گھبرا بھی رہا ہے اور اس سے بچنا بھی چاہ رہا ہے اور اس کی طرف جا بھی رہا ہے۔

تو مجھے لگا کہ یہ تو شاید میرا قصہ ہے یا ہمارے بہت سے دوستوں کا معاملہ ہے تو میں نے وہ ناول جس طرح اپنے ذہن میں سن رہا تھا اس کو اردو میں لکھ ڈالا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ ترجمہ ہو گیا کیونکہ میں نے اس میں کوشش یہ کی کہ کرداروں کا جو ماحول ہے اس سے زیادہ مطابقت رکھنے والی زبان پیدا کی جائے تو بعض کتابیں اس طرح سے سامنے آتی ہیں اور وہ ترجمہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ بعض کتابیں ایسی ہیں، جن کا ماحول یا جن کا پیرایہ اظہار مختلف ہوتا ہے۔ یا اجنبی ہوتا ہے ان میں خاصی دقت ہوتی ہے۔

آصف فرخی نے سندھی زبان سے بھی کچھ ترجمے کیے اس حوالے سے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ میں نے سندھی سے جو ترجمے کیے ان میں عطیہ داؤد اور شیخ ایاز کی شاعری شامل تھی۔ میں سندھی زبان سے بہت زیادہ واقفیت نہیں رکھتا اس لیے سندھی زبان جاننے والے دوستوں کی مدد سے وہ ترجمے کیے۔ سندھی اپنے صوبے کی زبان ہے اس لیے اس زبان سے اپنائیت محسوس ہوتی تھی۔ اور یہ لگتا تھا کہ سب چیزیں یا اظہار ہماری زبان میں آنے کے لیے بے تاب ہیں۔

دوسری زبانوں کا جو ترجمہ کیا گیا ان میں کچھ لاطینی امریکا کی کہانیوں کا بھی ترجمہ کیا۔ اس ترجمے کو کرنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ افسانہ جس سے میری دلچسپی ہے اس کا طریقہ بدل رہا ہے اس کا انداز بدل رہا ہے اور یہ جو انداز بدلا ہے یا بدل رہا ہے اس کی نشاندہی کی جاسکے۔ ظاہر ہے کہ یہ آسان کام نہیں تھا بعض افسانے بہت مشکل ثابت ہوئے لیکن یہ بھی تھا کہ اگر اس بات کو اردو میں کہا جائے تو کیسے کہا جائے؟ تو بہت رواں نہ ہوتے ہوئے بھی وہ ترجمے مجھے بہت اہم لگتے ہیں کہ ان میں اسلوب کا ایک تجربہ ہے۔

آصف فرخی کے تراجم پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ انھوں نے ترجمہ کرتے وقت اس زبان کے اسلوب کا خاص خیال رکھا ہے کہ جس میں ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ لفظی ترجمے کے بجائے با محاورہ ترجمہ کیا جائے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی ترجمہ کی ہوئی کہانیوں کو پڑھتے ہوئے کہیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم ترجمہ پڑھ رہے ہیں بلکہ اس ترجمے میں اصل تخلیق کا لطف محسوس ہوتا ہے۔ ادبی متون کے ترجمے میں یہ بات بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ تخلیق کار کے خیال کو من و عن قاری تک پہنچانا اسی وقت ممکن ہے کہ جب مترجم خود اس کتاب کی اصل روح تک پہنچ رہا ہو۔

آصف فرخی نہ صرف خود اس متن کو صحیح طریقے سے ریسیو کرتے تھے بلکہ قاری تک بھی اسی انداز سے پہنچانے کی کوشش کرتے تھے۔ جاپانی افسانہ نگار سا تو کو کازوکی کے افسانے انھوں نے ”شجر گلنار“ کے نام سے ترجمہ کیے۔ یہ افسانے منتخب کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ان افسانوں کے کردار وہ بچے تھے جو جنگ کے وقت بہت چھوٹے تھے مگر بڑے ہو کر اپنے بچپن کو یاد کرتے ہیں اس شہر کو یاد کرتے ہیں جسے چھوڑ آئے تھے۔ اور اپنے بچپن سے کٹ کر مایوسی اور یاسیت کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔

ندامت، اندیشے اور مستقبل کا خوف ان کے مزاج کا حصہ بن گیا ہے۔ ان افسانوں کو ترجمہ کرتے ہوئے آصف فرخی نے اردو کے اسلوب کا خاص خیال رکھا ہے اور لفظی ترجمہ نہیں کیا ہے بلکہ با محاورہ ترجمے کو ترجیح دی ہے۔ ادبی ترجمہ ایک مشکل عمل ہے مترجم کی ذہنی استعداد بھی اس معیار کی ہونی چاہیے کہ وہ ترجمہ کرتے ہوئے متن کی ترجمے میں صحیح تفہیم کرسکے۔ آصف فرخی کے تراجم ان نقائص سے پاک ہیں۔ اور بیک وقت انگریزی سے اردو، اردو سے انگریزی، سندھی سے انگریزی، جاپانی سے اردو میں ترجمہ کرنے کی وجہ سے انھوں نے ترجمہ نگاری کے فن پر کسی حد تک عبور حاصل کر لیا تھا۔ بلا شبہ ہم آصف فرخی کو بڑا افسانہ نگار، نقاد اور مدیر تسلیم کرتے ہیں۔ بحیثیت مترجم بھی وہ ایک بڑے مرتبے پر فائز نظر آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments