باجی رشیدہ


آج سکول سے واپس آتے گرمی سے میرا سر ابل رہا تھا۔ میرا سکول شہر کے نواحی قصبے میں تھا جہاں سے گھر آنے کے لئے، سوزوکی کے سفر کے علاوہ کچھ فاصلہ پیدل چل کر بھی طے کرنا پڑتا تھا۔ سورج یوں آگ برسا رہا تھا جیسے جہنم اٹھ کر یہیں آ گیا ہو۔ حلق سوکھ کے کانٹا ہو رہا تھا۔ میں نے صحن میں آ کر اپنا دوپٹہ اتار پھینکا اور پنکھے کے سامنے بیٹھ گئی۔ ریفریجریٹر پچھلے مہینے سے خراب پڑا تھا اس لئے نلکے کا ابلتا پانی معدے میں انڈیلا۔ زوروں کی بھوک لگی تھی۔ میں کھانا بنانے کے لئے بیٹھ کر آلو پیاز چھیلنے لگی۔ ابھی پسینہ خشک ہوا ہی تھا کہ پنکھا بند ہو گیا۔

’لو بجلی گئی، اللہ بھلا کرے ان واپڈا والوں کا، نہ دن میں سکون، نہ رات میں چین‘ ۔

میں نے سوچا کاش سکول میں ہی بیٹھی رہتی، سٹاف روم میں بڑے سائز کا لاہوری کولر لگا تھا اور یخ پانی پینے کے لئے فریج بھی موجود تھی۔ امتحانات کا موسم تھا اور پانچویں کلاس کے بورڈ کے امتحانات کی تیاری زور و شور سے جاری تھی۔ سائنس اور ریاضی کے مضامین میری ذمہ داری تھے۔ میں محنت کر کے اچھا نتیجہ حاصل کرنا چاہتی تھی، کیوں کہ ہیڈ مسٹریس صاحبہ نے بہترین استانی کے لئے نقد انعام کا وعدہ کر رکھا تھا۔ سوچا تھا کہ کمیٹی کے پیسوں میں انعام کی رقم ملا لوں گی تو نئے فریج کی قیمت نکل آئے گی۔ مگر بجلی آئے تو کچھ چلے۔

آج سٹاف روم میں بیٹھے جب مس قریشی نے گرمی کا رونا رویا تو سیکنڈ ہیڈ مسٹرس مسز منیر نے ان کو اللہ کی عطا کردہ نعمتیں یاد کراتے ہوئے اپنے سے نچلے طبقے کی طرف دیکھنے کا مشورہ دیا بلکہ اچھا خاصا لیکچر دے ڈالا۔ میں نے سوچا مسز منیر کی تو گاڑی اور گھر میں اے سی ہے اور خدمت کے لئے نوکر چاکر موجود ہوتے ہیں، انہیں ہماری مشکلات کا کہاں ادراک ہو سکتا ہے۔ مسز منیر کو دل میں کوستے میرا دھیان باجی رشیدہ کی طرف چلا گیا، جن کی زندگی کڑی دھوپ میں تنہا کھڑے درخت کی مانند گزری۔

باجی رشیدہ صبح سے شام تک گھروں میں کام کرتی تھی۔ بڑی سخت جان عورت تھی، عمر کوئی پچاس پچپن کے لگ بھگ، ہاتھ بازو مردوں کے جیسے مضبوط، چوڑے شانے، رنگ گہرا سانولا اور چہرے پہ سخت زمانوں کی کرختگی تھی۔ اس کی ساری عمر لوگوں کے گھروں میں کام کرتے گزری تھی۔ جن گھروں میں اس نے کام کیا وہاں اس کا تعارف ایک محنتی خاتون کے طور پر تھا۔ اس کا کام کرنے کا ایک لگا بندھا معمول تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے، وہ گھر میں داخل ہوتے ’ساما لیکم باجی‘ کی آواز لگاتی۔ دوپٹہ سر پر باندھ کر جھاڑو پکڑ کام میں مشغول ہو جاتی۔ ساتھ ساتھ وہ مالکن سے باتیں بھی کرتی جاتی، جن میں ہر طرح کے قصے ہوتے۔ بیٹے کی آوارگی، شوہر کی بے وفائی اور سسرال والوں کے مظالم وغیرہ۔

دوپہر کو اگر کسی گھر سے بچا ہوا کھانا مل جاتا تو کھا لیتی اور کبھی شام تک بھوکے پیٹ مشقت کرتی۔ عیسائی مذہب سے ہونے کی بنا پر کچھ لوگوں نے اس کا کھانے پینے کا برتن علیحدہ رکھا ہوتا تھا۔ باجی کو بھی اس کی عادت ہو گئی تھی۔ گھر کے داخلی دروازے کے ساتھ پانی والی موٹر کی الماری کے بالائی خانے میں اس کی پلیٹ اور گلاس دھرا ہوتا، وہیں ایک خانے میں جھاڑو، فینائل اور پونچھنے کے کپڑے وغیرہ دھرے رہتے۔ وہ الماری ایک طرح سے اس کا لاکر بھی تھی جہاں وہ کہیں سے ملا شاپر میں محفوظ کھانا یا پرانے کپڑے عارضی طور پہ رکھ دیا کرتی۔

باجی کے ایک بازو اور ہاتھ پر جھلسنے کے نشان تھے۔ کئی سال پہلے سسرال والوں نے اسے جلانے کوشش کی تھی۔ لیکن وہ اپنے مضبوط ڈیل ڈول کے سبب جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئی۔ اگر اس دن وہ بھاگنے کا ارادہ نہ کرتی تو مبینہ طور پر چولہا پھٹنے کے نتیجے میں ہلاک ہو کر تین سطری خبر بن چکی ہوتی۔

صفائی کے بعد وہ برتن دھونے کھڑی ہو جایا کرتی اور پون گھنٹے میں سو سو برتن دھو جاتی۔ کام ختم کر کے مالکن کو سلام کرتی، دوپٹہ سر سے کھول کر چادر کی طرح اوڑھ لیتی اور اگلے گھر کی جانب چل پڑتی، جہاں تقریباً یہی روٹین دہرائی جاتی۔ کسی دن ہفتہ وار کپڑے دھونے کی باری ہوتی تو وہ بہت تھک جایا کرتی اور مالکن سے دو گولی ڈسپرین لے کر کھا لیتی، جسے وہ اپنی سادہ لوحی میں تلوار والی گولی کہا کرتی۔ دن میں پانچ چھ گھروں کے کام نبٹا کر آخر اپنے گھر کی راہ لیتی جہاں ابھی اس نے صفائی کرنا ہوتی اور بچوں کا کھانا پکانا ہوتا۔ سردی ہو یا گرمی، بارش ہو یا طوفان، اس کا یہی معمول ہوتا۔

باجی کی کہانی اتار چڑھاؤ کا ایک سلسلہ تھی۔ اس کا بچپن بڑا خوشحال گزرا، باپ کی لائل پور میں چھوٹے پیمانے پہ پاور لومز تھیں، ذاتی گھر اور گاڑی تھے۔ لیکن باپ کی اچانک موت سے سب کچھ بدل گیا۔ ادھر اس کی آنکھیں بند ہوئیں تو چچا نے آنکھیں ماتھے پہ رکھ لیں۔ اس نے کاروبار پہ قبضہ جمایا اور ماں بیٹی کو گھر سے نکال دیا۔ وہاں سے نکل کر رشیدہ کی ماں اپنے بھائی کے گھر آ گئی جہاں ماں بیٹی نوکروں کی طرح رہے اور کپڑے سی کر گزارہ کیا۔ ماں کے انتقال کے بعد ماموں نے کم سنی میں ہی اس کی شادی اس سے دگنی عمر کے مرد سے کر دی۔ انور جو ایک بس کنڈیکٹر تھا، اسے اپنے ساتھ مردان لے گیا۔ پھر ماموں نے مڑ کر کبھی بھانجی کا حال نہ پوچھا۔ کچھ سال بعد انور اسے راولپنڈی لے آیا جہاں باجی نے گھروں میں کام کرنا شروع کیا اور انور نے نشہ۔

بات نشے کی حد تک رہتی تو باجی برداشت کرتی رہتی لیکن چند ماہ بعد ہی انور ایک بدچلن عورت سے شادی رچا کر اسے گھر لے آیا۔ تب باجی نے جذباتی اذیت کاوہ زمانہ بھی دیکھا جہاں وہ ایک کمرے کے گھر میں زمین پہ سوتی اور چارپائی پہ انور دوسری عورت کے ساتھ ہوتا۔ مگر آفرین ہے باجی پہ کہ جب وہ عورت اپنی چھ ماہ کی بچی چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی تو اس نے بچی ثنا، کی پرورش اپنے ذمے لے لی اور اس کو سگی بیٹیوں کی طرح پالا۔

باجی کا اپنا ایک ہی بیٹا تھا، پرویز، جسے وہ گود میں لئے کام کیا کرتی۔ دونوں بہن بھائی اکٹھے بڑے ہوئے۔ پرویز تو پڑھائی سے بھاگ گیا لیکن باجی نے ثنا کو میٹرک کرایا۔ پرویز ٹھوکریں کھاتا اور گلیوں میں آوارہ پھر تا جوان ہو گیا۔ اگرچہ باجی کے جاننے والے لوگوں کے مذہبی رجحانات غیر مسلم کو زکوٰة دینے سے گریزاں تھے، پھر بھی چند مخیر لوگوں کی امداد سے اس نے ثنا کی شادی یوسف سے کردی جو سی ڈی اے میں نائب قاصد ہے۔

انور نشے اور جوئے کی لت میں مبتلا ہو کر سارا دن گھر ہی پڑا رہنے لگا۔ اس کا کام باجی کے پیسے چھیننا اور مار پیٹ کرنا ہی رہ گیا تھا۔ تنگ آ کر باجی نے انور کو گھر سے نکال دیا لیکن وہ پھر بھی کبھی کبھار نشے میں دھت رات کو گھر آ دھمکتا اورغل مچاتا۔

پرویز اب باجی کا آسرا تھا۔ اس نے کچھ عرصہ پہلے منڈی میں مزدوری کی تو سامان ڈھوتے بس کی چھت سے گر کر کمر تڑوا لی اور چھ ماہ بستر پہ پڑا رہا۔ پھر باجی نے اسے ایک گھر میں ڈرائیور کی نوکری دلوا دی۔ پچھلے سال اس نے پرویز کی شادی اپنی بھانجی ایلس سے کر دی۔ ایلس کا خاندان لائل پور میں بھٹہ مزدور تھا جن کی ساری زندگی غلامی میں گزری۔ بھٹہ مالکان سے لڑکی کی عزت اور جان محفوظ نہ تھیں۔ خداوند یسوع کے کرم اور باجی کے احسان سے اس کی زندگی بدل گئی۔

اس نے ایف اے کیا ہوا ہے اور بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہے۔ تین ماہ بعد بچے کی ماں بننے والی ہے۔ باجی کی خواہش تھی کہ وہ گھروں کا کام کرنا چھوڑ دیں اور گھر بیٹھ کر اپنی ٹی بی کی دوائی کا کورس مکمل کریں اور پوتا کھلائیں۔ لیکن احسان فراموش ایلس نے پرویز کو بھڑکایا کہ بچے والے گھر میں ٹی بی کے مریض کا رہنا مناسب نہیں اور پرویز نے ماں کو گھر سے نکال دیا۔

وہ بیچاری اپنے گھر سے در بدر دھکے کھاتی اپنے شوہر انور کے پاس گئی۔ اس نے دن کو تو باجی کو رکھا لیکن رات آتے ہی نشے میں دھت اسے مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا۔ وہ رات اس نے اپنے کام والے محلے کی مسجد کے گیٹ پہ گزاری۔ صبح مالکن باجی سے ناشتہ لیا اور دو گولی ڈسپرین کھا کر کام میں جت گئی۔ شام کو کام ختم کر کے سڑکوں پہ لاوارثوں کی طرح پھرتے، بدقسمتی سے ایک تیز رفتار بس کی زد میں آ گئی۔ سڑک کنارے اس کی لاش، خون میں لت پت پڑی تھی۔

تپتی دوپہر میں، لوگ اس کے بے جان وجود کے گرد چہ مگوئیاں کر رہے تھے۔ مکھیاں اپنا رزق سمیٹنے اس کے خون پہ بھنبھنا رہی تھیں۔ گرمی کی شدت کی وجہ سے راولپنڈی کے اس عموماً گنجان آباد علاقے میں اس وقت معدودے چند افراد ہی تھے۔ کسی نے ایدھی والوں کو کال کی جنہوں نے اس کی لاش کو مردہ خانے پہنچا دیا۔ تین دن بعد پرویز نے ماں کی لاش کی شناخت کر کے اس کی تدفین کی۔

آج جب اس واقعہ کو ایک ماہ گزر چکا ہے۔ میں انہی سوچوں میں گم کھانا بنانے بیٹھی ہوں۔ اچانک بجلی آ گئی اور پنکھے کی گرم ہوا نے مجھے سوچوں کے سمندر سے نکالا۔ یوسف کھانا لینے گھر آ چکا تھا، اس نے مجھے روتا دیکھا تو پاس بیٹھ گیا۔ میں نے پیاز چھیلنے سے آنسو آنے کا بہانہ کیا لیکن اسے معلوم تھا کہ میری آنکھیں کس غم سے بھیگی ہیں۔ میں، باجی کی سوتیلی بیٹی ثناء، جس کی زندگی باجی کی مرہون منت ہے، اپنی سگی ماں سے بڑھ کر پیاری ماں کے لئے کچھ بھی نہ کر سکی۔ اس نے پیار سے میرا کندھا تھپکا اور میں جلدی سے اٹھ کر ہانڈی چڑھانے میں مصروف ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments