کیا ہم اپنے اسٹوڈنٹس کو واقعی اپنے بچے/بچیاں سمجھتے ہیں؟


بہت پرانی بات ہے کہ ہمارا ایک دوست جو ہماری طرح ہی یونی ورسٹی میں پڑھاتا تھا، نے مجھ سے کہا کہ تم لڑکے لڑکیوں کو بیٹا کہہ کر کیوں پکارتے ہو؟ میں نے کہا کہ وہ اس لیے کہ میں انہیں ایسا سمجھتا ہوں۔ وہ ہنس دیا کہ ایسا نہیں ہوتا کیا تم ان طالبعلموں کے لیے بالکل ویسی ہی درد مندی رکھتے ہو جیسی اپنی اولاد کے لیے رکھتے ہو؟ کیا ان کی ذمہ داری ان کے طبعی والدین کی طرح ہی لیتے ہو؟

میں اس کے ان سوالوں پر سوچ میں پڑ گیا؟ سوچا کہ ایک دو دن خود کو پرکھوں گا۔ بالآخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ درست کہہ رہا تھا۔ میں واقعتاً طالبعلمان کو بیٹا یا بیٹی تو کہتا تھا لیکن ویسا درد یا حساسیت محسوس نہیں کرتا تھا جیسا اپنی اولاد کے لیے کیا جاتا ہے۔ پھر وہ دن ہے اور آج کا دن میں اسٹوڈنٹس کے بارے میں اتنا ہی حساس ہوں جتنا اپنی اولاد کے بارے میں، ان کی کامیابی اپنی کامیابی اور ان کی ناکامی کو اپنی ناکامی محسوس کرتا ہوں۔

بطور طالب علم ان کی تربیت کی ذمہ داری ان کے والدین کے بعد ہم شعبہ تدریس سے وابستہ لوگوں کی بنتی ہے۔ ہم بھی ان کی عمر میں ایسے خوابوں کے پیچھے بھاگنے والے، لا ابالی، جذباتی، کم فہم اور پیش بینی سے دور تھے تو کیا یہ روایت ایسے ہی آگے بڑھنی چاہیے! ۔ سب سے اہم بات یہ کہ ہماری باتیں ان پر اثر کیوں نہیں کرتیں؟ اس کی سب سے بڑی اور واحد وجہ تدریسی ماحول میں رول ماڈلز کی کمی ہے۔ اگر اساتذہ خود چائے پی کر چائے کا ڈسپوزیبل کپ وہیں دروازے کے پیچھے پھینک دیں گے تو کیا طالب علمان ایسا نہیں کریں گے؟

اگر استاد خود مشرقی ثقافت کا نمائندہ نہیں دکھ رہا تو کیا وہ مشرقی ثقافت اور روایات کے متعلق اس کی بات کو تسلیم کریں گے؟ اگر بطور استاد میرا اپنا لباس واہیات ہے تو میں طالب علموں کے لباس پر کیسے معترض ہو سکتا ہوں، اگر مجھے تاریخ پاکستان اور پاکستان سے محبت کا علم نہیں تو میں ان کے دروں پاکستانیت کیسے پیدا کر سکتا ہوں؟ میں خود روزانہ انگریزی سوٹ میں پھروں اور بچوں کو کہوں کہ پاکستانی لباس پہنا کریں، اگر میں خود اور میرے اردگرد اساتذہ اور انتظامیہ تہذیب سے دور ہو تو میں طالب علموں کو کو تہذیب کیا سکھاؤں۔

ایک دن تدریسی اداروں میں اساتذہ طالب علموں کے پھینکے ہوئے خالی ریپرز، چائے کے ڈسپوزیبل کپس اور تھالیاں وغیرہ ان کے سامنے اٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دیں تو یقین مانیں اس دن کے بعد سے کوئی بچہ ایسے جگہ جگہ گند نہیں پھینکے گا۔ ہم اچھا اور شائستہ لباس پہننا شروع کردیں تو ممکن ہی نہیں کہ طالب علم بھی ایسا نہ کریں۔ ہم طالب علموں سے اخلاق سے پیش آئیں ان کو اتنا مارجن دیں کہ وہ بھی آپ پہ ہنس سکیں آپ سے کھلی گفتگو کرسکیں تو ان کے آدھے مسائل حل ہوجائیں گے۔

پرانی بات ہے ایک طالب علم دوسرے شہر سے داخلے کے لیے انٹرویو دینے کے لے آیا اور اسے دیری ہو گئی۔ اس کی جیب بھی کٹ چکی تھی موبائل اور رقم وغیرہ بھی نہیں تھی۔ وہ بہت پریشانی میں آیا، تو اسے کسی نے ڈانٹ دیا کہ بھاگ جاؤ اب وقت ختم ہو چکا ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں اسے اپنے دفتر میں لے گیا اسے پانی پلایا، اس کا مسئلہ سنا، اسے حوصلہ دیا اور پھر اس کے انٹرویو کا انتظام کرایا۔ وہ بچہ میرٹ پر بھی آ گیا۔ میری ذرا سی نرم خوئی سے اس کے حواس بحال ہو گئے اور اس نے انٹرویو میں اچھا پرفارم کیا۔

ہمیں لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں۔ ایسا بھی ہے کہ اساتذہ کی نرم طبیعت اور آسانی کا طالب علم ناجائز فائدہ بھی اٹھا لیتے ہیں تاہم میرا ماننا ہے کہ طالب علموں کو ایک بڑے خواب ضرور دکھانا چاہیے۔ انہیں بتانا چاہیے کہ آپ اس دنیا بلکہ کائنات کے لیے کس قدر اہم ہیں آپ کا اس کائنات کی توسیعیت میں کچھ کانٹربیوٹ کرنا کتنا ضروری ہے۔ یہ سب ایک بہتر نسل کی تیاری کے ٹولز ہیں۔ یہ سب تبھی ہوگا جب آپ انہیں واقعتاً اپنی اولاد سمجھیں گے۔ اولاد سے بندہ پیار بھی کرتا ہے اور بوقت ضرورت ڈانٹتا بھی ہے، مزاح بھی کرتا ہے اور مزاح سہتا بھی ہے۔ لہٰذا اچھا متن، اچھا نصاب، اچھی باتیں اپنی جگہ اہم، سب سے اہم آپ کا خود کو بطور ایک مثالی نمونہ یا رول ماڈل بن کر دکھانا ہوگا۔ تب آپ کی غیر موجودگی بھی موجودگی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments