ماں تو ممتا کے ہاتھوں مجبور ہوتی ہے، باپ بچوں کا خیال کیوں رکھتا ہے؟

الیزبتھ پریسٹن - بی بی سی فیوچر


ممالیہ کی چند ہی انواع ایسی ہیں جو اپنے یا دوسروں کے بچے پالنے میں اتنا وقت صرف کرتی ہیں جتنا ایک باپ کے طور پر انسان کرتا ہے۔

لی گیٹلر سے فون پر بات کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کی وجہ عام سی ہے، اور وہ یہ کہ وہ اپنے دو چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں۔ ممالیہ یا دودھ پلانے والے جانوروں میں البتہ یہ بات غیر معمولی ہے۔

نوٹرے ڈیم یونیورسٹی میں بشریات کے ماہر گیٹلر کا کہنا ہے کہ ’باپ کے طور پر انسان اپنے بچوں کی بہتر دیکھ بھال کرتا ہے‘ اور یہ بات اسے دوسرے ممالیہ جانداروں میں ممتاز بناتی ہے۔ والدین اور خصوصاً والد گیٹلر کی تحقیق کا موضوع ہے۔

گیٹلر اور دوسروں کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ باپ کا کردار ثقافت کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے اور جانداروں کی دوسری اقسام کے باپ سے ہمیں نسل انسانی میں باپ کے کردار کے ارتقائی عمل کی کچھ جھلکیاں مل سکتی ہیں۔

باپ کہاں سے آئے اور ولدیت باپ اور بچوں کے لیے اتنی اہم کیوں ہے؟ ان سوالوں پر گہری تحقیق سے ہر طرح کے گھرانوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

لندن سکول آف ہائجن اینڈ ٹروپیکل میڈیسن سے وابستہ ماہر بشریات ربیکا سیئر کہتی ہیں ’اگر ہم ممالیہ کی دوسری انواع کو دیکھیں تو باپ سوائے سپرم یا نطفہ فراہم کرنے کے کچھ بھی نہیں کرتا۔‘

بچوں کی نگہداشت کرنے والی دوسری انواع میں بھی سارا بوجھ ماں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے (اس معاملے میں مچھلی البتہ مختلف ہے، زیادہ تر تو اپنے بچوں کی نگہداشت کرتی ہی نہیں اور جہاں ایسا ہوتا بھی ہے تو یہ ذمہ داری باپ کو نبھانا پڑتی ہے۔ اور پرندے تو اپنے بچوں کی پروش مل کر کرنے کے لیے مشہور ہیں۔)

بن مانسوں میں بھی، جو انسانوں کے سب سے زیادہ قریب ہیں، باپ زیادہ کچھ نہیں کرتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ذمہ داری ماں پر آن پڑتی ہے جو بچوں کے درمیان وقفے کا خیال بھی رکھتی ہے تاکہ ان کی مناسب دیکھ بھال کر سکے۔ مثلاً جنگلی چیمپنزی ہر چار یا چھ برس بعد بچہ پیدا کرتے ہیں اور ینگوٹان پیدائش میں چھ سے آٹھ سال کا وقفہ رکھتے ہیں۔

البتہ انسانی اجداد نے مختلف حکمت عملی اپنائی، ماں کو رشتہ داروں، محلے والوں اور باپ کی مدد حاصل رہتی ہے۔ بچے پالنے کی ذمہ داری بانٹنے کی وجہ سے انسانی ماں تھوڑے وقفے کے ساتھ بچے پیدا کرنے کے قابل ہوگئی ہے۔ غیر صنعتی معاشروں میں یہ وقفہ اس وقت اوسطاً تین برس ہے۔ گیٹلر کہتے ہیں ’یہ انسانی ارتقا میں کامیابی کی کہانی ہے۔‘

انسانوں میں فادرہُڈ یعنی پدریّت (بچوں کی پرورش میں باپ کی ذمہ داری) پیدا ہونے کا کچھ سراغ بن مانسوں سے مل سکتا ہے۔

یونیورسٹی آف مشیگن میں حیاتیاتی بشریات کی ماہر سٹیسی روزنبوم نے روانڈا کے پہاڑی بن مانسوں پر تحقیق کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ دوسرے گوریلوں کے مقابلے میں پہاڑی گوریلے کے بچے نر کے ساتھ بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ نر ان کا باپ بھی ہو۔

پہاڑی گوریلوں کو اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ کونسے بچے اس کے اپنے ہیں۔ دوسرے بن مانسوں کے مقابلے میں یہ اپنی مادہ سے جسامت میں دگنے ہوتے ہیں، ان کے پٹھے مضبوط اور دانت لمبے ہوتے ہیں۔ بعض تو بچوں کو اٹھا کر گھوماتے ہیں، ان کے ساتھ کھیلتے اور گلے لگا کا سوتے بھی ہیں۔

نر کی موجودگی میں وہ یہ بچے شکاریوں اور دشمن جانوروں سے محفوظ رہتے ہیں۔ سٹیسی کے خیال میں اس کا سماجی فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔

بالغ نر کے ساتھ رہنے سے یہ چھوٹے گوریلے سماجی رکھ رکھاؤ اور میل جول سیکھ لیتے ہیں جیسا کہ انسانی بچے دوسرے بچوں کے ساتھ رہ کر سیکھتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ چھوٹے گوریلوں اور بالغ نر گوریلوں کے درمیان تعلق بڑے ہو کر بھی قائم رہتا ہے۔

حال ہی میں کیے گئے ایک مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جب ایک گوریلا بچے کی ماں مر گئی تو اس نے زیادہ کمی محسوس نہیں کی۔ بلکہ وہ بالغ نر گوریلے کی موجودگی میں دوسرے بچوں کے ساتھ ویسے ہی رہتا رہا جیسا کہ پہلے تھا۔ اسے اپنے یتیم ہونے کا احساس نہیں ہوا اور نر گوریلے نے اس کی حفاظت بھی کی۔

سٹیسی کہتی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ بچوں کی نگہداشت نر گوریلوں کو مادہ کی نظر زیادہ پرکشش بناتی ہو۔ ’ہمارے خیال میں مادہ بچے جننے کے لیے ایسے نر کو ترجیح دیتی ہے جو بچوں کے ساتھ گھلتا ملتا ہو۔‘ ان کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ایسے نر بڑے ہو کر زیادہ بچوں کے والد بنتے ہیں کیونکہ مادہ انھیں دوسرے نروں پر ترجیح دیتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’نظریۂ ارتقا کے مخالف اور چلبلی لڑکیوں کا ذاتی حرم‘

پیدائش کی ترتیب کیا ہماری شخصیت پر اثرانداز ہوتی ہے؟

ڈارون سے ہزار برس قبل ’نظریۂ ارتقا‘ پیش کرنے والا مسلمان مفکر

وہ کہتی ہیں ماہرین کا پہلے خیال تھا کہ پدریّت یا بچوں کی دیکھ بھال کرنے کا جذبہ صرف یک زوجی یا ایک ہی مادہ کے ساتھ زندگی گزارنے نروں میں پروان چڑھتا ہے، مگر پہاڑی گوریلوں جیسی انواع اس خیال کو غلط ثابت کرتی ہیں۔

اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نر کو اپنی توانائی جنسی ملاپ اور بچوں کی رکھوالی میں بانٹنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ایسا لگتا ہے کہ بچوں کی دیکھ بھال کرنے سے نر کو خود بخود زیادہ مادہ میسر آتی ہیں۔

انسانی باپ اور سوتیلے باپ کے مطالعے سے بھی ایسے ہی اشارے ملتے ہیں۔ یونیورسٹی آف اوکلاہوما کے کرمِٹ اینڈرسن کا کہنا ہے کہ ’بہت سے مرد جان بوجھ کر ایسے بچوں سے میل جول بڑھاتے ہیں جو ان کے اپنے نہیں ہوتے۔‘

ارتقائی لحاظ سے یہ ایک متضاد رویہ نظر آتا ہے۔ مگر اینڈرسن کی تحقیق بتاتی ہے کہ مرد اپنے اور سوتیلے بچوں کی دیکھ بھال اس لیے کرتے ہیں تاکہ ان کی ماں سے تعلق قائم رہے۔ تعلق ختم ہو جانے کے بعد مرد بچوں میں کم ہی دلچسپی لیتے ہیں۔

انسانی باپ کا اپنے یا سوتیلے بچوں کی دیکھ بھال کرنا یقیناً بن مانسوں سے مختلف ہے۔ مگر گیٹلر اور سٹیسی سوچتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ہمارے اجداد کا رویہ پہاڑی گوریلے جیسا ہی رہا ہو اور ارتقائی دباؤ کے تحت بچوں کے ساتھ گھل ملنے کا رجحان بعد میں پدرانہ جذبے میں بدل گیا ہو۔

انسان کے پدرانہ جذبے کی ارتقائی تاریخ کے کچھ اشارے اس کے جسم کے مالیکیولز یا سالموں کے اندر بھی پائے جاتے ہیں۔

گیٹلر اور ان کے ساتھیوں نے 20 کے پیٹے کے اوائل میں مردوں پر لبمی تحقیق کی۔ انھوں نے دیکھا کہ جن نوجوانوں میں مردانہ ہارمون ٹیسٹوسٹیرون زیادہ تھا انھیں شریک حیات جلدی مل گئی اور بچے بھی جلد پیدا ہوئے۔ مگر بچے پیدا ہونے کے بعد ان میں ٹیسٹوسٹیرون کی مقدار کافی کم ہوگئی اور جب بچے گھٹنوں کے بل چلنے لگے تو یہ مقدار پھر سے زیادہ ہوگئی۔

ٹیسٹوسٹیرون نر جانداروں میں جنسی ملاپ اور مسابقت کے جذبے کا سبب ہے۔ اس کی کمی فطرت کا انداز ہو سکتا ہے تاکہ نر بچے کی نگہداشت میں اپنی شریک حیات کا ہاتھ بٹائے۔ اگرچہ دوسرے ممالیا میں دیکھ بھال کرنے والے نر کم ہی پائے جاتے ہیں مگر پرندوں میں بہت ہوتے ہیں اور ان پرندوں کے نروں میں بھی ٹیسٹوسٹیرون کی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے۔

اگرچہ یہ واضح ہے کہ انسانی باپ بچوں پر توجہ دینے کے معاملے میں دوسروں سے الگ ہیں۔ تاہم سیئر کا کہنا ہے کہ ’یہ بھی واضح ہے کہ تمام انسان کے اندر پدرانہ جذبہ ایک جیسا نہیں ہے۔‘ سارے باپ بچوں پر پوری توجہ نہیں دیتے اور بعض تو موجود بھی نہیں ہوتے۔

لیکن اس سے بنیادی بقا پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ سنہ 2008 میں سیئر اور ان کی شریک مصنف روتھ میس نے اس بات پر تحقیق کی کہ کیا بن باپ کے بچے جلد مر جاتے ہیں۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک تہائی بچوں میں زندہ رہنے کی شرح اس وقت زیادہ تھی جب ان کے باپ موجود تھے۔ مگر ایک دوسرے مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ ایسے دو تہائی بچے جن کے باپ موجود نہیں تھے وہ بھی زندہ رہے۔ البتہ بن ماں کے بچوں میں زندہ رہنے کی شرح کم پائی گئی۔

سیئر کا کہنا ہے کہ ’اگر بچوں کی پرورش کے لیے والد کا ہونا اتنا ہی ضروری ہے تو آپ اس نتیجے کی توقع نہیں کرتے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ اصل میں بات باپ کی نہیں بلکہ اس کے کام کی ہے۔ اگر خاندان میں وہی ذمہ داری کوئی دوسرا اٹھالے تو باپ کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ وہ کہتی ہیں ’اس کا مطلب یہ ہوا کہ باپ کا کردار ضروری ہے جسے کوئی دوسرا بھی ادا کر سکتا ہے۔‘

گیٹلر کا کہنا ہے کہ تاریخی اعتبار سے یہ کھانے پینے کا سامان بہم پہنچانا ہے مگر اب وہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور سماجی رہن سہن سکھانے میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔

ثقافتی اعتبار سے باپ کا کام بدلتا رہتا ہے۔ سیئر کہتی ہیں کہ مغرب میں جہاں خاندان کا مطلب میاں بیوی اور بچے ہوتا ہے، وہاں باپ کما کر لاتا ہے اور ماں بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ مگر دنیا بھر میں ہر جگہ ایسا نہیں ہے۔ مثلاً نمیبیا میں اکثر بچوں کی دیکھ بھال بڑے خاندان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ہمارے رویے میں لچک ہمیں دوسری انواع سے الگ کرتی ہے۔ ’یہ تصور کہ بعض کام باپ یا ماں کے لیے ہی مخصوص ہیں تنہائی اور دباؤ میں اضافہ کرتے ہیں۔‘ انھیں توقع ہے کہ یہ تحقیق باپ کے کردار اور انسانی سماج میں خاندان کو سمجھنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے۔

اس سے ہر طرح کے خاندانوں کو مدد ملے گی: انھیں بھی جو گیٹلر کی طرح بچوں کی دیکھ بھال میں مگن ہیں، انھیں بھی جن کے باپ گھر سے دور روزی کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں، اور انھیں بھی جہاں باپ ہے ہی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32189 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp