پاکستان مخالف حمد اللہ محب سے نوازشریف کی ملاقات
ڈاکٹر حمد اللہ محب، افغانستان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ہیں۔ انہوں نے افغانستان کے پیس منسٹر سید سعادت نادری کے ہمراہ لندن میں نواز شریف کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ اس موقع پر جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ”باہمی دلچسپی کے امور پر بات ہوئی۔ مستحکم جمہوری افغانستان کی خطے کے لیے اہمیت پر بات ہوئی۔ دونوں اطراف اس پر متفق رہیں کہ باہمی احترام، اک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی رکھنی چاہیے“ ۔
فواد چودھری نے اس پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ”نواز شریف کو پاکستان سے باہر بھیجنا اس لئے خطرناک تھا کہ ایسے لوگ بین الاقوامی سازشوں میں مددگار بن جاتے ہیں نواز شریف کی افغانستان میں ’را‘ کے سب سے بڑے حلیف حمداللہ محب سے ملاقات ایسی ہی کارروائی کی مثال ہے مودی، محب یا امراللہ صالح ہر پاکستان دشمن نواز شریف کا قریبی دوست ہے“ ۔ فواد چودھری کی اس ٹویٹ کے بعد مسلم لیگ نون کے حامیوں نے حمد اللہ محب کے ساتھ جنرل باجوہ کی دو ہزار انیس میں ہوئی ملاقات کی تصویریں لگانی شروع کر دیں۔
حمد اللہ محب اس سال مئی کے پہلے ہفتے میں جلال آباد ننگر ہار پاکستانی سرحد کے قریب ایک اجتماع میں گئے تھے ۔ وہاں انہوں نے پاکستان کو ہیرا منڈی سے تشبیہ دی تھی ۔ اس کے بعد پاکستان نے افغان حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ ان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر سے کوئی ملاقات نہیں کی جائے گی ۔ افغان سیکیورٹی ایڈوائزر اسی قسم کا وفد لیکر نوازشریف سے ملنے پہنچ گئے جیسے وفد کے ساتھ وہ جنرل باجوہ سے ملے تھے ۔
پاکستان افغانستان کے تعلقات کئی حوالوں سے تناؤ کا شکار ہیں ۔ امریکہ افغانستان سے واپس جا رہے ہیں ۔ کابل میں اشرف غنی حکومت اک دباؤ کا شکار ہے ۔ طالبان کی جارحانہ پیشرفت جاری ہے ۔ افغانستان کے بڑے علاقے پر طالبان کا قبضہ ہوتا جا رہا ہے ۔ وہ اہم تجارتی راستوں اور باڈر کراسنگ بھی قبضہ کر چکے ہیں ۔ اب تک طالبان قندوز میں شیر خان بندر ، تخار میں اے خانم، ہرات میں اسلام قلعہ اور تورغندی بندرگاہوں اور پکتیا میں ڈنڈ پٹن پر کنٹرول کر چکے ہیں ۔
تاشقند میں پاکستانی وزیر اعظم اشرف غنی کو صاف جواب دے چکے ہیں کہ اب ہم طالبان پر کیا دباؤ ڈالیں جب انہیں جیت سامنے دکھائی دے رہی ہے ۔
افغان حکومت اس موقع پر شدید دباؤ کا شکار ہے ۔ کبھی امریکیوں کی طرف دیکھتی ہے ۔ کبھی ناٹو اتحاد کبھی ترکی اور کبھی انڈیا ۔ پاکستان سے افغان حکومت اس وقت وہ توقعات اور امید باندھے ہوئے ہے جو پوری ہو ہی نہیں سکتی ہیں ۔ جو کام امریکہ اور اتحادی افواج نہ کر سکیں وہ پاکستان کیسے کرے ۔ طالبان پر پاکستان کا اثر بھی مبالغہ آمیز حد تک زیادہ سمجھا اور بتایا جاتا ہے ۔ امریکہ نے افغانستان سے جو دوڑ لگائی اس کی ایک وجہ ڈیورنڈ لائین پر لگائی گئی پاکستانی باڑ بھی تھی۔
پاکستان نے جب باڑ لگانے کا کام کافی حد تک مکمل کر لیا ۔ تو امریکیوں نے نوٹ کیا کہ افغانستان میں عسکری کاروائیاں الٹا تیز ہو گئی ہیں ۔ ان میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اب وہ افغانستان کے ان علاقوں تک پھیل گئی ہیں جو پہلے نسبتا پر امن علاقے سمجھے جاتے تھے ۔ وجوہات اور بھی بہت تھیں اور ہیں لیکن اس نے بھی امریکی سوچ تبدیل کی کہ پاکستانی باڑ افغان طالبان کو روک نہیں سکی ۔ طالبان اب نئی حکومت کے قیام تک کسی سیز فائر کے امکان کو رد کر چکے ہیں ۔
اشرف غنی اب پختون نیشنلزم اور ایسے آتشی مسائل کو چھیڑ کر آگ بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں جو بہت حساس ہیں ۔ انہوں نے دس جولائی کو خوست میں خطاب کیا ۔ وہاں انہوں نے پاکستان کا نام لیے بغیر آتش گیر قسم کی باتیں کر دیں ۔ انہوں نے کہا کہ ” اگر تم افغانوں سے محبت کرتے ہو تو ڈیورنڈ لائین پر اصرار مت کرو ، تم کسی ایک پارٹی کی حمایت نہ کرو ، تم وعدہ کرو تم افغانستان کا پانی کسی اور کو نہیں دو گے اور کسی دوسرے کا ساتھ نہیں دو گے ہمارے خلاف ” ۔
یہ باتیں افغان حکومت کی فرسٹریشن ظاہر کرتی ہیں ۔ ایسے میں بہت ضروری ہے کہ بات کرتے احتیاط کی جائے ۔ وہی بولے جسے بولنا آتا ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا ہو نہیں رہا ۔ فواد چودھری نوازشریف کے ساتھ سکور سیٹل کر رہے ہیں ۔ شیخ رشید افغان سفیر کی بیٹی کے حوالے سے غیر محتاط پریس کانفرنس کر بیٹھے ۔ بطور وزیر داخلہ ان کا بات کرنا بنتا تو تھا ، پھر بھی بہت بہتر ہوتا کہ یہ پریس کانفرنس وزارت خارجہ کرتی ۔
نجیب اللہ علی خیل کیریر ڈپلومیٹ ہیں ۔ افغانستان میں کیریر ڈپلومیٹ کتنے رہے ہوں گے ؟ اس بندے کی صرف تعیناتیوں اور پوسٹنگ پر ہی ایک نظر ماری جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بندے میں کتنا دم ہے ۔ یو این کے اداروں ، جنیوا ، یورپ ، افغان وزارت خارجہ کے اہم ڈیسک ، مڈل ایسٹ ترکی ایران سے متعلق اہم عہدوں پر رہ چکا بندہ جو پشتو دری انگریزی اور روسی روانی سے بولتا ہے، ہرگز کوئی عام سفارتکار نہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ نجیب اللہ علی خیل کی پاکستان میں تعیناتی بہت سوچ بچار اور کوششوں کے بعد کی گئی تھی ۔ اس کے لیے ہونے والی وسیع مشاورت میں پاکستانی ہی نہیں امریکی بھی شامل تھے ، وجہ ؟
پاکستان میں زیادہ تر افغان سفیر سیاسی پس منظر سے آتے تھے ۔ ان کے اپنے سیاسی عزائم بھی ہوتے تھے ۔ سفارتکاری کے نازک کام میں ان کی سیاست بہت مسائل پیدا کر دیتی تھی جو معاملات کو مزید اور غیر ضروری طور پر الجھا دیتے تھے ۔ سلسلہ علی زئی کے ساتھ ہونے والے واقعے کے بعد افغان سفیر کا عمل بہت حوالوں سے غیر متوقع رہا ۔ انہوں نے اپنی امیونیٹی کو نظر انداز کرتے ہوئے میڈیکل بھی کروایا اور پولیس رپورٹ بھی درج کروائی ۔ جبکہ یہ معاملہ بھی شیخ رشید کی آزاد اور بے قابو زبان کے ہاتھ چڑھ گیا ۔ معاملہ نازک تھا تو ہی افغان طالبان کو بھی بیان دینا پڑا ۔
افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔ افغان حکومت ہاتھ پیر مارتی پاکستانی لیڈر شپ تک پہنچ رہی ہے ۔ اس سے پہلے یہ جان لیں کہ اعلی افغان عہدیدار ہر اہم دارحکومت بشمول دہلی مسلسل آ جا رہے ہیں ۔ عبداللہ عبداللہ دوحہ سے دہلی پہنچے ۔ وہاں انہوں نے انڈین وزیر خارجہ سے ملاقات کی ۔ افغان آرمی چیف بھی کا دورہ بھی متوقع ہے ۔ افغان حکومت کو جنگی سازو سامان طیارے اڑانے، ریڈار چلانے کے لیے ٹیکنیشن درکار ہیں ۔ کچھ خبروں کے مطابق انڈیا چھ سو کے قریب ماہرین فراہم کر چکا ہے ۔
اب واپس آ جائیں نواز شریف کی ملاقات اور اس کے بعد جاری ہوئے اعلامیے کی جانب۔ جو کہتا ہے کہ ”مستحکم جمہوری افغانستان باہمی احترام اور اک دوسرے کے ملکوں میں عدم مداخلت پر اتفاق ہوا“ ۔ اگر یہ نواز شریف کو صورتحال بتانے گئے تھے تو جواب میں جنگ سے گریز اور اپنے اپنے کام سے کام رکھنے کا مشورہ ہی ملا ہے۔
یہ ممکن ہی نہیں کہ افغان حکومت نواز شریف تک پہنچ رہی ہو اور افغان طالبان سے وہ کسی ذریعے سے رابطے میں نہ ہوں یا حالات سے آگاہ نہ ہوں۔ جبکہ افغان وفد ملاقات سے پہلے برٹش چیف آف ڈیفنس سٹاف سے بھی مل کر آیا ہو۔ سیاستدان سب معاملات پر نظر رکھتے ہوئے۔ وہی کچھ ظاہر کرتا ہے جو وہ ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ نواز شریف پاکستانی سیاست کے طاقتور ترین کھلاڑی ہیں۔ نہیں یقین تو اس بے تاج اور جلاوطن بادشاہ کے سامنے بیٹھے افغان عہدیداروں اور ان کی اپنی باڈی لینگویج ہی دیکھ لیں۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).