مشتاق احمد یوسفی کے منتخب کرداروں کا نفسیاتی و غیر نفسیاتی مطالعہ


اردو نثر میں مزاح کی پہلی بڑی اور جاندار آواز خطوط غالب ہیں۔ غالب ؔکی نثر میں پہلی بار اردو اپنی آزاد اور فطری روش پر قدم رکھتی ہے۔ جہاں عقل، جذبہ اور طرز اظہار تینوں میں فطری رنگ و آہنگ کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ خطوط غالب ؔ کے بعد اردو طنز و مزاح کے میدان میں سب سے بڑا انقلابی اقدام لکھنؤ میں ”۔ اودھ پنچ“ کے اجراء کا تھا۔ اودھ پنچ سے وابستہ مزاح نگاروں میں سرشار، ایڈیٹر منشی سجاد حسین، اکبر الہٰ آبادی، مچھو بیگ ستم ظریف، احمد علی شوق، منشی احمد علی کسمنڈوی، نواب سید محمد آزاد، تربھون ناتھ ہجر، عبدالغفور شہباز، جوالا پرشاد برق اور سید ممتاز حسین کے نام بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

ان میں سے سرشار بعد میں منشی نول کشور کے اخبار ”اودھ اخبار“ کے ایڈیٹر بن گئے تھے۔ ان مزاح نگاروں میں سب سے بڑا نام سرشار کا ہے جس نے ”فسانہ آزاد“ جیسا شاہ کار اردو ادب کو دیا۔ اردو مزاح میں سرشار کو اس لحاظ سے بھی اولیت حاصل ہے کہ انہوں نے ”فسانہ آزاد“ کے ذریعے اردو ادب کو ’حاجی بدیع الزمان خوجی‘ اور ’آزاد‘ جیسے دو مضحک کردار دیے۔ یہ دونوں مزاحیہ کردار سرشار کے عہد کے دو متضاد تہذیبی و معاشرتی رویوں کے بہترین ترجمان ہیں۔

سرشار کے بعد منشی سجاد حسین مزاحیہ ادب کا ایک اور بڑا نام ہیں جنہوں نے ”حاجی بلغ العلیٰ بغلول المعروف بہ حاجی بغلول“ جیسا زندہ جاوید مضحک کردار تخلیق کر کے اردو کے مزاحیہ ادب میں گراں قدر اضافہ کیا۔ ان کے بعد مزاح کے میدان میں کئی بڑے ناموں کا اضافہ ہوتا ہے جن میں بطور خاص ملا رموزی، امتیاز علی تاج، مرزا فرحت اللہ بیگ، پطرس بخاری، رشید احمد صدیقی، کنہیا لال کپور، شوکت تھانوی اور ابن انشا وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

ان کے بعد اردو کے ایک اہم مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کا نام آتا ہے۔ انہوں نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز قیام پاکستان کے بعد کیا۔ ان کا پہلا تخلیقی شاہکار۔ ”چراغ تلے“ کی صورت میں 1961 ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ اس مجموعے کی اشاعت ہمارے ادب میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا تھی جس نے اردو کے مزاحیہ ادب کو ایک نئی راہ دکھائی۔ یوسفی کا ایک امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے مزاح پیدا کرنے کے لیے نئے نئے کردار تراشے۔ یہ سب کردار انہوں نے اپنے معاشرے سے لیے اور ان کی مضحک حرکتوں کو بالخصوص مزاح کا نشانہ بنایا۔

یوسفی چونکہ اول و آخر مزاح نگار ہیں اس لیے انہوں نے اپنے کرداروں کی اس انداز میں تعمیر و تشکیل نہیں کی جس طرح کی فکشن میں نظر آتی ہے۔ ان کے یہ کردار اپنے مضحک انداز زیست کے باعث ہمارے لیے دلچسپی کا باعث ہیں۔ یوسفی کا کمال فن یہ ہے کہ انہوں نے معاشرے کے ایسے کرداروں کا انتخاب کیا ہے جن سے ہماری اکثر ملاقات ہوتی ہے۔ یوسفی نے ان کرداروں کی شخصیتوں کے ان مضحک پہلووں کو اہمیت دی ہے جو اکثر و بیشتر عام نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ تاہم یوسفی نے ان کرداروں کو کہیں بھی تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا۔ آئیے اب یوسفی کے ان مضحک مگر دلچسپ اور حقیقی زندگی کے عکاس کرداروں سے ملتے ہیں۔

یوسفی نے اپنے تخلیقی سفر کے دوران ان گنت مزاحیہ کردار تخلیق کیے ہیں یا یوں کہیے کہ ان کے کھٹ مٹھے مضامین کرداروں کا نگار خانہ ہیں۔ لیکن ان سب میں، سب سے اہم اور مرکزی کردار مرزا عبدالودود بیگ ہے۔ مرزا عبدالودود بیگ کو یوسفی کے مزاح کے نظام شمسی میں سورج کی حیثیت حاصل ہے۔ جس طرح سورج کو اگر نظام شمسی سے نکال دیا جائے تو ہر سو تاریکی چھا جائے گی ایسے ہی اگر مرزا عبدالودود بیگ کو یوسفی کے کرداروں کے نگار خانے سے الگ کر دیا جائے تو ان کے مزاحیہ ادب کے تاج محل کی آب و تاب اور حسن گہنا جائے گا۔ مرزا ’اردو کے مزاحیہ ادب کا ایک شاہ کا ر اور زندہ جاوید کردار ہے، خصوصاً اس کردار کی تشکیل و تعمیر یوسفی نے خون جگر سے کی ہے۔ اسی لیے مرزا ان کا پسندیدہ کردار ہے۔

مرزا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یوسفی نے اسے اپنا ہمزاد قرار دیا ہے۔ اور ان کے اقبال، درازی عمر اور خوشی بختی کی دل سے دعا دی ہے۔ چراغ تلے کے دیباچے ’پہلا پتھر‘ کے آخیر میں مرزا کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں :

”رخصت ہونے سے قبل مرزا عبدالودود بیگ کا تعارف کراتا جاؤں۔ یہ میرا ہمزاد ہے۔ دعا ہے خدا اس کی عمرو اقبال میں ترقی دے۔“

خود یوسفی کو بھی مرزا کا ہمدم، ہم راز وہم زاد ہونے پر فخر ہے۔ تاہم انھیں اس بات کا افسوس ضرور ہے کہ وہ مرزا کی تہہ دار شخصیت کو تمام و کمال سمجھنے کا دعوی۔ نہیں کر سکتے :

”لوگ ہمیں مرزا کا ہمدم و ہمراز ہی نہیں، ہمزاد بھی کہتے ہیں۔ لیکن اس یگانگت و تقرب کے باوجود ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ مرزا نے آلو اور ابوالکلام آزاد کو اول اول اپنی چڑ کیسے بنایا۔ نیز دونوں کو تہائی صدی سے ایک ہی بریکٹ میں کیوں بند کر رکھا ہے؟“

یوسفی نے مرزا کی شخصیت ’عادات و اطوار‘ پسند و نا پسند ’طرز بودوباش، سوچ و شعور اور رجحانات و تضادات بارے ہمیں تفصیل سے تو آگاہ نہیں کیا تاہم انہوں نے اپنی تصانیف میں مرزا بارے بعض اہم اشارے ضرور کیے ہیں جنھیں باہم ملا کر پڑھنے سے مرزا کی پرپیچ شخصیت کے بعض پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ مرزا کی یہی منتشر سوانح خمری یوسفی کی زبانی ملاحظہ کرتے ہیں :

”مرزا کو مبداء فیاض نے حد درجہ محتاط اور وہمی طبعیت ودیعت کی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ انھیں آب حیات بھی پینا پڑے تو بغیر ابالے نہیں پئیں گے۔ مرزا نے چپ ہونا سیکھا ہی نہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ صحیح بات کو غلط موقع پر بے دغدغہ کہنے کی جو خداداد صلاحیت انہیں ودیعت ہوئی ہے وہ کچھ ایسی ہی تقریبوں میں کھلتی ہے۔ مرزا حسب معمول پھر بیچ میں کود پڑے۔ مرزا ایسا موقع کہاں خالی جانے دیتے تھے ’مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے‘ یاد رکھو، مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔

مرزا کرتے وہی ہیں جو ان کا دل چاہے لیکن اس کی تاویل عجیب و غریب کرتے ہیں۔ صحیح بات کو غلط دلائل سے ثابت کرنے کا یہ ناقابل رشک ملکہ شاذ و نادر ہی مردوں کے حصے میں آتا ہے۔ ہم نے اکثر یہی دیکھا کہ مرزا پیمبری لینے کو گئے اور آگ لے کر لوٹے۔ جس جگہ بیٹھ گئے آگ لگا کر اٹھے۔ مرزا عبدالودود بیگ کو غبارے پنکچر کرنے کی بڑی بری عادت ہے۔ انہوں نے حسب عادت بس ایک لفظ پکڑ لیا۔ مرزا کو آج جو چیز پسند ہے ’کل وہ دل سے اتر جائے گی اور پرسوں تک یقیناً چڑ بن جائے گی۔

مرزا عبدالودود بیگ کی طرح یہ ہم سے آج تک نہ ہوا کہ اپنے تعصبات پر معقولات کا نیم چڑھا کر دوسروں کو اپنی بے لطفی میں برابرکا شریک بنانے کی کوشش کی ہو۔ مرزا بقول کسے ’غلط استدلال کے بادشاہ ہیں۔ ان کی حمایت و وکالت سے معقول سے معقول کاز نہایت لچر معلوم ہونے لگتا ہے۔ اسی لیے ہم سب انھیں تبلیغ دین اور حکومت کی حمایت سے باز رکھتے ہیں۔ ان کی ایک چڑ ہو تو بتائیں۔ مرزا کو کھانے کا ایسا ہوکا ہے کہ ایک منہ انہیں ہمیشہ ناکافی معلوم ہوتا ہے۔

بالخصوص دعوتوں میں سب سے پہلے پہنچتے اور سب کے بعد اٹھتے ہیں۔ اس انداز نشست و برخاست میں ایک کھلا فائدہ یہ دیکھا کہ وہ باری باری سب کی غیبت کر ڈالتے ہیں۔ ان کی کوئی نہیں کر پاتا۔ مرزا پر اب یہ جھک سوار تھی کہ اگر صندل کا گھسنا اور لگانا درد سر کے لیے مفید ہے تو اسے اگانا کہیں زیادہ مفید ہونا چاہیے۔ ”

مرزا کی اس مختصر ترین سوانح خمری سے بھی مرزا کے بعض نفسی میلانات و رجحانات کا واضح اندازہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ مرزا انتہا درجہ وہمی انسان تھے۔ ہر کام کرنے سے پہلے خوب چھان پھٹک کرتے تھے۔ ویسے تو کسی بھی کام کے آغاز سے پہلے مناسب منصوبہ بندی اور چھان پھٹک بہت اچھی بات ہے لیکن مرزا کچھ زیادہ ہی چھان پھٹک سے کام لیتے۔ انتہا درجے کے باتونی تھے۔ خاموش ہونا اور چپ رہنا ان کے مزاج میں شامل نہ تھا ’تاہم جب بھی بولتے بے سرا اور بے موقع بولتے۔

صحیح بات صحیح موقع پر کرنا مرزا نے کہیں سے سیکھا ہی نہیں تھا۔ بے صبرے تھے ’گفت گو کے پس منظر اور موقع محل کو سمجھے بغیر بیچ میں ہی کود پڑتے۔ کوئی بھی الجھن ہو، کوئی بھی مسئلہ ہو مرزا اپنی عجیب و غریب منطق کے ساتھ رائے دینا اور اس پر ڈٹ جانا اپنا فرض عین بلکہ مذہبی فریضہ سمجھتے تھے۔ مرزا کی ایک بری عادت یہ بھی تھی کہ جس لفظ کو پکڑ لیتے پھر اس کی جان چھوڑنے کا نام ہی نہ لیتے۔ پسند و نا پسند کا بھی عجب معیار تھا۔

جو چیز ایک لمحے پسند ہے دوسرے ہی لمحے اس سے سخت بیزاری بلکہ چڑ ہونے لگتی۔ مرزا ایسی پہلو دار شخصیت کے مالک تھے جسے یوسفی بھی مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر تھے۔ وہ ہر لمحے گرگٹ کی مانند رنگ بدلتے تھے۔ ایک طرح سے مجموعہ اضداد تھے۔ کھانے کے تو رسیا تھے ہی لیکن یہاں بھی ان کا زاویہ نظر سب سے منفرد ہے۔ وہ کہا کرتے کہ ’کھانے کے لیے ایک منہ ناکافی ہے۔‘ مرزا غالبؔ آموں کے شیدا تھے اور ان کی یہ بات مشہور تھی کہ آم میٹھے ہوں اور بے شمار ہوں۔

جبکہ مرزا کہا کرتے کہ کھانا تو بے شمار ہوہی لیکن منہ بھی ایک سے زائد ہوں۔ مرزا کی ایک قبیح عادت یہ بھی ہے کہ وہ دوسروں کی غیبت کرنے میں بھی مشاق تھے اور اس گھٹیا فعل کو سر انجام دے کر ایک طرح کی مسرت محسوس کرتے۔ ان کی دلی خواہش یہ ہوتی کہ کوئی ان کے وار سے بچ نہ پائے۔ ان کی ایک بری بلکہ خطرناک عادت یہ بھی تھی کہ جہاں بھی بیٹھتے آگ جلا کر ہی اٹھتے یعنی ان سے خیر کی امید نہیں تھی۔ یہ پہلو مرزا کی شخصیت کے منفی رخ کو پیش کرتے ہیں۔

تاہم مجموعی طور پر ’مرزا‘ یوسفی کا ایک شاہ کار کردار ہے جس سے یوسفی نے مزاح پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ کئی اہم کام لئے ہیں۔ جہاں یوسفی براہ راست کچھ نہیں کہ پاتے وہاں مرزا کی مدد سے کہ دیتے ہیں۔ جہاں کوئی بات غیر معمولی بے تکلفی سے اور کسی رو رعایت کے بغیر کہنی ہو ’مرزا‘ کے ذریعے کہ دیتے ہیں۔ اسی لیے یوسفی نے مرزا کے لیے ہر مضمون میں گنجائش پیدا کی ہے۔ مرزا کے اقوال فقط ہمیں محظوظ ہی نہیں کرتے بلکہ سوچنے پر بھی مجبو ر کرتے ہیں۔ تفکر درحقیقت یوسفی کے اسلوب کی اساسی خصوصیت ہے۔ یوسفی کی یہی خصوصیت انہیں دوسرے مزاح نگاروں کی فہرست میں ممتا ز مقام عطاکرتی ہے۔ خود یوسفی نے آصف فرخی کو اپنے انٹرویو میں کہا:

”میرا اپنا یہ عقیدہ ہے کہ وہ مزاح کہ جو آپ کو سوچنے پر مجبور نہ کرے وہ نا پخت ہے۔“

مرزا عبدالودود بیگ، یوسفی کا ایک متحرک، پہلودار اور زندہ جاوید کر دار ہے۔ مرزا بظاہر مضحک کردار ہے لیکن یوسفی نے اس کے ذریعے بصیرت و فراست کی ایک سنجیدہ دنیا بھی دکھائی ہے۔ یوسفی نے جہاں بھی مرزاکی گنجائش پیدا کی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بس اسی کی ضرورت تھی۔ نیز یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ واحد کردار ہے جو موجودہ صورت حال سے صحیح طور پر نمٹ سکتا ہے۔ یہی تو ایک بڑے تخلیق کا رکے قلم کا ایجاز ہوتا ہے۔ یوسفی نے اس کردار کے ذریعے مزاح کے پردے میں دراصل ہمارے قومی تعصبات اور معاشرتی رویوں پر گہرا طنز کیا ہے اور قوم کی اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے۔ مرزا کے مزاح، حقیقت اور تفکر سے بھر پور چند فرمودات پڑھیے اور سر دھنیے :

٭صاحب مرغی تو درکنا ر میں تو انڈے کو بھی دنیا کی سب سے بڑی نعمت سمجھتا ہوں۔ تازہ خود کھائیے۔ گندے ہو جائیں تو ہوٹلوں اور سیاسی جلسوں کے لیے دگنے داموں بیئچیے۔ (چراغ تلے، ص 115 )

٭بے پردگی کا خاص انتظام ہو گا ضرور آنا۔ (چراغ تلے، ص 140 )

٭مرزا عبدالودود بیگ کا انداز سب سے نرالا ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ انہیں میری دلجوئی مقصود ہوتی ہے یا اس میں ان کے فلسفہ حیات و ممات کا دخل ہے۔ بیماری کے فضائل ایسے دل نشین پیرائے میں بیان کرتے ہیں کہ صحت یاب ہونے کو دل نہیں چاہتا۔ (چراغ تلے، ص 27 )

٭مرزاحسب معمول پھر بیچ میں کود پڑے۔ کہنے لگے ’دیکھ لینا! وہ دن دور نہیں جب کراچی میں مردے کو کھڑاگاڑنا پڑے گا اور نائیلون کے ریڈی میڈ کفن میں اوپر زپ لگے گی تاکہ منہ دیکھنے دکھانے میں آسانی ر ہے۔ (خاکم بدہن، ص 94 )

٭مرحوم کے ایک ہم جماعت نے اشاروں کنایوں میں بتایا جوانی میں اشتہاری امراض کا شکار ہو گئے۔ ادھیڑ عمر میں جنسی تو نس میں مبتلا ر ہے۔ لیکن آخری ایام میں تقویٰ ہو گیا تھا۔ (خاکم بدہن، ص 98 )

مرزا کے یہ شگفتہ چٹکلے کئی لحاظ سے اہم ہیں۔ ظاہری سطح پر ہمیں محظوظ تو کرتے ہی ہیں ’تاہم سوچنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔ یوسفی نے مزاح کے پردے میں کمال فنی مہارت سے ہمارے معاشرتی رویوں کا پردہ چاک کیا ہے۔ مرزا ہمارے معاشرتی رویوں کا عکاس سچا اور کھرا کردار ہے۔ اسے جہاں کہیں کج روئی و کج ادائی نظرآتی ہے وہ خاموش نہیں رہ سکتا۔ وہ مزاح کے پیرائے میں اپنی رائے دیے بنا نہیں رہ سکتا۔ تاہم بعض اوقات اس کے لہجے اور گفت گو میں طنز اور تلخی بھی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبو ر ہو جاتا ہے کہ ”آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پر آ سکتا نہیں۔“

مرزا کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ جو کہتا ہے اس پر ڈٹ جاتا ہے۔ ضدی ہے، اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کے مطابق وہ جو کہتا ہے وہی سچ ہے، اور اپنی غلط بات کو سچ ثابت کر نے کے لیے عجب تاویلیں و د لیلیں پیش کرتا ہے۔ لیکن اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ اس لحاظ سے وہ شدید انا پرست ہے۔ اور اس کی یہی انا پرستی اسے اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹنے دیتی۔

”مرزا کرتے وہی ہیں جو ان کا دل چاہے لیکن اس کی تاویل عجیب و غریب کرتے ہیں۔ صحیح بات کو غلط دلائل سے ثابت کرنے کا یہ ناقابل رشک ملکہ شاذ و نادر ہی مردوں کے حصے میں آتا ہے۔“

یہ عیوب صرف مرزا کے عیوب نہیں ہیں بلکہ یہ ہمارے معاشرتی و تہذیبی عیوب ہیں۔ روزمرہ زندگی میں ہم ایسے بہت سے کرداروں اور افراد سے ملتے ہیں جو ایسی ہی معاشرتی نا ہمواریوں کا شکار ہیں۔ مرزا صرف نامناسب اور مضحک باتیں کرنے کا ہی عادی نہیں ہے بلکہ وہ سنجیدہ گفتگو بھی کرتا ہے۔ وہ اپنی گفتگوکے دوران بعض اوقات ایسی انوکھی، نرالی اور دلچسپ تاویلیں پیش کرتا ہے کہ قاری چونک جا تا ہے اور سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اچھا اس بات کا یہ مطلب بھی نکلتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں :

٭کلام غالبؔ کی سب سے بڑی مشکل اس کی شرحیں ہیں، وہ نہ ہوں تو غالبؔکا سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں غالب ؔواحد ایساشاعر ہے جو سمجھ میں نہ آئے تو دوگنا مزا دیتا ہے۔ (آب گم)

٭طوائف کو تھانے سے ”این اوسی“ (نو ابجیکشن سرٹیفکیٹ) اس لیے لینا پڑتا ہے کہ پولیس پوری طرح اطمینان کر لے کہ وہ اپنے دھندے پر ہی جا رہی ہے ’وعظ سننے یا سیاست میں حصہ لینے تو نہیں جا رہی۔ (آب گم)

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مرزا اس بات سے شدید اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک تندرستی نہیں بلکہ بیماری ہزار نعمت ہے۔ جبکہ تندرستی ام الخبائث اور تمام بد اعمالیوں و بد کر داریوں اور فساد کی جڑ ہے۔ انسان بیمار ہو تو گناہوں، بد اعمالیوں اور بد کاری و بد کرداری سے محفوظ رہتا ہے اور سب سے بڑھ کر شیطانی چالوں اور وسوسوں سے محفوظ رہتاہے :

”وہ (مرزا) جب تندرستی کو ام الخبائث اور تمام جرائم کی جڑقرار دیتے ہیں تو مجھے رہ کر اپنی خوش نصیبی پر رشک آتا ہے۔ اپنے دعوے کے ثبوت میں یہ دلیل ضرور پیش کرتے ہیں کہ جن ترقی یافتہ ممالک میں تندرستی کی وبا عام ہے وہاں جنسی جرائم کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔“

ویسے مرزا کی دلیل کچھ غلط بھی نہیں۔

درحقیقت مشتاق احمد یوسفی نے اپنے ہمزاد مرزا عبدالودود بیگ کے ذریعے ’ہم من حیث القوم جن کمزوریوں، کوتاہیوں، اور خرابیوں وبد اعمالیوں میں مبتلا ہیں‘ کو نہ صرف نشان زد کیا ہے بلکہ ہمدردانہ و اصلاح کی بھی کوشش کی ہے۔ یوسفی نے دراصل مزاح کے پردے میں قوم کی اصلاح و فلاح کی مخلصانہ کاوش کی ہے۔ مرزا ہمارے معاشرے کا عکاس، نباض، متحرک اور نمائندہ کردار ہے۔ مرزا کی جو خوبیاں ہیں وہ درحقیقت ہماری خوبیاں ہیں اور مرزا کے عیوب دراصل ہمارے عیوب ہیں۔ مرزا ہمارے معاشرے کی نمائندہ آواز ہے۔

یوسفی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے اردو میں سب سے پہلے ہمزادکا کردار متعارف کرایا اور وہ بھی بھرپور انداز میں۔ ان سے قبل کسی دیگر مزاح نگار نے مزاح کے میدان میں ’ہمزاد‘ جیساکردار تخلیق کر کے مزاح پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ تاہم ان کے پیش روں میں پطرس بخاری نے غیر ارادی و لاشعوری طور پر ’میں‘ کی صورت میں اپنی تحریروں میں جو کردار پیش کیا وہ بھی ایک طرح کا ’ہمزاد‘ ہی ہے۔ لیکن انہوں نے اس کردار کی تشکیل یوسفی کے ہمزاد کی مانند نہیں کی۔ نا ہی انہوں نے دیگر کوئی بھرپور مزاحیہ کردار پیش کیا۔ یقیناً آغا (ہمزاد) ایسے کردار کی تخلیق کا کریڈٹ یوسفی کو جا تا ہے، ان کا کوئی ہم عصر یا پیش رو اس معاملے میں ان کا ثانی نہیں۔ گو ہر رحمان نوید نے پطرس کے ہمزاد کے حوالے سے اپنی کتاب ’صوبہ سرحد میں اردو ادب‘ میں رائے دی ہے کہ۔ :

”پطرس نے اپنے مضامین میں کوئی ایسا بھرپور مزاحیہ کردار پیش نہیں کیا جو اپنی فطری ناہمواریوں سے محفل کو زعفران زار بناتا چلا جاتا۔ تاہم اس نے“ میں ”کے پردے میں مصنف کے ہمزاد کا ایک ایسا کردار ضرور پیش کر دیاہے جو مزاحیہ کردار سے قریبی مماثلت رکھتا ہے۔ بالعموم ایک اچھا مزاحیہ کر داراس قدر جاندار ہوتا ہے کہ اس کی نا ہمواریوں کے بیان میں صورت واقعہ کی مضحک کیفیات ثانوی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں لیکن پطرس کے ہاں مزاحیہ کردار ابھرا ہو ا نظر نہیں آتا۔ چنانچہ“ سویرے جو کل آنکھ میری کھلی ”،“ میں ایک میاں ہوں ”،“ مرید پور کا پیر ”،“ مرحوم کی یادمیں ”اور بیشتر دوسرے مضامین میں مصنف کے ہمزاد کی نا ہمواریاں دراصل صورت واقعہ کی مضحک کیفیات کو ابھارنے میں ایک حربے کا کام دیتی ہیں۔ ان کی اپنی کوئی مستقل حیثیت نہیں۔“

یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ یوسفی نے اردو کے باقاعدہ مزاح نگاروں میں سے جس مزاح نگار کے ساتھ اپنی ادبی شناخت قائم کی ہے، وہ بھی پطرس بخاری ہی ہیں۔ آصف فرخی کو اپنے انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ اردو کے سبھی مزاح لکھنے والے پسند ہیں لیکن پطرس کا کوئی ثانی نہیں :

”جہاں تک پسندیدگی کا تعلق ہے تو وہ تو سب پسند ہیں لیکن پطرس آج بھی ایسا ہے کہ کبھی گاڑی اٹک جاتی ہے تو اس کا ایک صفحہ کھولتے ہیں تو ذہین کی بہت سی گرہیں کھل جاتی ہیں اور قلم رواں ہو جاتا ہے۔ یہ پطرس میں بات ہے۔“

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ یوسفی کے تخلیقی شاہ کار اور ہمزاد کو ناقدین نے کس انداز میں دیکھا ہے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی مرزا عبدالودود بیگ بارے لکھتے ہیں :

”یہ کردار ہماری بالکل روایت اور یوسفی صاحب کے تجربے کی چیز ہے ’وہ حماقتیں جو ہمارے معاشرے کی حقیقتیں ہیں، ان کے اندر اسی زور اور استقلال سے موجود ہیں جیسی کہ معاشرے میں ملتی ہیں۔

ظہیر فتح پوری مرزا کو اردو کا زندہ جاوید مزاحیہ کردار قرار دیتے ہیں :
”رہے مرزا، سو وہ یقیناہمارے مزاحیہ کرداروں میں زندہ جاوید رہیں گے۔“
جبکہ عبداللہ شاہ نے مرزا کو لافانی کردار قرار دیا ہے ’وہ لکھتے ہیں :
”مرزا۔ ان کا لافانی کردار ہے جس کا ذکر آتے ہی مسکراہٹیں جاگ اٹھتی ہیں۔“

آئیے اب مرزا عبدالودود بیگ کے بعد یوسفی کے ایک اور اہم اور مرکزی کردار پر وفیسرقاضی عبدالقدوس ایم اے بی ٹی گولڈ میڈلسٹ سے ملتے ہیں۔ پروفیسر موصوف سے ہماری پہلے پہل ملاقات ”خاکم بدہن“ میں شامل خاکے ”پروفیسر“ کو پڑھتے ہوئے ہوتی ہے۔ یوسفی نے جس طرح ’پروفیسر‘ کا خاکہ اڑایا ہے، اپنی مثال آپ ہے۔ یوسفی بڑی بے تکلفی کے ساتھ پروفیسر کو کبھی پروفیسر اور کبھی قاضی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ پروفیسر صاحب اپنے نام کے ساتھ بڑے فخر کے ساتھ ”گولڈمیڈلسٹ“ لکھتے ہیں۔

یوسفی، مرزا کی زبانی اس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے ہمیں بتاتے ہیں کہ قاضی صاحب کو کسی جامعہ نے ان کی اعلیٰ تعلیمی کارکردگی پر گولڈمیڈل سے نہیں نوازا تھا بلکہ انہیں یہ طلائی تمغہ مڈل میں بلانا غہ حاضری پر ملا تھا۔ مرزا کی اس شگفتہ وضاحت سے پروفیسر کی تعلیمی قابلیت کی قلعی کھل جاتی ہے۔ پروفیسر موصوف کا تعارف کراتے ہوئے یوسفی لکھتے ہیں :

”دبنگ اور دلیر آدمی تھے اور خطرے سے ڈرنا یا بچنا تو کجا، بسا اوقات سانپ کو رسی سمجھ کر گتھ مرتے تھے۔ ان کی جرات اب شجاعت سے گزر کر تہور اور تہور سے گزر کر حماقت کی ماورائی حدوں میں داخل ہو چکی تھی۔ انہوں نے زندگی بھر زبان کے علاوہ کسی دوسرے عضوکو تکلیف نہیں دی تھی۔ درس و تدریس تو ایک حیلہ شرعی تھا ’ورنہ بقول مولانا محمد حسین آزاد“ پروفیسر کا پیشہ توکل تھا اور بے دماغی سے اسے رونق دیتے تھے۔ ”۔ کوئی شخص ان سے ملازمت‘ بحث یا برج میں سبقت لے جائے تو ا اس کے پورے صوبے سے نفرت ہو جاتی تھی۔

برصغیر پاک وہند کا کوئی صوبہ بچا ہو گا جس سے ان کی ذاتی عداوت نہ ہو۔ بلکہ اب تو چھوٹی چھوٹی تحصیلیں آنکھیں دکھانے لگی تھیں۔ اپنے پیشے سے تنگ آچکے تھے اور کہتے تھے کہ تمھارا خیال آ جاتا ہے ورنہ اکثر جی میں آتا ہے کہ گھر کو آگ لگا کر کسی غیر آباد جزیرے میں ایک لوٹا ’ڈور‘ فروٹ سالٹ اور دیوان غالب ؔ لے کر چلا جاؤں۔ اگر میں ملک کا پرائم منسٹر ہوتا تو۔ تو یونیورسٹی میں نوکری نہیں کرتا۔ ”

یوسفی نے قاضی عبدالقدوس کے کردار کی تشکیل میں کئی فنی حربوں سے کام لیا ہے اور کئی طرح سے اس کے خاکے میں رنگ بھرے ہیں۔ قاضی عبدالقدوس ایک ایسا شخص ہے جو اپنے طرفہ کردار و مضحک واقعات سے مزاح کا نشانہ بنتا ہے۔ وہ ایک بھولا بھالا، تنگ نظر اور متعصب انسان ہے۔ پروفیسر جہاں اپنی سادہ لوحی سے مزاح پیدا کرنے کا با عث بنتا ہے وہاں وہ ہر چیز اور ہر معاملے کو ایک خاص زاویے سے دیکھنے کا عادی ہے۔

پروفیسر ایسے لوگوں سے شدید نفرت کرتا ہے جو مزاجاً اسے پسند نہیں یا جو لوگ کسی بھی سطح پر اس سے اختلاف رکھتے ہیں۔ پروفیسر کے جذبوں میں اعتدال اور دنیاوی سوجھ بوجھ کی خاصی کمی ہے۔ وہ صرف کسی شخص سے ہی نفرت نہیں کرتا بلکہ اس کے صوبے سے بھی نفرت کرنے لگتا ہے۔ ایک میٹنگ میں جامعہ کے وائس چانسلر کو ’شٹ اپ‘ کہنے کے بعد اخبار پڑھنا بھی فقط اس لیے ترک کر دیتا ہے کیوں کہ کبھی کبھار اخبار مذکور میں وی سی صاحب کا کوئی بیان شائع ہوتا رہتا ہے۔

جب پروفیسر موصوف کو معلوم ہوا کہ ان کے ایک جونئیر کو جامعہ نے 1857 ء میں دلی کے سودا بیچنے والوں کی آوازوں پر ریسرچ کرنے کے لئے سات سمندر پار لندن بھیج دیا ہے تو انہوں نے فوراً وی سی کو اپنا استعفی بھیجوادیا کیوں کہ انہیں جامعہ کے اس اقدام سے شدید توہین محسوس ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنا نا مکمل تھیسس بعنوان ”چاکسو (خورد ) کا دبستان شاعری“ بھی پھاڑ دیا۔

پروفیسر مو صوف ایک SELF MADE انسان تھے۔ انہوں نے اپنی شخصیت میں کبھی کسی کو اصلاح کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ لیکن جب پروفیسر بنے تو اپنے دوست خاص مرزا عبدالودود بیگ کے مشورے سے اپنی شخصیت میں ایسی انقلابی تبدیلیاں کیں جو مزاح پیدا کرنے کا باعث بنیں۔

” پروفیسر کے ابتدائی ایام میں جب لڑکے بالکل لڑکوں ہی کی سی حرکتیں کرنے لگے تو ہم سب نے صلاح دی کہ لب ولہجہ میں ڈپٹ اور شخصیت میں رعب داب پیدا کرو۔ دوسرے ہی دن انہوں نے جوتوں میں پون انچ موٹا تلا لگوا لیا اور اونچی باڑھ کی ٹوپی پہننی شروع کر دی ’جس سے قد تو خیر کیا بڑھتا، البتہ خودی اتنی بلند ہو گئی کہ ہم نے انہیں بادشاہی مسجد کے دروازے سے بھی جھک کر نکلتے دیکھا۔“

پروفیسر مو صوف سیدھے سادے اور سادہ لوح انسان ہیں۔ وہ خود اپنی کوئی خاص سوچ نہیں رکھتے، تاہم انہیں نیک و بد کی کچھ نہ کچھ تمیز ضرور تھی اور وہ ان رنگوں کو بھی آسانی سے پہچان سکتے تھے جن کا تعلق نسوانی جلد سے ہو۔ جب انہوں نے بغیر سوچے سمجھے دوسروں کے مشوروں پر عمل کیا تو گویا ’کردار‘ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ بات یہاں تک پہنچی کہ ”شاہین خصلت اختیار کر لی تھی یعنی بار بار اپنے موضوع اور مخاطب پر“ جھپٹنا، پلٹنا ’پلٹ کر جھپٹنا ”۔“

پروفیسر صاحب کا ایک معمول یہ بھی تھا کہ ہر وقت اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے رہتے۔ لیکن جب ان کا بینک آف چاکسو لمیٹڈ میں بطور ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز اینڈ ایڈ ور ٹائزنگ تقرر ہوا تو کلین شیو ہو گئے تاہم ایک عرصے تک بے قرار و بے چین چٹکی سے اس جگہ کو تاؤ دیتے رہے جہاں کسی زمانے میں مو نچھ ہوا کرتی تھی۔ بنک کی ملازمت جوائن کرنے سے ان کی شخصیت میں کئی خوش گوار تبدیلیاں آئیں :

”بنک میں افسری سے ان کے کندھوں کا پر وفیسرانہ خم تو دور نہ ہو ا، مگر بہت سی اور خوش گوار تبدیلیاں ’کچھ از خود کچھ اوروں کے کہنے سننے سے‘ ان کی شخصیت میں پیدا ہوتی چلی گئیں۔“

ان کے علاوہ ان کے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، سونے جاگنے، کھانے پینے کے طور اطوار میں بھی تبدیلیاں آ گئی تھیں۔ مثلاً :

”فرشی نشست کے بچپن سے عادی تھے۔ وہ ترک تو نہیں کی، لیکن اب گاؤ تکئے کا سہارا لے کر نہیں بیٹھتے تھے۔ اسے گود میں لے بیٹھتے تھے، مختصر یہ کہ پر سنیلٹی نکل آئی تھی۔“

زمانہ طالب علمی میں قاضی صاحب نے ایک مضمون بعنوان ”موازنہ ٹی ایس ایلیٹ و شیخ امام بخش ناسخ“ لکھا۔ اس مضمون میں گویا پروفیسر نے ممولے کو شہباز سے لڑانے کی کوشش کی۔ پروفیسر صاحب شروع شروع میں اس مضمون کا حوالہ بڑے فخر سے دیتے لیکن جب حقیقت آشکار ہوئی تو اس ’موازنہ‘ کو حتی الامکان چھپانے لگے تھے۔ تاہم ادبی رسائل کے مدیران کے ہاتھ گویا پروفیسر کی شہ رگ آ گئی تھی۔ مدیران اپنے رسائل کے لیے اشتہارات حاصل کرنے کے لیے اس مضمون کے ذریعے پروفیسر کو بلیک میل کرتے اور پروفیسر بار بار بلیک میل ہوتے۔ تاہم پروفیسر صاحب مرد مدیران کی نسبت خواتین مدیران کو اشتہارات کے ذریعے نوازنے میں کچھ زیادہ ہی سخی اور فیاض تھے۔ بعض اوقات تو خواتین مدیران کو انٹرویو دینے ان کے گھر پہنچ جاتے۔ اس سخاوت کی ایک وجہ تو ان کا ابھی تک کنوارا پن تھا اور دوسری وجہ بقول یوسفی یہ تھی کہ:

”ہمارے ہیرو نے آج تک کوئی عورت ایسی نہیں دیکھی ’جس کو وہ ناپسند کر سکے۔ کنارے کو ترسا ہوا مانجھی ہر اتھلی کھاڑی میں لنگر ڈال دیتا ہے۔“

یہ یوسفی کے قلم کا اعجاز خاص ہے کہ وہ حقیقت کو مزاح کے پردے میں کمال خوش اسلوبی سے بیان کر دیتے ہیں۔

اب اسی رسالہ ”بازیچہ اطفال“ کی مدیرہ آنسہ سمنتا فرزوق ہی کو لے لیجیے۔ ان میں بظاہر کوئی ایسی خوبصورتی والی بات تو تھی نہیں لیکن پھر بھی ہمارے ہیرو اس پر دل و جان سے قربان ہو رہے تھے۔ اس کا ناک نقشہ یوسفی کے الفاظ میں ملاحظہ ہو:

”سفید شلوار، سفید قمیض، سفید دوپٹہ، سیدھی مانگ، ننگے ہاتھ، ننگے کان۔ اس ناک نقشے میں ایسی کوئی دل پذیر دل کشی نہیں تھی جو کوئی دل دے بیٹھتا۔ تاہم دن دیہاڑے ہمارے پروفیسر صاحب تو د ل دے بیٹھے۔ اللہ جانتا ہے کہ وہ ”اشتہار نمبر“ پر ریجھ گئے یا اس کی مدیرہ آنسہ سمنتا فرزوق کی تیغ آبرو سے برضا ورغبت ڈھیرہوئے۔ ”

پروفیسر کی ایک شخصی کمزوری یہ بھی تھی کہ انہیں اپنی تعریف ہر درجہ پسند تھی۔ ہر اس شخص کے حسن گفت گو کے گرویدہ ہو جاتے اور اسے جان سے عزیز رکھتے جو ان کی مبالغہ آمیز تعریف کرتا۔ اس لحاظ سے ہم کہ سکتے ہیں کہ پروفیسر نرگسی رجحان رکھتے تھے۔ ایک روز جب وہ بورڈآف ڈائریکٹرز کی میٹنگ کی تیاری میں انتہائی مصروف تھے اور دوست احباب سے ملنا موقوف تھا اور میٹنگ کا وقت قریب تھا کہ اچانک اسی لمحے سفید فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ دوسری طرف گودام کیپر کی اسامی کے ایک امیدوار حضرت مدہوش مدھوپوری نے اپنے تخلص کی مانند مدہوش ترنم میں اپنی نو تصنیف مسدس سنانی شروع کی تو پروفیسر صاحب میٹنگ ہی بھول گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ”مسدس کے ابتدائی بند انہی کی مدح میں تھے۔ ”اس مدح میں مداح نے اس قدر غلو سے کام لیا تھا کہ الامان۔ یہ تو بھلاہو فون کا کہ بیس منٹ بعد خود بخود خراب ہو گی اور نہ پروفیسر صاحب تو ابھی تک مدہوش مادھوپوری کی مدہوش ومترنم آواز میں مسدس ہی سن رہے ہوتے۔

پروفیسرصاحب کی ایک خوبی یا خامی ’آپ جو بھی کہ لیں‘ یہ تھی کہ پروفیسر دل کے بڑے نرم تھے۔ کسی کو روتا نہ دیکھ سکتے تھے۔ جس سے ان کے انسانی ہمدردی کے جذبات کا احساس ہوتا ہے لیکن صنف مخالف (یوسفی کے الفاظ میں ’صنف لاغر‘ ) کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی رحم دل واقع ہوئے تھے۔ میری معروضات کی توثیق کے لیے یوسفی کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو، واقعہ یہ ہے کہ جب آنسہ سمنتا فرزوق (مدیرہ بازیچہ اطفال) کی فرمائش پر مصروفیات کے باعث انٹرویو سے ٹال مٹول کرنے لگے تو محترمہ کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو بھر آئے ’پھر کیا ہو ا یوسفی کی زبانی ملاحظہ کیجئے :

”پروفیسر کو عورت کے آنسوؤں کی ذرا سہار نہیں ’بلکہ سچ تو یہ ہے کہ عورت کی کسی چیز کی سہار نہیں۔ چنانچہ طے پایا کہ پروفیسر تین کاک ٹیل پارٹیاں لشتم پشتم بھگتا کر ساڑھے سات بجے تک ان کے گھر پہنچ جائیں گے۔“

پروفیسر قاضی عبدالقدوس طبعا آزاد رہنا پسند کرتے تھے۔ وہ زندگی میں جاہ و حشمت کے طلب گار تو تھے۔ لیکن غم روزگا ر سے ہلکان ہونا انہیں پسند نہ تھا۔ وزیر اعظم بننا فقط اس لیے پسند تھا تاکہ ذہنی سکون، فرصت اور مالی آسودگی حاصل کر سکیں۔ کام کرنے سے انھیں کوئی رغبت نہ تھی۔ اگر انہیں کام کرنا پڑ جا تا تو ان کی حالت قابل رحم ہوجاتی اور بوکھلا جاتے :

”پروفیسر کی بوکھلاہٹ سے ان کی عظیم ذمہ داریوں کا اندازہ ہو تا تھا۔ اور ان عظیم صلاحیتوں کا بھی جن کے بغیروہ بخوبی گزارہ کر رہے تھے۔ حواس مختل، زبان کھچڑی، لب و لہجہ اکھڑا اکھڑا۔ وہ تو پیدا ہی آرام کرنے کے لیے ہوئے تھے، کام کرنے سے تو ان کی حالت پتلی ہو جاتی اور وہ قاضی عبدالقدوس سے کاضی عبدل کدس بن جاتے۔“

یوسفی کا یہ طویل اقتباس پر وفیسرقاضی عبدالقدوس کی شخصیت کی نفسیاتی تحلیل کے حوالے سے کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ آزاد رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان میں ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کی درحقیقت صلاحیت وقابلیت ہی نہیں۔ انہیں جب کبھی کام کرنا پڑبھی جائے تو ان کے نہ صرف حواس جواب دے جاتے ہیں۔ بلکہ دل و دماغ بھی ساتھ دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ ان کی حالت اس قدر پتلی ہو جاتی ہے کہ اپنا نام تک صحیح طور پر نہیں بتا پاتے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ذہنی و اعصابی طور پر انتہائی کمزور شخصیت کے مالک ہیں اور کئی نفسی الجھنوں کا شکار ہیں۔

پروفیسر صاحب کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ شعر وشاعری کے رسیا ہیں۔ ان کے شعر وشاعری کے شغف اور آرام طلبی کی عادات کا ذکرکر کے دراصل یوسفی نے ہماری معاشرتی و تہذیبی زندگی کے زوال کو موضوع بحث بنا یا ہے۔ ہم بحیثیت قوم آرام طلب ہو چکے ہیں، دلی قویٰ کو بے کار چھوڑ دیا ہے۔ وہ تمام شغل اختیار کر نے میں مسرت محسوس کرتے ہیں جن میں ہمیں ذہنی و جسمانی طور پر کسی قسم کی مشقت نہ اٹھانا پڑے۔ یہ ہمارے معاشرتی زوال کی نشانی ہے۔

شعر وشاعری کا حد سے زیادہ شوق بھی معاشرتی زوال کا ایک اہم پہلو ہے۔ اگر ہم میر ؔوغالبؔ کی دلی اور ناسخ ؔوآتشؔ کے لکھنو کو یاد کریں تو اس دور میں ہر سو شعر وشاعری کا دوردورہ تھا اور لوگ دیگر صحت مند سرگرمیوں اور فکر دنیا میں سر کھپانے کے بجائے ہر پل شاعری سے شوق فرماتے تھے۔ سیاسی وسماجی اور معاشرتی و اقتصادی لحاظ سے یہ ہمارے تنزل کا دور تھا۔

پروفیسر قاضی عبدالقدوس بارے مرزا کہتے ہیں کہ پروفیسر عبدالقدوس اپنی دانست میں کوئی بہت ہی دانائی کی بات کہنے کے لیے اگر بیچ میں بولیں تو بیوقوف معلوم ہوتے ہیں۔ اگر نہ بولیں تو اپنے چہرے کے نارمل ایکسپریشن کے سبب اور زیادہ بیوقوف لگتے ہیں۔ گویا ”گویم مہمل وگرنہ گویم مہمل۔“ ۔ پروفیسر مذکور کے نارمل ایکسپریشن سے مراد چہرے پر وہ رنگ ہیں جو اس وقت آتے اور جاتے ہیں جب کسی کی زپ ادھ بیچ میں اٹک جاتی ہے۔ پروفیسر کے خاکے میں یوسفی نے مرزا کی زبانی ’پروفیسر وں‘ کا مضحکہ کچھ ان الفاظ میں اڑایا ہے :

”معاف کیجیے ’اس خاکے میں ہم انہیں پروفیسر ہی کہیں گے‘ بہ قول مرزا آدمی ایک دفعہ پروفیسر ہو جائے تو عمر بھر پروفیسر ہی کہلاتا ہے خواہ بعد میں سمجھ داری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے۔“

سلمان اظہر جاوید یوسفی کے دو مرکزی کرداروں ’مرزا‘ اور۔ ’پروفیسر قاضی عبدالقدوس‘ کی حس مزاح اور طبع کا موازنہ کرتے ہوئے رائے دیتے ہیں :

”مرزا دوسروں کو مزاح کا نشانہ بناتے بھی ہیں اور خود نشانہ بنتے بھی ہیں لیکن یوسفی کا ایک اور کردار بجائے خود مزاح کا موضوع ہے ’خوجی‘ جیسا۔ اس کردار کے بارے میں مشتاق احمد یوسفی نے خود ایک جگہ تحریر کیا ہے کہ“ پروفیسر عبدالقدوس ظریف نہ سہی ظرافت کے مواقع ضرور فراہم کرتے رہتے ہیں ”اس کردار کی معصومیت بڑی لاجواب ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ سلیمہ صدیقی کے سکندر کی طرح یہ باتیں کر رہا ہے۔ سلیمہ صدیقی کا ’سکندر‘ ہے بھی نچلے طبقے کا غیر تعلیم یافتہ۔ اس کے منہ سے ایسی باتیں کبھی کبھا ر سمجھ میں آ سکتی ہیں۔ اس لیے اس قدر تعجب نہیں ہوتالیکن پروفیسر عبدالقدوس ایم اے بی ٹی گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ اس لیے ان کا مزاح طرفگی کا حامل ہو جاتا ہے، سونے پر سہاگہ کا کام دیتا ہے۔

جب کہ ڈاکٹر اسلم فرخی کی رائے میں :

”مرزا اور پروفیسر عبدالقدوس ’یوسفی کے دو ایسے کردار ہیں جن میں خوجی اور حاجی بغلول کی سی شدت یا چچا چھکن کا سا نیم مضحک انداز تو نہیں ہے لیکن اس کے باوجود یہ دونوں انسان اور معاشرے کی مستقل حماقتوں اور عالمگیر ناہمواریوں کی علامت بن کر ہمارے اعصاب پر اس طرح چھا گئے ہیں جس طرح یوسفی نے انہیں اپنے خانہ دل میں مکین بنا یا ہے۔“

یوسفی کے مزاح کا ایک اور نمائندہ کردار آغاتلمیذ الرحمن چاکسوی ہیں۔ ان سے ہماری ملاقات ’چراغ تلے‘ کے مضمون ’یادش بخیریا‘ میں ہوتی ہے۔ یوسفی اسے بے تکلفی سے ’آغا‘ کہ کر پکارتے ہیں۔ آغا شدید ماضی پرستی (NOSTALGIA) کا شکار ہے۔ یہ ایک ایسا نفسیاتی رجحان ہے جس میں مریض اپنے ماضی کی خوشگوار وناخوشگوار یادوں میں مبتلاہو کر حال میں ماضی کو تلاش کرتا ہے۔ ناسٹلجیا خصوصاً ماضی کی ان خوش گوار یادوں کا نام ہے جن سے حال میں مسرور ہوا جا سکے۔

حال کی ناآسودگی سے تنگ آ کر ماضی کی طرف سفر کرنے کی خواہش جب شدت اختیار کر جائے اور انسان ماضی کی خوشگوار یاناخوشگوار یادوں میں وقت گزارنے میں راحت محسوس کرے تو اس کیفیت کو ناسٹلجیا کا نام دیا جاتا ہے۔ ناسٹلجیا عام سطح پر ایک مثبت قدر ہے اور انسانی زندگی میں اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ حال کی کر بناکیوں، الجھنوں، دکھوں، المیوں اور غموں سے کچھ دیر کے لیے ہی سہی فرار کا ایک ذریعہ ہے۔ بقول ڈاکٹر ممتاز احمد خان:

”ناسٹلجیا ایک مثبت طرزاحساس ہے۔ ناسٹلجیائی یادیں کبھی جدا نہیں ہو سکتیں کیوں کہ یہ فطرت انسانی کا خاصا ہے۔“

تاہم ناسٹلجیا کا حد سے بڑھا ہو ا رجحان انسانی شخصیت کے منفی رخ کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے اور اس مرض میں مبتلا مریض کا کوئی حال نہیں ہوتا، اسے حال سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ حال کے ہر واقعے کو ماضی کے ترازو میں تولتا ہے۔ گویا ماضی اس کے لیے گوشہ مسرت (IVORY TOWER ) ہوتا ہے۔ خود یوسفی ناسٹلجیا کے بارے میں لکھتے ہیں :

” ماضی گیراں (بروزن ماہی گیراں ) ماضی کو پکڑ کر بیٹھ جانے والے لوگ تمنائی۔ پاستاں طرازی کے پس منظر میں مجروح انا کا طاؤس رقص دیدنی ہوتا ہے۔ مور فقط اپنا ناچ ہی نہیں، اپنا جنگل بھی خود پیدا کر تا ہے۔ ناچتے ناچتے ایک طلسماتی لمحہ ایسا آتا ہے کہ سارا جنگل ناچنے لگتاہے اور مور خاموش کھڑا دیکھتا رہ جا تا ہے۔ ناسٹلجیا اس لمحہ منجمد کی داستان ہے۔“

یوسفی کے تخلیقی شاہکار ”آغاتلمیذالرحمن چاکسوی“ کا ناسٹلجیا بھی اسی لمحہ موجود کی داستان معلوم ہوتا ہے۔ آغا ہر لحاظ سے ماضی کے اتھاہ سمندر میں سر تا پاڈوبا ہوا ہے۔ وہ لمحہ موجود کے ہر عمل کو ماضی کی عینک سے دیکھتا ہے۔ آغا کا یہ رجحان کوئی مثبت عمل نہیں بلکہ شخصیت کے مریضانہ رخ کو پیش کرتا ہے۔ یوسفی نے اس کردار کے بعض سوانحی کوائف اور نفسی رجحانات سے بھی ہمیں آگا ہ کیا ہے جو اس کی شخصیت کے نفسیاتی تاروپود کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ آغا اپنی ذات میں انجمن تھے۔ کم آمیز تھے۔ ہر کس و نا کس سے نہیں ملتے تھے بلکہ اپنے بچپن کے ساتھیوں میں سے بھی کسی کسی کو ہی ملتے۔ بقول یوسفی:

”آغا اپنے بچپن کے ساتھیوں کے علاوہ، جو اب ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے، کسی سے نہیں ملتے۔ انہوں نے اپنی ذات ہی کو انجمن خیال کیا۔ ہم نے کبھی انھیں نشہ کرتے نہیں دیکھا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو کبھی جوان نہیں ہوتے۔ ان کی ساری جوانی قطعی فرضی تھی۔ ماضی کے نشہ میں سرشار ہو کر خوب بہکتے۔ نہ جانے کیوں اور کیسے انھیں یہ اندیشہ ہو چلا تھا کہ حوا کی ساری نسل انہی کی گھات میں بیٹھی ہے۔ آغا نے بچپن اور جوانی میں بجز شطرنج کے کوئی کھیل نہیں کھیلا۔

حد یہ کہ جوتے کے تسمے بھی کھڑے کھڑے اپنے نوکروں سے بندھوائے۔ مگر جونہی بچپن کے پیٹے میں آئے، اس بات سے بڑے رنجیدہ رہنے لگے کہ اب ہم تین قسطوں میں ایک بیٹھک نہیں لگا سکتے۔ انہوں نے اپنی ذات کے علاوہ کبھی کسی کو گزند نہیں پہنچایا۔ گو آغا تمام عمر رہین ستم ہائے روزگار رہے لیکن چاکسو کی یاد سے ایک لحظہ غافل نہیں ر ہے۔ چنانچہ ان کی میت آخری وصیت کے مطابق سات سو میل دور چاکسو خورد لے جائی گئی اور چاکسو کلاں کی جانب پاؤں کر کے اسے قبر میں اتارا گیا۔ نہ جانے کیوں میرا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ جنت میں بھی خوش نہیں ہوں گے اور یادش بخیر کہہ کر جنتیوں کو اسی جہان گزراں کی داستان پاستاں سناسنا کے للچاتے ہوں گے جسے وہ جیتے جی دوزخ سمجھتے ر ہے۔ ”

یہ ہے مختصر ترین الفاظ میں ان کی سوانح عمری جس میں بقول یوسفی سوانح کم اور عمر زیادہ ہے۔ یہ مختصر ترین سوانحی تفصیلات بھی ان کی شخصیت کے بعض اہم نفسی رجحانات کو سمجھنے میں انتہائی معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ژونگ کے نظریہ شخصیت کے مطابق وہ دروں بیں تھے۔ اپنی ہی ذات کو انجمن سمجھتے تھے۔ کم آمیز تھے، کم گو تھے، ہر کسی سے گھلتے ملتے نہیں تھے۔ یوسفی کا یہ جملہ ”انہوں نے اپنی ذات کے علاوہ کبھی کسی کو گزند نہیں پہنچایا“ اس کی شخصیت کے ایک ابنارمل رویے کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ وہ Masochistرجحان رکھتے تھے۔

آغا کی زندگی کو اگر کسی ایک لفظ میں بیان کرنا چاہیں تو وہ لفظ یقیناً ماضی پرستی ”ہو گا۔ ان کا اوڑھنا بچھونا، چلنا پھرنا، سانس لینا سب ماضی میں تھا۔ انھیں حال سے کوئی غرض و غایت نہیں تھی۔ یہی شدید ماضی پرستی ان کی شخصیت کے ابنارمل پہلو کو سامنے لاتی ہے۔ وہ ایک لحاظ سے نفسیاتی تنہائی کا شکار تھے ؛وہ اس بات کے قائل تھے کہ مل کر بچھڑنے کی اذیت برداشت کرنے سے بہتر ہے کہ پرانے دوست احباب یا ہمدم دیرینہ سے بھی نہ ملا جائے۔ ذوق نے تو کہا تھا:

ؔ۔ ؔ اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا بہتر ہے ملاقات مسیحاؤ خضر سے
تاہم آغا اس بات کے قائل تھے کہ:

”مل کر بچھڑنے میں جو دکھ ہوتا ہے، وہ ذرا دیر مل بیٹھنے کی وقتی خوشی سے سات گنا شدید اور دیر پا ہوتا ہے اور وہ بیٹھے بٹھائے اپنے دکھوں میں اضافہ کر نے کے حق میں نہیں تھے۔“

گویا وہ ساحر لدھیانوی کے اس شعر کی عملی تفسیر تھے :

چند کلیاں نشاط کی چن کر / مدتوں محو یاس رہتا ہوں / تیرا ملنا خوشی کی بات سہی / تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں

آغا کی شخصیت کا مرکز و محور ماضی پرستی ہے۔ ان کے نزدیک نہ صرف دنیا کی تمام تر ترقی بلکہ اردو میں بھی جو کچھ لکھا جانا تھا آج سے پچیس سال قبل لکھا جا چکا تھا۔ آغا کی شخصیت کا المیہ یہ ہے کہ ان کی زندگی ایک نقطے پر آ کر ساکن ہو گئی تھی اور وہ نقطہ تھا ”ماضی پرستی“ ۔ ماضی کی اندھی تقلید کرتے تھے اور ہر شے، ہر کردار اور ہر خیال کو ماضی کے آئینے میں رکھ کر دیکھنے کے عادی۔ اپنے مزاج اور موقف کے خلاف بات سننے کے عادی نہیں تھے۔

جو وہ کہتے، اسے ہی درست خیال کرتے اور پھر اس پر ڈٹ جاتے۔ آغا کی ان ہی عادات نے انھیں مضحک کردار بنا دیا ہے۔ ان میں کوئی لچک نہیں ہے۔ وہ اپنے زمانے سے لطف اندوز ہونے اور جدید ایجادات اور علوم و خیالات سے مستفیدہونے کے بجائے مہابلی اکبر کے عہد کو یاد کر کر کے روتے ہیں۔ ان کے بارے میں یوسفی نے کی رائے یہ ہے کہ وہ اگر جنت میں بھی ہوں تو بھی اس میں خوش نہیں رہ سکتے بلکہ جنت کی نعمتوں سے مسرور ہونے کے بجائے اس دنیا کی یاد میں آنسو بہائیں گے ”جسے وہ جیتے جی دوزخ سمجھتے ر ہے۔“ آغا کے ناسٹلجیائی سوچ کے عکاس اور یوسفی کے مزاح سے بھرپور چند جملے ملاحظہ کیجیے :

٭سامنے دیوارپر آغا کی ربع صدی پرانی تصویر آویزاں تھی جس میں وہ سیاہ گاؤن پہنے، ڈگری ہاتھ میں لیے، یونیورسٹی پر مسکرا تھے۔ (چراغ تلے، 50 )

٭نئے شاعروں کو ریڈیو سیٹ پر بھی ہوٹ کرنے سے باز نہیں آتے۔ (ایضاً، ص 51 )

٭ آغا کو بھی اپنے ماضی بعید سے ’خواہ اپنا ہو یا پرایا‘ والہانہ وابستگی تھی جس کا ایک ثبوت ان کی 1927 ء ماڈل کی فورڈ کا ر تھی جو انہوں نے 1955 ء میں ایک ضعیف العمر پارسی سے تقریباً مفت لی تھی۔ (ایضاً، ص 53 )

( آغا کی فورڈ کار پطرس بخاری کے مزاحیہ مضمون ”مرحوم کی یاد میں“ کی سائیکل کی یاد دلاتی ہے۔ )

٭جہاں کوئی چیز ’کوئی نئی صورت نظر پڑی اور انہوں نے کچ کچا کے آنکھیں بند کیں اور یاد رفتگاں کے اتھا ہ سمندر میں غٹراپ سے غوطہ لگایا۔ کہیں کوئی بات بار خاطر ہوئی اور انہوں نے ”یادش بخیر“ کہہ کر بیتے سمے اور بچھٹری ہوئی صورتوں کی تصویر کھینچ کے رکھ دی۔ (ایضاً، ص 54 )

٭قدیم نصاب تعلیم کے وہ بے حد معرف و مداح تھے۔ اکثر کہتے کہ ہمارے بچپن میں کتابیں اتنی آسان ہوتی تھیں کہ بچے تو بچے ’ان کے والدین بھی سمجھ سکتے تھے۔ (ایضاً، ص 56 )

٭گزشتہ مارچ میں آغا ایک مدت مدید (تیس سال) کے بعد اپنے گاؤں گئے۔ لیکن وہاں سے لوٹے تو کافی آزردہ تھے۔ انہیں اس بات سے رنج پہنچا کہ جہاں پہلے ایک جوہڑ تھا جس میں دن بھر بھینسیں اور ان کے مالکوں کے بچے پڑے رہتے تھے ’وہاں اب ایک پرائمری سکول کھڑا تھا۔ (ایضاً، ص 58 )

٭ آغا کی عمر کا بھید نہیں کھلا۔ لیکن جن دنوں میرا تعارف ہوا ’وہ عمر کی اس کٹھن گھاٹی سے گزر رہے تھے جب جوان ان کو بوڑھا جان کر کتراتے اور بوڑھے کل کا لونڈا سمجھ کر منہ نہیں لگاتے تھے۔ جن حضرات کو آغا اپنا ہم عمر بتاتے رہے‘ ان میں سے اکثر ان کو منہ در منہ چچا کہتے تھے۔ خیر ان کی عمر کچھ بھی ہو مگر میرا خیال ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو کبھی جوان نہیں ہوتے۔ (ایضاً، ص 59 )

٭دوسری خانہ بربادی کے بعد شادی نہیں کی ’اگرچہ نظرمیں آخری دم تک سہرے کے پھول کھلتے اور مہکتے ر ہے۔ یوں ترنگ میں ہوں تو ہر عاقل و بالغ خاتون میں اپنی اہلیہ کی صلاحیت نظر آتی تھی۔ (ایضاً، ص 60 )

مرزاماضی کے نشہ سے سرشار ہو کر خوب بہکتے۔ اپنے آپ پر سنگین تہمتیں لگاتے اور عورت ذات کو نقصان پہنچانے کے ضمن میں اپنے 55 سالہ منصوبوں کا اعلان کرتے جاتے۔ ماضی بارے آغا کی رائے یہ تھی:

” آغا نے یک لخت ماضی کے مرغزاروں سے سر نکال کر فیر کیا۔“ یادش بخیرکی بھی ایک ہی رہی۔ اپنا تو عقیدہ ہے کہ جسے ماضی یاد نہیں آتا کہ اس کی زندگی میں شاید کبھی کچھ ہواہی نہیں۔ لیکن جو اپنے ماضی کو یاد ہی نہیں کرنا چاہتا وہ یقیناً لوفر رہا ہو گا۔ ”25

یہ تو تھیں یوسفی کے چند اہم کرداروں کی باتیں، ان کے علاوہ بھی یوسفی نے بہت سارے کردار تخلیق کیے ہیں۔ یہ سب کردار کئی مشترک خصوصیات رکھنے کے باوجود ایک دوسرے سے الگ اور منفرد ہیں اور کرداروں کی بھیڑ میں دور سے پہچانے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments