کیا ضرورت گلاب دیوی کو تھی؟


دن اواخر جون کے تھے۔ باہر سورج فضا کو آگ کر رہا تھا جب کہ اندر غموں نے دہکا جہنم کو رکھا تھا۔ آب نمکین تھا کہ جسم کے ہر اعضاء سے بہے جاتا تھا جیسے کوہ ہندو کش کی پہاڑیوں سے چشمے مسلسل پھوٹ رہے ہوں۔ اشجار کے پتے حرکت کرنے سے معذور تھے۔ معلوم ہوتا تھا کہ فضا سے ہوا کو عزارئیل نے قبض کر لیا ہے۔ لواحقین مریضوں کے دھوپ سے بچاؤ کی ہر تدبیر کرتے تھے جو کارگر نہ ہوتی تھی۔ اور ماحول ہسپتال کا عجب افسردگی کو پناہ دیے ہوئے تھا۔

یہ افسردگی ہر کسی کے دامن سے لپٹ رہی تھی۔ مگر اس دن پریشانی کے عالم میں بھی خیالات یلغار ہم پر کیے ہوئے تھے۔ ایک عزیزم ہسپتال میں موجود تھے جن کی دیکھ بھال کو ادھر تھے۔ اس طبی مرکز کا انتظام اچھا تھا، صفائی کا خاطر خواہ انتظام تھا، عملے کا رویہ بھی محبوب کی طرح دید کے قابل تھا۔ ہسپتال کا نام ”گلاب دیوی ہسپتال“ تھا۔ گلاب دیوی نے ہسپتال بنوا کر اپنے نام کی لاج رکھی اور درد دل رکھنے والوں کے ہاں دیوی ٹھہری۔

جن کے ہاں دولت کی ریل پیل تھی وہ کتوں اور گھوڑوں کو پالنے کا شوق کرتے تھے۔ ملازمین کی فوج ظفر موج تھی جن کی تنخواہیں اس وقت بھی عوام کا لہو نچوڑ کر ادا کی جاتی تھیں۔ ایسی شخصیات کا اب نام کیا لکھنا کہ بعد میں یہی لوگ تحریک پاکستان کے روح رواں بنے۔ جن کے باپ دادا تمام عمر گوروں کا دم بھرتے رہے، وہی ان انگریزوں سے آزادی چاہتے تھے۔ وقت نے کیسا پلٹا کھایا تھا۔ ایک طرف تو دولت مندوں کا یہ رجحان تھا اور دوسری طرف گلاب دیویوں اور گنگا راموں سے بھی یہ معاشرہ خالی قطعاً نہ تھا۔

جو اپنی دولت دنیا کو فقط خلق خدا کی خاطر خرچ کیے جاتے تھے۔ ایک سوال ابھرا ہے کہ انہیں تو یہ لالچ بھی نہ تھا کہ فیصلے کہ دن اس خرچ کی جزا ملے گی تو پھر وہ کیوں کر ہسپتال بنوا رہے تھے۔ جو فیصلے کے دن پر یقین رکھتے تھے وہ تو جانوروں کا شغل فرماتے تھے اور بے یقینوں کی فراخ دلی ایسی کہ خاتم کے دوسرے جنم کا گماں ہو۔ مگر ہمارے ہیرو تو پھر بھی وہی ہیں جو تاج محل بنواتے رہے، جو ہرن میناروں کی بنیادوں میں مزدوروں کی ہڈیاں چنتے رہے، اور جو عوام کی نظروں میں ولی ٹھہرنے کے لیے غیر ضروری طور پر مسجدوں کی زیب و آرائش کے لیے دولت دریا کی طرح بہاتے رہے۔

خلق خدا قحط سے مری جاتی تھی، مگر شاہوں کا اقبال بلند تھا کہ دستر خوانوں پر کھانوں کی اقسام گننے سے ملائکہ بھی عاجز آتے تھے۔ آپ آج بھی کسی سے پوچھ لیجیے کہ آپ کا ہیرو کون ہے، ترنت کسی مغل حکمران کا نام سننے کو ملے گا۔ مگر جن لوگوں نے آرام کی زندگی کو خیر آباد کہہ کر ہسپتال بنوائے وہ آج بھی مطعون ٹھہرائے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں منصور آفاق نے لکھا تھا کہ کچھ مجاہدین ان کے پاس آئے تھے، تجویز جن کی یہ تھی کہ گلاب دیوی اور گنگا رام ہسپتال کا نام تبدیل ہونا چاہیے اور یہ سر فروش آفاق صاحب سے رہ نمائی کے بھی طالب تھے کہ کون سے فورم موثر ثابت ہوں گے جن پر اگر آواز اٹھائی جائے تو جلد از جلد نام تبدیل ہوں اور کار خیر انجام کو پہنچے۔

یہ بات صرف مجاہدین تک محدود نہیں ہے، اگر کوئی اپنے بل بوتے پر ایک سروے کر لے تو اکثریت کی یہ رائے ہو گی کہ نام ضرور تبدیل ہونے چاہئیں۔ شاید گنگا رام ہسپتال کا نام تبدیل ہو کر امیر المومنین شہید برحق ضیاء الحق ہسپتال ہو جائے۔ اور گلاب دیوی ہسپتال کا نام کیا خبر کہ رابعہ بصری ہسپتال کر دیا جائے۔ ویسے ضرورت گلاب دیوی اور سر گنگا رام کو ایسی کیا پڑی تھی کہ ہسپتال بنوا رہے تھے۔ وہ ابھی اگر مغلوں، ٹوانوں، خانوں، جاٹوں، اور شیخوں کی طرح شغل فرماتے تو آج ان کے خلاف بھی جلوس نہ نکلتے (کچھ سال قبل سر گنگا رام کے خلاف لاہور میں ایک جلوس نکلا تھا، اشارہ اسی طرف ہے ) ۔

یہ بات تو آپ کی طبیعت پہ گراں گزرتی ہے کہ ملالہ ہماری ہیرو ہے۔ آخر اس لڑکی نے کیا ہی کیا ہے اس قوم کے لیے جو وہ ہیرو ٹھہرے، بنیادی دلیل یہی دی جاتی ہے۔ مگر جن لوگوں نے کچھ کیا ہے ان سے بھی تو بیگانگی برتی جاتی ہے، ان کو کون سا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ آئندہ ہیرو صرف وہ ہو گا جو ہمارا ہم مذہب ہو گا۔ کیا اب لوگوں کی اچھائی کا فیصلہ فقط مذہب کی بنیاد پر ہوا کرے گا۔ میر اگر آج زندہ ہوتے تو ہمارے درد کو خوب بیان کرتے۔ نہ میر رہے اور نہ بیان درد دل ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments