پاکستان کی ناقص افغان پالیسی، نتائج اور مستقبل


آج کل افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک ایک کشمش میں ہے جو کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کی غیر مشروط انخلاء سے پیدا ہوئی ہے۔

ان تمام ممالک بشمول پاکستان کو افغانستان میں ممکنہ خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔ خاص کر پاکستان جو کہ افغانستان کے ساتھ ایک وسیع بارڈر شیئر کرتا ہے، جیسے ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں۔ یہ ممکنہ خانہ جنگی آج کل پاکستان پالیسی بنانے والوں اور صحافیوں کے لیے ایک اہم موضوع اور دل چسپ موضوع ہے۔

اسلام آباد کو جلد ہی ایک نئی افغان پالیسی مرتب کرنی ہو گی، جس میں سیاسی تصفیہ، استحکام، معاشی ترقی اور دہشت گردوں کے لئے کسی بھی ٹھکانے سے انکار ضروری ہو گا۔

پاکستان بھی طالبان کے ذریعہ افغانستان پر فوجی قبضے کی واضح طور پر مخالفت کرتا ہے اور یہ دعوی کرتا ہے کہ افغانستان میں ان کا کوئی پسندیدہ گروہ نہیں ہے۔ وہی بھارت اور افغانستان کی موجودہ حکومت دعویدار ہے کہ پاکستان طالبان کی پشت پناہی کرتا آ رہا ہے اور طالبان اب بھی پاکستان کی مانتے ہیں۔

امریکہ اور افغانستان سب بھی پاکستان کے افغانستان کے بیانیے سے عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی میڈیا میں افغان تنازعہ کی کوریج نے اس معاملے کو مزید پیچیدہ اور مشکوک کر دیا ہے۔

موجودہ صورتحال پاکستانی حکومت اپنی افغانستان کی پالیسی کے واضح ضمانت دیتی ہے کہ پاکستان افغانستان میں ”افغان لیڈ افغان اون“ (Afghan lead Afghan Own) پالیسیوں کو سراہتا ہے اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں اپنا کوئی عمل نہیں چاہتا۔ پاکستان کی افغانستان کی گزشتہ پالیسی کے کچھ اہم پہلو ہیں جو قابل ذکر ہیں ان ان کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔

سب سے پہلے، یہ ماننے کی ضرورت ہے کہ اسلام آباد کی بیان کردہ افغان پالیسی میں ماضی کے بیانات کے مقابلے میں بہتری نظر آتی ہے۔ کیونکہ اب پاکستان افغانستان میں اپنے پسندیدہ گروہ ہونے کا دعوی نہیں کرتا ہے۔ لیکن شاید اب بھی زمینی حقائق ایک مختلف تصویر بناتے ہیں۔

افغان طالبان پر الزام ہے کہ انہوں نے سرحد پار سے حملے کرنے، فنڈز اکٹھا کرنے، نوجوانوں کو اپنے فوجی کی حیثیت سے بھرتی کرنے اور زخمی جنگجوؤں کے علاج کے لئے پاکستانی حدود کا استعمال کیا ہے۔

لہذا، سرکاری دعووں کی تصدیق نہیں ہو پا رہی اور دنیا یہ دیکھ رہی ہے۔ لیکن یہ بھی واضح ہے کہ گزشتہ پانچ ساتھ سال میں ہمیں پاکستان کی طالبان کو مدد پہلے کی نسبت کم دکھائی دیتی ہے۔

اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستان کا طالبان پر مکمل اثر و رسوخ نہیں رہا ہے۔ اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن، دیگر علاقائی گروہوں اور ممالک کے برعکس، پاکستان کھلے الفاظ میں افغانستان کے اندرونی امن وامان کی حمایت کر رہا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی میں پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر تو لے آیا لیکن اب اسلام آباد بہتر طور پر طالبان کو افغانستان میں امن اور خانہ جنگی سے نہیں روک پا رہا۔ اس بات کی تصدیق وزیراعظم عمران خان بھی کر چکے ہیں کہ اب طالبان افغانستان میں مضبوط ہیں لہذا وہ پاکستان کی کیوں سنے گے؟

محض پاکستان کی نصیحتیں طالبان کو بڑھتی ہوئی تشدد سے باز نہیں رکھ پائیں گی۔ طالبان نہ صرف طاقت کے بھوکے ہیں بلکہ وہ کابل اپنے زیر تسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اور انھیں اس بات کی بھی کوئی فکر نہیں ہے کہ آنے والی افغان حکومت انھیں کیا مراعات پیش کرتی ہے۔

اس معاملے کا تیسرا پہلو یہ بھی ہے کی چار دہائیوں سے زیادہ، پاکستان، افغانستان میں ایک مداخلت پسند پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے جس میں ہندوستانی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے اور کابل میں ایک دوستانہ حکومت کو یقینی بنانے کی کوششیں بھی کی گئی ہے۔ اب ثابت ہو چکا ہے کہ پالیسی بری طرح سے ناکام ہو چکی ہے کیونکہ اس کے دو اسٹریٹجک اہداف احساس سے دور ہیں۔ دوسری طرف نئی دہلی کے ساتھ کابل کے تعلقات 40 سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ خوشگوار ہوئے ہیں۔

اور اس کے برعکس، پاکستان اور افغانستان کے درمیان عدم اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ کئی دہائیوں تک افغان پناہ گزینوں کی مہمان نوازی بھی ہمارے کچھ کام نہیں آئی۔ مزید یہ کہ، طالبان کی حامی افغان پالیسی نے امریکہ اور مغربی دنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو نقصان پہنچایا اور ہمارے لئے بین الاقوامی تنہائی کا سبب بنے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں ہم اندرونی دہشت گردی کا شکار ہوئے، جس کی وجہ سے ہمیں 65,000 سے زیادہ معصوم جانیں اور افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی املاک کو نقصان پہنچا۔ بلکہ 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا۔

ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ، پاکستان کو یہ بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ سیکیورٹی پر مبنی افغان پالیسی کے تعاقب میں، ہم نے اپنے جیو معاشی مفادات کو بری طرح سے مجروح کیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم لینڈ لاک افغانستان سمیت وسط ایشیا کے ممالک سے اب تک تجارت میں اضافہ نہیں کر پائے۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وسائل سے مالا مال وسطی ایشیاء تک رسائی کے لیے افغانستان بہترین تجارتی راستہ بن سکتا ہے۔

افغان پالیسی میں ہماری بہت سی غلطیاں ہیں جیسے 1980 کی دہائی میں، ہم نے بائیں بازو والے افغان قوم پرستوں کو الگ کرنے میں پیش پیش رہے اس کے بعد 1990 کی دہائی میں، ہم نے سیکولر اور قوم پرست پشتونوں اور تمام غیر پشتون گروہوں کو الگ کرنے کا ذمہ اٹھایا۔ نائن الیون جی عالمی دہشت گردی کے بعد پاکستان کہیں نہ کہیں افغان معاشرے اور پاکستانی پشتونوں کے ہر طبقے کو الگ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ جنہیں اسلام آباد کی ناقص افغان پالیسی کے منفی نتیجہ کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔

ان تمام باتوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ آج، افغان طالبان سمیت سیاسی میدانوں میں موجود افغانی یہاں تک کہ افغانستان کی وہ نسل جو پاکستان میں پڑھ لکھ کر جوان ہوئے، وہ بھی ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہماری پالیسیوں کو تسلط بخش سمجھتے ہیں۔

ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ہم افغانستان کو اپنے پانچویں صوبہ کی طرح سمجھتے رہے۔

اب موجودہ صورتحال پاکستان کو ایک موقع فراہم کیا ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ اپنی بے جا مداخلت کو ترک کر دے۔ ایک نئی شروعات کرے اور افغانوں اور پاکستانیوں کی نوجوان نسلوں کو ایک دوسرے کا اعتماد حاصل کرنے دے جو اس سے قبل کبھی اچھے نہیں ہوئے۔

اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے ہم پڑوسی نہیں بدل سکتے۔ اس لیے دونوں ممالک میں بہتر برادرانہ تعلق افغانستان میں پائیدار امن کے ساتھ ساتھ بلوچستان اور سابق فاٹا کے امن میں بھی معاون ثابت ہوگا، اس بات سے قطع نظر کہ افغانستان میں طالبان حکومت کریں یا کٹھ پتلیاں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments