کوئٹہ سے جڑی چند چھوٹی چھوٹی یادیں!


ستمبر 1985 ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے تربیت مکمل کرنے کے بعد کوئٹہ میں میری پہلی تعیناتی ہوئی۔ میری یونٹ ان دنوں کوئٹہ سے باہر بلیلی گاؤں کے نواح میں سالانہ سرمائی مشقوں میں مصروف تھی۔ سارا دن ہم کھلے سنگلاخ پہاڑوں کے دور تک پھیلے کٹے پھٹے دامن میں تیز گرد آلود ہواؤں کے جھکڑوں میں گھرے تربیتی سرگرمیوں میں مصروف رہتے۔ ہمارا رہائشی کیمپ سیب کے باغوں میں گھرا ہوا تھا۔ میرا خیمہ سنہرے لال سیبوں سے لدے باغ کے عین کنارے پر کھڑا تھا۔

ستمبر کے مہینے میں کوئٹہ کے دن تو ابھی گرم، مگر راتیں سخت سرد ہو چکی تھیں۔ دور دراز پہاڑوں کی چوٹیاں پر برف نظر آنے لگی تھی۔ ہمارے ایک ہر دلعزیز کمپنی کمانڈر کا تعلق کوئٹہ سے تھا۔ چنانچہ بسا اوقات جب ہمارے کمانڈنگ افسر کوئٹہ گئے ہوتے تو کبھی کبھار چند مقامی حضرات کو یونٹ کیمپ مدعو کیا جاتا۔ رات گئے آفیسرز میس کے سامنے آگ کے الاؤ کے گرد محفل جمتی۔ ہمارے یہ نوجوان مہمان عموماً تعلیم یافتہ، خوش حال اور خوش طبع ہوتے۔ ایک مرتبہ ایک ولایت پلٹ مقامی نوجوان بھی ہماری محفل کا حصہ بنا۔ یہ نوجوان انگریزوں کے سے لہجے میں انگریزی یا اردو بولنے کی کوشش کرتا جو پشتو لہجے کی گھلاوٹ کے ساتھ کانوں کو بھلی لگتیں۔ نوجوان کبھی کبھار پنجاب اور پاک فوج سے متعلق کچھ گلے شکوے بھی کرتا۔

کچھ مہینوں بعد ہم کینٹ واپس لوٹے۔ مقامی انٹیلی جنس یونٹ کا ایک کپتان آفیسرز میس میں میرے برابر والے کمرے میں رہتا تھا۔ اگرچہ ہم گہرے دوست تھے تاہم ایک بار اپنی Seniority کا رعب جماتے ہوئے اس نے مجھے کسی دور دراز مقام پر منعقدہ قوم پرستوں کے ایک جلسے میں کی جانے والی تقریروں کے اردو متن کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کا حکم دیا۔ اپنی ان تقریروں میں جہاں قوم پرستوں نے اور بہت سے اعلانات کیے ، وہیں روس سے مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ گوادر پر بندرگاہ تعمیر کرے اور اسے ان کے حوالے کر دے۔

ہم نوجوان افسر شام گئے اکثر جناح روڈ پر مٹر گشت کرنے کے لئے نکلتے۔ شہر کی مرکزی شاہراہ اپنی اعلیٰ درجہ کی دکانوں، خوبصورتی اور صفائی ستھرائی کی وجہ سے جانی جاتی تھیں۔ جناح روڈ پر ہی ایک معروف ٹیلر شاپ واقع تھی۔ وہیں سے میں نے اپنے پہلے Ceremonial Dresses بشمول میس کٹ (Mess Kit) بنوائے کہ جن کی قیمت اس وقت میری کئی ماہ کی تنخواہوں کے برابر تھی۔ جب میرا اردلی سلے ہوئے ڈریسز وصول کرنے گیا تو دکان کے مالک نے کسی معاوضے یا رسید کی طلبی کے بغیر صرف میرا نام اور پی اے نمبر پوچھ کر لباس اس کے حوالے کر دیا۔

جناح روڈ پر واقع اکثر معروف اور بڑی دکانوں اور فوجی افسروں کے مابین اعتماد کا ایسا ہی رشتہ تھا۔ لیاقت روڈ پر واقع مارکیٹیں ایرانی اشیاء سے لدی پھندی رہتیں، جہاں مقامی بالخصوص ہزارہ قبائل کے لوگ بڑی تعداد میں بلا خوف و خطر کاروبار کرتے۔ ہر دکان دار کو علم ہوتا کہ سٹاف کالج اور انفنٹری سکول میں کورسز کب شروع اور کب ختم ہوں گے۔ اشیاء کی قیمتوں میں کمی بیشی اسی کے مطابق ہوتی۔ ان دنوں ٹارگٹ کلنگ ایک غیر مانوس لفظ تھا۔ کوئٹہ کی ٹریفک پولیس اپنے ڈسپلن، عمدہ طرز عمل، صاف ستھری وردی اور سفید اینکلٹس کے لئے جانی جاتی تھی۔ شورش زدہ سالوں میں اس فورس کی افرادی قوت کا ایک بڑا حصہ اپنی خاص شناخت کی بناء پر ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا تو فورس اپنی پہچان کھو بیٹھی۔

مجھے جنرل ضیاء الحق ان دنوں میں بھی خاص پسند نہیں تھے۔ تاہم اس دور میں نا پسندیدگی کی وجوہات مختلف تھیں۔ ہمیں یقین تھا کہ ان کی ہدایت پر خفیہ ادارے نوجوان افسروں پر مسلسل نظر رکھتے ہیں تا کہ غیر اخلاقی و غیر اسلامی سرگرمیوں میں ملوث پائے جانے والوں کی نشاندہی ہو سکے۔ نوجوان افسروں میں یہ تاثر بھی عام تھا کہ ظہر کی نماز میں ان کی حاضری کی رپورٹ بنائی جاتی ہے جو فارمیشن کمانڈر تک جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی مشہور تھی کہ جنرل ضیاء الحق کے بارے میں کی جانے والی کوئی بھی منفی بات خفیہ ادارے اسی زبان میں (Verbatim) ان تک پہنچاتے ہیں۔ چنانچہ ان دنوں ہمارے دلوں میں آج کل کے کئی خواتین و حضرات کی طرح خفیہ اداروں کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پائے جاتے تھے۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ فکر پختہ ہوئی تو بد گمانی جاتی رہی۔

سال 1988 ء کے وسط میں گرمائی مشقوں کے سلسلے میں ہم مستونگ کے نواح میں خیمہ زن تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے حادثے کی خبر ہم نے اسی کیمپ میں سنی۔ جنازہ کے مناظر پی ٹی وی پر براہ راست انتہائی جذباتی تبصرے کے ساتھ دکھائے جا رہے تھے۔ ہم سب ٹی وی پر جنرل ضیاء الحق کے جنازے کی نشریات دیکھ کر خوب روئے۔ میرا خیال ہے ہمارے رونے میں جنرل صاحب کی ناگہانی وفات سے زیادہ عمل دخل ضرور لودھی صاحب کی جذبات سے لبریز کمنٹری کو حاصل رہا ہوگا۔

مستونگ ہی کے قرب و جوار میں انہی مشقوں کے دوران ایک شام میں معمول کے مطابق ٹریک سوٹ پہن کر کوئٹہ خضدار شاہراہ پر جاگنگ کر رہا تھا کہ میرے عقب سے ایک ریڑھی بان اپنی ریڑھی کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے آیا۔ میرے پاس آ کر رفتار کم کرتے ہوئے بولا ’کہاں جانا ہے؟ آؤ میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں‘ ۔ اس سادہ لوح بلوچ کا خلوص کیا کسی نعمت سے کم تھا؟

ان دنوں افغان جنگ بھی اپنے عروج پر تھی۔ افغانستان سے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد بلا روک و ٹوک پاکستان منتقل ہو کر ہمارے پختون علاقوں میں آباد ہو رہی تھی۔ اب تو ان علاقوں میں مقامی پٹھان کم اور افغان مہاجرین بڑی اکثریت میں آباد ہیں۔ یہ غیر ملکی اب ہمارے ہاں بیش قیمت جائیدادوں کے مالک اور اکثر ایک معروف قوم پرست سیاسی جماعت کے ووٹرز ہیں۔ گزشتہ دنوں اچانک وفات پا جانے والے اسی جماعت کے ایک رہنماء کو ہزاروں سوگواروں کے درمیان سپرد خاک کیا گیا تو ان کی قبر پر افغانی جھنڈا لہرا رہا تھا۔

سنہری یادوں سے مزین کوئٹہ میں میرا چار سالہ قیام اگست 1989 ء میں اختتام پذیر ہوا۔ اس کے بعد بھی دو دفعہ کوئٹہ میں میری تعیناتی ہوئی، تاہم سب کچھ بدل چکا تھا۔ سال 2014 ء میں اپنی آخری پوسٹنگ کے دوران ہمارا گھر کینٹ کے اس کونے میں واقع تھا۔ کینٹ کی دیوار کے پار ہزارہ قبائل کی قدیم بستی اور اس سے آگے شہر تھا جہاں اب کم ہی جانا ہوتا۔ آئے روز بم دھماکے ایک معمول تھا۔ ایک سہ پہر ہم سن روم میں بیٹھے تھے کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ بے ساختہ میرے منہ سے نکلا، ’لو ایک اور بم بلاسٹ ہو گیا‘ ۔ میری نو دس سال کی بیٹی فاطمہ اپنے کام میں مگن کمال اطمینان سے بولی، ’بم بلاسٹ کی آواز ایسی نہیں ہوتی‘ ۔

میری دعا ہے کہ بلوچستان اور بالخصوص وادی کوئٹہ کی فضا میں امن، پیار اور خوشبو رچ بس جائیں۔ یہاں کے لوگ شادمان رہیں۔ زمین سونا اگلتی رہے۔ آسودہ حال گھروں کے درو دیوار پر ہیرے جواہرات جڑے ہوں اور اس کے گہرے نیلے آسمان کے نیچے سر سبز و شاداب باغات سنہرے لال سیبوں سے سدا لدے پھندے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments