دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ کا سراغ لگانے کی سنجیدہ کوشش کیوں نہیں ہوتی؟



دہشت پسند تنظیم دولت اسلامیہ عراق و شام جو کہ عام طور اپنے مخفف داعش کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے کی اپنے دشمنوں، حکومتی مخبروں، ”گناہ گاروں“ اور دیگر مخالفین کو دی جانے والی سزاؤں کو اگر دیکھیں تو انسان خوف سے لرز جاتا ہے اور معمولی دل گردے والا انسان ان کی سزاؤں پر مشتمل ویڈیوز کو ایک سیکنڈ بھی دیکھنے کا حوصلہ نہیں کر سکتا ہے، آپ دیکھ چکے ہوں گے کہ داعش کے لوگ انسانی جسم کو ٹکڑوں میں بانٹ کر اور لہولہان کر کے تسکین محسوس کرتے ہیں یا پھر روایتی طریقے کے ٹارچر سے بالکل ہٹ کر سزا دیتے ہیں مثلاً ان کی ایک اپنے دشمن کو دی گئی معروف سزا ایک پنجرے میں انسان کو بند کر کے کسی دریا یا تالاب میں وہ پنجرہ اتارنا ہے اور تب تک یہ پنجرہ پانی میں ڈوبا رہتا ہے جب تک وہ انسان تڑپ تڑپ کر مر نہ جائے، یہ وحشی لوگوں کے سروں میں سیدھا خنجر گھسیڑتے بھی ملتے ہیں اور کسی کو بلند پہاڑوں عمارتوں سے نیچے دھکا دیتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں، چھوٹے بچوں سے خنجر یا پستول سے کسی کو قتل کرنے کی بھی ان کی ایک عادت ہے۔

انسانی جسم سے بم باندھ کر اسے اڑانا ان کا سب سے محبوب ترین مشغلہ ہے اور اس طرز کی ان کی بہت سی ویڈیوز اور کہانیاں موجود ہیں۔ معصوم بچیوں سے زبردستی ان کے طویل القامت اور عمر رسیدہ لوگ اکثر شادیاں کرتے ہوئے نظر آتے تھے اور مزاروں پر ان کے وحشیانہ حملوں میں سینکڑوں لوگ گوشت کے کٹے پھٹے اور خون آلود لوتھڑوں میں تقسیم ہوتے ہوئے بھی ملیں گے، یہ اجڈ، گنوار اور وحشی نہ زندوں پر رحم کھاتے اور نہ ہی مردوں پر، ان کی وحشت کی کہانیاں بغداد و تدمر سے لے کر کابل کے گلی کوچوں تک میں پھیلی ہوئی ہیں، ان ہی سے متاثرہ گروہ جب پاکستان پر طالبان کی صورت حملہ آور ہوئے تو سب نے دیکھا کہ مینگورہ کا ایک چوک ”خونی چوک“ میں ڈھل کر انسانی لاشوں کو لٹکانے کے لیے ایک بدنام ترین مرکز بن گیا اور یہاں مخالف مسلک کے لوگوں کو لا کر ان کی گردن میں سوراخ کر کے پٹرول چھڑک کر آگ لگانے کی دہلا دینے والی باتیں بھی نکلیں اور بغیر محرم کے گھر سے نکلنے والی عورتوں کو یہاں سب کے سامنے کوڑے بھی مارے گئے اور کئی جگہوں پر سنگسار کرنے کے واقعات بھی پیش آئے لیکن جس طرح داعش کے مکروہ صورت کرداروں نے کم سن لڑکیوں کو اٹھانے کے بعد زبردستی شادیاں کیں اسی طرح پاکستان کے وحشی طالبان نے بھی کیا اور اپنے دہشت گردوں کی جسمانی تسکین کے لیے جوان اور کنواری لڑکیوں کی ڈیمانڈیں شروع کردیں اور پھر اس ضمن میں زبردستی کرنے کی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں مگر پھر جب آپریشن ہوا تو ان کے ٹھکانوں سے سینکڑوں ہزاروں بلیو پرنٹس فلمیں بھی برآمد ہوئیں جو کہ ان کی پارسائی کا پردہ چاک کرتی ہوئی ملیں اور کچھ جگہوں سے اطلاعات کے مطابق وسط ایشیائی ریاستوں، روس، پاکستان اور دیگر علاقوں کی خوبصورت ترین عورتوں کے حرم بنائے جانے کا انکشاف بھی ہوا جو کہ ان نام نہاد اسلام کے ٹھیکیداروں کی ”روحانی تسکین“ کے کام آ رہی تھیں، آپریشن کی کامیابی کے بعد جب ڈرے سہمے لوگوں سے ان مکروہ اور وحشی کرداروں بارے مختلف میڈیا والوں نے معلومات لیں تو یہ سنسنی خیز انکشاف ہوا کہ ان ”اسلامی عسکریت پسندوں“ کو مقامی لوگوں نے کبھی نماز تک پڑھتے نہ دیکھا تھا، مساجد کا رخ یہ نہ کرتے تھے اور ان کی حرکات و سکنات میں کہیں سے بھی یہ نہ لگتا تھا کہ یہ اعلی اقدار والے کسی دین کے پیروکار ہیں بلکہ شکل و صورت، عادات و مشاغل اور دیگر سرگرمیوں سے صاف لگتا تھا کہ ان کا تعلق کم از کم کسی اسلام سے تو نہیں ہے۔

اگر ہم نائجیریا کی دہشت پسند تنظیم بوکوحرام کے ”کارنامے“ دیکھیں تو وہ بھی یہی کام کرتے ملتے ہیں اور ان کا سارا زور بھی طالبان اور دیگر ”اسلامی“ عسکریت پسندوں کی مانند بے چاری عورتوں پر ہی چلتا ہے کہ بوکو حرام کے لوگ طالبات کے اسکولز پر حملہ کر کے تین تین چار چار سو طالبات کو اٹھا کر لے جاتے ہیں، خاکسار کی کچھ عرصہ قبل ایک تبلیغی جماعت کے ساتھ آئے لمبے تڑنگے نائجیرین سے بوکوحرام بارے گفتگو ہوئی جو کہ انگریزی کے سوا کچھ نہ سمجھتا تھا، جب خاکسار نے اس سے کہا کہ

”پاکستان میں طالبان کے حوالے سے ایک واضح تقسیم ہے کہ عوام کا ایک حصہ اس کی مکمل حمایت کرتا ہے اور یہ حامی ایسے اندھے ہیں کہ 67000 پاکستانیوں کے شہید ہونے کے باوجود بھی ان دہشت گردوں کے خلاف کچھ نہ بولتے ہیں بلکہ ٹی وی چینلوں پر ان کی کھلے عام بیٹھ کر سپورٹ تک کرتے ہیں۔ تو کیا نائجیریا میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے؟

تو اس نائجیرین نے عربی لہجے کی انگریزی میں پاکستان کے طالبان کے حامیوں کے سے انداز میں جواب دیا اور بوکوحرام کی شدت سے مخالفت سے گریز کیا جو کہ اس لیے بھی چونکا دینے والی بات نہ لگی کہ پوری دنیا میں ایسا ہی ہو رہا ہے، ایک طرف طالبان پر امریکی قیادت میں نیٹو ممالک مل کر چڑھائی کرتے ہوئے ملتے ہیں اور دوسری طرف دوحہ میں انہیں طالبان کو مختلف ملکوں کی جیلوں سے رہا کروا کر چارٹرڈ جہازوں میں بھر بھر کر مذاکرات کیے جاتے ہیں اور اب افغانستان کو انہیں طالبان کے حوالے کر کے امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے ہیں اور ان وحشی گروہوں کو عوام پر مسلط کرنے پر مہذب امریکہ اور یورپی ممالک سے کوئی سوال تک نہ کر سکتا ہے جو کہ گزشتہ تین دہائیوں سے دنیا کو جہنم بنائے پھرتے ہیں اور ان کے دامنوں پر ان گنت قتلوں کے نشانات میلوں دور سے ہی نظر آ جاتے ہیں، یہ وحشی جو نہ بچوں کو معاف کرتے ہیں اور نہ ہی جوانوں اور بوڑھوں کو اور جن کا سب سے مرغوب اور پسندیدہ فعل عورت ذات کی تذلیل کرنا اور اسے جینے کے حق سے محروم کرنا ہے، ان کی افغانستان میں دھڑلے سے واپسی بتا رہی ہے کہ دنیا بھر کے قاتلوں، دہشت گردوں، خونیوں اور وحشیوں کو ایک بار پھر افغانستان کی صورت ایک بڑا اور محفوظ ترین ٹھکانہ ملنے جا رہا ہے اور دکھ کی بات ہے کہ امریکہ نے نائن الیون کے بعد اسامہ کو نہ دینے پر ملا عمر اور اس کی حکومت کو تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا اور طالبان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی لیکن اگر امریکہ پاکستان، ایران، چین، وسط ایشیائی ریاستوں وغیرہ سے پوچھے تو وہ اس طرح پھر سے طالبان کو یوں افغانستان پلیٹ میں رکھ کر دینے پر کسی طور بھی خوش نہ ہوں گے خصوصاً پاکستان کہ جس نے اس گروہ سے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا اور پاکستانی قبائلی علاقے، کے پی کے اور پاکستان کے بڑے شہروں تک کو طالبان نے کئی سال لہو رنگ کیے رکھا تھا اور پھر چین بھی ہے جس کے پاکستان سے ملحقہ علاقے کو بھی ان عسکریت پسندوں نے ٹارگٹ کیا رکھا تھا اور کئی بار چین نے ان کی حرکتوں کی پاکستان سے شکایت کی اور یہ گروہ کس کی ایماء پر پاکستان اور بھر چین میں یہ کرتوت گھول رہے تھے؟

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہ ہے کم از کم پاکستان کبھی بھی چین سے دوست کے خلاف کوئی غلط قدم نہیں اٹھا سکتا لیکن یہ گلہ چینی سائیڈ سے ہوتا رہا اور ان تربیت یافتہ دہشت گردوں کو کوئی تو تھا جو کہ اسلحہ بھی دے رہا تھا اور بے تحاشا پیسہ اور مشورے بھی، چین میں ان گروہوں کی مالی و اسلحی معاونت تو بھارت امریکی آشیرباد کے بغیر کبھی نہ کر سکتا ہے؟ ویسے یہ سوال کون کس سے کرے کہ دنیا بھر کے داعش، طالبان، بوکوحرام اور اس طرز کے دہشت گردوں کو مالی اسپورٹ کون کرتا ہے اور وہ کون ہے جو اس اچھی بھلی دنیا کا امن تباہ کرنے کے درپے رہتا ہے؟

ایسا کون سا خفیہ ترین نیٹ ورک ہے جس کے ذریعے ان دہشت پسندوں کو مالی معاونت بھی ہوتی ہے اور اسلحی بھی اور ان کو ”فیوچر پلانز“ بھی دیے جاتے ہیں؟ حیرت ہے کہ دنیا کی شاندار، با وسائل، تیز طراز، طاقتور اور خطرناک حکومتی ایجنسیاں بھی آج تک اس کا سراغ لگانے میں ناکام رہی ہیں؟ یا انہوں نے سراغ لگانے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ہے؟ یہ آخری سوال بہت خطرناک ہے کہ ”آخر کوشش کیوں نہیں کی“؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments