والیِ خیرپور جن کے لیے ہیرا منڈی کی گائیکہ کا عشق جوگ سے روگ بن گیا

ریاض سہیل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، خیرپور میرس


خیرپور
بالی پاگلوں کی طرح دلشاد منزل میں بھاگتی دوڑتی رہی اور لوگوں سے منتیں کیں کے اس کو میر ناز تک جانے دیں، کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ وہاں پہنچیں تھیں لیکن میر ناز کی ہدایت کے مطابق اس کو ملنے نہیں دیا گیا یوں لاہور کی ہیرا منڈی سے شروع ہونے والی رومانوی داستان اپنے انجام تک پہنچی۔

والیِ خیرپور اور گائیکہ اقبال بیگم عرف بالی کی اس رومانوی داستان کو سندھ کی ماڈرن کلاسیک کہا جاتا ہے۔

میر علی نواز ناز والیِ خیرپور میر امام بخش کے بڑے فرزند تھے ان کی تربیت ولی عہد کے طور پر ہی کی گئی تھی وہ بیرون ملک زیرتعلیم رہے، کلیات ناز میں عطا محمد حامی لکھتے ہیں کہ نیر ناز آزاد فطرت رکھنے والی شخصیت تھے، ولایت کے بعد ان میں یہ عنصر اور بڑھ گیا میر امام بخش پرانے خیالات کا آدمی تھا ان کو یہ پسند نہ تھا انھوں نے اس کی وجہ کچھ نوکروں کو سمجھا جن کو فارغ کردیا جس پر میر ناز خفا ہوئے اور ان نوکروں سمیت جلاوطنی اختیار کرلی، کچھ عرصے کے بعد دل پسیجا اور بیٹے کو بلالیا۔

انڈیا میں اجمیر میں بھی رہے لیکن اس کے بعد لاہور میں اس وقت کے چیفس کالج میں بھیجا گیا جس کو بعد میں ایچی سن کالج کہا جانے لگا اس کالج میں راجہ ،نواب، سرداروں سمیت شاہی گھرانوں کے بیٹے زیر تعلیم تھے۔

وہ بالی کے آواز کے اسیر ہوگئے

سندھ کے ادیب اور بالی ڈرامہ کے مصنف ممتاز بخاری کے مطابق میر ناز شاعر تھے ان کے ایک دو مجموعے بھی شائع ہوچکے، انہیں رقص، گیت و سنگیت سے کافی دلچپسی تھے اس سلسلے میں ان کا لاہور کی ہیرا منڈی جانا ہوتا تھا ایک بار وہاں سے گذر رہے تھے تو ایک آواز سنائی دی یہ آواز ان کو بھا گئی۔

ممتاز بخاری بتاتے ہیں میر ناز کے جو محافظ تھے انھوں نے انہیں بتایا تھا کہ میر علی نواز نے تہیہ کرلیا کہ وہ اس شخصیت کے سامنے جائیں گے اسی نیت سے وہ ایک بار اس در پر پہنچے لیکن وہاں ڈیرہ غازی خان کے ایک نواب بیٹھے ہوئے تھے لہٰذا انہیں جانے نہیں دیا گیا لیکن ان کی بے چینی بڑھتی گئی کہ یہ کون ہے کس کی آواز ہے؟

بالاخر انہیں رسائی ہوئی ہو پتہ چلا کہ یہ اقبال بیگم ہیں جو اپنے وقت کے نامور گائیگ اور پٹیالا خاندان کے استاد عاشق علی خان کی زیرتربیت ہیں، جس سے ان کا تجسس اور بھی بڑھ گیا۔

والیِ خیرپور

بالی تک رسائی کی جدوجہد

میر ناز اقبال بیگم کے کوٹھے پر دھن و دولت لٹانا شروع کیا تو ان کی رسائی ہوگئی اور یوں ملاقاتوں کا آغاز ہوا وہ اس کی آواز کے بعد ان کے حسن پر بھی فدا ہوگئے اور اس کو پیار سے بالی پکارنے لگے اس طرح اقبال بیگم بالی بن گئیں۔

سندھ کے ادیب اور بالی ڈرامہ کے مصنف ممتاز بخاری کے مطابق بالی کے بھائی تھے ولن کے طور پر سامنے آئے ان کی کوشش کی تھی کہ میر اس پر یوں ہی فدا رہیں اور بالی انھیں قبول نہ کریں۔

بھائیوں کی جانب سے فرمائشیں اور تقاضے کیے جاتے وہ پوری کرتے یوں یہ سلسلسہ جاری رہا، ان ہی دنوں ان کا ایک مجموعہ آیا تھا ’آتش عشق‘ جس میں ان کے عشق کی بے قراری اور بے چینی عیاں ہوتی ہے۔

بالی سے معاشقے کی خبر خیرپور پہنچ گئی

ممتاز بخاری بتاتے ہیں لاہور میں ان کی سرگرمیوں اور اس معاشقے کی خبر خیرپور میں والیِ ریاست تک پہنچ گئی اور میر امام بخش نے انہیں واپس بلا لیا وہ نہیں چاہتے تھے کہ مستقبل کے والیِ ریاست کوٹھے پر جائیں، میر ناز نے والد کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ یہ کوئی عام خاتون نہیں ہے۔

جب وہ لاہور نہیں جاسکے تو بالی کے بھائیوں کو راضی کرکے اسے خیرپور لے آئے اور ان کے عشق کا چرچا اب عام ہوگیا، ممتاز بخاری بتاتے ہیں اس سے ان کے والد مزید خفا ہوئے۔ ان کا ایک مرشد تھا انھوں نے انھیں گذارش کی کہ وہ میر ناز کو کہیں کہ بالی کو واپس لے جائیں جس کے بعد میر ناز بالی کو لاہور چھوڑ آئے تاہم انھوں نے ارادہ کرلیا کہ وہ اس سے شادی کریں گے۔

عطا محمد حامی لکھتے ہیں کہ میر صاحب کی نظر بالی پر اور خاتون کی نظر ان کی دولت پر تھی وہ ساتھ آٹھ لاکھ کے زیورات اور جوہرات لے گئی تھیں۔

بمبئی کے گورنر کو مداخلت کی درخواست

میر ناز کے چھوٹا بھائی برطانوی فوج میں میجر تھے جو پہلی عالمی جنگ میں لڑ کر آئے تھے۔ ممتاز بخاری کے مطابق میر ناز نے ان سے کہا کہ آپ انگریرزوں سے کہیں کہ والد صاحب کو سمجھائیں، بالی کے بھائیوں نے بھی سختی کردی تھی ان کی پریشانی اور بے قراری بڑھتی گئی۔

انھوں نے ممبئی کے گورنر ایک خط لکھا اور ان سے مدد طلب کی، اس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ’میں بالی سے محبت کرتا ہوں اس کے جو بھائی ہیں وہ ملاقات میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں حالانکہ انھوں نے بہت پیسہ بھی ہتھالیا ہے۔‘

سندھ کے ادیب اور بالی ڈرامہ کے مصنف ممتاز بخاری بتاتے ہیں کہ اس خط پر برطانوی حکومت نے کوئی مداخلت نہیں کی۔ جب پرنسز کا ایک اجلاس ہوا اس میں شرکت کے لیے یہ بھی گئے تھے وہاں انگریز حکام نے انہیں سمجھایا گیا آپ کے والد صاحب یہ نہیں چاہا رہے ہیں کہیں یہ نہ ہو کہ وہ آپ کو ولی عہد کے عہدے سے ہٹادیں۔

والیِ خیرپور

گدی نشینی اور 17 توپوں کی سلامی

میر امام بخش بیمار ہوگئے بالاخر انکی وفات ہو گئی لیکن میر ناز کو 6 ماہ تک مسند پر بیٹھنے نہیں دیا گیا وہ قول قرار کرکے بالاخر گدی پر بیٹھ گئے وہ خیررپور ریاست کے چوتھے والی بنے۔

سندھ کے نامور تاریخ نویس مرزا قلیچ بیگ ’خیرپور ریاست‘ میں لکھتے ہیں کہ میر امام بخش نے 11 برس حکومت کی تھی میر علی نواز جوانی میں جا نشین ہوا، ان کی مسند نشینی پر سترہ توپوں کی سلامی دی گئی اس رسم کے لیے پولیٹیکل ایجنٹ مسٹر پوپ خیرپور تشریف لے کر آئے تھے اور انھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ والد کی طرح وفادار رہیں گے۔

خدائی تحریک کی بنیاد

میر ناز اور بالی کی رومانوی داستان میں جودھا اکبر کی کہانی کی بھی جھلک نظر آتی ہے، جس طرح شہنشاہ اکبر نے مذہبی ہم آہنگی کے لیے دین الہٰی کا تصور دیا اس طرح میر ناز نے دین اللہ کا تصور دینے کی کوشش کی۔

پیر علی محمد شاہ راشدی اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں جس زمانے میں میر صاحب کی نجی زندگی پر مخالفین نے حملے شروع کیے تو درباری مفکروں نے مشورہ دیا کہ میر صاحب ایک نئے مذہبی سلسلے کی بنیاد ڈالیں اور خود اس کے امام بن جائیں تاکہ عوام کا خیال ان کی ذاتی زندگی سے ہٹ جائے، اس سلسلے کو دین اللہ کا نام دیا گیا اس حوالے سے میر صاحب نے اپنے نام سے ایک تعارفی جریدہ بھی شائع کرایا۔

جبکہ ’کلیات میر ناز‘ میں عطا محمد حامی لکھتے ہیں کہ رانی پور کے مشہور ادیب و عالم حکیم محمد صادق سے اردو رسالے کا اجرا کرایا اور دین اللہ نام سے ایک خدائی تحریک کی بنیاد رکھی جس میں شرکت کے لیے تمام فرقوں کے مسلمانوں کو دعوت دی لیکن اکبر بادشاہ کے دین الٰہی کی طرح یہ بھی کامیاب نہیں ہوسکی۔

والیِ خیرپور

پورا خیرپور ہیرا منڈی بن گیا

ریاست کی باگ دوڑ ہاتھ میں آتے ہی میر ناز نے سب کو راضی کرکے شادی کرلی، ممتاز بخاری کا خیال ہے کہ یہ سال 1925 ہے جبکہ پیر علی محمد شاہ کا اندازہ ہے کہ 1923 یا 1924 ہے۔

پیر علی محمد شاہ راشدی سندھی میں اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’وہ دن وہ شیر‘ میں لکھتے ہیں کہ بالی اور اس کے بھائیوں نے جیسے شادی کی حامی جیسے مردہ جسم میں جان پڑ گئی ہو میر ناز نے دل کھول کر خرچہ کیا۔

پیر علی محمد شاہ بھی اس شادی کے ایک مہمان تھے وہ بتاتے ہیں ریلوے اسٹیشن کے پھاٹک سے لے کر ان دنوں میدان ہوا کرتا تھا یہ پورے میدان میں کیمپ لگائے گئے گرمی کا زمانہ تھا اس لیے جھونپڑیاں بنائی گئیں ان پر پانی پھینکا جاتا تاکہ کہ ٹھنڈی رہیں میر ناز کی اپنی رہائش اور شادی کی مجلس کے لیے بھی ایک ایسا ہی کیمپ بنایا گیا تھا۔

اندازہً 80 کے قریب طائفے لاہور، امرتسر، دہلی اور بمبئی سے آئے تھے طوائفوں کی رہائش کے لیے ہائی سکول اور بورڈنگ ہاؤس کی عمارتیں خالی کرائی گئیں تھیں جہاں سے طبلے کی تھاپ اور سارنگی کے سر سننے میں آتے تھے پورا خیرپور ہیرا منڈی بن گیا تھا۔

بہت بڑی تعداد میں مہمان تھے ہر مہمان کی طرف ایک طائفہ روانہ کیا جاتا تھا، پورے ہندوستان سے تماش بین خیرپور میں جمع ہوگئے تھے ناچ، گانا، آتش بازی، جادو کے کھیل، مشاعرہ، قصیدہ خوانی غرص کہ عیش و تفریح کی جو بھی چیز تصور میں آسکتی تھی وہ موجود تھی۔

راشدی لکھتے ہیں کہ ان کے کیمپ میں مختار بیگم امرتسری آئی یہ ان کا ابتدائی دور تھا بعد میں انھوں نے بہت شہرت حاصل کی۔ انھوں نے ایک ٹھمری سنائی تھی کہ ’میں توسے ناہیں بولوں رے‘، اس کے علاوہ بمبئی سے ہیرا بائی نامی طوائف آئی تھی جس کے بال اتنے لمبے تھے کہ زمین پر گرتے تھے وہ رقص کرتے انہیں جھٹکتی تھی۔

اس قصے کے آخر میں راشدی لکھتے ہیں کہ مجلس چلتے چلتے ریاست کا خزانہ خالی ہوگیا کئی روز طوائفوں کو اپنی فیس کی وصولی کے لیے دھکے کھانے پڑے۔

والیِ خیرپور

بالی کو فیض محل میں جگہ نہیں ملی

1786 میں میر سہراب خان نے خیرپور کو اپنی تخت گاہ بنایا بعد میں میر فیض محمد نے یہاں فیض محل تعمیر کیا جو اس وقت کے جدید محلوں میں شامل تھا جس میں راجستھان کا طرز تعمیر بھی نظر آتا ہے۔

میر ناز کی دو شادیاں پہلے سے تھیں جن میں سے ایک خاندان میں سے اور ایک اجمیر کے کسی گھرانے میں سے وہ بھی عشق کی تھی یہ ان کا دوسرا عشق تھا، بالی کو خاندانی کی مزاحمت کی وجہ سے فیض محل میں جگہ نہیں مل سکی انھوں نے اس کے لیے الگ سے دلشاد منزل کے نام سے ایک عمارت تعمیر کی گئی جس کو بالی بنگلہ بھی کہا جاتا ہے۔

اس وقت یہ زبون حالی کا شکار ہے جس میں دراڑیں پڑ چکی ہیں، چار کمروں، ایک ہال اور بڑے باغیچے پر مشتمل یہ عمارت تھی۔

والیِ خیرپور

ڈرامہ نویس اور مصنف ممتاز بخاری بتاتے ہیں کہ ’بیڈ روم کی چھت پر جو پینٹنگس تھیں ان کو بھی وائٹ واش کردیا گیا ہے، بعض لوگ انہیں برہنہ سمجھتے تھے لیکن وہ فائن آرٹ کا بہترین نمونہ تھیں، عمارت کی چھت اور بیڈ روم میں چاروں اطراف میں شیشے لگے ہوتے تھے جو تھری ڈی مناظر پیش کرتے، ہال میں مشاعرے طرز کی محفل ہوتی تھی باہر باغیچے میں محفل رچائی جاتی جہاں بالی میر علی نواز کے علاوہ غالب اور صوفیانہ کلام سناتی تھیں۔‘

بالی کو ہر صبح گلابوں میں تولا جاتا

صبح کا آغاز رومانوی انداز میں ہوتا تھا بالی کو گلابوں میں تولا جاتا اس کے بعد میر ناز ان پر پھول نچھاور کرتے تھے، جب کبھی وہ لاہور یا باہر جاتیں واپسی پر خیرپور سٹیشن پر وکٹوریہ بگی میں میر ناز ان کا استقبال کرتے راستے میں پھول بچھائے جاتے۔

دلشاد منزل کے قریب دلشاد باغ بنایا گیا تھا جو اس وقت سکڑ گیا ہے۔ جہاں دونوں چہل قدمی کیا کرتے، ساتھ میر واہ نامی نہر ہے جس کے پل کے درمیان جھولے باندھ کر جھولتے تھے، انھوں نے ایک خصوصی کشتی بھی بنوائی تھی جس میں سیر کے لیے جاتے تھے۔

ممتاز بخاری بتاتے ہیں کہ صحرا میں انھوں نے ایک پتھر کا تختہ بنوایا تھا اس کو پیر دلبر کہتے تھے جس پر بالی کو بٹھاتے تھے اور اس کو پیر دلبر مخاطب ہوتے تھے جہاں انہیں سنتے تھے۔

معززین کی بھری ٹرین بالی کو منانے گئی

ان کے عشق کا المیہ یہ تھا چھوٹی چھوٹی باتوں پر بالی بیگم ناراض ہوکر لاہور چلی جاتی تھیں۔ ان کی معاشی حالات خراب ہوتی گئی جبکہ بالی کے بھائی امیر سے امیر تر ہوتے گئے۔

ممتاز بخاری بتاتے ہیں کہ اس وقت کے بعض چشم دید گواہ لکھتے ہیں کہ ان کے بھائی بگو میاں اپنی بیڑی برطانوی کرنسی نوٹ سے جلاتے تھے جس پر کنگ ولیم فائیو کی تصویر لگی ہوتی تھی وہ میر ناز کی کمزوری کو بھانپ چکا تھا اس لیے بالی کو لاہور لے جاتا تھا اور اپنی فرمائش کرکے واپسی ہوتی۔

والیِ خیرپور

ایک مرتبہ تو ایسا بھی ہوا کہ بالی روٹھ گئیں اس کو منانے کے لیے میر ناز نے ریاست کے لوگوں سے ایک سال کا ایڈوانس لگان لیا اس کے بعد ایک پوری ٹرین بک کرائی جس میں معززین کی ایک بڑی تعداد کو گذارش کی کہ وہ ان کے ساتھ چلیں وہ یہ ٹرین لے کر لاہور پہنچے اور بڑی مشکل سے بالی کو مناکر واپس لائے۔

یہ بھی پڑھیے

قرون وسطیٰ کی فارسی شاعرائیں جنھوں نے محبت کو ایک نئی زبان دی

’دلیپ کمار کی محبوبہ، دوست اور جیون ساتھی سبھی کچھ سائرہ بانو ہی تو تھیں‘

مانڈو اور عشق و محبت کی داستان

’میں رخسانہ کا نام روز ہاتھ پر لکھتا اور پھر قسمت سے وہ مجھے مل ہی گئی‘

جب انگریز سرکار نے میر کے اختیارات محدود کر دیے

برصغیر میں تبدیلی کروٹیں بدل رہی تھی، علامہ اقبال جدا ریاست کا نظریہ پیش کرچکے تھے گاندھی نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کردی تھی، جس کے اثرات خیرپور کے آس پاس کے شہروں سکھر، شکارپور اور دیگر پر بھی ہو رہے تھے لیکن میر ناز ان سب سے بے نیاز تھے۔

ممتاز بخاری کے مطابق ریاست چلانے میں مشکلات ہو رہی تھیں انگریز سرکاری کا دباؤ بڑھ رہا تھا انگریز نالاں ہوتے کیونکہ وہ سارا خزانہ بالی کو منانے اور آؤ بھگت کرنے میں خرچ کردیتے تھے۔

’کلیات میر علی نواز‘ میں عطا محمد حامی لکھتے ہیں کہ خزانہ خالی ہونے لگا اس قدر کے کچھ ماہ سرکاری ملازمین کو تنخواہ تک نہیں مل سکی یہ حال دیکھ کر برطانیہ سرکار نے حکومت کا انتظام ایک کونسل کے سپرد کردیا جس کی وجہ سے میر کے اختیارات کم ہوگئے۔ بڑی تگ و دو کے بعد انھوں نے تین سال کے بعد یہ کونسل ختم کرائی وہ آئینی سربراہ تو تھے لیکن حکومت کا کاروبار ایک انگریز افسر کی نگرانی میں تھا انہیں محدود وظیفہ دیا جانے لگا جس سے ان کا خرچہ پورا نہیں ہوتا تھا۔

والیِ خیرپور

پیر راشدی اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں ’میر ناز اپنے وقت کے سخی شخص تھے پیسے ختم ہوجاتے تو خود آکر خزانے کے دورازے کھلواتے تھے، کبھی کبھار تو ان تجوریوں میں چار آنے پڑے ہوتے تھے ایک بار ان سے کوٹڈیجی میں ملاقات ہوئی اور کچھ نہیں پا کر شکار کیا گیا ایک تلور پرندہ تحفے میں دیا اور حجاب سے آنکھیں نیچے کرلیں۔‘

حفیظ جالندھری سے ناراضگی

میر ناز کی اردو، فارسی اور سندھی میں شاعری کے مجموعوں کے علاوہ یورپ کی سیاحت پر کتابیں موجود ہیں اس کے علاوہ انھوں نے دو صفحوں پر داستان لیلی مجنوں بھی تحریر کی جو اردو اور انگریزی زبان میں موجود ہیں جس میں ایک خیالی تصویر دے کر اس پر تبصرہ کیا گیا تھا۔ مولانا حسرت موہانی، حکیم محمد شجاع اور حفیظ جالندہری سمیت کئی شعرا ان کے دوست تھے جو خیرپور ریاست میں قیام کرتے اور محفلیں ہوتی تھیں۔

پیر علی محمد راشدی لکھتے ہیں کہ حفیظ جالندھری نے شاعرانہ مستی اور موج میں ایک نظم لکھی جس کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ اس میں بالی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے یہ حفیظ کے مجموعہ ’سوز وساز‘ میں ایک رقاصہ سے خطاب کی عنوان سے موجود ہے۔

اٹھی ہے مغرب سے گھٹا، پینے کا موسم آگیا

ہے رقص میں اک مہ لقا

نازک ادا ناز آفریں

عشق میں دراڑیں پڑ گئیں

ان ناز نخروں اور روٹھنے کی وجہ سے ان کی محبت میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں، ممتاز بخاری کے مطابق وہ ڈتی فقیرانی نامی خاتون کے مرید ہوگئے جو انہیں کبیر اور صوفیانہ کلام سناتی تھیں جس سے ان کو راحت ملتی تھی۔ پیر علی محمد شاہ راشدی لکھتے ہیں کہ امیری کے ساتھ انھوں نے فقیری بھی اختیار کرلی نارنجی چولا اور سر ننگا ہاتھ میں یکترا لیے عشق کی صدائیں لگاتے۔

ممتاز بخاری بتاتے ہیں میر ناز بیمار بھی رہنے لگے اب وہ روٹھ جاتے یوں بالی کو احساس جاگنے لگا کہ میر ناز کا عشق حقیقی ہے لیکن اس وقت تک دیر ہوچکی تھی، جب ان کی طبعیت زیادہ خراب ہوگئی تو صحرا میں خیمہ زن ہوگئے اور سختی سے منع کردیا کہ بالی کو یہاں نہیں آنے دیا جائے وہ ان کا چہرہ نے دیکھیں بالاخر 1935 کو وہ وفات پا گئے اس وقت ان کی شادی کو صرف دس سال ہوئے تھے۔

میر ناز کی امانت تدفین کوٹڈیجی میں کی گئی اس کے بعد میت کربلا منتقل کردی گئی اس کے بعد 1967 کے قریب بالی بھی وفات پا گئیں ان کو بھی کربلا میں ان کے پہلو میں دفن کردیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32556 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp