’پردیس‘ ڈرامہ کی اداکارہ درِفشاں سلیم: ’ڈراموں میں باوقار اور اچھی عورت وہ ہے جو سمجھوتہ کرنے پر ہر دم راضی ہو جاتی ہیں‘


‘میں اقربا پروری کے لفظ سے اتفاق نہیں کرتی۔ کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ آپ کے ماں، باپ، بھائی بہن، ہمیشہ وہی آپ کی حمایت کرتے ہیں۔ چاہے آپ ڈاکٹر ہو، انجنئیر ہو، یا اداکار ہو۔ میں چاہوں گی کہ میری جو بھی اولاد ہو میں اس کو بہتر سے بہتر سہولت دوں۔ تو اس کے بعد وہ اولاد کیا کرے، وہ اس کی اپنی صلاحیت پر منحصر ہے۔ لیکن اقربا پروری والی بات پر میں یقین نہیں رکھتی۔‘

یہ کہنا تھا لاہور سے تعلق رکھنے والی نوجوان اداکارہ درِفشاں سلیم کا جن کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے جہاں انھوں نے آنکھ کھولتے ہیں کیمرا، لائٹس اور ایکشن دیکھا ہے۔

درِفشاں سلیم کے والد سلیم الحسن ایک طویل عرصے تک پاکستان ٹیلیویژن کے لیے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کرتے رہے ہیں اور درِفشاں سلیم کہتی ہیں کہ بچپن میں اکثر ان کے گھر پر سیٹ لگے ہوئے ہوتے تھے اور معروف اداکاروں کا گھر پر آنا جانا تھا۔

‘اقربا پروری سے صرف دروازے جلدی کھلتے ہیں‘

ایسے ماحول میں پلے بڑے ہونے پر اور پھر اداکاری کے میدان میں آنے پر جب بی بی سی کے لیے صحافی براق شبیر نے درِفشاں سلیم سے اقربا پروری کے بارے میں مزید پوچھا تو درِفشاں سلیم کا کہنا تھا کہ اگر صرف اقربا پروری پر ان کو کام مل رہا ہوتا تو ڈرامے ‘دلربا’ میں ان کا ایک چھوٹا کردار نہ ہوتا۔

تاہم انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ اقربا پروری کی مدد سے وہ دروازے ضرور کھل جاتے ہیں جس کے لیے دیگر لوگوں کو سال سال، دو دو سال لگ جاتے ہیں۔

‘مجھے اب لگتا ہے کہ جس دور میں ہم رہ رہے ہیں، اس میں آڈیشن دینا، لوگوں سے ملنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ ہم سب کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں ابھی بھی مشکلات سے گزر رہی ہوں۔ تو میرے خیال میں ایک راستہ ہوتا ہے اور ایک سفر ہوتا ہے جس سے آپ کو گزرنا ہوتا ہے، لیکن اقربا پروری کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، کم از کم میرے کرئیر میں اب تک تو نہیں۔’

ڈارموں میں صرف سمجھوتہ کرنے والی عورت اچھی اور باوقار

پاکستانی ڈراموں میں عورتوں کے کردار اور ان پر لکھی گئی کہانیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے درفشاں کہتی ہیں کہ ان کے یہ لگتا ہے کہ ٹی وی ڈراموں میں چلنے والا بیانیہ عورت کا ہی ہوتا ہے اور وہ معاشرے کی ہی عکاسی کر رہا ہے۔

تاہم ان کا اس پر تبصرہ تھا کہ پاکستانی ڈراموں کو اس بات پر سوچنا چاہیے کہ وہ کرداروں کی ایسی نمائندگی کریں جس کی مدد سے معاشرے میں تبدیلی لانے کے بارے میں سوچا جائے۔

ٹی وی ڈراموں پر عورتوں کے کردار کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ہم اسی عورت کو باوقار اور اچھی عورت کے طور پر دیکھتے ہیں جو سمجھوتہ کرنے پر ہر دم راضی ہو جاتی ہیں۔

‘ہم نے دیکھا ہی یہی ہے اپنی زندگیوں میں۔ ہمارے ڈراموں میں ہیروئن کا کردار ہمیشہ ایک مثبت کردار کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ اس میں اچھائی اور برائی دونوں عنصر شامل نہیں ہوتے، تو میرا یہی اختلاف ہے کہ سکرپٹ رائٹر سے یا کسی سے بھی کہ کوئی انسان صرف اچھا کیسے ہو سکتا ہے۔ ہم سب ‘گرے’ ہیں۔ ہم سب میں اچھائیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی۔ ہاں کچھ میں اچھائی زیادہ ہوتی ہے۔ تو بس مجھے یہ ہوتا ہے کہ ہم سے کوئی اتنا اچھا تو نہیں ہے تو ہم کیوں ایسی نمائندگی اپنے ٹی وی پر کر رہے ہیں۔’

اس کی مثال دیتے ہوئے وہ پردیس میں ایک کردار ‘زبیدہ’ کے بارے میں کہتی ہیں کہ شاید یہی ہماری عوام دیکھنا چاہتی ہے جن کو اسی طرح دکھایا ہے کہ وہ حالات سے سمجھوتہ کر رہی ہے اور وہ اس حد تک سمجھوتہ کرنے پر تیار ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نظر انداز کر رہی ہے۔

‘مجھے لگتا ہے کہ ہمارے ٹی وی پر ایک ‘گرے’ کردار، یعنی ایک نارمل شخص، ایک نارمل عورت کا کردار ابھی تک پیش نہیں کیا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ آئی ہوں لیکن بہت کم۔ کیونکہ ہم تعریف ہی اس کردار کی کرتے ہیں تو صرف رو رہی ہوتی ہیں یا وہ انھی مردوں کے پاس واپس جا رہی ہوتی ہیں جنھوں نے ان کی تضحیک کی ہوئی ہوتی ہے۔’

تاہم وہ کہتی ہیں کہ پردیس جیسے ڈراموں کے سکرپٹ میں موازنہ بھی دکھایا گیا ہے۔

اس ڈرامے میں وہ ایمن نامی لڑکی کا کردار ادا کر رہی ہیں جس کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ جہاں ایک جانب زبیدہ ہے تو وہیں دوسری جانب ایمن بھی ہے اور سکرپٹ میں ان دونوں کا اچھا موازنہ کیا گیا ہے حالانکہ ایمن زبیدہ کی بیٹی ہے۔

‘ہمیں اس قسم کے سکرپٹ لکھنے کی ضرورت ہے جہاں ہم دیکھیں کہ ایک عورت صرف سمجھوتہ کرنے کے لیے نہیں ہے، وہ اس سے بڑھ کر ہے۔’

نایاب کرداروں کی تلاش

درفشاں سلیم نے کہا کہ ان کا خواہش ہے کہ وہ ایسے کردار نبھائیں جن میں نہ صرف معاشرے کی عکاسی ہو، بلکہ اس کی کہانی معاشرے کو سدھارنے میں بھی مدد کر سکیں۔

‘میں ایسے کرداروں کی تلاش میں ہوں لیکن یہ بہت کم لکھے جاتے ہیں۔ آپ کو وہی کردار ادا کرنے ہوتے ہیں جو بار بار ایک ہی بیانیے کو لے کر چلتے ہیں۔ میری ابھی بہت کوشش ہے کہ میں وہ نہ کروں، لیکن مجھے بہت ڈانٹ پڑتی ہے ارد گرد سے کہ اتنی ‘چوزی’ نہ بنو لیکن میں کہتی ہوں کہ اگر ابھی نہیں تو کب؟’

تو کیا اپنی مرضی کی کہانیاں اور سکرپٹ نہ ملنے کی صورت میں وہ خود کوئی رد وبدل کرنے کا رجحان رکھتی ہیں؟

اس سوال پر درِفشاں کا کہنا تھا کہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر اداکار کو سکرپٹ سے اختلاف ہے تو بہتر ہے کہ وہ اس پر کام ہی نہ کریں کیونکہ کسی اور کے نقطہ نظر کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے اور دوسرا یہ کہ ایک لکھاری اپنی سوچ اور اپنے حساب سے کہانی لکھ رہا ہوتا ہے۔

‘آپ لکھاری سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن جا کر اسے اپنی مرضی سے تبدیل نہیں کر سکتے۔اگر مجھے کوئی کہانی نہیں پسند تو مجھے لگتا ہے کہ میں اس کا کردار بخوبی طور پر نہیں نبھا سکتی تو میں وہ کرتی ہی نہیں ہوں اور ابھی تک تو میں کوشش کر رہی ہوں کہ ایسا نہ کروں لیکن آگے دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔’

اداکاری کی خواہش پر والدین نے ہنسی میں اڑا دی

اداکاری کے میدان میں اترنے کے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے درِفشاں کہتی ہیں کہ وہ بچپن سے ہی اداکارہ بننا چاہتی تھیں۔

‘میرے والد پروڈیوسر ہیں اور میں نے بچپن سے ہی سیٹ، میڈیا وغیرہ اپنے ارد گرد دیکھا ہے۔ تو یہ کچھ نیا نہیں تھا لیکن ہمیں بڑے خیال سے رکھا جاتا تھا۔ میرے والدین کا ہمیشہ سے یہ کہنا تھا کہ پڑھائی کو ترجیح دو تو میں نے کبھی اس دنیا کو کھلی آنکھ سے نہیں دیکھا۔ میں ہمیشہ سے اداکار بننا چاہتی تھی لیکن میں نے کبھی اپنی اس خواہش کا اظہار نہیں کیا اور والدین کو کبھی نہیں بتایا۔ میں بڑا پڑھاکو بچہ تھی ایک وقت پر۔’

درفشاں بتاتی ہیں کہ جب وہ بیرون ملک سے وکالت کی ڈگری لے کر واپس آئیں تو اپنی والدہ کو اپنی اداکاری کے خواہش کا بتایا تو ان کی تو ہنسی ہی چھوٹ گئی۔

‘میری والدہ کو لگا کہ بس یہ وقتی جنون ہے۔ والد کو بھی یہی کہا تو وہ خاموش رہے۔ ان کا بس یہ تھا کہ اتنی ڈگری حاصل کی ہے تو اب اس کے بعد سی ایس ایس کرو، میری والدہ بھی یہی چاہتی تھیں۔ تو بس چند ماہ تک یہی چلتا رہا۔ پھر کچھ عرصے بعد میری والدہ نے کہا کہ اس کو جانے دیں، نہ اسے اداکاری آتی ہے نہ اسے کچھ اتا پتا ہے، بس کیا شوق آ گیا ہے ایک دم سے، پورا بچپن کچھ نہیں کیا۔ اب اس کو کیا شوق آ گیا ہے۔’

اس فیلڈ میں داخل ہونے کے بارے میں بات کرتے ہوئے درِفشاں سلیم کہتی ہیں کہ اس کے لیے ان کے والد کے دوست کاشف محمود نے بہت مدد کی اور حمایت کرتے ہوئے ان کے والدین کو اس بات پر تیار کیا کہ وہ اپنی بیٹی کو آڈیشن کرنے کے لیے جانے دیں۔

‘کاشف انکل کے کہنے پر میں گئی اور آڈیشن دیا اور بہت سارے پروڈکشن ہاؤسز کو آڈیشن دیا۔ اس کے ایک ہفتے کے بعد ہی مجھے فون آنے شروع ہو گئے اور اس طرح مجھے دلربا میں کام ملا۔’

درِفشاں سلیم کہتی ہیں کہ دلربا ڈرامے میں کام مکمل کرنے کے بعد جب وہ واپس لاہور گئیں تو اس وقت کووڈ کی وبا کے باعث ملک بھر میں لاک ڈاؤن لگ گیا تھا اور ان کی والدہ نے ان کو کہا کہ اب وہ کہیں باہر نہیں جائیں گی جب تک کہ یہ سارے معاملہ حل نہ ہو جائیں۔

‘ پھر ایک روز میں کچن میں کام کر رہی تھی جب میرا فون بجا اور سر ندیم بیگ فون پر تھے اور انھوں نے کہا کہ ایک اچھی سیریل ہم شوٹ کر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کب، تو انھوں نے کہا کہ بس دو ہفتے میں جانا چاہ رہے ہیں۔ وہ تو کووڈ کے عروج کا دور تھا اور ساری فلائٹس بھی بند تھیں۔ پھر میرے ایک دوست نے مجھے بذریعہ روڈ کراچی تک پہنچایا جہاں پھر میں نے ’بھڑاس‘ ڈرامے میں کام شروع کیا بالکل کووڈ کے زمانے میں۔’

’خوش قسمت ہو اچھے لوگ ملے‘

اپنی اداکاری کے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے درِفشاں سلیم کہتی ہیں کہ وہ اس سفر میں بہت خوش قسمت رہی ہیں کہ ان کو اس شعبے میں بہت اچھے لوگ ملے ہیں۔

‘میں یہ نہیں کہوں گی کہ سب اچھا ہے ، یا سب برا ہے۔ مجھے سیکھنے کو بہت کچھ ملا ہے۔ لوگ بہت اچھے مل گئے۔ میری ماں ہمیشہ یہی کہتی ہیں مجھے کہ تم بہت خوش قسمت ہو کیونکہ تم کو اچھے لوگ مل جاتے ہیں۔ میں بھی خود کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں کیونکہ جن لوگوں کے ساتھ میں نے شروع کیا کام وہ بہت زبردست لوگ ہیں۔ وہ ٹیلنٹ کو سراہتے ہیں۔ آپ کو آگے بڑھنے کا موقع دیتے ہیں اور ہمت بڑھاتے ہیں۔ آپ کو وہ چھوٹا یا ناتجربہ کار نہیں سمجھتے۔’

مرینہ خان کی ہدایتکاری میں بننے والے اپنے تازہ ترین ڈرامے پردیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے درفشاں کہتی ہیں کہ ان کی مرینہ خان سے پہلے سے ہی واقفیت تھی کیونکہ ان کے کرئیر کا پہلا ڈراما ’دلربا‘ بھی انھی کے ساتھ تھا۔

درفشاں کہتی ہیں کہ مرینہ خان کے ساتھ کام کرنے میں ان کا بہت لطف آتا ہے کیونکہ نہ صرف وہ ان کو پہلے سے جانتی ہیں بلکہ بحیثیت ہدایتکار بہت حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔

‘ان کے کام کرنے کا طریقہ بہت فرق ہے باقی ڈائریکٹرز کے مقابلے میں۔ میں نے زیادہ لوگوں کے ساتھ کام تو نہیں کیا ہے لیکن ان کا ایک بڑا قدرتی اور سادہ طریقہ ہے۔ وہ کسی اداکار کو تھکاتی نہیں ہیں۔ کسی بھی ڈائریکٹر کے ساتھ کام کرنے کی سب سے اچھی چیز یہ ہوتی ہے کہ، جو ان کا بھی ہے، کہ ان کو پتا ہوتا ہے کہ اداکار کس ماحول میں ہے، اور اس سے کس طرح کام کرایا جا سکتا ہے۔’

ڈرامے پردیس میں اپنے دیگر ساتھی اداکاروں، بشری انصاری اور سرمد کھوسٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے درفشاں کہتی ہیں کہ جب انھیں بتایا گیا کہ وہ بشری انصاری کے ساتھ کام کر رہی ہیں تو وہ بے حد خوش تھیں لیکن وہ ڈرامے میں ان کو صرف ایک سین ساتھ کرنے کا موقع ملا۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

’مجھے باتیں کرنے کا شوق تھا اور کام بھی ویسا ہی مل گیا‘

رقصِ بسمل کی اداکارہ سارہ خان ’ہمیشہ‘ مردوں کو برا دکھانے پر نالاں کیوں؟

’خواتین کو اب کمزور کے بجائے طاقتور دکھانا چاہیے‘

ہم عمر لڑکی کی ماں کا کردار میرے لیے ایک جُوا تھا: رابعہ بٹ

البتہ سرمد کھوسٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے درفشاں کا کہنا تھا کہ وہ نہ صرف ان کے انتہائی قریبی دوست ہیں بلکہ ان کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔

‘ان کے ساتھ تو کام کرنے کا اتنا مزہ آتا ہے کیونکہ وہ اتنے قدرتی اداکار ہیں۔ آپ کا کوئی کمال نہیں ہوتا اگر آپ اچھی اداکاری کریں سرمد کے سامنے، کیونکہ سرمد آپ کو ایسے جذبات دیتے ہیں اور ایسی قوت دیتے ہیں ایک سین کرنے میں کہ جب آپ اسے کرنے میں گم ہو جاتے ہیں تو آپ خود کو روک نہیں سکتے۔’

درفشاں کہتی ہیں کہ جب وہ سرمد کھوسٹ کے ساتھ کوئی سین کرنے کے بعد ان سے کہتی ہیں کہ اگر وہ ذرا بھی اچھی اداکاری کا مظاہرہ کر سکی ہیں تو سرمد کی بدولت ہی ممکن ہے۔

‘وہ اپنی آنکھوں سے جذبات پیش کر سکتے اور اور ایک اداکار کی خوبی ہی یہی ہوتی ہے۔’

درفشاں

میری دوستیاں صرف کام تک محدود ہیں

شوبز کے شعبے میں اپنی دوستیوں اور ساتھی اداکاروں کے ساتھ تعلق پر درفشاں سلیم کہتی ہیں کہ ان کا شمار ان لوگوں میں سے ہوتا ہے جو کام کو کام کی حد تک رکھتے ہیں۔

‘میری سب سے اچھی دوستی ہے لیکن ان سب کو مجھ سے یہ گلہ رہتا ہے کہ تم سیٹ پر تو بالکل مختلف شخصیت کی ہوتی ہو اور اس کے بعد پہچانتی ہی نہیں ہو، کال نہیں کرتی، ملاقات نہیں کرتی، ساتھ نہیں آتی ہو۔’

درفشاں کا اس بارے میں کہنا تھا کہ وہ اپنے گھر میں ہی رہنا زیادہ پسند کرتی ہیں اور شوٹ ختم ہوتے ہیں لاہور واپس چلی جاتی ہیں۔

‘میرے لیے یہ جگہ (کراچی) صرف کام کے لیے ہے۔ مجھے اپنا کام بھی بہت پسند ہے اور اب تو مجھے کراچی بھی بہت بھا گیا ہے لیکن میری دوستیاں صرف کام تک محدود ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp