اختلاف رائے اور ہمارا معاشرہ


اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے
مگر وجود کا میرے بھی اعتراف کرے

جو ریاستیں رائے عامہ  کا احترام کرتی ہیں، اسے عوام کا حق خیال کرتی ہیں اور ہماری ریاست کی طرح نت نئے بیانیے سے لیس اس کی عصمت دری سے اپنا منہ کالا نہیں کرتیں۔ وہاں رائے عامہ کسی سگھڑ بہو کی طرح قدم دھرتی ہے اور اپنے مبارک وجود سے لوگوں کے فکرو خیال کو جلا بخشتی ہے۔ رائے عامہ کے بطن سے جو پہلا بچہ جنم لیتا ہے وہ اختلاف رائے ہے جسے معاشرے سے پدرانہ شفقت کی ضرورت ہر لمحہ رہتی ہے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے اور فصل نزع کی صورت میں اپنے وجود میں مضمر تعمیری کردار ادا کر سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں موجود سلیم طبع اذہان کی علمی اور فکری معراج کا سامان کرسکے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں ابن الوقت قسم کے بیانیوں کے ہاتھوں عصمت دریدہ رائے عامہ جس فکری طور پر کمزور اور ناقص قسم کی اختلاف رائے کو جنم دیتی اسے بھی ہمارے ہاں گستاخی اور اہانت شمار کیا جاتا۔ ہماری درسگاہیں اور معاشرہ اختلاف رائے کا احترام سکھانے میں ناکام رہے ہیں بلکہ رائے مسلط کرنے اور دوسرے سے اختلاف رائے کے ساتھ جینے کا حق چھین لینے کی ترغیب دیتے ہیں، جس وجہ سے کئی لوگ موت کی وادی میں دھکیل دیے گئے ہیں۔

اس معاملے میں ہمارا رجعت پسند طبقہ صف اول میں ہے۔ اس ساری صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان مذہب کا ہوا ہے، اختلاف رائے کے احترام سے نابلد مذہبی احباب آپس میں تو دست و گریباں رہتے ہی ہیں لیکن مذہب پر اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب بھی دلیل کی بجائے بندوق سے دینے پر اکتفا کرتے ہیں جو الحاد کا سبب بنتا ہے یا ہمیں جاوید احمد غامدی صاحب جیسے لوگوں کی جدائی بھی برین ڈرین کی صورت میں برداشت کرنا پڑتی ہے جن کا وجود کسی آب حیات سے کم نہیں ہوتا۔

دوسری طرف ہمارا نام نہاد لبرل طبقہ ہے وہ جس فکر کو ہم پر مسلط کرنا چاہتا ہے ہم ابھی اس کے متحمل نہیں ہیں اور یہ طبقہ محض لباس اور فیشن کی حد تک جدید ہے، ان کے ہاں اختلاف رائے کو جہالت اور برقع پوش تصور کیا جاتا ہے، آپ دنیا جہاں کی نعمتوں کو ان کے قدموں میں ڈال دیں لیکن یہ اس وقت تک آپ کو ترقی پسند اور صاحب فہم و فراست نہیں سمجھتا جب تک آپ آزادانہ جنسی تعلقات کو جائز نہیں سمجھتے لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے اس لیے یہ بندوق کی بجائے پراپیگنڈے کا سہارا لیتے ہیں لیکن اختلاف رائے کے ساتھ دوسروں کو جینے دینے کا حوصلہ ان میں بھی نہیں ہے۔ یوں سماج میں ایک ڈیڈ لاک کی سی کیفیت ہے اور ہمارا معاشرتی تنوع جمود کا شکار ہے۔

اس جمود کو اسی صورت توڑا جاسکتا جب تمام مکاتب فکر کو آزادانہ اپنی اپنی تعلیمات کے شیوع کا موقع دیا جائے اور اجتماعی معاملات میں نزع کا فیصلہ وامرہم شورٰی بینھم۔ ﴿الشوریٰ2 4:کی بنیاد پر کیا جائے، اگر کوئی طبقہ اس فیصلے کو غلط سمجھتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کے خلاف فکری جدوجہد کرے نہ کہ عسکری اور معاشرے کو اس فکری عمل کی، جو اختلاف رائے پر مبنی ہے، حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

اس دنیا میں کوئی بھی نقطہ نظر مکمل طور پر درست نہیں ہے ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم سچ کے قریب پہنچ جائیں اور سچ کیا ہے اس کا فیصلہ بحر حال لوگوں نے کرنا ہے۔ طاقت کے زور پر محض مادی تبدیلی تو لائی جا سکتی ہے مثال طور پر کوئی ادارہ بنایا جائے یا کوئی لینڈ ریفارمز کردی جائیں لیکن ایک دم سے فکری تبدیلی لانا ناممکن ہے۔ کسی گروہ کا یہ خیال کرنا کہ سب ایک طرح سوچیں اور اس ضمن میں وہ دوسروں کو انسان ہی نہ سمجھے نہایت انسانی معیار گری ہوئی بات ہے، بقول غالب

بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

مزید یہ کہ پچھلے کچھ عرصہ سے ہمارے ارباب دانش صنف نازک کی جامہ زیبی میں ہی پھنس کے رہ گئے ہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ایک طبقہ جامہ اتارنے اور دوسرا کئی جامے پہنانے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کر رہا ہے۔ ہے تو یہ اختلاف رائے لیکن زمانے میں اور بھی غم ہیں محبت کے سوا کے مصداق میں ہمیں کچھ اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments