بچوں کو کیسے بچائیں؟


کل صبح دفتر آئی تو خبر ملی کہ کورنگی میں چھہ سالہ بچی کی لاش ملی جو شب کو لاپتہ ہو گئی تھی، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اس سے زیادتی ثابت ہوئی، مزید تفصیل پڑھی تو دماغ ماوف ہو گیا، ننھی بچی کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اس کا منہ اور ناک بند کر کے زیادتی کی گئی، اس دوران اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ جاں بحق ہو گئی۔ قاتل پکڑا گیا اور وہ اس کا پڑوسی نکلا۔

بچی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ پڑھ کر مجھے قصور کی زینب یاد آ گئی جسے اس کے پڑوسی نے اغوا کیا۔ کئی روز تک زیادتی کا نشانہ بنایا پھر قتل کر کے کچرا کنڈی میں پھینک دیا اور پھر گھر والوں کے ساتھ اسے ڈھونڈنے بھی نکل کھڑا ہوا۔ بچی کی میت ملنے کے بعد جنازے میں اور والد کو دلاسے دینے میں بھی آگے آگے تھا۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال ایک ارب بچے مختلف قسم کے تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ بہت سے ممالک میں بچوں کے خلاف تشدد کے حوالے سے قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔

پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی جرائم کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ رواں سال یعنی دو ہزار اکیس میں روزانہ آٹھ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات پیش آرہے ہیں، جن میں سے صرف ایک یا دو ہی میڈیا پر رپورٹ ہو پاتے ہیں۔ اپریل دو ہزار بیس میں شائع ہونے والی غیر سرکاری تنظیم ساحل کی رپورٹ کے مطابق بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعات میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔ 5 سال سے لے کر 15 سال تک کے بچے انتہائی غیر محفوظ ہیں۔ تشویش طلب بات یہ ہے کہ ریپ کا شکار ہونے والے بچوں کی ویڈیوز بھی بنائی جاتی ہیں۔

ہم اگر حالیہ واقعات کو ہی دیکھیں تو کورنگی کی چھہ سالہ بچی باہر کھیل رہی تھی اور لائٹ نہیں تھی، قصور کی زینب کا ریپ اس کے پڑوسی نے کیا جب اس کے والدین عمرے پر گئے ہوئے تھے اور بچی اپنے رشتے داروں کے گھر قیام پذیر تھی۔ ان واقعات میں ایک ہی چیز نظر آ رہی ہے۔ وہ ہے والدین کی عدم توجہ

پاکستان میں زینب الرٹ بل اور ریپ کے مختلف قوانین موجود ہیں لیکن اس کے باوجود کیسز کی تعداد میں کمی نہیں ہو پا رہی۔ دوسری جانب یہ درست ہے کہ ریپ کے کیسز میں سزائیں ملنا ان واقعات کو روکنے میں ایک بڑا عنصر ثابت ہو سکتی ہیں، لیکن سزا واحد حل نہیں ہو سکتی۔ عوام سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کی حفاظت خود کریں انہیں اس قابل بنائیں کہ وہ خود کو مشکل حالات سے نکال سکیں کیونکہ آپ کا کام بچے پیدا کر کے انہیں چھوڑ دینا نہیں ہوتا بلکہ انہیں زندگی گزارنے کا طریقہ بھی سکھانا ہوتا ہے۔

کل میری اپنی کزن سے بات ہوئی اس نے بتایا کہ اس کی ساس نے ہمارے ایک کزن کو گھر میں آنے سے منع کر دیا۔ میں نے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ اس کی بیٹی دو سال کی ہوئی ہے اور وہ کزن بچی کے چہرے پر پیار کرتے تھے، کئی بار منع کرنے پر بھی جب نہیں سمجھے تو اس نے اپنی ساس کو بتایا، آنٹی نے تمام رشتے بالائے طاق رکھ کر ان کزن صاحب کو فوری گھر سے فارغ کیا یعنی باہر نکال دیا اور کہا کہ اب نظر نہ آنا یہاں۔ مجھے آنٹی کا یہ اقدام بہت اچھا لگا کیونکہ ابتدا ہمیں اپنے ہی گھر سے کرنی ہے۔ کیونکہ ہر شخص نہ آپ کے گھر جیسا ہوتا ہے نہ بھروسا کرنے کے لائق۔

آپ نے بھارتی فلم دنگل تو دیکھی ہوگی، فلم میں مہاویر سنگھ یعنی عامر خان اپنی بیٹی کو کشتی کے داو پیچ سکھاتے ہیں۔ اس دوران وہ اسے پانی میں پھینک دیتے ہیں اور کہتے ہیں خود باہر نکلو، اس وقت بیٹی کو بہت برا لگتا ہے اپنا باپ جلاد لگتا ہے لیکن کئی سال گزرنے کے بعد جب وہ فائنل فائٹ کے لئے رنگ میں اترتی ہے تو تنہا ہی اپنی حریف کا مقابلہ کرتی ہے اور اسے چاروں شانے چت کر دیتی ہے، اس وقت نہ باو جی اس کے ساتھ ہوتے ہیں نہ کوئی اور لیکن وہ بغیر کسی کی مدد کے جیت جاتی ہے۔

میرے ایک انکل ہیں، ان کی چھہ بیٹیاں ہیں، اہلیہ ان کی معذور ہیں، انکل نے اپنی بیٹیوں کو پالا اور ایسا پالا کہ ہر بات ان سے شیئر کی، ہر اچھے برے کا سمجھایا، ان کو اتنا با اعتماد بنایا کہ ساری کی ساری بیٹیوں نے اسکالر شپ پر پڑھائی کی۔ وہ لڑکیاں اتنی با اعتماد ہیں کہ ہر جگہ لڑ جاتی ہیں۔ ایسی ہی بیٹی میرے ایک بہت عزیز دوست کی ہے، جو انتہائی پراعتماد اور ذہانت سے بھرپور ہے، ایک خاتون میرے اپنے دفترمیں موجود ہیں جو بلا کی با اعتماد ہیں۔

آپ کو یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ان تمام خواتین کو گھر والوں کی جانب سے بچپن سے ہی با اعتماد بنا کر پالا ہے۔ اچھے برے کی تمیز بے شک سکھلائی لیکن یہ بھی بتایا کہ اگر کوئی مشکل آئے تو اس سے بچنا کیسے ہے۔ جیسے ہم اپنے لڑکوں کو پالتے ہیں رف اینڈ ٹف بنا کر۔ ویسے ہی ہم اپنی لڑکیوں کو کیوں نہیں پالتے؟ کیوں ان سے یہ امید کرتے ہیں کہ تم لڑکی ہو تم صنف نازک ہو۔ صنف نازک کیوں؟ ہم کیوں اپنی بچیوں کو بار بار یہ باور کراتے ہیں کہ تم کمزور ہو تمہیں حفاظت کی ایک محافظ کی ضرورت ہے۔ کیا آپ کو یہ بات نہیں معلوم کہ عورت تو بہت طاقتور ہوتی ہے۔ اتنی طاقتور کہ مرد پیدا کرتی ہے۔

آپ میں سے کتنے لوگوں نے اپنے بچوں کو کم عمری سے ہی گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں بتایا ہے؟ کتنے بچوں کو یہ سکھایا ہے کہ کوئی اگر آپ کو چھوئے تو کیا کرنا ہے؟ وہ بچے ڈر کے مارے اپنے والدین کو نہیں بتا پاتے اور جنسی استحصال کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔

میری بیٹی نرسری میں تھی تب اسے اسکول میں سکھایا گیا کہ کوئی بھی آپ کے پرائیویٹ پارٹس کو ٹچ کرے تو آپ نے ”No، Yell، Run، Tell“ پر عمل کرنا ہے، یعنی منع کرو۔ زور سے چیخو۔ بھاگ جاو اور اپنے قریبی کو بتاو۔

آپ میں سے کتنوں نے اپنے بچوں کا یہ ڈر ختم کیا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ بچے آپ سے یا کسی اور سے کیوں ڈرتے ہیں؟ ان کے ساتھ کچھ غلط ہوتا ہے تو وہ کیوں چھپاتے ہیں؟ اس لیے کہ ہم والدین اپنے بچوں سے دوستی نہیں کرتے۔ ہم اسی فرسودہ پھٹے پرانے محاورے پر عمل کرتے ہیں کہ کھلاو سونے کا نوالہ دیکھو شیر کی نظر سے۔ کیوں بھئی کیوں دیکھو شیر کی نظر سے؟ کیا بچوں کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ ان کے ساتھ زور زبردستی کی جائے ان پر اپنی مرضی ٹھونسی جائے؟

یا اگر وہ کوئی غلطی کردیں تو آپ زور زور سے چیخیں؟ بچوں کو اپنا دوست بنائیں۔ بچوں کے چوکیدار نہ بنیں، انہیں یہ سکھائیں کہ اپنی سب سے زیادہ حفاظت آپ خود کر سکتے ہیں۔ ہم کیوں بچوں کو ڈر کے ماحول میں پروان چڑھا رہے ہیں؟ میں نے اوپر جتنی لڑکیوں کا ذکر کیا وہ ایسے ہی کانفیڈنس کے ساتھ پلی بڑھی ہیں اور کامیاب ہیں۔

بچوں اور اپنے دل سے خوف ختم کیجئے، بچوں کو مقابلہ کرنا سکھایے، یقین جانیئے ان کی شخصیت میں وہ تبدیلی آئے گی کہ وہ کم عمری میں ہی آپ کا رائٹ ہینڈ بنیں گے۔ یہی نہیں پھر وہ اپنی ہر چیز سے خود لڑنے کے قابل بنیں گے۔ لیکن شاید اس کے لئے والدین کو بھی تھوڑی سی تربیت کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments