ثقافت کا ناسٹلجیا


زبانوں کے جامع ہونے کا تب پتہ چلتا ہے جب بہت سے لفظوں کے لیے ایک لفظ اور ایک چیز یا عمل کے لیے بہت سے الفاظ میسر آنا ممکن ہو۔ اب اس لفظ ”ناسٹلجیا“ کو ہی لے لیں۔ اس کا اردو میں ترجمہ کرنا ناممکن تو نہیں البتہ مشکل ضرور ہے۔ اس کا ایک ترجمہ تو شاعر نے کیا تھا کہ ”یاد ماضی عذاب ہے یارب“ لیکن وہ درست نہیں ہے کیونکہ اس لفظ کا مطلب ماضی کے اعمال و افراد کے ساتھ جذباتی لگاؤ ہوتا ہے اور ان کے بارے میں یادیں اکثر و بیشتر خوشگوار اور کیف آگیں ہوتی ہیں۔

کہیں تھوڑا سا درد یا چبھن ہو بھی تو ”چھین لے مجھ سے حافظہ میرا“ کی دعا نہیں مانگی جاتی بلکہ اس درد اور چبھن کا کھٹا میٹھا سرور محسوس کر کے لطف لیا جاتا ہے۔ ویسے تو یہ لفظ جن زبانوں میں استعمال ہوتا ہے وہاں بھی خالص نہیں ہے کیونکہ یہ یونانی زبان کے دو لفظوں ”گھر واپسی“ اور ”درد“ کو ملا کر وضع کیا گیا تھا۔

ناسٹلجیا خالصتاً ماضی کی یادوں میں کیف کا گمان ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب میں چھوٹا تھا تو راتوں کو اونٹوں کی قطاریں لے جانے والے ساربان ”ڈوہڑے“ گایا کرتے تھے۔ چھوٹے قصبے کی بجلی کے بغیر چاندنی رات میں جب اکثر لوگ سو رہے ہوتے تھے تو یہ ”تان“ بہت بھاتی تھی۔ مگر اب اونٹوں کی جگہ موٹر سائیکلوں اور بار بردار گاڑیوں کے ہجوم نے لے لی ہے۔ گرمیوں میں لوگ صحن میں اگر سوتے بھی ہیں تو پیڈسٹل پنکھوں کی آواز، اگر ساربان کی کوئی لے کہیں غائب سے عود بھی کر آئے تو اس کو بگاڑ دے گی۔ یا پھر ”ایک ٹکے کی ہوتی تھیں بچپن کی خوشیاں، خوشبووں میں لپٹی ہوئی، آنے کی دو دو“ ۔ پٹھانے کمہار کی دکان سے ملنے والی پیپر منٹ کی گولیاں اب کہاں؟

ہم بات زبان کی نہیں کر رہے بلکہ یہ گھمچال لفظ ناسٹلجیا کا احساس باور کرانے کی خاطر تھا، دراصل ہم بات کر رہے ہیں ثقافت کی۔ رہن سہن میں شامل ہر چیز ثقافت ہوتی ہے۔ اس میں زبان سے لے کر روایات، عادات، فنون، صناعی، طرز ملبوس سب آتے ہیں۔ آج کا ریپ گیت آج کی ثقافت ہے۔ انٹرنیٹ سے رجوع کرنا معاصر ثقافت ہے۔ انفوٹینمنٹ تازہ ثقافت ہے۔ میوزک کی فیوژن آج کا ثقافتی انگ ہے۔ اسی طرح آج کے ملبوسات بھی ثقافت کا ہی پرتو ہیں۔ اس کے برعکس ہم ثقافت کو ورثہ سمجھتے ہیں یعنی لوک گیت، چرخہ، رلی، اجرک، سندھی ٹوپی، لاچا، موسیقی کے پرانے ساز یا پھر کلاسیکی موسیقی۔ ثقافت کبھی ایک سی نہیں رہ سکتی۔ اگر وہ ایک سی رہے تو وہ ثقافت نہیں کوئی ضد یا ریت روایت ہوگی۔

قوم پرستی ایک بالکل ہی اور بات ہے۔ آپ کہیں گے کہ ثقافت کی بات کرتے کرتے قوم پرستی کہاں سے در آئی۔ جی ہاں، آپ کی حیرت یا ناخوشگوار تاثر بجا لیکن ثقافت کے ناسٹلجیا کا قوم پرستی سے گہرا تعلق ہے۔ برسبیل تذکرہ آپ کو ایک بات بتاتا چلوں کہ اگر آپ روس میں کسی کو قوم پرست یا انگریزی میں نیشنلسٹ کہہ دیں تو وہ سمجھے گا کہ آپ نے اسے گالی دی ہے کیونکہ وہ قوم پرستی کو حب الوطنی کی ضد خیال کرتے ہیں اسی طرح اگر آپ کسی کو ”کیریرسٹ“ کہہ دیں تو اس کو بہت برا لگے گا کیونکہ وہ اسے چاپلوسی پر محمول کریں گے۔

تو قوم پرستی واقعی ”وطن پرستی“ یعنی حب الوطنی کی ضد ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ملک تو کئی قوموں سے مل کر بنا کرتے ہیں جنہیں ہم نے تخصیص کی خاطر ”قومیت“ کہہ کر جان چھڑا لی ہے۔ قوم پرستی کو اپنی سیاست کی بنیاد بنانے والی تنظیمیں اور ان سے وابستہ لوگ، ماضی سے وابستہ اشیاء، اعمال اور افراد کی یاد دلاتے نہیں تھکتے۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ اگر ڈوہڑے گائے جانے لگیں گے تو قوم آپس میں متحد ہو جائے گی یا اگر ادب کو مقامی زبان اور ماضی کے استعاروں سے مزین کر دیا جائے تو لوگ اس کی جانب زیادہ متوجہ ہو جائیں گے۔

یاد دلاتے چلیں کہ لوک گیت گانے اور مقامی زبانوں میں ادب تخلیق کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ ایسا کیا جانا چاہیے لیکن لوگوں کو ماضی کی یادوں سے وابستہ کرنے کی بجائے کہیں بہتر ہے کہ انہیں حال کی حقیقتوں یا مستقبل کی کاوشوں کے ساتھ زیادہ وابستہ کیا جائے۔ قوم پرستی دراصل اپنی قوم کے ساتھ لگاؤ کے ساتھ ساتھ دوسری قوموں کے ساتھ مغائرت کی زیادہ عکاس ہوا کرتی ہے۔ جس کی ہمارے ہاں ایک مثال سرائیکی وسیب کی پنجابی سانجھ کے ساتھ پرخاش اور پنجابی سانجھ کا سرائیکی وسیب کو اوپر سے دیکھے جانے کا رویہ ہے۔

ثقافت ماضی ہو جایا کرتی ہے۔ قوم معدوم نہیں ہوا کرتی۔ البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایک مشترکہ اور غالب ثقافت جو عموماً صنعتی معاشرے کی ثقافت ہوا کرتی ہے وہ قوموں کو آپس میں مدغم کر کے ان میں ایک ملک کے شہری ہونے کا احساس پیدا کر دیتی ہے۔ البتہ صنعتی معیشت جونہی ڈانواں ڈول ہونے لگتی ہے تو مختلف قوموں میں اپنے اپنے ہونے کا احساس بڑھنے لگتا ہے، پھر کراچی جیسے بڑے شہر میں پٹھان، مہاجر، پنجابی، سندھی، سرائیکی علیحدہ علیحدہ ہونے لگتے ہیں۔

چنانچہ ثقافت کو معیشت سے اور معیشت سے سیاست کو جدا کر کے دیکھا جانا جہاں مشکل ہے وہاں غیر حقیقی بھی۔ آج دنیا گلوبلائزیشن کے باعث بہت سکڑ چکی ہے۔ کیبل ٹی وی سے لے کر شیمپو اور کوکاکولا تک کالا ہاری سے کچھ تک موجود ہیں۔ آج اونٹوں کی قطار کے ساربانوں کی لے پر ”کوک سٹوڈیو“ میں ریکارڈ کیے ہوئے لوک گیت اور ٹھمری غالب آ چکے ہیں۔ ان گیتوں اور ٹھمریوں کو گانے کے لیے مقامی سازوں کے ساتھ ساتھ جدید مغربی ساز بھی اسی لگاؤ کے ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں جس کے ساتھ کیے جانے چاہئیں۔ اس لیے ثقافت کے ناسٹلجیا کو جتنا محض ناسٹلجیا کے طور پر لیا جائے گا اتنا ہی معاصر ثقافت کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہونے میں مدد ملے گی۔ شاید تب معاصر معیشت کو بھی جدید بنانے کی خواہش پیدا ہو جائے اور دنیا کی سیاست کے ہمرکاب سیاسی رویے اپنانے کا رجحان جگہ پانے لگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments