نور سے کوہ نور تک، مگر ہیلو سیف اللہ صاحب


پیاری تحریم امید ہے تم غم کی اس شدت سے نکل چکی ہو نگی جس میں مبتلا نور تھیں۔ میری جان بات کچھ یوں ہے کہ نور کا کیس ارسطو کے نظریہ المیہ پہ پورا اترتا ہے۔ ارسطو کے نزدیک المیہ خالق و ناظر دونوں کا تزکیہ ہے۔ ارسطو کہتا ہے اگر ہیرو کو اپنے دوستوں سے مصائب ملیں یوں المیہ مثالی بن جا تا ہے۔ یا جو کسی ناقد نے شیکسپیئر کے لا زوال المیہ ڈراموں کے حوالے سے کہیں لکھا تھا کہ وہ ہیرو کا کردار بہت اونچا اٹھاتا ہے۔ جس سے المیہ گہرا پیدا ہو تا ہے۔ اور پر اثر ہو جاتا ہے۔

بالکل یونہی نور کا المیہ کوہ نور بن گیا ہے۔ لکھنے والے سب کچھ لکھ چکے ہیں۔ مگر اس المیہ نے ہمیں کچھ سیکھنے کا موقع دیا ہے۔ آسمان جتنا وسیع ہو تا ہے ستارے گننا اتنا ہی دشوار ہوتا ہے۔ جس میں ہمیں چند شہاب ثاقب اور دم دار ستارے یاد رہ جاتے ہیں۔

نور سے پہلے ہمارے بے شمار لڑکیوں کے قتل یونہی ہوئے کوئی ایک موم بتی نہیں جلی۔ اسے زیادہ ظلم ہوا سب طرف سناٹا تھا۔ ایک غیر ملکی سفیر کی بیٹی تھی ایک اپنے سفیر کی بیٹی تھی۔ مگر جنگ اب دولت اور طاقت کے میدان دو فی صد کی ہے۔ ایک کہاوت ہے وکیل کی ماں مر جائے تو سارا شہر جنازے میں موجود ہو تا ہے۔ وکیل مر جائے تو رشتے دار بھی نہیں آتے۔ تو جان من یہاں سب کا حاضر سائیں کہنا لازم تھا۔ ہم نے دو فی صد طبقہ اشرافیہ سے اپنے بغض کو بھی لاشعوری طور نکالنا تھا اور ساتھ میں ان کو ساتھ ہونے کا بھی احساس دلانا تھا۔

اسے سماجی نفسیات بھی کہہ سکتے ہیں۔ خیر اگر صرف ظاہر اور عثمان مرزا کو پھانسی ہو جائے تو کچھ عرصہ کے لئے ہم اس پریکٹیکل پورنوگرافی خبروں سے بچ سکتے ہیں۔ اور دیکھو اس کیس میں ایک کردار موجود ہے نور کا باپ۔ یہ کردار مڈل کلاس میں اکثر غائب ہو تا۔ ہر طبقے کی اپنی تہذیب ہے۔ اسی کے اعتبار سے اس کے اپنے رہین سہن اور غربت کے معیارات ہیں۔ لہذا جس طبقے کو کبھی ہم گالیاں نکالتے ہیں کہ ہمارے ٹیکس پہ پلتے ہیں۔ اسی طبقے کے ساتھ ہم غم و خوشی میں سب سے پہلے کھڑے پائے جاتے ہیں۔ ورنہ روز کی بنیاد پہ ایسے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ لمحہ بھر بعد ہم اپنی زندگیوں میں مگن ہو جاتے ہیں۔ یہ معمہ کچھ الیکشن کے امیدوار جیسا ہوا ہے۔ جہاں دونوں طرف کے نظریات کے فریقین نے انتہا پسندی کی منافقت کی ہے۔

سو نور جاؤ، تم کو سکھی سنسار ملے۔ تم نے نور کو کوہ نور میں بدل دیا ہے۔ یہ وقت بتائے گا کیسے؟ کیونکہ کیس ابھی عدالت میں ہے اور ہمیں دانشوری جھاڑنے سے گریز کرنا چاہیے۔ جج خود ہی اپنا کام کر لے گا۔ وقت خود جج بن جائے گا۔

تحریم، ہم بات کرتے ہیں ملک کی اکثریتی آبادی کی۔ پچھلے دنوں ہم سب کے فیس بک گروپ میں سیف اللہ صاحب کی املاء و زبان کے اغلاط سے بھرپور ایک تحریر شائع ہوئی۔ کسی نے شاید ابھی تک اس کا جواب نہیں دیا۔ (ایڈیٹر سے خصوصی اجازت کہ شاید تحریر طویل ہو جائے ) یہ تحریر ایک چیلنج تھی۔ کیونکہ جو بھی ہے۔ ایک عوامی اور عام طبقے کے مرد نے اپنے مسائل کی بات کی ہے۔ مسائل کے کچھ حل یونہی بات چیت سے نکل آتے ہیں۔ جو ہم اس لئے نہیں کر پاتے کہ مکالمہ قوت برداشت مانگتا ہے۔

اور سب سے پہلے تو یہ کہ آپ کی تحریر آپ کے طبقاتی مسائل کی خود گواہ ہوتی ہے۔ اسی طرح سیف اللہ نے جن مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ وہ ہر اعتبار سے ان کے طبقاتی مسائل کی نمائندگی ہے۔ جہاں تعلیم کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ تجربات زندگی کا فقدان، حد اس مذہب جس کا نام لے کر ہم عورت کی کنٹرولنگ پاور کا بات کرتے ہیں اس کو جاننے کا فقدان بھی دکھائی دیا۔

پہلی بات یہ کہ ان کا خیال ہے کہ یہ موبائل بہت بری چیز ہے اور عورت کے لئے ہے، جس کی وجہ سے عورت کا ذہین خراب ہو گیا ہے۔ سو یہ عورت کے پاس نہیں ہو نا چاہیے۔ دیکھئے سیف صاحب جس طرح آپ کے پاس کھانے کو دانت ہے جسم کے باقی حصے اپنا کام کر رہے ہیں۔ آپ کے پاس بھی موبائل فون ہے اور آپ اس پہ ہی یہ سب تحریریں پڑھتے ہیں۔ جن تحریروں کی آپ نے بات کی ہے۔ اور آپ کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین کی تحریریں کافی شوق سے پڑھتے ہیں۔

اس سے آپ کے دماغ پہ دیکھئے کتنا اثر ہوا کہ آپ نے ایک تحریر لکھ ڈالی۔ آپ کو کوئی ریت برابر ہی سہی شعور کی ایک کرن نے متاثر کیا ناں؟ اسی طرح اگر عورت کے پاس، لڑکی کے پاس موبائل ہے تو اس کو بھی شعور کی کوئی ننھی سی کرن متاثر کر سکتی ہے۔ اسے آپ برا بھلا کیوں کہہ رہے ہیں۔ آپ پہ شعور کا نزول اعلی شے اور اس پہ ذہنی خرابی؟ اس سوچ کو بدلنا ہو گا۔

اس منحوس موبائل کی وجہ سے دوسرے مردوں کے ساتھ آنکھ مچولی کی بات کی آپ نے، تو بات یہ ہے کہ یہ آنکھ مچولی تو مرد بھی کرتے ہیں۔ وہ تو برے نہیں کہلاتے۔ اور اس میں موبائل کا کیا قصور مرد و زن میں فطری کشش ہے جب یہ موبائل نہیں تھا تب بھی یوسف اور زلیخا تھے، ہیر اور رانجھا تھے، رومیو جولیٹ تھے، عمر ماروی تھے، یہ فطرت ہے۔ چلیں یونہی سہی آپ کو وہ مرد مجاہد یاد ہیں جو ٹوپیوں والے برقعوں اور عبایہ کے نیچے لڑکیوں کے انڈر گارمنٹس پہن کر فرار ہوتے پکڑے جاتے تھے۔ ؟ عورت نے کبھی گلہ کیا میرے انڈرگارمنٹس کیوں پہنے؟

اور موبائل نے تو اب تک رب جانے کتنے نکاح بھی کروا ڈالے، کبھی ان کی فہرست بھی مرتب کیجئے۔ اس کار خیر کو کس کھاتے میں ڈالیں۔ دیکھیں یہ جو آپ نے کہا ناں کہ ”پانچ ہزار لوگوں سے چھپ چھپا کر لایا جاتا ہے، تو یہ خالصتاً نکاح کے مخالف جملہ ہے۔ نکاح کا حکم ہی علانیہ رشتہ بنانا ہے۔ چھپ کر تو غلط کام کیا جاتا ہے۔ طلاق کی نوبت کی ایک یہی وجہ نہیں کہ آپ کی بیوی کے پاس موبائل تھا۔ اس کی بے شمار وجوہات میں سے ایک آپ خود بھی ہو سکتے ہیں۔

آپ نے بات کی ہر کسی کو کلنٹن نہیں ملتا۔ بس یونہی ہر مرد کو ایشوریہ نہیں ملتی، ڈیانا نہیں ملتی، مگر ہر مرد سوتی جاگتی آنکھوں حسین سے حسین عورت کے خواب دیکھتا ہے ناں؟ یونہی ایک عورت کے خوابوں پہ پابندی لگانے کی بجائے اگر آپ ان مردوں کی طرح بننے کی کوشش کریں۔ جن کو لڑکیاں پسند کرتی ہیں۔ تو آپ یقین کریں کافی افاقہ ہو گا۔ اپنا حلیہ درست کریں، جن سب سیاسی مردوں کے آپ نے نام لکھ دیے ہیں۔ کم از کم ان کی طرح بننے کی آپ کوشش کر سکتے ہیں۔ ویسے آپ کی معلومات میں اضافہ کروں۔ عورتوں کی اکثریت کو نہ سیاست سے دلچسپی ہوتی ہے، نہ سیاست دانوں سے۔ ان کی دلچسپی کا مرکز اکثر شوبز سٹار ہوتے ہیں۔ لگتا ہے آپ فلم اور ڈرامہ نہیں دیکھتے۔ ورنہ جانتے کہ ڈراموں کی ساری ریٹنگ خواتین کی وجہ سے ہوتی ہے۔

مرد اور بو بکرے میں کوئی فرق نہ ہو تو عورت کا دل مرد سے خصوصی شوہر سے متنفر ہی ہو گا ناں۔ اب وہ آپ کو یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ جناب سرتاج آپ مزدوری کر کے آتے ہیں۔ تو اس کا باس خود میں سے نکال کر میرے پاس آ یا کیجئے۔

اب آپ کا گلہ ہے کہ مرد شادی کر کے معاشی اعتبار سے خود کو زنجیروں سے باندھ لیتا ہے۔ یہ بات اس لئے سچ ہو چکی ہے کہ مڈل کلاس مرد کی کمائی اتنی نہیں ہوتی۔ جتنے وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اخراجات کا بوجھ ہو تا ہے۔ کیونکہ اس نے ایک بات وراثت سے پائی ہے کہ عورت اگر کمائے گی تو اس کی غیرت کا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔ دنیا باتیں کرے گی۔ لہذا اسے والدین کے گھر کو بھی خود سپورٹ کرنا ہو تا ہے۔ اپنے گھر کو بھی کیونکہ مڈل کلاس میں لڑکے کے پیدا ہو نے کی خوشی معاش سے جڑی ہوئی ہے۔

کہ اس کے بڑے ہونے کا انتظار کیا جا رہا ہوتا ہے۔ کب بڑا ہو کر بازو بنے گا۔ اس بات کو آسان کروں تو آپ پہ شاید گراں گزرے کہ طوائف کے گھر بیٹی پیدا ہونے کی خوشی ہوتی ہے کیونکہ وہاں اس کا تعلق معاش سے جڑا ہوا ہے۔ سو کوشش کریں سوچ بدلیں۔ بیوی کو پڑھائیں، بیٹی کو، بہن کو پڑھائیں، اور معیشت کا حصہ بنائیں۔ جبراً نہیں اگر وہ بننا چاہتی ہیں۔ کیونکہ معاشی طور پہ جہاں ملک جا چکا ہے۔ ایک فرد کی کمائی سے خاندان کا بوجھ نہیں اٹھ سکتا۔ جیسے کہ آپ نے بات کی بل، کرایہ، گروسری، اور پھر مزے کی بات عورت کے میک اپ اور کپڑوں کا بوجھ۔ اور اس پہ آپ کا گلہ ہے کہ خرید کے وہ سب آپ دیتے ہیں۔ مگر وہ کپڑے وہ باہر جاتے ہوئے پہنتی ہیں۔ میک اپ باہر جاتے ہوئے دوسروں کو دکھانے کے لئے کرتیں ہیں۔

آئیں اس سوچ کو بھی ذرا حقیقت کا نگا ہوں سے دیکھتے ہیں۔ دیکھئے ایک مڈل کلاس بیوی کو آپ جو بنا کر دیتے ہیں۔ وہ اگر اسے سنبھال کر رکھ رہی ہے۔ وہ باہر جاتے ہوئے پہن رہی ہے تو آپ کی عزت ہے کہ بھئی شوہر نے بہت اچھا رکھا ہوا ہے۔ وہ سب اگر گھر میں پہننا شروع کر دے۔ وہ میک اپ گھر میں کرنا شروع کر دے تو آپ کا خرچہ دوگنا ہو جائے گا۔ خاندان میں اس نے آپ کا بھرم رکھا ہوا ہے۔ کبھی یہ سوچئے گا۔ ورنہ وہ کلاس بھی ہے جن کی عورتیں گھروں میں بھی ہر وقت بنی ٹھنی رہتی ہیں۔ اور نئے سے نیا فیشن کرتی ہیں۔ آپ کی بیوی نے آپ سے یہ مطالبہ تو نہیں کیا ناں۔ خواب اس کے بھی ہوں گے۔

اور کیا آپ اس کے لئے ویسے ہی سج سنور کر رہتے ہیں؟ جس کا آپ مطالبہ کر رہے ہیں۔ اور اس عورت سے کر رہے ہیں۔ جو صبح سے شام تک گھر کے کاموں میں مصروف ہوتی ہے۔ یہ ضرور سوچیے گا۔ کہ عورت کا بھی دل آپ ہی کی طرح ہے۔ وہ بھی یہی چاہتی ہے کہ اس کا شوہر یا گھر میں جو بھی مرد رشتہ ہے۔ باہر جاتے ہوئے جیسے تیار ہو تا ہے۔ اس کے لئے کیوں نہیں ہو تا۔ وہ اپنی بیوی کے لئے پرفیوم کیوں نہیں لگاتا۔ نیا سوٹ بیوی کے لئے کیوں نہیں پہنتا۔ جمعہ و عید کی نماز دفتر یا دوستوں میں جاتے کیوں پہنتا ہے۔ کیونکہ ظاہر اس کے پاس بھی بہت کپڑے بنانے کے پیسے نہیں ہیں۔ ایسا ہی ہے ناں۔

اچھا مزے کی بات جو آپ نے کی ہے ہم خواتین پہ توکل کا تالا ڈال دیا ہے۔ خود شکایات کا آلہ پکڑ لیا ہے۔ تو سیف اللہ آپ لوگ بھی توکل کریں۔ شکایت نہ کریں ناں۔ جس پھل کا بیج ہی نہیں بویا اس کا پھل توکل سے کھا سکتے ہیں تو مل کر کھائیں گے۔

یہ جو آپ نے شادی کی بات کی ہے کہ جوانی میں ہوتی ہے، اول تو اس کی کوئی عمر نہیں ہے۔ اور جو لڑکیاں اوور ایج ہو گئی ہیں۔ ان کو طنز نما دعا دی ہے۔ تو اس کی وجہ بلاول، میجر، عمران، رحمان، نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ بھی اکثریت معاش سے جڑی ہوئی ہے۔ کہیں لمبا چوڑا جہیز ہے تو کہیں وراثت ہے۔ کہ اگر والدین شادی کریں گے تو کہیں لڑکی اور اس کے سسرال والے وراثت نہ مانگ لیں۔ کچھ وراثت کی تقسیم نہیں چاہتے کہ دوسرے خاندان میں جائے۔

اور خاندان میں کوئی لڑکا نہیں ہو تا۔ ہر علاقے کے اپنے مسائل ہیں۔ شہروں کے بالکل الگ اپنے مسائل ہیں۔ یہاں اکثریت لوگوں کو کماتی ہوئی لڑکی چاہیے۔ مگر جسے پڑھائی میں دیہاتوں کے مرد زیادہ آگے دکھائی دیتے ہیں، یونہی دیہاتوں میں، قصبوں میں اب لڑکیوں کی تعلیم شہروں سے زیادہ ہو گئی ہے۔ کبھی کسی بڑے شہر کی یونیورسٹی میں آ کر مشاہدہ کیجئے۔

سو اب یہ لڑکیاں کیا کریں گی جو شہر آ کر پڑھی ہیں۔ کیونکہ شہر آ کر پڑھے لڑکے کو تو شہر کی لڑکی مل جاتی ہے۔ مگر شہر کے لڑکے ان قصبوں کی لڑکیوں سے محبت شحبت کے باغ تو بن لیتے ہیں۔ شادی نہیں کرتے۔ اپنے علاقے والے شہر والی سے کر لیتے ہیں۔ جتنے مسائل ہیں، اتنی ہی وجوہات ہیں۔

لہذا آپ نے جو گلے شکوے کیے بجا۔ بس یہ کہوں گی اپنی ساس اور اپنی امی سے پوچھیے گا کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو اس طرح پالا ہے کہ وہ بھی ”دیوار ہم سب“ پہ آ کر اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔ کیا آپ اپنی بہن اور بیوی کو ایسا شکایت نامہ لکھنے کی اجازت دیں گے؟ جیسا آپ نے خود لکھا ہے۔ یہ سوال خود سے بھی کیجئے گا۔

اگر آپ اجازت دیں گے تو یقین کریں آپ کو علم ہو جائے گا۔ کہ آپ کی آدھی سے زیادہ باتیں گمان تھیں۔

تحریم، بہت اچھے سوال موصول ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے لوگ بدلنا چاہتے ہیں۔ نئی نسل کو لوگ کیا کہیں گے سے آ گے دنیا دکھائی دینے لگی ہے۔

 

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم
اس سیریز کے دیگر حصےگولڈن گرلز: عورت مر جائے تو بتانا، ہم تب روئیں گےگولڈن گرلز: انہیں پسند نہیں ہے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم

گولڈن گرلز کے عنوان کے تحت رابعہ الربا اور تحریم عظیم بتا رہی ہیں کہ ایک عورت اصل میں کیا چاہتی ہے، مرد اسے کیا سمجھتا ہے، معاشرہ اس کی راہ میں کیسے رکاوٹیں کھڑا کرتا ہے اور وہ عورت کیسے ان مصائب کا سامنا کر کے سونا بنتی ہے۔ ایسا سونا جس کی پہچان صرف سنار کو ہوتی ہے۔

golden-girls has 28 posts and counting.See all posts by golden-girls

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments