مردوں کے دماغ میں ایک ’چپ‘ لگا دیں


پہلا مفروضہ : دس لڑکے اور دو لڑکیاں ایک جنگل میں پکنک منانے جاتے ہیں، جنگل میں کوئی موبائل فون کام نہیں کرتا، آس پاس کوئی آبادی نہیں، قریبی سڑک بھی پندرہ کلومیٹر دور ہے۔ ان لڑکے لڑکیوں کی عمریں اٹھارہ سال سے زائد ہیں اور انہوں نے جنگل میں دو دن گزارنے ہیں۔ پہلا مفروضہ یہ ہے کہ تمام لوگ بحفاظت واپس آ جائیں گے، ان کی آپس میں کوئی لڑائی نہیں ہو گی، کسی کو دوسرے سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔

دوسرا مفروضہ :ایک ممکنہ صورتحال یہ ہو سکتی ہے کہ جنگل میں قیام کے دوران کوئی ’جوڑا‘ باہمی رضامندی سے آپس میں تعلق قائم کر لے اور باقی لوگ اس پر اعتراض کرنے کی بجائے اپنی دھن میں مگن رہیں اور دو دن بعد سب لوگ نارمل انداز میں واپس آ جائیں۔

تیسرا مفروضہ : تیسرا امکان اس بات کا ہو سکتا ہے کہ لڑکوں میں سے کوئی ان دو لڑکیوں کے ساتھ زبردستی کرے اور ان کا ریپ ہو جائے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کو کیسی یقینی بنایا جائے کہ کوئی لڑکا جنگل میں بھی کسی لڑکی کا ریپ کرنے کے بارے میں نہ سوچے؟ ایک جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ جوان لڑکیوں کو جنگل میں لڑکوں کے ساتھ جانا ہی نہیں چاہیے، نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ دوسرا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ لڑکوں کے دماغ میں ایسی ’چپ‘ (chip) لگادی جائے جس کے بعد وہ لڑکیوں کو اپنے سے کمتر یا کمزور سمجھنا چھوڑ دیں اور انہیں اپنے جیسی مخلوق سمجھیں جسے ان کی مرضی کے بغیر ہاتھ نہیں لگایا جا سکتا۔ ذرا جواب نمبر ایک کی پڑتال کر لی جائے۔

نور مقدم قتل کیس کے بعد یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ سب کچھ لبرل طرز زندگی کا کیا دھرا ہے، بغیر نکاح کے غیر مرد کے ساتھ رہنے کا نتیجہ ہے، ایک لڑکی نا محرم مرد کے گھر میں گئی ہی کیوں، یہ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں، یہ لبرل طبقات معاشرے میں مادر پدر آزاد جنسی آزادی چاہتے ہیں، اسی نام نہاد لبرل ازم نے ہماری معاشرتی اقدار کو نقصان پہنچایا ہے، شخصی آزادی کے نام پر قائم اس نظام کا بوریا بستر گول کر دینا چاہیے۔

یہ دلیل بھی سننے کو ملی کہ والدین کو اپنے بچوں پر نظر رکھنی چاہیے، انہیں علم ہونا چاہیے کہ ان کی لڑکیاں کہاں جاتی ہیں، کس سے ملتی ہیں، کس وقت واپس آتی ہیں، کسی کے گھر رات گزارنے کی انہیں بالکل اجازت نہیں دینی چاہیے۔ دلیل کے اس حصے سے نہ صرف میں اتفاق کرتا ہوں بلکہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ تمام شرائط صرف لڑکیوں ہی نہیں بلکہ لڑکوں کی تربیت کے ضمن میں لاگو ہوتی ہیں۔ بچوں کی تربیت دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے، اٹھارہ سال کی عمر تک والدین کو بچوں کو برا بھلا سمجھا دینا چاہیے اور اس کے بعد بچوں کی سمجھ بوجھ پر اعتماد کرنا چاہیے مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ بالغ ہونے کے بعد والدین منہ پر ٹیپ چڑھا کر بیٹھ جائیں۔ بالغ اولاد کی تربیت مزید مشکل کام ہے، کوئی بھی ماں یا باپ اس سے بری الذمہ نہیں ہو سکتا، اولاد او ر والدین کا رشتہ مرتے دم تک قائم رہتا ہے اور شخصی آزادی کا کوئی بھی تصور اس میں دراڑ نہیں ڈال سکتا لہذا میں اس حد تک بالکل متفق ہوں کہ ماں باپ کو بالغ اولاد کے بارے میں بھی فکر مند ہونا چاہیے گو کہ بالغ مرد و عورت اپنا اچھا برا خود دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اب آ جائیں لبرل طرز زندگی کی طرف۔ اس دلیل میں دو خامیاں ہیں۔ پہلی خامی تو یہ ہے کہ اگر یہ سب لبرل طرز زندگی کا کیا دھرا ہے تو پھر مدرسوں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ کس طرز زندگی کا نتیجہ ہے؟ اگر لبرل طرز زندگی کے نتیجے میں کسی عورت کا ریپ اور قتل ہوا ہے اور ہم نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا ہے کہ خدا را اس نظام زندگی سے جان چھڑائیں تو یہ دہائی اس وقت کیوں نہیں دی جاتی جب مدرسے میں معصوم بچے کا ریپ ہوتا ہے، اس وقت تو کوئی یہ نہیں کہتا کہ مدرسوں کو بند کر دینا چاہیے۔ لہذا جس طرح مدرسے قصور وار نہیں اسی طرح کسی خبیث اور ناہنجار مرد کی وجہ سے پورے لبرل طرز زندگی کو مورد الزام ٹھہرانا بھی ٹھیک نہیں۔

دوسری خامی اس دلیل میں یہ ہے کہ اگر ایک خاتون غیر مرد سے ملنے تنہا اس کے گھر میں گئی جس کے نتیجے میں وہ قتل ہو گئی اور یہ اس کا اپنا قصور ہے تو پھر وہ شادی شدہ عورتیں جو پانچ پانچ بچوں کی مائیں ہوتی ہیں اور گھر بیٹھے اپنے شوہر کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہیں ان بیچاریوں نے کس مذہبی، سماجی یا اخلاقی قانون کی خلاف ورزی کی ہوتی ہے؟ چار چار سال کی بچیاں جن کا قتل کر کے گلا کاٹ دیا جاتا ہے کون سے فلیٹ میں تنہا مرد کے ساتھ جاتی ہیں؟ کسی ویران راہ میں بیٹھی مفلوک الحال عورت کو اس کے بچے کے سامنے کیوں ریپ کر دیا جاتا ہے؟ اور اوکاڑہ میں بکری سے بد فعلی کرنے کے جرم میں پرچہ کیوں کاٹا جاتا ہے، کیا بکری بھی غیر محرم شخص کے ساتھ کسی اپارٹمنٹ میں اکیلی گئی تھی؟

اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ معاشرے میں ایک عمومی بے راہ روی اور فحاشی ہے، چپے چپے پر ماڈرن اور بے پردہ عورتیں نظر آتی ہیں، اس ماحول میں وہ شخص اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے جو دور دراز کے دیہی علاقوں سے شہر آیا ہوتا ہے، اس کا بس ان ماڈرن عورتوں پر تو چلتا نہیں سو وہ کسی معصوم بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا لیتا ہے۔ ریپ کی اس سے بدترین توجیہہ دینا ممکن نہیں۔ ہمارے ملک کا کوئی ایک بھی شہر دبئی سے زیادہ ماڈرن نہیں، دبئی میں جو لوگ محنت مزدوری کرنے جاتے ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان کے پسماندہ قصبات سے ہوتا ہے، انہیں چپے چپے پر اس سے کہیں زیادہ جدید تراش خراش میں عورت نظر آتی ہے جو ہمارے ہاں ناپید ہے، مگر وہاں کوئی کسی کا ریپ تو دور کی بات، گھور کر دیکھنے کی جرات نہیں کرتا۔ مغربی ممالک کی مثال میں اس لیے نہیں دے رہا کہ وہاں تو ریپ کی تعریف ہی اس قدر سخت ہے کہ اگر یہاں لاگو کر دی جائے تو آدھے پاکستانی مردوں کو جیل ہو جائے۔

مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ہمارے دماغ میں وہ چپ ہی نہیں لگی جو عورت کو برابر کی مخلوق سمجھتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک لکھاری نے کسی ٹاک شو میں ایک خاتون صحافی کو نہایت بیہودہ انداز میں مخاطب کیا اور انہیں تقریباً گالیاں دیں۔

اسی لکھاری کو اینکر منصور علی خان نے اپنے شو میں مدعو کیا اور وہاں ان سے ایسے چبھتے ہوئے سوالات کیے کہ موصوف کی بولتی بند ہو گئی، منصور علی خان کے سامنے اس کی جرات نہیں ہوئی کہ وہ انہیں اس طرح مخاطب کر سکے جیسے اس خاتون کو کیا تھا۔ وجہ؟ موصوف کو اچھی طرح علم تھا کہ منصور علی خان کوئی عورت نہیں جس کے ساتھ بیہودگی کر کے وہ بچ نکلیں گے۔ ان کے دماغ میں لگی چپ نے انہیں اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ یہاں ویسی گفتگو نہیں کرنی جیسی عورتوں کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔

لڑکوں کے ساتھ جنگل جانے والی لڑکی اسی صورت بحفاظت گھر واپس آ سکتی ہے جب اس کے ساتھ گئے ہوئے مردوں کے دماغ میں بھی ایسی ہی چپ لگی ہو جو لڑکوں کو متواتر یہ سمجھاتی رہے کہ لڑکیاں ان جیسی ہی انسان ہیں کوئی کمتر مخلوق نہیں جسے جب چاہا جیسے چاہا ذبح کر کے پھینک دیا۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے اپنے مردوں کے دماغ میں یہ چپ نصب کی ہوئی ہے، ہم ابھی اس بارے میں سوچ بھی نہیں رہے۔ جب تک ہمارے مرد اس قابل نہیں ہو جاتے، ہمیں چاہیے کہ اپنی لڑکیوں کی پرورش اس اصول کے تحت کریں :

And I can’t trust this world to teach their sons how to treat my daughter. So I will raise her to be a sword. A spear. A shield.

 

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments