اسلامی ممالک میں تعلیمی پسماندگی


علم وہ رتبہ ہے جس کی وجہ سے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ ملا ہے۔ علم کی بدولت ہی انسان ستاروں پر کمند ڈال سکا ہے، زمین کی تہوں میں چھپے خزانوں تک پہنچا ہے، صحرا کی وسعتوں اور سمندر کی گہرائیوں میں بھی کوئی چیز اس کی پہنچ سے دور نہیں ہے۔ ہر زمانے میں علمی برتری ہی وہ پیمانہ رہا ہے جو اقوام عالم میں حاکمیت کا فیصلہ کرتا ہے۔ اکیسویں صدی میں جہاں جدید ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا اور مصنوعی ذہانت کا دور دورہ ہے وہاں تعلیم کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے اور علمی ترقی کے ساتھ ہی دنیا کے افق پہ اپنی جداگانہ حیثیت تسلیم کروائی جا سکتی ہے۔

دین اسلام اور حصول ٍ علم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ قرآن اور حدیث میں حصول علم پر برابر زور دیا گیا ہے۔ وحی الٰہی کے آغاز ہی میں لکھنے اور پڑھنے کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی گئی۔ ارشاد خداوندی ہے، ”پڑھ اور تیرا رب بہت کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے لکھنا سکھایا“ ۔ (سورہ العلق : 3، 4 ) رسول ﷺنے فرمایا: ”علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے“ ۔ (سنن ابن ماجہ ) ہمارے اسلاف نے دین کی تعلیمات پر چلتے ہوئے علوم و فنون کی طرف رغبت حاصل کی اور دنیا کے لوح و قلم کے مالک رہے۔ یورپ اور امریکہ کے باشندے حصول علم کے لیے مسلمانوں کی عظیم درس گاہوں رخ کرتے۔ طب، سرجری، ریاضی، فلکیات، جغرافیہ اور معاشیات سمیت کوئی شعبۂ زندگی ایسا نہیں تھا جہاں مسلمانوں نے اپنے اثرات مرتب نا کیے ہوں۔

مذہبی نقطۂ نظر اور روشن ماضی کو دیکھیں تو آج مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی سمجھ سے بالاتر ہے۔ 57 اسلامی ممالک کی کل آبادی سوا ارب ہے جس میں سے 40 فیصد ان پڑھ ہے۔ مسلم ممالک میں 600 سے کم یونیورسٹیاں ہیں جن میں سے کوئی بھی دنیا کی 500 ٹاپ یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں شامل نہیں ہے۔ اکیلے بھارت میں 8407 چھوٹی بڑی یونیورسٹیاں ہیں اور امریکہ میں 5758 یونیورسٹیاں ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں اسلامی ممالک کی مجموعی افرادی قوت صرف 80 لاکھ کے قریب ہے۔

جو ان شعبوں میں مصروف عالمی آبادی کا محض 4 فی صد ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد سائنسی کتب اور 20 لاکھ سے زائد سائنسی مقالات شائع ہوتے ہیں۔ جب کہ اسلامی ممالک سے شائع ہونے والی سائنسی اور تحقیقی کتب اور مقالات کی سالانہ تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے۔ مسلم بچوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی اسکول نہیں جاتی اور 60 فیصد بچے پرائمری سطح پر ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ 57 مسلم ممالک میں صرف 26 ملک ایسے ہیں جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے اسکول جانے کا تناسب برابر ہے۔

سائنسی تحقیق اور ایجادات میں مسلمان ممالک کا حصہ تقریباً صفر ہے۔ تعلیم پر اخراجات کی صورتحال یہ ہے کہ صرف جاپان کا تعلیمی بجٹ تمام اسلامی ممالک کے تعلیمی بجٹ سے زیادہ ہے۔ اسلامی ممالک میں ایسی ریاستیں بھی ہیں جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں لیکن ان کی توجہ تعلیم و تحقیق سے زیادہ عیش و عشرت اور اپنے تخت کو دوام دینے پر ہے۔ باوجود اس کے عصری تعلیم میں مغرب سے مقابلہ کرنے کی بجائے غفلت اور تساہلی نے اسلامی ممالک کو ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ مسلمان آج عصری تعلیم میں تو پسماندگی کے شکار ہیں ہی ساتھ ہی ساتھ دینی تعلیم میں بھی مسلمانوں کی ترقی قابل ذکر نہیں ہے۔ ہماری اس سے زیادہ بدقسمتی ہوگی کہ قرآن پاک جس سے ہم روگردانی اختیار کیے ہوئے ہیں غیرمسلموں کے ہاں تحقیق کا ذریعہ ہے۔

حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا

مسلمانوں کے تعلیمی اور سماجی زوال کا آغاز نصف اٹھارہویں صدی میں یورپ میں ہونے والے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جدید تقاضوں اور ایجادات سے ہم آہنگ نا ہونے سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پہ یورپ میں جب ٹائپ رائٹر ایجاد ہوا تو مسلم علماء نے اسے استعمال کرنے کی مخالفت کی۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ یورپ میں جہاں پانچ ہزار کتب شائع ہوتیں وہاں مسلم ممالک میں صرف پانچ سو کتب شائع ہوتیں۔ سلطنت عثمانیہ اور مغل بادشاہت کے زوال کی ایک بڑی وجہ فوجوں کو جدید اسلحے سے لیس نہ کرنا تھا۔

یہی وہ وقت تھا جب یورپ نے یونیورسٹیاں بنانے اور تحقیق پر توجہ صرف کی جبکہ مسلمان اس دوران بیرونی اور اندرونی عناصر کے خلاف لڑنے میں مصروف رہے۔ بر صغیر میں مسلمانوں کی شرح خواندگی 82 فیصد تھی، انگریزوں نے جب انگریزی زبان نافذ کی تو مسلمان ہر شعبے کے لیے نا اہل ہو گئے۔ تب حالات کے مطابق انگریزی تعلیم سے نا جڑنے کی وجہ سے انگریز ہمیں ایسے بوسیدہ تعلیمی نظام میں جکڑ گئے جس سے ہم آج تک نہیں نکل سکے۔ اور مسلمان ہنوز جدید تقاضوں کو اپنانے سے گریزاں ہیں۔

مسلمانوں میں اس وقت تحقیق کے رجحان کا شدید فقدان ہے۔ جبکہ یورپ اور امریکہ تحقیق و ٹیکنالوجی پہ اربوں ڈالرز خرچ کر رہے ہیں۔ اسلامی ممالک ٹیکنالوجی کے لحاظ سے مکمل طور پہ یورپی مصنوعات پر منحصر ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ خانہ کعبہ کا غلاف تک اٹلی سے تیار کروایا جاتا ہے۔ مسلم دنیا کی طرف سے ہر سال ہزاروں ڈالرز کا امریکی اور فرانسیسی فوجی ساز و سامان خریدا جاتا ہے۔ ہم دفاع کے لیے گھوڑے بھی خود تیار نہیں کر رہے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ مسلمانوں کو کائنات میں تحقیق کی دعوت دی ہے فرمایا: ”زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اسے کیسے بنایا ہے“ ۔ (سورہ العنکبوت: 20 ) ہمارے آباء و اجداد نے غور و فکر کی اسی دعوت کو قبول کیا اور اقوام عالم کو سائنس، اجرام فلکی، سرجری، جیومیٹری اور الگورتھم جیسے انقلاب ساز علوم سے متعارف کروایا۔ مسلمانوں کو ترجیحی بنیادوں پہ تحقیق پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ معیار تعلیم بلند کرنے کے ساتھ ساتھ یورپی مصنوعات پر انحصار ختم کیا جائے۔

برین ڈرین اسلامی ممالک میں تعلیمی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ مسلم ملکوں میں با صلاحیت طالب علموں اور پروفیسرز کی ایک بڑی تعداد بہتر مواقع نا ہونے کی وجہ سے یورپ کا رخ کرتی ہے۔ ابتداً زیادہ تر افراد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے ہجرت کرتے ہیں اور بعد ازاں مختلف وجوہات کی بنا پر دیار غیر ہی کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ برین ڈرین کی بدولت اسلامی ممالک اپنے بڑے دماغوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اور غیر ہمارے ستاروں سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔

یورپ اور امریکہ میں ہونے والی بڑی تحقیق کا حصہ مسلمان سائنسدان ہیں۔ آئن سٹائن کی ثقلی امواج ( (Gravitational wavesپرتحقیق کرنے والی سائنسدان نرگس ماولوالہ کا تعلق پاکستان سے ہے۔ جبکہ حال ہی میں کورونا وائرس کے خلاف سب سے موثر امریکی فائزر ویکسین ترکی کے ڈاکٹر شاہین اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر اوزلم تورجی نے بنائی ہے۔ مسلمان ممالک کے لیے برین ڈرین کو روکنے کے لیے اقدامات کرنا اشد ضروری ہے۔ اس سب کے علاوہ مسلم ممالک میں کرپشن، نا اہل قیادت اور ترجیحات بھی تعلیمی پسماندگی کی وجہ ہیں۔

مسائل پر گفتگو بہت طویل ہے کچھ اسباب کی بات بھی کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کے لیے اس وقت اپنے آپسی اختلاف کو پس پشت ڈال کے ایک مرکز پہ اکٹھا ہونا بہت ضروری ہے۔ مشترکہ اعلامیہ طے کر کے تعلیمی زبوں حالی ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔ پاکستان، مصر، ترکی، ایران اور ملائیشیا یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ تحقیق کے شعبے میں یورپ اور امریکہ کا مقابلہ کرسکیں۔ کثیر آمدن والے اسلامی ممالک کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔ دینی تعلیم اور عصری تعلیم کو یکجا کر کے حسین امتزاج بنایا جائے۔

مسلم سکالرز اسلاف کے نقش قدم پر بیک وقت سائنس اور دین کے ماہر ہوں۔ سب سے ضروری امر یہ ہے کہ مسلم ممالک دفاعی بجٹ پر ہونے والے اخراجات کو کم کر کے تعلیم پر خرچ کریں۔ کیونکہ علم و ہنر پر فوقیت ہی آج کے دور میں اقوام عالم میں فوقیت عطا کرتی ہے۔ یورپ ہمارے آبا و اجداد کی کتابوں اور تعلیمات سے اس مقام پر پہنچا ہے۔ لہذا ہمیں بھی اب یورپ سے سیکھنے میں دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کو ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے جدید تقاضوں کو شریعت کے رنگ میں اوڑھنا نہایت ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments