کرونا لاک ڈاؤن اور امتحان نہ دینے کے شوقین بچے!


سنا ہے کہ ہر سو سال بعد دنیا میں پینڈیمک (وبائی مرض) آتا ہے۔ اور لاکھوں افراد دنیا بھر میں اس کا نشانہ بننے کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ یہ وبائی امراض دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی اور بہت تیزی سے اوپر جاتی معیشت کو بھی پیروں تلے روند دیتے ہیں۔ 1918 میں آنے والے ”اسپینش فلو“ نے ایک اندازے کے مطابق کم وبیش 50 ملین یعنی 5 کروڑ افراد کو لقمہ اجل بنایا تھا اور 1919 کے سمرز (گرمیوں کے موسم ) تک جاری رہا۔

کیونکہ اس وقت تک یا تو متاثرہ افراد اینٹی باڈیز بنا چکے تھے یا پھر دار فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ اسپینش فلو کے بعد ایشین فلو 1957، اور سارس 2003 جیسے وبائی امراض بھی اس روئے زمین پر آئے لیکن جو تباہی 2019 میں چائنا سے شروع ہونے والے کرونا وائرس یا کووڈ 19 نے مچائی اس کا مقابلہ کسی سے نہیں۔ اور دنیا آج تک اس وبائی مرض کے کاری وار کا مناسب جواب دینے سے قاصر ہے۔ بڑی بڑی سپر پاورز جیسے امریکہ، برطانیہ، اٹلی، فرانس، رشیا، اور تیسری دنیا کے ممالک جیسے انڈیا، ایران، بنگلہ دیش، اور پاکستان اس مرض سے لڑنے اور اس کا موثر حل نکالنے میں کسی حد تک بے بس نظر آتے ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ سال اس بیماری سے نہتے لڑنے کے بعد ایک امید کی کرن جاگی جو کہ کرونا سے بچاؤ کی ویکسین ہے۔

اگر میں بات کروں پاکستان کی تو حکومت پاکستان کی جانب سے کیے گئے بروقت اقدامات اور شہریوں کو بالکل مفت لگائی جانے والی ویکسین نے حالات کو قدرے سنبھالا ہوا ہے۔

اس جان لیوا اور مہلک وائرس نے جہاں زندگی کے نظام اور زندگی گزارنے کے طریقے کو یکسر تبدیل کر دیا وہیں اس کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈاؤن نے لوگوں اور خصوصاً ہمارے بچوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔

گھروں میں لاک ڈاؤن میں مہینوں بند رہنے والے بچوں کے لئے واحد تفریح سوشل میڈیا ہی رہی، جس نے ان کے ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ سب سے پہلے سوشل میڈیا کے اس بے جا اور بے دریغ استعمال کے باعث ”تمیز“ نے بچوں سے ہاتھ چھڑایا۔ اس کے بعد تربیت بھی ناراض نظر آئی۔ والدین کی بے توجہی کا شکار یہ معصوم اور ننھے ذہن تعلیم اور وزیر تعلیم کو دشمن سمجھنے کے بعد ہر اس انسان سے بد تمیزی اور بد تہذیبی کا مظاہرہ کرنے لگے جس نے بھی امتحانات کی حمایت کی۔

گندی غلیظ زبان، فحش گالیاں اور اعلی تربیت کا مظاہرہ کیا اور ان سب کے لئے استعمال کیا گیا سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر کا۔ جہاں نویں سے بارہویں جماعت کے بچوں نے پچھلے برس اگست ستمبر سے اب تک ہزاروں آئی ڈیز بنائیں جن میں سے 70 فیصد کی بائیو میں لکھا ہے۔ ”ٹو پروٹیسٹ اگینسٹ شفقت محمود“ ۔ یعنی نونہال کی اس آئی ڈی کا مقصد وزیر تعلیم شفقت محمود اور ہر اس شخص۔ کو۔ گالیاں دینا ہے جس نے بھی امتحانات کی حمایت کی۔

آج صبح اپنی ایک ٹویٹ میں، میں نے لکھا کہ ٹویٹر کو نویں سے بارہویں جماعت کے بچوں کی آئی ڈیز کی اجازت نہیں دینی چاہیے جس پر ہمارے مستقبل کے معماروں کی جانب سے ہرزہ سرائی جاری ہے۔ کسی کے خیال میں میں نے تو کبھی بارہویں کا پرچہ نہیں دیا اس لیے مجھے کیا پتہ کہ امتحانات میں کیا مسائل ہوں گے ، کسی کے خیال میں، میں بھی شفقت محمود کی جاہل ساتھی ہوں اس لیے میری بات کا جواب گالی سے دینا بہتر رہے گا۔ کسی کے خیال میں، میں جو ایک نجی بنک میں ریلیشن شپ مینیجر ہوں، 8 سال سے برسرروزگار ہوں کو کون نوکری پر رکھے گا، کسی کے خیال میں، میں جو ایک سال پہلے کرونا کا شکار ہوئی کو کیا خبر کہ کرونا کس بلا کا نام ہے، کسی کو لگتا ہے میں جس کے 3 رشتے دار اس وبائی مرض کا شکار ہو کر دنیا سے گئے اس کو کیا پتہ کہ کرونا سے موت بھی ہو جاتی ہے، کسی کے خیال میں میری ہی آئی ڈی بلاک ہو جانی چاہیے، یاد رہے کہ میں نے کہا تھا کہ بچوں کو ٹویٹر پر ایکسز نہیں ملنا چاہیے جس کے جواب ہمارے ہونہار بچوں نے یہ دیا۔

مسئلہ یہ نہیں کہ میرے کسی ٹویٹ کے جواب میں کسی بچے نے گالی دی یا گھٹیا زبان استعمال کی۔ میں حیران ہوں کہ کیا ماں باپ نے بچوں پر، ان کی تعلیم و تربیت پر، ان کی اخلاقیات پر، ان کے انٹرنیٹ کی استعمال پر اور سوشل میڈیا پر ان کی مصروفیات پر دھیان دینا چھوڑ دیا ہے؟ کیا والدین کو اب اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کا بچہ سوشل میڈیا پر کس قسم کی اخلاقیات کا مظاہرہ کر رہا ہے، کس قسم کی غلیظ اور گھٹیا زبان استعمال کر رہا ہے، کیا بچے کی یہ بدتمیزی صرف سوشل میڈیا تک ہی محدود رہے گی؟

ہرگز نہیں! کیونکہ سوشل میڈیا کا استعمال ایک نشہ ہے۔ اور یہ بدزبانی اس کی عادت اور پھر فطرت میں شامل ہو جائے گی! کرونا نے ملکوں کی معیشت کے ساتھ ساتھ بچوں کے ذہنوں کو تباہ کر دیا، والدین کو لگتا ہے اب بچہ گھر میں بیٹھے بیٹھے موبائل فون بھی استعمال نہ کرے تو اور کیا کرے، باہر جانے اور کھیل کود پر تو پابندی ہے۔ یہ درست ہے کہ باہر وائرس کا خطرہ ہے لیکن اندر بیٹھ کر سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال وہ وائرس ہے جو کسی ایک انسان کو نقصان نہیں پہنچائے گا بلکہ نسلوں کی تباہی کی وجہ بنے گا۔ موبائل فون کا استعمال بے شک کریں لیکن یہ یقینی بنانا بے حد ضروری ہے کہ ہمارا بچہ کیا کر رہا ہے۔

امتحان نہیں دینا کیونکہ پڑھائی نہیں کی۔ اور اس احتجاج کو ریکارڈ کروانے میں گندی، غلیظ اور گھٹیا زبان کا استعمال ہی اس بات کی ضرورت پر زور دیتا ہے کہ اسکول کھلنا کس قدر ضروری ہے۔ وہ بچہ جو ایک سال اسکول نہ جاکر تمام تمیز اور ادب کو ہوا میں اڑا گیا خدانخواستہ اگر مزید دو تین سال اسکول نہ جا پایا تو پھر مستقبل کے ان معماروں کا اللہ ہی حافظ ہوگا۔ ہونہاروں اور نونہالوں کو ابھی اندازہ ہی نہیں کہ وہ امتحان نہ دینے کو شوق میں جو بد زبانی اور بد تہذیبی دکھا رہے ہیں اس کا نقصان خود ان کی ذات کی علاوہ اور کسی کو نہیں ہوگا۔ سوشل میڈیا اور موبائل فون کا استعمال بیش بہا بہتر چیزوں کے لئے کر کے آپ اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں ورنہ زبان کا غلط استعمال خاندان اور تربیت کا پتہ بھی دیتے ہیں۔ ! لاک ڈاؤن میں آمدورفت پر پابندی ہے، لیکن تمیز اور اخلاقیات پر ہرگز نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments