سندھ میں خاموش ثقافتی انقلاب


*آپ سب کیا سمجھتے ہیں کہ محلہ داری اب ہمارے معاشرے سے ختم ہو گئی؟ یا پھر اب لوگ اتنے مصروف ہیں کہ اپنے ہمسائے کی اس طرح خبر گیری نہیں رکھتے جس طرح پہلے وقتوں میں رکھی جاتی تھی؟ *

بچپن میں جب چھوٹے ہوا کرتے تھے تو ایسا کوئی دن نہیں ہوتا تھا جب ہمارے گھر سے ہمسایوں کو کھانا نہ جاتا ہو، ہمارے بابا کے ہوٹل کے کاروبار اور فشری میں مچھلی کے کاروبار کی وجہ سے ہمارے گھر میں مہینوں مینوں بمشکل ہی کھانا پکایا جاتا۔ ہوٹل ہونے کی وجہ سے کھانا بھی وہیں سے آ جاتا اتنا کہ بعض اوقات پورے محلے کے لئے ایک ٹائم تک کافی ہوجاتا۔

مچھلی کے کاروبار کی وجہ سے بھی یہی کچھ ہوتا تھا کہ گھر میں مچھلی اتنی آتی تھی دیکھ دیکھ دل اور نظریں بھر سی جاتی تھی امی محلے میں اپنے ہمسایوں میں بانٹ دیتی اور پڑوس سے بھی ایسی طرح کی محبتیں، اکرام اور اخلاق کا تبادلہ ہوتا، میری بچپن سے ہی سب بہن بھائیوں میں سے طرہ امتیاز یہی عادت تھی کہ خاندان، قوم علاقے کے باہر اجنبی لوگوں سے روشناس ہونا اور دوستیاں رچا لینا، گھر سے زیادہ وقت پڑوسیوں کے گھروں میں رہنا ان کے بچوں کے ساتھ کھیلنا کھودنا، ٹی وی وی سی آر دیکھنا۔

ہفتے میں اک بار کبھی ہمارے محلے میں جمعہ بچت بازار لگ جاتا یا اتوار بازار لگ جاتا اس میں محلے والوں کے ساتھ اودھم مچانے چلے جانا پسندیدہ مشغلہ تھا۔

مجھے اکثر لڑکیوں سے دوستی کم ہی رہی ہے، اس کی وجہ طبیعت کی تلخی اور سختی رہی ہے۔ شروع سے طبیعت مردانہ صفات کی حامل تھیں اور بچپن کا اکثر حصہ لڑکوں جیسے کھیلوں میں بسر ہوا مثال کے طور پر کبھی گولیاں کھیلنا، کبھی سوزکی کے پیچھے لٹک جانا کبھی، چکنی مٹی سے گھروندے تعمیر کرنا، پھر جب کوئی توڑ دیتا تو اس سے لڑنا، جھگڑنا۔ ایک گلی سے دوسری گلی تک دوڑ میں ریس لگانا۔ لڑکیوں جیسے عادات نازک و نرم بود باش سے مجھے ابتدا سے چڑ رہا۔

عمر کا جو حصہ گزرا ہمسایوں کے ساتھ وہ تعلق آج تک قائم ہیں مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرے بچپن میں میری والدہ کو کبھی کسی کی بیماری یا اپنی پریگنینسی پر بھی اسپتال ٹھہرنا پڑتا تھا تو ہمارا خیال ہمارے محلے میں والدہ کی اڑوس پڑوس کی سہیلی آنٹیاں رکھا کرتی تھی مجھے تو میری والدہ بتاتی ہیں کہ دو سال تک پیدا ہونے کے چند ماہ بعد پڑوسیوں نے ہی زیادہ سنبھالا جب گھر میں بھوک لگنے پر دودھ پلانے کے لیے لاتے تھے گھر سے زیادہ پیار ہمسایوں کی فیملی سے ملتا تھا۔

اور جب اسکول مدرسے جانے کی عمر ہوئی تو تب بھی یہی ہوتا تھا کہ ہمسایوں کے بچوں کے ساتھ ٹیوشن پڑھنے جانا مدرسے جانا، اور گھر بڑے بزرگ پڑوسیوں کے ہمراہ جمعہ اور عیدین ادا کرنے ساتھ چلتیں۔

پہلے سے ناخوش گوار واقعے سے نمٹنے کے لئے پیسے کے بندوبست کے لئے بی سی ڈالنا، کسی ڈرامہ، یا خاص ایوینٹ پر ہمسایوں کے گھر رات گزارنا، محبت کا یہ عالم تھا کہ چاند رات کو چوڑیاں، مہندی، عیدی مٹھائی وغیرہ بھی تحائف میں ہمسایوں کی طرف سے آیا کرتی تھی ہمارا بچپن اس کی خوبصورت سی یادیں جو آج تک دل دماغ میں قید ہیں بہت خوبصورت ہوا کرتی تھی تب شاید ہم چھوٹے تھے تو زمانے کی رفتار میں ریپ، قتل، گمشدگی جیسے واقعات کا کوئی تصور خال ہی ملتا۔

اب والدین جتنے حساس ہوتے ہیں اولاد کے لیے اب تو انسان پر وہ وقت اگیا ہے کہ ہمسایوں کے گھر میں جب تک کوئی وفات نہیں ہوتی مجال ہے کہ خبر گیری کرے کوئی، بلکہ انسان اتنا غافل ہو گیا ہے کہ برسوں اس کو اپنے نئے پڑوسی کا علم تک نہیں ہوتا کہ کون ہے میرا پڑوسی اور کیا مسائل کا سامنا ہے میرے پڑوسی کو!

یعنی کہ انسان اتنا ان سیکیور محسوس کرتا ہے اپنے ہمسایہ سے نہ وہ محبتیں اخلاق دیکھنے کو ملتے

یہاں تک کہ گھر کے باہر سے گلی کی صفائی ستھرائی کے بہانے ملنے ملانے ایک تصور ہوا کرتا تقریباً وہ بھی مفقود ہو کر رہ گیا ہے۔

عید قرباں کے دنوں تو محبتوں کا سلسلہ مزید پروان چڑھتا ہم مڈل کلاس کے لوگ جانور اپنے گھر کے دروازے کے آگے باندھتے ہیں اکثر پڑوسی دیکھ بھال پر مامور رہتی فضلہ تک کے صاف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا۔

الغرض بہت چھوٹے چھوٹے مدد اور معاونت بہت خوشی مہیا کر دیتی اس طرح سے ایک دوسرے کی ہر ایک چیز کا خیال رکھا جاتا تھا اگر کسی کو باہر جانا ہوتا تھا پوچھ لیتے تھے کچھ منگوانا تو نہیں ہم نے اتنا بلند اخلاق رکھ کر ایک دوسرے کے ساتھ رہا کرتے تھے شادیوں کے فنکشنز میں ایک دوسرے کے گھر استعمال ہوتے تھے مہمانوں کے لیے دل سے ویلکم کرنے کے لیے اب تو انسان وقت کے ہاتھوں ایسا ہو گیا ہے کہ اپنی زندگی اپنی چار دیواری تک ہی گزر بسر کر لیتا اور غیر تحفظ اتنا ہو گیا کہ بچپن ہی میں بچوں کے لیے سختیاں اور پابندیاں لگانا شروع کر دیتا پڑوسیوں کے گھر نہیں جا۔ نا اپنے بچوں کو تاکید کی جاتی ہے کہ کچھ کھانا نہیں پڑوسیوں کے بچوں سے زیادہ بات۔ نہیں کرنی وغیرہ وغیرہ ٹائپ کے درس یعنی کے ہم دیکھے تو قرآن جیسے الہامی کتاب نے بھی پڑوسیوں سے اچھے برتاوٴ کی تاکید کی ہے۔

مادی ترقی کے بہتات نے رشتوں کے درمیان ایک حائل کھڑا کر دیا اور خود کے لئے تنگی پیدا کر دیا ہے اور رشتوں کی وہ چاشنی معدوم کردی ہے اور انسان کمپیٹیشن پر لگادیا ہے کہ اب تو پڑوسیوں نے فلاں گاڑی لے لی ہے! ہم نے اس سے اچھی لینے کی تیاری کرنا ہے۔

پڑوس میں ایسا جانور آیا تو ہم اس سے اچھا لے آئیں بس! انہیں چیزوں کو دیکھتے دیکھتے انسان بڑا ہو جاتا ہے اور رشتوں کی تمیز بھول جاتا ہے مادی ترقی اور بے جا کمپیٹیشن کے دوڑ میں زندگی سمٹ گئے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments