کلچر کی ایک نئی قسم کی دریافت: میاں کلچر



ملک کی معروف سپر ماڈل، صدف کنول نے ایک حالیہ ٹی وی ٹاک شو میں نسائیت پرستی اور بیوی کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے کچھ ایسی باتیں کر دی ہیں جنہوں نے باشعور اور سنجیدہ طبقے میں ان کا مذاق بنوا دیا ہے۔ جب ان سے میز بان نے فیمینزم کے بارے میں سوال پوچھا تو کہنے لگیں : ہمارا کلچر کیا ہے؟ ہمارا میاں ہے۔ مجھے شیری (شہروز سبزواری) کے کپڑے بھی استری کرنے چاہیے اور جوتے بھی اٹھانے چاہیے۔ بطور بیوی مجھے پتہ ہونا چاہیے کہ شیری کی کون سی چیز کہاں پر ہے۔ مجھے شیری کا پتہ ہونا چاہیے، شیری کو میرا پتہ نہیں ہونا چاہیے۔

میں نے جب ٹویٹر پر ان کا یہ کلپ دیکھا تو حیرت ہونے کے ساتھ ساتھ ہنسی بھی آئی۔ ایک سپر ماڈل اور فیشن آئیکون جیسی ہستی یہ کہہ رہی ہے جو آج تک کسی گھریلو بیوی کی زبان سے بھی نہ سنا۔ سب سے پہلے تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کلچر کی یہ کون سی جدید ترین قسم ہے جس کا ہمیں پہلے پتہ نہ تھا۔ جو الفاظ ایک خاتون کی زبان سے سننے کو ملے، وہ تو کسی مرد حتیٰ کہ مولوی نے بھی نہ کہے ہوں گے۔

ایک اور پریشان کن بات یہ ہے کہ بیوی کو شوہر کا پتہ ہونا چاہیے، شوہر کو بیوی کا نہیں۔ یعنی بیوی چاہے بیمار ہے، تھکی ہوئی ہے، کسی بھی مسئلے کا شکار ہے، وہ بھاڑ میں جائے۔ شوہر کو اس کا احوال معلوم کرنے اور اس کی روزمرہ ضروریات کا خیال رکھنے کی ضرورت نہیں۔ صرف بیوی کا ہی فرض ہے کہ شوہر کا خیال رکھے، شوہر پر تو بیوی کا خیال رکھنا فرض ہے ہی نہیں۔ اگر خدانخواستہ شہروز سبزواری نے واقعی بیوی کا پتہ رکھنا چھوڑ دیا تو؟ شوبز کی دنیا میں تو ایسے معاملات کی وجہ سے جھٹ پٹ طلاق ہو جایا کرتی ہے۔

جس طرح صدف کنول صاحبہ نے میاں کلچر متعارف کروایا ہے، کیا اسی طرح ہم بیوی کلچر کا تصور بھی پیش کر سکتے ہیں؟ یعنی شوہر، بیوی کے لئے بالکل ایسے ہی خیالات اور جذبات کا اظہار کرے جیسا ہماری سپر ماڈل نے شوہر کے لئے کیا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں موجود بیوی کلچر ان کے پیش کردہ میاں کلچر کے بالکل برعکس ہے۔ ہمارا بیوی کلچر یہ ہے کہ بدکاری کا الزام لگا کر بیوی پر تیزاب پھینک دیا جائے یا اس کی ناک کاٹ دی جائے تاکہ وہ اپنی صورت کسی کو دکھانے تو کیا، خود آئینے میں دیکھنے کی بھی روادار نہ رہے۔

اسے جنسی، جسمانی، جذباتی، نفسیاتی، مالی اور دیگر طرح کے تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنایا جائے۔ شادی کے وقت لاکھوں کے جہیز کا غیرت مندانہ مطالبہ کر کے اس کے گھر والوں کو قرض لینے پر مجبور کر دیا جائے۔ روٹی گول نہ پکے یا بستر گرم نہ ہو تو طلاق کے علاوہ قتل کی بھی آپشن موجود ہے۔ اولاد پیدا نہ ہو تو اسے مورد الزام قرار دے کر میاں خود دوسری شادی کر لے یا طلاق دے دے۔ شادی کے چند سال بعد جب دل بھر جائے تو میاں کسی سہیلی یا داشتہ کا بندو بست کر لے اور بیوی سڑتی رہے۔

خود چاہے میاں غلیظ اور بدبو کا مارا ہو، بیوی خوشبوؤں میں نہائی ہوئی اور حکم کی بجا آ وری کے لئے ہمہ وقت تیار ملے۔ مرد خود چاہے زکوٹا جن کا بھائی لگتا ہو، بیوی اسے لیڈی ڈیانا جیسی چاہیے۔ ماں اور بہن کی گالیاں ہر وقت میاں کے نوک زبان پر ہوں اور بدزبانی کے طعنے بیوی کو دیے جائیں۔ اس کے علاوہ ہمارے معاشرے کے بیوی کلچر کی اور کون کون سی خصوصیات گنواؤں؟

میرے خیال میں صدف کنول صاحبہ نے جذبات میں آ کر اتنا بچگانہ بیان دے دیا ہے ورنہ شوبز اور فیشن انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی خواتین کا طرز زندگی، ان کے خیالات اور مصروفیات ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ وہ شوہر کو کپڑے استری کر کے دیں اور اس کے جوتے اٹھا کر سنبھالیں۔ صدف کنول، شہروز سبزواری کے ساتھ گھر کی چار دیواری میں کیا سلوک کرتی ہیں، اپنے بنائے ہوئے میاں کلچر پر حقیقت میں کتنا عمل درآمد کرتی ہیں، ہمیں کیا پتا؟ ہم نے کسی نے ان کے گھر جا کر تو دیکھا نہیں۔ عین ممکن ہے شوہر کو خوش کرنے کے لئے بڑھک ماری ہو۔

اب ایک اور نہایت اہم سوال اٹھتا ہے کہ شادی شدہ عورت کا کلچر تو ہو گیا ’میاں کلچر‘ ۔ جو مجھ جیسی غیر شادی شدہ ہیں، ان کا کلچر کیا ہو گا؟ بوائے فرینڈ / عاشق/ محبوب کلچر؟ ظاہر ہے ایک غیر شادی شدہ کی زندگی میں تو بوائے فرینڈ، عاشق، یا محبوب ہی ہو گا۔ اور اگر غیر شادی شدہ نے کسی سے ابھی تک محبت اور رومانس پر مبنی تعلق قائم نہیں کیا تو کیا وہ کلچر لیس (culture-less) کہلائے گی؟ اسی طرح بیوہ، طلاق شدہ وغیرہ کس کلچر کی پیروی کریں گی؟ کیا وہ فوت شدہ یا سابقہ شوہر کو اپنا کلچر کہیں گی؟

بھئی، میں تو صدف کنول صاحبہ کے اس بیان سے بہت الجھن کا شکار ہوں۔ قارئین ہی میری الجھن دور کرنے میں کچھ مدد کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments