نور مقدم قتل کیس : یک رخا پن کیوں؟


نور مقدم کے ساتھ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں جو کچھ ہوا، اس کی مذمت کے لئے الفاظ تلاش کرنا مشکل ہے۔ یہ درندگی اور سفاکی کا ایسا مظاہرہ ہے جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ حال ہی میں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد، قتل اور ریپ جیسے جرائم کی ایک لہر آئی ہوئی ہے۔ معلوم نہیں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری ہے یا ہمارے عدالتی نظام کی کوئی خامی کہ مجرم اکثر چھوٹ جاتے ہیں۔ یا انہیں معمولی سزا ہوتی ہے اور وہ کچھ ہی عرصے بعد اپنے بھیانک کردار کے ساتھ واپس آ جاتے ہیں۔

نور مقدم کے قاتل اور قتل کے سہولت کاروں کو سخت سے سخت سزا دینے پر دو آراء نہیں ہیں۔ یہ لوگ معاشرے کا ناسور ہیں۔ ایسے ناسوروں کو عبرت کا نمونہ بنا کر ہی قانون اور انصاف کے عمل کا اعتبار قائم کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کا کوئی معاشرہ جرائم سے پاک نہیں لیکن مہذب جمہوری ملکوں میں قانون اور انصاف کا نظام اتنا کڑا ہے کہ مجرم سزا سے بچ نہیں سکتا۔ ہمیں بھی اس امر کو یقینی بنانا ہو گا۔ لیکن کیا اس بھیانک واردات کا صرف یہی پہلو قابل توجہ ہے کہ قاتل اپنے انجام کو پہنچ جائے؟

کیا معاشرے کے سنجیدہ طبقوں، والدین، حقوق نسواں کی تنظیموں، اساتذہ اور دیگر سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات پر لازم نہیں کہ وہ اس واقعے کے تمام پہلووں پر حقیقت پسندی اور غیر جانبداری سے غور کریں؟ جب ہم اپنی آنکھوں پر ایک خاص رنگ کی عینک چڑھا لیتے ہیں تو ہماری سوچ بھی یک رخی ہو جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں موجود خرابی اپنی جگہ موجود رہتی ہے اور اس طرح کے جرائم کی روک تھام نہیں ہو سکتی۔ حقوق نسواں کی بات کرتے اور نور مقدم جیسے کیسوں کو زیر بحث لاتے بھی ہم اکثر و بیشتر اسی یک رخی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ ہم کہنے کو تو کہہ دیتے ہیں کہ اسلام محض نماز، روزہ جیسی عبادات پر مشتمل مذہب نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جو زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ ان بنیادی باتوں پر یقین بلکہ ایمان رکھنے کے باوجود ہم عملی طور پر ان اصولوں کو کم کم ہی اپنے اوپر نافذ کرتے ہیں۔ یقیناً ہمارا دین کوئی ایسی قدغن نہیں لگاتا کہ خواتین کو اپنے پیشہ وارانہ کردار سے محروم کر کے گھروں کے اندر مقید کر دیا جائے۔

ایسا تو ایران میں بھی نہیں ہو رہا جہاں کٹر مذہبی حکومت ہے بلکہ خواتین مردوں سے بھی زیادہ متحرک ہیں۔ اب تو اسلام کے گہوارے سعودی عرب میں بھی خواتین پر عائد پابندیاں ہٹائی جا رہی ہیں اور وہ مختلف شعبوں میں ابھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ سو پاکستان میں کسی کو خواتین کے متحرک کردار پر اعتراض نہیں۔ اسے تو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ چون کے لگ بھگ اسلامی ممالک میں سے، پہلی خاتون وزیر اعظم پاکستان میں منتخب ہوئی۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں خواتین کی آزادی کے نعرے کی آڑ میں، بے مہار پن، من مانی اور بلا روک ٹوک نقل و حرکت، مخلوط محفلوں، مردوں سے دوستیوں یا اقدار سے عاری میل جول کو عورتوں کے حقوق میں شامل کیا جانے لگتا ہے۔

یہیں سے بیماری کے جراثیم پیدا ہوتے اور پھر ناقابل علاج روگ تک پہنچ جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان جیسے ملک میں جب ”میرا جسم، میری مرضی“ جیسے نعرے لگتے ہیں تو کوئی نہیں سوچتا کہ خود کو اپنے جسم کی مالک و مختار سمجھنے والی عورت جب اس پر اپنی مرضی کا حکم چلاتی ہے تو بعض اوقات اس کے نتائج کتنے بھیانک نکلتے ہیں۔

آزادی ہر ایک کو بہت پیاری ہوتی ہے۔ ایک خاتون ہونے کے ناتے مجھے بھی خواتین کی آزادی نہایت عزیز ہے۔ لیکن میں یقین رکھتی ہوں کہ اس آزادی کی کچھ حدود و قیود ہونی چاہئیں۔ غالباً ہر قدامت پرست یا روایت پسند اسی طرح سوچتا ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا معاشرے سے ہو۔ یہ جملے لکھ رہی ہوں تو مجھے برسوں پرانا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ کئی سال پہلے ملائشیا میں میری ملاقات ایک ملائیشین ہندو لڑکی ماہیما سے ہوئی۔

وہ یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔ اس کی ماں نے پی۔ ایچ۔ ڈی کر رکھی تھی اور ایک معروف کمپنی میں ہیومن ریسورس شعبہ کی سربراہ تھی۔ ماہیما کے نہایت مختصر سکرٹ اور گہرے گلے والی شرٹس دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا کہ اس کا خاندان کافی لبرل ہے۔ مجھے ملائشیا گھماتے ہوئے وہ کہنے لگی کہ کلب چلتے ہیں۔ میں نے بتایا کہ مجھے اس طرح کی سرگرمیوں میں کچھ خاص دلچسپی نہیں ہے۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ وہ ہر ویک اینڈ پر کلب جاتی ہے۔

مگر فلاں وقت کے بعد اسے گھر سے باہر رہنے کی اجازت نہیں ہے۔ کہنے لگی کہ نیو ائر نائٹ پر بہت مشکل سے میری ماں نے مجھے باہر رہنے کی اجازت دی۔ مگر میرے والد کلب میں دور بیٹھے میری نگرانی کرتے رہے اور رات گئے مجھے ساتھ لے کر گھر واپس گئے۔ ابھی چند ماہ پہلے میری فون پر ماہیما سے بات ہوئی۔ لمبی بات کرنے کے بعد میں نے ازراہ مذاق کہا کہ کلب کی سناو؟ اب اتنے سال بعد تو یقیناً تمہیں شام کے بعد گھر سے باہر رہنے کی آزادی مل گئی ہو گی۔ کہنے لگی، کہاں جی۔ میری ماں کو لگتا ہے کہ میں ابھی اپنا اچھا برا نہیں سمجھتی۔ شام ڈھلنے سے پہلے گھر واپس آنے والی پابندی ابھی تک قائم ہے۔ اس کی باتیں سن کر مجھے اندازہ ہوا کہ مختصر کپڑے زیب تن کرنے والی اس ہندو لڑکی کی ماں نے بھی اس کی کچھ حدود مقرر کر رکھی ہیں جو یقیناً اس کے تحفظ کے لئے ہیں۔

اگرچہ اپنی مثال دینا کچھ اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ روز اول سے میں مخلوط تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم رہی۔ مخلوط دفاتر میں نوکری کی۔ شہر اور ملک سے باہر بھی اکیلے سفر کرتی ہوں۔ کسی سے ملنے ملانے یا دوستیاں رکھنے پر بھی کوئی قدغن اور روک ٹوک نہیں۔ چند ماہ پہلے ایک دوست شادی شدہ جوڑے کو کہیں ڈنر پر بلا لیا۔ انہیں کچھ ایسی ایمرجنسی ہوئی کہ وہ تاخیر سے پہنچے۔ یہی وجہ ہے کہ گھر آتے آتے مجھے بھی رات کے گیارہ، ساڑھے گیارہ بج گئے۔

شاید دس بارہ سال بعد میں اس قدر تاخیر سے گھر پہنچی ہوں گی۔ اس قصے کو کئی ماہ بیت چکے ہیں، مگر یہ طعنہ اب تک مجھے سننے کو ملتا ہے کہ ”جب جوان جہان خواتین منہ اٹھا کر رات گئے تک گھر سے باہر رہنے لگیں تو اس کے ممکنہ نتائج اور نقصانات کیا ہو سکتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ“ ۔ بہرحال مجھے یقین ہے کہ یہ طعنہ میری آزادی سلب کرنے کی کسی مہم کا حصہ نہیں ہے۔ یہ بھاشن میرے تحفظ اور حفاظت کے لئے دیا جاتا ہے۔

آزادی نسواں کی اہمیت تسلیم، لیکن آزادی کی کچھ حدود مقرر ہونی چاہئیں تاکہ حادثات سے بچا جا سکے۔ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے ڈرگز اینڈ کرائمز (UNODC) کی ایک تازہ رپورٹ بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ تحقیقی رپورٹ بتاتی ہے کہ مردوں کی نسبت، خواتین کے قتل عمد (intentional homicide) کی شرح ان معاشروں میں کہیں زیادہ ہے جہاں خواتین کو لامحدود آزادی، حقوق اور مراعات حاصل ہیں۔ مثال کے طور پر ہالینڈ میں یہ شرح 35 فیصد، فرانس میں 38 فیصد، بیلجیم میں 43 فیصد، جرمنی میں 47 فیصد، سویٹزرلینڈ میں 50 فیصد ہے۔

جبکہ وہ معاشرے جہاں کچھ نہ کچھ فیملی سسٹم موجود ہیں، خواتین کے حوالے سے کچھ روایتی اقدار موجود ہیں، یا جنہیں ہم تضحیک کے انداز میں گھٹے ہوئے معاشرے کہتے ہیں، وہاں خواتین کے قتل عمد کی شرح، ان آزاد معاشروں سے کہیں کم ہے۔ مثلاً مصر میں یہ شرح 12 فیصد، یوگنڈا میں 14 فیصد، سوڈان میں 15، کانگو میں 16 فیصد ہے۔ پاکستان میں یہ شرح 23.3 فیصد ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر مادر پدر آزادی ہی خواتین کے تحفظ کی ضامن ہوتی، تو پھر ان مغربی ممالک میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کی شرح یہ اس قدر زیادہ نہ ہوتی۔ پاکستان میں جب ہم سماجی اور مذہبی روایات کی بات کرتے ہیں تو طرح طرح کی تاویلیں اور دلیلیں سننے کو ملتی ہیں۔ تنگ نظر اور تنگ دل ہونے کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے۔ اس امر کی تفہیم نہایت ضروری ہے کہ خواتین کی آزادی کا مطلب مادر پدر آزادی ہرگز نہیں ہے۔ اگر ہمیں حادثات اور سانحات سے بچنا ہے، تو آزادی کی کچھ حدود و قیود متعین کرنا ہوں گی ۔

۔ ۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments