حضرت عثمان غنی ؓ کے خلاف دھرنے کی کامیابی کی وجوہات


حالیہ تاریخ میں کسی بھی مستحکم حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے دھرنا دینے کی ٹیکنیک کو بڑے موثر انداز میں اختیار کیا گیا ہے۔ اسلام کی تاریخ میں پہلا دھرنا تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی ؓ کے خلاف آپ ؓکے مخالفین نے دیا۔ اس دھرنے کے دوران دارالحکومت کو چالیس روز تک یرغمال بنائے رکھا۔ شہری زندگی کو مشکلات سے دو چار اور شہر کے بیرونی راستوں کو آنے جانے والوں کے لیے بند کر دیا گیا۔ دھرنے کے شرکاء نے خلیفہ وقت کے خلاف اقربا پروری، اختیارات کے ناجائز استعمال، گورنروں کی عدم احتسابی، شرعی حدود کی پامالی سمیت کئی الزامات پر مشتمل چارج شیٹ لگائی۔ اپنے مطالبات منوانے اور خلیفہ وقت کو مسند خلافت سے ہٹانے کا عزم لے کر آنے والوں نے خلیفہ وقت کو مسند خلافت پہ شہید کر دیا۔

آخر حضرت عثمان ؓ کے دور میں باغی اتنے طاقتور کیسے ہو گئے کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے دارالحکومت پہ نہ صرف حملہ آور ہوئے بلکہ خلیفہ کو اس کی مسند پہ شہید کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے؟ حضرت عثمان ؓ نے اس بغاوت کو کس انداز میں ہینڈل کیا؟ اس دوران کیا کیا فیصلے کیے گئے؟ ان فیصلوں کے مستقبل پہ کیا کیا اثرات مرتب ہوئے؟ حضرت عثمان ؓ کے پاس کیا کیا متبادل آپشن تھے جن پہ عمل پیر ہوتے ہوئے اس انتہائی صورت حال سے بچا جا سکتا تھا؟

حضرت عثمان ؓ نے مسند خلافت حضرت عمر فاروق ؓ کے شہید ہونے کے بعد سنبھالی۔ انتظامی اعتبار سے حضرت عمر ؓ ایک نہایت منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کے سامنے اس سے قبل کوئی حکومتی ماڈل نہ تھا جسے آپ ؓ اپنے لیے مشعل راہ بناتے۔ اس کے باوجود ہر آنے والی نئی صورت حال میں آپ نے بہتر تدبیر اختیار کی اور بہترین نتائج حاصل کیے۔ آپ ؓ ایک سخت گیر منتظم کی حیثیت سے سامنے آئے جس سے انصاف، مساوات، میرٹ اور حقوق کی فراہمی یقینی نظر آنے لگے۔ جب کہ حضرت عثمان ؓ کا مزاج مختلف تھا۔ آپ حلیم مزاج، فیاض اور عفو درگزر کا پیکر تھے۔ آپ کی اسی طبعیت سے شر پسند عناصر کو زور پکڑنے کا موقع ملا۔

حضرت عمر ؓ نے نظام حکومت کو شخصیات کی مرہون منت کرنے کی بجائے اداروں کے تابع کیا۔ اس کے لیے آپ نے دو بہت بڑے اقدام اٹھائے۔ پہلا یہ کہ آپ نے جلیل القدر صحابہ اکرام ؓ کو مدینہ اور مکہ سے باہر رہائش پذیر ہونے سے روک دیا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو آپ ان سے ہر وقت مشاورت کر سکتے تھے۔ دوسرا یہ افراد نبی کریم ﷺ کے براہ راست فیض یافتہ تھے۔ یہ امر یقینی تھا کہ اگر وہ مفتوح علاقوں میں رہائش پذیر ہوتے ہیں تو عوام میں اپنی تقدیس کے باعث مقبول ہو جاتے اور ریاستی ادارے نشوونما نہ پا سکتے۔

دوسرا یہ کہ آپ ؓ اپنے گورنروں کو زیادہ دیر تک صوبوں میں تعینات نہ کرتے بلکہ تھوڑے ہی عرصے بعد انہیں تبدیل کر دیتے۔ انہیں واپس بلا کر اس صوبے کے حالات سے اگاہی حاصل کرتے اور مناسب وقت پہ انہیں کسی اور صوبے میں تعینات کر دیتے۔ اس حکمت عملی سے عوام میں یہ احساس پیدا ہو گیا اسلام کی طاقت شخصیات کی بجائے اس کے مضبوط اداروں میں ہے۔

حضرت عثمان ؓ نے یہ دونوں حکمت عملیاں ہی تبدیل کر دیں۔ جلیل القد صحابہ اکرام ؓ دوسرے صوبوں میں جا کر رہائش پذیر ہونے لگے جس سے بصرہ، عراق، کوفہ میں حضرت زبیر بن العوام، حضرت طلحہٰ ؓ اور حضرت علی ؓ کے حلقہ اثر میں بہت زیادہ وسعت پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ وہاں کے گورنروں کے لیے متوازی انتظام چلانا مشکل ہو گیا۔ اسی طرح آپ ؓ نے بہت سے گورنروں کو بہت طویل عرصے کے لیے گورنر لگائے رکھا جس سے مستقبل میں ریاست کے ادارے کمزور ہوئے۔ یہاں تک کہ آپ ؓ کی شہادت کے بعد مرکز میں حضرت علیؓ خلیفہ مقرر ہوئے تو ایک لمبے عرصے تک شام میں تعینات گورنر حضرت امیر معاویہ ؓجو کہ سلطان کی حیثیت اختیار کر چکے تھے مرکزی خلیفہ کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کر دیا بلکہ لشکر کشی بھی کی۔

حضرت عثمان ؓ کے خلاف دھرنے کے دنوں میں ریاستی سطح پہ لیے جانے والے فیصلے بھی کمزور تھے۔ آپ ؓ نے اپنی ذات کی خاطر مسلمانوں کے خون کو بہانے سے گریز کیا۔ حالانکہ آپ ؓ کی شہادت مسلمانوں کے لیے فتنوں کے ایک طویل سلسلے کا باعث بنی۔ حضرت عثمان نے اس فیصلہ سازی کی اس قوت کا مظاہرہ نہیں کیا جس کا مظاہرہ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے منکرین زکٰوۃ کے خلاف جنگ کے فیصلہ کے وقت کیا۔ تب نبی کریم ﷺ کے وصال کو چند یوم ہی گزرے تھے۔ اور مختلف قبائل نے زکٰوۃ کی صورت میں نافذ ٹیکس نہ دے کر ریاست کی رٹ کو چیلنج کر دیا۔ اس پر مسلمانوں میں منکرین زکٰوۃ کے خلاف لڑنے میں شدید ہچکچاہٹ تھی۔ ہر کسی کے ذہن میں سوال تھا کہ کلمہ گو مسلمان جو نماز بھی باقاعدگی سے پڑھ رہے ہیں ان کے خلاف کیسے تلوار نکالی جا سکتی ہے؟ یہی صورت حال آپ کے بعد بننے والے خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کو بھی تب پیش آئی جب خوارج اپنی افواج لے کر نہروان کے مقام میں آپ ؓنے مخالف آ دھمکے۔ تب بھی حضرت علی ؓ  کے لشکر میں شامل لوگ اس پہ خوف زدہ تھے کہ ہم کلمہ گو لوگوں سے جنگ کیسے کریں۔ خوارج تو تقوی میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ گناہ کبیرہ کو کفر تک سمجھتے تھے۔ لیکن حضرت علی ؓ نے اس وقت مضبوط قوت ارادہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے جنگ کی اور ان کی کمر توڑ کر رکھ دی۔

حضرت عثمان ؓاس وقت روئے زمین پہ سب سے بڑی سلطنت کے حکمران تھے۔ مدینہ کا محاصرہ چالیس روز تک رہا آپ ؓ نے بلوائیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ آپ ؓ کے پاس تین آپشن تھے۔ مدینہ میں موجود افواج کو حرکت میں لے کر آتے اور اپنا دفاع کرتے۔ کیونکہ بلوائیوں کی جانب سے لگائے گئے الزامات پہ حضرت عثمانؓ نے صحابہ اکرام ؓ کو مناسب وضاحت پیش کر دی تھی جس سے انہیں اطمینان بھی حاصل ہو گیا۔ دوسرا قریبی صوبوں سے افواج کو منگوا کر ان کا قلع قمع کیا جا سکتا تھا۔ یا پھر مسجد نبوی میں صحابہ کا اجلاس بلا کر خلافت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاتے اور کسی دوسرے شخص کو خلیفہ بنا لیا جاتا۔ اس سے یورش کم پڑ جاتی کیونکہ تمام تر الزامات ذاتی نوعیت کے تھے۔ آپ ؓ نے ان کے برعکس شہر نبوی میں اپنی ذات کی خاطر خون ریزی کو پسند نہ کیا اور کسی قسم کی فوجی نقل و حرکت کو روک دیا۔ جس سے بغیر مزاحمت کے بلوائیوں کو خود پہ تصرف دینے سے ریاست کمزور ہوئی اور شرپسند عناصر کو مستقبل میں بھی سازشوں کی شہ مل گئی۔

حضرت عثمان غنی ؓ کے دور حکومت میں حضرت عمر فاروق ؓجیسا معلومات کا مضبوط نیٹ ورک قائم نہ ہو سکا۔ ایران اور روم کے خلاف جنگوں میں حضرت عمر ؓکے خطوط کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ ایک دن بھی جنگی لشکر سے جدا نہیں ہوئے۔ انہیں لمحہ بہ لمحہ آگاہی تھی۔ یہاں تک کہ وہ لشکر کو یہ تک بتا رہے ہوتے کہ اسی رفتار سے اتنے روز چلو گے تو تم فلاں وادی تک پہنچ جاؤ گے۔ حضرت عثمان ؓکے خلاف مصر بصرہ کوفہ میں سازش تیار ہوتی رہی مگر اس کا کوئی سدباب نہ ہو سکا بلکہ ہر گورنر بلوائیوں کو اپنے صوبے سے نکال کر دوسروں کی طرف بھیجتا رہا جس سے یہ زہر کئی صوبوں میں پھیل گیا۔ اس کی وجہ ریاستی اداروں کا یکسو ہو کر کام نہ کرنا تھا۔ اگر گورنر اپنی سطح پہ ہی ایسے شر پسند عناصر کی سرکوبی کر دیتے تو دارالحکومت پہ یہ مشکل وقت ہرگز نہ آتا۔

آپ کے دور حکومت میں طرابلس، شام، افریقہ، جزیرہ قبرص، جزیرہ روڈز، قسطنطنیہ، آرمینیا، خراسان طبرستان سمیت کئی علاقے فتح ہوئے۔ آپ ؓنے مدینہ میں نہری نظام کو مضبوط کیا۔ سیلاب سے بچانے کے لیے ڈیم تعمیر کیے۔ کنویں کھدوائے۔ آپ کے خلاف بے بنیاد الزامات کے تحت کئی صوبوں میں پروپیگنڈا کیا گیا جس سے کثیر تعداد میں لوگ متاثر بھی ہوئے۔ لیکن باغیوں کے مقاصد محض ان الزامات پہ خلیفہ وقت کی تفتیش کرنا نہیں تھا۔ بلکہ ایسے حالات پیدا کرنا تھا جس سے وحدت امت پارہ پارہ ہو جائے۔

آپ ؓ کی شہادت نے جنگوں کے ایک طویل سلسلے کو جنم دیا۔ اور پھر ایک جسم کی مانند قرار دی جانے والی امت کبھی ایک امام کے پیچھے نماز کے لیے بھی اکٹھی نہ ہو سکی۔ حضرت عثمان غنی کی شہادت نے اسلام کے ریاستی نظام کو کمزور اور مسلمانوں میں خونریزی کے ایک لامتناہی سلسلے کو جنم دیا۔ دھرنے کے مقاصد ہمیشہ پوشیدہ ہوتے ہیں۔ عوام میں کیا جانے والا پروپیگنڈا دھرنے کے پوشیدہ مقاصد کے حصول کے لیے ہوتا ہے۔ دھرنے کبھی سیاسی استحکام نہیں لاتے بلکہ تفریق کا باعث بن کر ریاستوں کو کمزور کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments