ترکی پر دشمن کا ایک اور حملہ


سہ پہر ابھی ہوئی نہیں تھی اور دوپہر میں اس قدر شدت نہ تھی کہ جان لبوں پر آ جاتی، ہوا میں خنکی تو نہ تھی لیکن اس کی لہروں میں وہ رعنائی موجودتھی جس کے زور پر حسن بے پروا کی زلفیں بلا سبب لہرانے لگیں۔ دوپہر کے کھانے میں اس روز فیصولے (سرخ لوبیا) تھا ترک جس کی ساد ہ سی ڈش بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔

فیصولے کا مزہ لیتے ہوئے ہم نے پاکستانی لوبیا، اس کے پکوانوں اور کراری چاٹ کے مختلف ذائقوں کو یاد کیا۔ اس تذکرے سے گویا دبستاں کھل گیا اور بھائی خلیل طوقار نے ان دنوں کی یاد میں کھو گئے جب وہ پاکستان میں ہوا کرتے تھے۔ بس، یہی باتیں جاری تھیں کہ ڈاکٹر صاحب الاللہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ اٹھیں فاروق بھائی ،بویوک چاملی جہ (Byk amlca) چلتے ہیں۔ بویوک چاملی جہ کیا ہے؟ اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں۔ ایسا دعویٰ تو حضرت اقبال جیسے کلام و بیان کے شہنشاہ ہی کر سکتے ہیں۔

میرے مشاہدے کی ابتدا ایک نہایت معمولی بات سے ہوئی۔ بویوک چاملی جہ اور دیوار چین میں کوئی مماثلت تو نہیں لیکن ہر دو جگہ چڑھائی چڑھتے ہوئے سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگتی ہے اور اس وقت ہم دونوں بھائیوں کی کیفیت کچھ ایسی ہی تھی۔ بس،اسی کیفیت میں میری نگاہ ایک ریلنگ پر پڑی اور میں چونک کر رہ گیا۔ یہ جو پلاسٹک والی پانی کی بوتلیں ہوتی ہیں، ہمارے یہاں سڑکو ں پر بکھری ہوئی اور ہوا چلنے سے کسی آوارہ بگولے کی طرح سڑکوں پر کھٹکتی ، آگے بڑھتی ہوئی۔

چڑھائی شروع ہونے کے ذرا سا آگے جو چائے خانہ ہے،اس کے مالک نے ان بوتلوں کا عجب مصرف نکالا، عین درمیان سے انھیں کاٹ کر کشتی کی طرح دو حصوں میں تقسیم کیا اور ریلنگ کے ساتھ دل کش ترتیب کے ساتھ باندھ کر ان میں ان چھوٹے چھوٹے پھولوں کے پودے لگادیے جو صرف اسی پارک میں ہوتے ہیں۔ مجھے گلگت بلتستان کے دیو سائی میدانوں کی یاد آئی جن اپنے پھول اوران پھولوں کا اپناحسن ہے اور وہ ان میدانوں کے علاوہ دنیا میں کہیں اور پائے جاتے ہیں اور نہ جڑ پکڑتے ہیں۔ میں نے بویوک چاملی جہ کے ان پھولوں کو پیار کی اس نگاہ سے دیکھا تو ان کی خوشبو میرے من میں سما گئی، جب چاہوں، گردن جھکا کر اس کیفیت لوٹ جاؤں۔

یہ پھول ہمارے پہلو بہ پہلو چلتے جاتے تھے اور آگے بڑھتے جاتے تھے یہاں تک کہ ہم بویوک چاملی جہ کے عین وسط میں جا پہنچے۔ یہاں وہاں ترک خاندان طراوت بھرے سبزے میں اٹکھیلیاں کرتے تھے اور بچوں کی کلکاریاں اس جادو بھرے منظر میں موسیقی کام دیتی تھیں۔ یہ ایک جدید پارک ہے جو ایشیائی استنبول کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے اور جس شہر والے کو ذرا اسا بھی موقع ملتا ہے، بھاگ کر یہاں پہنچ جاتا ہے۔

پارک کے عین وسط میں ریستوران ہے جس کا انتظام اگرچہ میونسپلٹی کے ہاتھ میں ہے لیکن باوجود اس کے اس کے کونے کونے حسن ٹپکتا ہے، ہمارے یہاں کی طرح اس کی دیواروں پر یاس کے سائے بال بکھیرے سو نہیں رہے ہوتے۔ ریستوران میں ہمیں عین وہاں جگہ ملی جہاں حوض(Havuz ) یعنی فوارہ ارد گرد سے بے پروا اپنا کام کرتا جاتا ہے اور ارد گرد میزوں پر بیٹھے لوگوں کو اپنی میز پر بیٹھے افراد کے علاوہ کسی دوسرے کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ایسے فوارے عثمانی دور کی یادتازہ کرتے ہیں جنھیں شاہی حرم کے علاوہ ایسے مقامات پر تعمیر کیا جاتا تھا جہاں حکمرانوں کے علاوہ سلطنت کے اہم افراد کو رازداری میں گفتگو کرنی ہوتی تھی۔ استنبول کے توپ کاپی محل کے حرم میں ایسے فوارے آج بھی اپنے سنہری دور کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ بویوک چاملی جہ ریستوران میں ہم نے ترک کافی آرڈر دیا جس کی تلچھٹ سے فال نکالی جاتی ہے اور درست فال جس کی راہنمائی میں آنے والے دنوں کی منصوبہ بندی کی جاسکے۔

بھائی خلیل طوقار نے مجھے اس پارک کے حسن میں غرق دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ تو شہر ہے اور تم سمجھ سکتے ہو کہ شہر کے پارک کوانسانی اہتمام اور انصرام ایک خاص شکل عطا کردیتا ہے لیکن تم کہیں اگر ہمارے جنگلات کو جا نکلو تو واپسی سے ہی انکار کردو۔ ‘ ایسے کون سے جادوئی جنگلات ہیں جو زائر کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں’۔ میرا یہ سوال غضب ڈھا گیا اور بھائی خلیل طوقار اپنے جنگلات گنوانے لگ گئے، مرماریس (Marmaris) کوئے جے غیز (Kyceiz)، ماناوگات (Manavgat)، میرسین (Mersin)، آدانا (Adana)،آنٹالیا (Antalya) اور موغلہ (Mula)۔ ان جنگلات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب پر جیسے محویت کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ وہ ان جنگلوں کے نام لیتے جاتے اور ان کے خصوصیات گنواتے جاتے۔

یوں معلوم ہوا کہ یہ صرف نیلی مسجد، آیاصوفیہ، توپ کاپی محل اور دیگر آثار نہیں جنھیں دیکھنے کے لیے دنیا پھر سے سیاح کھچے چلے آتے ہیں اور ترکی کی قومی دولت میں اضافے کاذریعہ بنتے ہیں بلکہ یہ جنگلات بھی ہیں جہاں دنیا پھر کا سیاح کھچا چلاتا ہے۔ گزشتہ دنوں خبروں میں ترکی کے جنگلات میں آتشزدگی کی خبریں آنے لگیں تو تشویش ہوئی پھر یہ تشویش دکھ میں بدل گئی۔

پتہ چلا کہ یہ وہی شہرہ آفاق جنگلات ہی ہیں جو آتشزدگی کاشکار ہوئے ہیں یہ آتشزدگی بھی کوئی اتفاقیہ نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے جس کے ذریعے نے صرف ترکی کو خطیر زر مبادلہ سے محروم کرنے کی سازش کی گئی ہے بلکہ ترکی کی مختلف لسانی اکائیوں کے درمیان اختلافات کو فروغ دے کر کوشش کی جارہی ہے کہ وہاں خانہ جنگی کو ہوا دے کر ترکی کے استحکام کا خاتمہ کر دیا جائے۔ ترکی کے مختلف جنگلوں میں بیک وقت بھڑک اٹھنے والی آگ کے پیچھے بھی یہی سازش کار فرما ہے۔

اطلاعات کے مطابق آتشزدگی کے واقعات میں دہشت گرد تنظیم پی کے کے اور گولن نیٹ ورک کا ہاتھ ہے اور ان ہی لوگوں کی طرف سے اس دہشت گردی کے ساتھ یہ پروپیگنڈا کیاجا رہا ہے کہ اس آتش زنی کے ذمہ دار کرد ہیں۔

مقصد اس زہریلے پروپیگنڈے کا یہ ہے کہ وطن پرست ترک کردوں پر ٹوٹ پڑیں، اس طرح ملک خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا اور وہ قوتیں جو چند برس قبل فوجی بغاوت کے ذریعے ترکی کے سیاسی استحکام کو تباہ و برباد کرنے کے درپے تھیں، انھیں افراتفری پھیلانے کا ایک موقع اور میسر آ جائے۔ پندرہ جولائی کی سازش جس طرح عوام نے اپنی جرات اور بہادری سے ناکام بنا دی تھی، بالکل اسی طرح موجودہ واقعات میں بھی عوام نے اپنی بیداری کا بے نظیر مظاہرہ کرتے ہوئے جنگلات میں آگ بھڑکانے والے کئی دہشت گردوں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر کے اس سازش کو ناکام بنادیا ہے۔ اللہ ہمارے ترک بھائیوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

بشکریہ: ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments