قصہ میجر جنرل صاحب سے جھڑپ کا – ”تندی باد مخالف“ قسط۔ 2


چھمب کے جھمیلے میں ابھی مقام آہ فغاں اور عشق کے امتحاں اور بھی تھے۔ اگست 1978ء کے دوسرے ہفتے، نائب کماندار کا ٹیلیفون آیا کہ ڈیو کمانڈر (جی او سی) جنرل افسر کمانڈنگ تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ وہ کل بیس بریگیڈ میں تشریف لائیں گے، تم صبح نو بجے وہاں پہنچ جانا۔ یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ کس سلسلے میں مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ جنرل صاحب کا نام سن رکھا تھا، ان سے بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ 20 بریگیڈ ہمارے ہی ڈویژن میں تھا۔

اس کا ہیڈ کوارٹر چھمب سے زیادہ دور نہیں تھا۔ میں ساڑھے آٹھ بجے وہاں پہنچ گیا۔ ساڑھے نو بجے بتا یا گیا کہ جنرل صاحب بارش کی وجہ سے نہیں آرہے۔ میں واپس آ گیا۔ دوسرے دن صبح آٹھ بجے ہمارے اپنے، 28 بریگیڈ کے بی ایم (بریگیڈ میجر) ، میجر احمد کمال نے مجھے پھر20 بریگیڈ میں جانے کا کہا۔ آج بھی وہی ہوا جو کل ہوا تھا، جنرل صاحب نہیں آئے تھے۔ واپس آ گیا۔ دو دن بعد پھر20 بریگیڈ جانے کا حکم صادر ہوا۔ صبح ساڑھے سات بجے وہاں حاضر ہو گیا۔

بی ایم، میجر خالد بشیر نے بتایا کہ جنرل صاحب یہاں نہیں برنالہ کے نواح، پدھاڑ، میں تشریف لا رہے ہیں۔ آپ وہاں چلے جائیں۔ پدھاڑ میں ساڑھے آٹھ بجے پہنچ گیا۔ جنرل صاحب گیارہ بج کر چالیس منٹ پر تشریف لائے۔ وہاں بریگیڈ کے دوسرے افسر بھی تھے۔ دربار سج گیا۔ میں حاضر ہوا تو فرمایا، آپ نے ایک درخواست چیف آف آرمی سٹاف، جنرل ضیاء الحق، کو بھیجی ہے، کیوں؟

سر! میں نے یہی درخواست، بالواسطہ اور باضابطہ طور پر (Through Proper Channel) آپ کو بھیجی تھی، آپ نے جواب ہی نہیں دیا۔ میں نے کہا۔

میں نے تمہارے کمانڈنگ افسر کو زبانی بتا دیا تھا کہ میں اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ صحیح کہ رہے تھے، انہوں نے ایسے کیا تھا۔

سر! ایم پی ایم ایل (Manual of Pakistan Military Law) اور آرمی رولز اینڈ ریگولیشنز اینڈ انسٹرکشنز کی دفعات نمبر فلاں فلاں کے مطابق، آپ کو تحریری طور پر اپنے فیصلے سے مجھے آگاہ کر نا چاہیے تھا۔

جنرل صاحب طیش میں گئے۔ انہیں بالکل علم نہیں تھا کہ میں چھمب کے ویرانے میں ان سے کہیں زیادہ تپا بیٹھا ہوں۔ فرمایا، میں کوئی منشی نہیں کہ تمہاری درخواست کا تحریری جواب دیتا۔ ان کے انگریزی کے الفاظ تھے :

I am not a ”Munshi“ that I had replied in writing to your application ”

سر! اگر آپ کا خیال ہے کہ یہ کام کسی منشی کا ہے تو آپ کو یہ کرسی کسی منشی کے لئے چھوڑ دینی چاہیے۔ میرے انگریزی میں الفاظ تھے :

Sir! if you think, this was a job of a ”Munshi“ , then let a Munshi sit on that chair.

دربار میں سکوت مرگ طاری ہو گیا۔ جنرل صاحب کو مجھ سے اس طرح کے جواب کی توقع نہیں تھی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ ایک نیم پخت، یعنی ادھا پچدا سا کپتان ہے، میرے سامنے کیا بولے گا۔ لیکن وہاں وہ ہو گیا، جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جنرل صاحب کو چپ لگ گئی۔ کنہ کو پہنچ گئے کہ یہاں معاملہ ’تنگ آمد بجنگ آمد، والا ہے۔ اگر اسے کچھ اور کہا تو‘ آبیل مجھے مار ’والی بات بن جائے گی۔ دو منٹ خاموش رہنے کے بعد ، بالکل ہی بدلے ہوئے لہجے میں کہا، کیپٹن جمیل، آپ فوج میں رہنا چاہتے ہیں یا دو سال بعد اسے چھوڑ دیں گے؟

دو سال پورے ہوتے ہی چھوڑ دوں گا، میں نے کہا۔
کیوں؟
آپ لوگوں کے رویے کی وجہ سے۔
آخر ہم نے ایسا کیا کر دیا ہے؟
میں اگر کچھ کہوں گا تو وہ خلاف ضابطہ بات ہو گی۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ اس موضوع پر بات نہ کی جائے۔

جب میں خود آپ کو کہ رہا ہوں کہ آپ مجھے بتائیں کہ آپ اس قدر پریشان کیوں ہیں تو آپ کو بتانا چاہیے۔
سر! یہ فوج کے اصولوں اور قوانین کے خلاف بات ہو گی۔
آپ پر یہ الزام نہیں آئے گا کہ آپ نے خلاف ضابطہ بات کی ہے۔ آپ بات کریں، میں آپ کی بات سنوں گا۔

اس پر میں نے، ایک سال مکمل ہونے پر کسی سی ایم ایچ میں نہ بھیجے جانے، اپنے قیمتی وقت کے ضیاع، ویک اینڈ کی بندشوں اور دوسری پابندیوں اور اپنے ساتھ قیدیوں جیسے سلوک کی بات کی اور کہا، سر! کیا میں کوئی جنگی قیدی ہوں؟

کہنے لگے، آپ نے ایک سال مکمل ہونے پر مجھے بتایا کیوں نہیں کہ آپ کو کسی سی ایم ایچ میں بھیجا جائے؟
میں نے آپ کو اس ضمن میں آٹھ ماہ قبل درخواست بھیجی تھی۔
وہ درخواست مجھ تک تو نہیں پہنچی۔ وہ کہاں گئی؟
مجھے علم نہیں۔
اچھا آپ جائیں۔ میں دیکھوں گا کہ میں آپ کے لئے کیا کر سکتا ہوں۔

جنرل صاحب کو میں ناراض کر بیٹھا تھا۔ اب مجھے ان سے بھلائی کی کیا امید ہو سکتی تھی۔ تین چار دن بعد اپنے برگیڈ کے بی ایم، میجر احمد کمال کا فون آیا، کہا، آپ کی وہ درخواست کہاں ہے؟ ہمیں نہیں مل رہی۔ کیا آپ ایک اور درخواست لکھ کر مجھے دے سکتے ہیں، میں ابھی اسے لینے میں آپ کے پاس آ جاتا ہوں۔ مجھے احساس تھا کہ اب اگر میری پوسٹنگ کسی ہسپتال میں ہو بھی گئی تووہ فورٹ سنڈے من، بلوچستان یا گلگت کے ہسپتال سے ادھر نہیں ہو گی۔ ویسے بھی اپنی دانست میں، فوج سے رہائی کے میرے صرف چار ماہ رہ گئے تھے۔ اب مجھ میں مزید خواری کی سکت نہیں تھی (اگرچہ یہ رہائی دس ماہ بعد جا کر ہوئی) ۔ میجر کمال کو نئی درخواست دینے سے میں نے صاف انکار کر دیا۔

بیس دن بعد بریگیڈ کمانڈر، بریگیڈیئر خا لد مغل، نے مجھے، اپنے کماندار کے ہمراہ، اپنے آفس میں بلا لیا۔ بریگیڈیئر صاحب بھی وہی قصہ لے کر بیٹھ گئے، قدرے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا، آپ نے خلاف ضابطہ اپنے سینیئر افسر کی شکایت اوپر تک کیوں پہنچائی؟ میں نے ساری کہانی بیان کر دی اور کہا کہ میرا ارادہ شکایت کرنے کا نہیں تھا، جنرل صاحب نے مجھ سے زورا زوری یہ سب کچھ پوچھ لیا۔ بریگیڈیئر صاحب نہایت ہی با اخلاق، منکسر المزاج اور بھلے مانس آدمی تھے۔ کہنے لگے، آپ کو چاہیے تھا کہ آپ انہیں ٹال دیتے، یہ تو آپ کے کمانڈنگ افسر کے خلاف شکایت بن گئی ہے۔

مجھے اس وقت کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے، میں نے کہا۔

بریگیڈیئر صاحب نے کماندار سے بھی بات چیت کی۔ مجھے علم نہیں ان کے درمیان کیا کچھ زیر بحث آیا۔ یہ مجھے پتہ نہیں کہ اس دن ایسا کیا ہوا کہ برگیڈیئر صاحب، مجھ پر اس قدر اعتماد کرنے لگے کہ اگر انہیں اپنے گھر، منگلا میں کوئی چیز بھیجنی یا وہاں سے منگوانی ہوتی تو یہ صرف میرے ذریعے سے ہوتی، حالاں کہ اور بہت سے سینیئر افسر بھی میرے ساتھ منگلا آ جا رہے ہوتے۔

پانچ ہفتے بعد دن کے دس بجے میں، فرنٹیئر فورس رجمنٹ کے میس میں بیٹھا تھا کہ ڈیوکمانڈر، جنرل صاحب وہاں تشریف لائے۔ مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا، چیف آف آرمی سٹاف کی طرف سے جواب ملا؟ میں نے کہا، نہیں۔ کہنے لگے، ملے گا بھی نہیں۔ بہتر ہے تم اس معاملے کو بھول جاؤ۔ میں خاموش رہا۔ جنرل صاحب کے بارے میں پتہ چلا تھا کہ اپنے افسروں کے ساتھ نہایت شفقت سے پیش آتے ہیں اور ان کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ شاید غلطی مجھ سے ہوئی تھی کہ میری درخواست جنرل ضیاء تک نہ پہنچ پائی۔

دو ماہ اور اس ویرانے میں بیت گئے۔ اپنی اپنی نوکری کے تحفظ اور اگلے درجوں میں ترقی کی فکر میں محرکہ کذب و باطل، میری نظروں کے سامنے جاری رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ معروضی حالات، انسان پر کچھ اس طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں کہ جھوٹ اور مکر و فریب سے انحراف و تنفر کے باوجود افتراء، اتہام و ابطال کے کچھ چھینٹے ہر کسی کے دامن پر پڑ ہی جاتے ہیں۔ میں دعویٰ نہیں کرتا کہ میں اپنا دامن بچا پایا یا نہیں، البتہ اپنی طرف سے کوشش ضرور کی کہ میری ذات سے کسی کو نقصان نہ پہنچے۔ نومبر کے وسط میں ایک اور میڈیکل یونٹ کا اے ڈی ایس، چھمب میں آن پہنچا۔ میں نے اپنے غریب خانے، یعنی اے ڈی ایس، کو لپیٹا اور اپنی نفری سمیت بھاگو وال کو چل دیا۔ وہاں بھی سب کچھ سمیٹا جا رہا تھا۔ دو دن بعد ، پورے بریگیڈ کی حربی مشق شروع ہو گئی۔

ہماری رجمنٹ بھی خیمہ بر دوش، بے خانماں ہوئی۔ پھروہی دشت و بیاباں تھے، وہی صحرا نوردی تھی، وہی پاؤں اور وہی خار مغیلاں تھے۔ مگر اس بار میں اکیلا نہیں تھا، سارے رفیق کار ساتھ تھے اور میں پاؤں برہنہ بھی نہیں تھا۔ پورا ایک ماہ خاک اڑتی اور اڑائی جاتی رہی۔ موسم سرما تھا۔ گہما گہمی تو تھی، گرما گرمی نہیں۔ ایک ماہ کی خاکبازی اور خاکساری کے بعد ، ہم 8 1 دسمبر1978ء کو جہلم پہنچ گئے۔ میرے دو سال پورے ہونے کو صرف تین ہفتے رہ گئے تھے۔

میں نے فوج سے فراغت کی عرضی ڈال دی۔ جب مجھے یہ بتایا گیا کہ حکم رہائی آنے میں چھے ماہ لگ سکتے ہیں تو مایوسی ہوئی۔ میں نے کماندار سے کہا کہ آپ نے ایک افسر (ڈاکٹر) کو منگلا اور دوسرے کو جہلم سی ایم ایچ میں چھے چھے ماہ کے لئے بھیجنا ہے، مجھے منگلا بھیج دیں۔ اس طرح میرے چھے ماہ سی ایم ایچ اور اپنے گھر میں گزر جائیں گے اور کم ازکم میں یہ تو کہ سکوں گا کہ میں نے صرف چھمب کے بیلے میں بکریاں ہی نہیں چرائیں، مجھے پاکستان آرمی کے مایہ ناز، گریڈڈ سپیشلسٹ، جن کی تعلیمی سند کو خود پاکستان کی میڈیکل کونسل بھی تسلیم نہیں کرتی تھی، کے ساتھ چھے ماہ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔

مگر میری یہ امید بھی بر نہ آئی۔ کہنے لگے اے ڈی ایم ایس، (آپ انہیں کرنل ماجد کہ لیں ) ، دو دوسرے افسروں کے حق میں یہ فیصلہ پہلے سے کر چکے ہیں۔ میں نے کہا آپ مجھے ان کے پاس لے چلیں، میں خود ان سے بات کر لوں گا۔ کرنل ماجد فل کرنل تھے۔ وہ ایک معقول اور نہایت شریف النفس انسان تھے۔ ان سے کئی بار ملاقات ہو چکی تھی۔ ایک بار وہ چھمب بھی تشریف لائے تھے۔ میں اور کماندار، جب ان کے پاس گئے تو جو گفتگو انہوں نے فرمائی، اس میں منطق سے عاری بہت سے کھوکھلے الفاظ تھے۔ انہوں نے اپنی بے بسی، جو ان کے چہرے سے ہویدا تھی، پر اپنے ظاہری رعب، جلال کے طفیل پردہ ڈالے رکھا۔ مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ کرنل صاحب مجبور محض ہیں، ان سے بحث کرنا عبث ہے۔ ان کا فیصلہ برقرار رہا۔

وقت گزرتا چلا گیا۔ اپریل 1979ء کے آخری ہفتے میں پروانہ رہائی آن پہنچا۔ رہائی مئی کے آخری دنوں میں ہونی تھی۔ مئی کے وسط میں کماندار صاحب کی طرف سے ایک نوٹس بھیجا گیا کہ ڈیو کمانڈر (جی او سی) ، آپ سے ملنے کے خواہشمند ہیں۔ میں نے اپنے کرنل صاحب کو کہا کہ سو بسم اللہ جنرل صاحب سے کہیں کہ وہ جب چاہیں، میرے ایم آئی روم (میڈیکل انسپیکشن روم) میں تشریف لا سکتے ہیں۔ میں بسر و چشم ان سے ملاقات بھی کروں گا اور ان کی خدمت میں چائے کا ایک کپ بھی پیش کروں گا۔ بسآنے سے ایک دن پہلے مجھے مطلع کر دیں۔ کرنل صاحب سمجھے کہ شاید میں مذاق کر رہا ہوں۔ لیکن میں اس معاملے سنجیدہ تھا۔ چائے کے وقفے میں ہر روز ان سے ملاقات ہوتی تھی۔ کہنے لگے، ایک جنرل اپنے ماتحت کپتان سے ملنے اس کے آفس میں کیسے آ سکتا ہے؟

میں نے کہا، یہ ایک ’ملاقات خیر سگالی‘ ہے۔ ایسی صورت میں، سینیئر جونیئر کا سؤال نہیں ہوتا۔ جس نے ملنا ہوتا ہے، وہی دوسرے کے آفس میں جاتا ہے، آپ ان سے کہیں، اگر وہ حکماً مجھے اپنے آفس میں بلانا چاہیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں لیکن اس بلاوے کی کوئی قانونی وجہ نوٹس میں ضرور لکھیں۔ کرنل صاحب خاموش ہو گئے۔ دن گزرتے گئے۔ میں نے اپنی یونٹ میں ایک بڑے سے کمرے میں، جس میں ٹوٹا پھوٹا فرنیچر اور کوڑ کباڑ بھرا تھا اور جسے میں کبھی کبھی فوج کے افسروں کو حفظان صحت پر لیکچر دینے کے لئے استعمال کیا کرتا تھا، ایک کرسی ڈال کر اپنا آفس بنا رکھا تھا۔

میری فوج سے فراغت کے صرف دو دن باقی تھے۔ اس دن میں اسی کمرے میں اپنی سوچوں میں گم بیٹھا تھا کہ یونٹ کے چاروں ڈاکٹر آ کر میرے گرد کرسیاں ڈال کر بیٹھ گئے۔ طارق سعید اٹھا اور اس نے میرے گھٹنے پکڑ لئے۔ طارق مجھے بہت عزیز تھا۔ وہ میڈیکل کالج میں مجھ سے دو سال پیچھے تھا۔ کالج کے زمانے میں ہم نے ایک دوسرے کو دیکھ تو رکھا تھا، راہ رسم نہیں تھی۔ طارق کا اٹھنا بیٹھا ایسے لوگوں سے تھا جو مار دھاڑ میں خاصی مہارت رکھتے تھے۔

اب جو اسے قریب سے دیکھا تو میں نے اسے نہایت شائستہ، مہذب، وضع دار اور با مروت ساتھی پایا۔ میں نے اسے ایک بار کہا تھا، طارق! مجھے علم نہیں کہ ایک ہی کالج ہوتے ہوئے میں تین سال تم سے اتنے دور کیوں رہا۔ اب جو اس نے میرے گھٹنے پکڑے تو میں نے اپنے آپ کو خفیف سا محسوس کیا۔ اس کے ہاتھ اٹھاتے ہوئے میں نے کہا، طارق یہ کیا کر رہے ہو؟

سر، آپ سے ایک عرض کرنی ہے۔
بھئی سیدھے طریقے سے بات کرو۔ بولو، کیا بات ہے؟
آپ خود تو فوج چھوڑ کر گھر جا رہے ہیں، آپ کرنل صاحب کو کیوں گھر بھجوانا چاہتے ہیں؟
میں نے کرنل صاحب کے خلاف کچھ بھی نہیں کیا۔

وہ کہتے ہیں، میں جی او سی ( میجر جنرل) کو کیسے بتاؤں کہ میرا کپتان آپ سے ملنا نہیں چاہتا۔ آپ خود آ کر اسے اس کے آفس میں مل لیں۔ کرنل صاحب بہت پریشان ہیں۔

میں اٹھ کھڑا ہوا اور کہا اگر یہ بات ہے تو میں کرنل صاحب سے ابھی بات کرتا ہوں۔ میں ان کے پاس گیا اور کہا، میں نے اس پہلو پر دھیان نہیں دیا تھا، آپ جی او سی سے ملاقات کا وقت طے کر لیں، میں آپ کے ساتھ چلوں گا لیکن آپ انہیں بتا دیں کہ معاملات صرف جذبہ خیر سگالی کے اظہار تک محدود رہنے چاہئیں۔ بات اس سے آگے نہ بڑھے تو سب کا بھلا ہوگا۔

کہنے لگے، میرا کام آپ کو ان کے آفس تک لے جانا ہے۔ آپ اور ان کے درمیان کیا گفتگو ہوتی ہے، اس کا ذمہ میں نہیں لے سکتا۔ آپ جیسے مناسب سمجھیں، ان کے سؤالات کے جوب دیں۔ کرنل صاحب نے ملاقات کا وقت طے کر کے مجھے بتایا کہ آپ کی ان سے ملاقات تین دن بعد ہو سکتی ہے۔

جاری ہے
ڈاکٹر جمیل احمد میر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments