پاکستان افغانستان کے درمیان اہم سرحدی راستے طورخم کی صورتحال

سارہ عتیق - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


تورخم
'پیچھے ہو جاؤ، خبردار جو ہماری تصویر لی!'

پاکستان اور افغانستان کے درمیان اہم گزرگاہ طورخم بارڈر پر تعینات افغان سکیورٹی اہلکار نے اونچی آواز میں پاکستانی سرحد پر کھڑے صحافیوں کو مخاطب ہو کر کہا۔

پاکستانی سکیورٹی اہلکار ان کے پاس گئے اور انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ بین الاقوامی اداروں کے صحافی ہیں جو صرف سرحد کی صورت حال کا جائزہ لینے آئے ہیں لیکن انھوں نے منع کر دیا تو دور کھڑے ایک اہلکار نے مسکراتے ہوئے کہا: ’طالبان آئے روز افغانستان کے علاقوں پر قبضہ کر رہے ہیں شاید اس لیے انھیں غصہ ہے۔‘

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے بین الاقوامی اداروں سے منسلک صحافیوں کو طورخم سرحد کا دورہ کروایا گیا تھا۔

سرحد پر دوپہر بارہ بجے جب عموماً پیدل سرحد پار کرنے والوں کی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں منگل کو قطار میں کھڑے کچھ مرد پاکستان سے افغانستان جانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔

حکومت پاکستان کی جانب سے کورونا کے پھیلاؤ کے باعث طورخم پر شہریوں کی آمدورفت کو محدود کر دیا گیا ہے اور پاکستان کی سے صرف افغان شہری افغانستان جبکہ افغانستان سے صرف پاکستانی شہری پاکستان میں اس سرحد سے داخل ہو سکتے ہیں۔

تورخم

لیکن، اب سے کچھ دن قبل میں پاکستان افغانستان کے درمیان دوسری اہم ترین گزرگاہ چمن پر موجود تھی جس کا کنٹرول حال ہی میں طالبان نے سنبھالا ہے، وہاں کچھ دیر کے تعطل کے بعد گزرگاہ کو شہریوں کی دوطرفہ آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا تھا اور اب بھی دن کے مخصوص اوقات میں اس سرحد سے دونوں ممالک کے شہریوں کو آنے اور جانے کی اجازت ہے۔

چمن کی سرحد کا کنٹرول طالبان کے پاس ہے۔ وہاں ماحول میں کسی قسم کا تناؤ نہیں تھا اور سرحد کے دونوں اطراف پھنسے شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے وہ مسلسل پاکستان سکیورٹی اہلکاروں سے رابطے میں تھے اور یہ سب ایک پرسکون ماحول میں جاری تھا۔ ایسا لگا ہی نہیں کہ ایک ہی رات پہلے لڑائی کے نتیجے میں طالبان کا سرحد پر قبضہ ہوا تھا۔

چمن بارڈر

افغانستان کی جانب جمن بارڈر پر طالبان نے کنٹرول حاصل کر لیا ہے

اس کے برعکس طورخم پر ماحول میں خاموشی تو تھی لیکن دونوں ممالک کے سیکیورٹی اہلکاروں میں ایک تناؤ کی کیفیت بھی واضح تھی۔ افغانستان سے متصل خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں کی سکیورٹی کی ذمہ داری فرنٹئیر کور (ایف سی) سر انجام دیتی ہے لیکن افغانستان میں سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر گذشتہ ایک ماہ سے ایف سی کے ساتھ ساتھ پاکستان فوج کو بھی وہاں تعینات کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

چمن کے بازاروں اور قبروں پر افغان طالبان کے جھنڈے کیوں لہرانے لگے؟

چمن سے متصل افغان علاقے میں طالبان کی موجودگی: ‘بابِ دوستی’ سے آمد و رفت بند

جب ایک افغان ماں نے اپنا چند ماہ کا بیمار بچہ ٹرک ڈرائیور کے ہمراہ پاکستان روانہ کیا

چمن میں باب دوستی سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹا بازار بھی ہے جسے نیٹو بازار کہا جاتا ہے جہاں آپ نیٹو افواج کے زیر استعمال سامان جیسا کہ بلٹ پروف جیکٹ، جوتے، خنجر، ٹارچ لائٹ اور بیگ وغیرہ خرید سکتے ہیں۔ میں نے سوچا تھا کہ طورخم کی طرف جاتے ہوئے بھی شاید اسی قسم کے کسی بازار یا اشیا کی دکانیں ہوں لیکن وہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہاں ایک بازار ضرور تھا لیکن اس میں کھانے پینے اور ٹوپیوں کی چند دکانیں تھیں۔ اور اس بازار کا ماحول بھی چمن کے بازار سے بہت مختلف تھا۔

نیٹو بازار، چمن بارڈر

چمن کے بازار میں کچھ فاصلے پر آپ کو کالی دستار پہنے لوگ اور طالبان کے سفید جھنڈے گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر لگے نظر آئیں گے۔ مقامی افراد کا کہنا تھا کہ یہ طالبان آپ کو چمن کے بازاروں اور مساجد میں عام نظر آتے ہیں اور سپین بولدک اور چمن بارڈر پر کنٹرول کے بعد یہ معمول سے کچھ زیادہ تعداد میں نظر آتے ہیں۔ لیکن طورخم سرحد اور بازار میں ایسے کوئی مناظر دیکھنے میں نہیں آئے۔

صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر میں واقع ‘طورخم گیٹ’ پاکستان افغانستان کے درمیان 65 فیصد تجارت کا بھی مرکز ہے۔

اس وقت اس سرحد سے ہونے والے تجارتی آمدورفت پر کوئی پابندی نہیں ہے اور سامان معمول کے مطابق آ جا رہا ہے۔

طورخم کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ جب بھی افغانستان میں امن و امان کی صورت حال بگڑی تو افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد نے اسے راستے سے پاکستان کا رخ کیا۔ 1980 میں مجاہدین کی سوویت افواج کے خلاف لڑائی ہو، 1995 میں طالبان حکومت کا قیام یا 2001 میں امریکہ اور اتحادی افواج کا القاعدہ اور طالبان کے خلاف فوجی آپریشن۔ یہاں سے چند گھنٹوں کے فاصلے پر ہی پاکستان کا سب سے پرانا اور بڑا شمشوٹ مہاجرین کیمپ بھی واقع ہے۔ اسی لیے اس سرحد پر کسٹم اور امیگریشن کے علاوہ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے پناہ گزین اور نادرا کے دفاتر بھی موجود ہیں۔

تورخم

امریکی افواج کا انخلا شروع ہونے کے ساتھ ہی افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان لڑائی میں ایک بار پھر تیزی آئی ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں طورخم پر زیادہ مہاجرین پناہ کی تلاش میں پاکستان داخلے کے منتظر نظر نہیں آئے۔

پاکستان سکیورٹی حکام کے مطابق کیونکہ اس سرحد سے متصل افغانستان کا صوبہ ننگرہار اب بھی افغان حکومت کے کنٹرول میں ہے اور وہاں افغانستان کے دیگر صوبوں کی نسبت صورت حال بہتر ہے، لہذا اب تک پناہ گزینوں کی جانب سے طورخم کا رخ نہیں کیا گیا، ہاں البتہ اس سرحد سے اس وقت واپس جانے والوں میں نوے فیصد تعداد افغان مہاجرین ہی کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

افغان شہریوں کو لشکرگاہ چھوڑنے کی تاکید، فوج کی حمایت میں عوام کے اللہ اکبر کے نعرے

کیا طالبان لشکر گاہ پر قبضہ کر کے اسے برقرار رکھ سکیں گے؟

افغانستان میں طالبان کی تیزی سے پیش قدمی کی بڑی وجوہات کیا ہیں؟

’باڑ کی وجہ سے دہشتگرد کارروائیوں اور جرائم میں 80 فیصد کمی آئی ہے‘

افغانستان کی بگڑتی ہوئے صورت حال سے پاکستان کے سکیورٹی حکام کچھ زیادہ پریشان نظر نہیں آئے۔ بارڈر پر تعینات تمام ہی حکام پر اعتماد ہیں کہ پاک افغان سرحد پر لگائی گئی 2600 کلومیٹر سے زیادہ طویل باڑ دہشتگردوں، مہاجرین، جرائم پیشہ افراد، منشیات اور سمگلنگ، سب کو روک لے گی۔

بین الاقوامی صحافیوں کو بگ بین پوسٹ کے مقام پر باڑ دکھانے کے موقع پر پاکستان افواج کے حکام کا کہنا تھا کہ اس باڑ ہی کی وجہ سے پاکستان میں دہشتگرد کارروائیوں اور جرائم میں ’80 فیصد کمی‘ آئی ہے۔

لیکن ساتھ ہی وہ بار بار صحافیوں کو اس باڑ کے بہت قریب جانے سے خبردار کرتے رہے کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں لہذا اس سے جتنی دور رہیں اچھا ہے۔ وہاں سے کچھ دور افغان سکیورٹی فورسز کی بھی پوسٹ تھی۔ لیکن سرحد پر افغان سکیورٹی چیک پوسٹوں کی نسبت پاکستان سکیورٹی چیک پوسٹوں کی تعداد پانچ گناہ زیادہ ہے۔

تورخم

تین میٹر اونچی اس باڑ کے بارے میں پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ اسے عبور کرنا تقریباً نہ ممکن ہے۔ جب ان سے گذشتہ تین ماہ میں قبائلی علاقوں میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات میں تیزی آنے سے متعلق پوچھا گیا جن کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی، کمانڈنٹ خیبر رائفلز کرنل رضوان کا کہنا تھا کہ ان واقعات میں ملوث دہشتگرد افغانستان سے نہیں آئے۔

‘اس میں ملوث دہشتگردوں کا تعلق پاکستان میں موجود تنظیم کے سلیپر سیلز سے تھا۔ کیونکہ پاکستان افغان سرحد پر نصب باڑ کی وجہ سے ممکن نہیں کہ افغانستان سے آکر دہشتگرد پاکستان میں کارروائی کریں اور افغانستان واپس چلے جائیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32510 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp