کیا کراچی سیاسی لاوارث ہے؟


پاکستان کے سب سے بڑے بندر گاہ والے شہر کراچی کی اپنی ایک شناخت رہی ہے، کراچی، فوجی آمر جنرل ضیا الحق کے زمانے تک ایک پڑھا لکھا، جدید اور ماڈرن شہر مانا جاتا تھا جو پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں سے قطعی مختلف تھا، یہاں برازیل کے ریوڈی جنرو یا انڈیا کے ممبئی کی طرح جدید فیشن، اعلی تعلیمی ادارے، میڈیا ہاؤسز، صنعتیں، ساحل، روشنیوں کا سیلاب، اسپورٹس۔ غرض جدید شہروں والا ایک شاندار ماحول ہوا کرتا تھا۔ اور جیسا کہ ساحلی شہروں میں ہوتا ہے، کراچی کی صنعتی ترقی سارے ملک سے لوگوں کو اپنی جانب کھینچنے لگی

جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی
مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی

کراچی کی آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے، اندازہ ہے کہ 2025 تک یہ دنیا کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک شمار کیا جائے گا، ایک وقت تھا بلکہ اب بھی کراچی کو غریب پرور شہر کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی بے روزگار شخص کراچی آ کر بھوکا نہیں مرتا

ہر بڑے شہر کی طرح کراچی کا بھی اپنا سیاسی تشخص اور ڈائنامکس ہیں، جن کی اساس اس شہر کا مخصوص آبادی یا ڈیموگرافک پیٹرن ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت اس میگا پولس شہر کی آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کے قریب ہے جس میں ہندوستان کے آئے مہاجرین کے علاوہ پشتون، سندھی، پنجابی، بلوچ، افغان، ہزارے وال، گلگتی قومیتوں کے لوگ آباد ہیں۔ کراچی کا ڈیموگرافک پیٹرن مسلسل تبدیلی سے گزر رہا ہے، یہ شہر امریکہ کی طرح کا مائگرنٹس کا میلٹنگ پوٹ بن چکا ہے

تقسیم ہندوستان کے بعد ہجرت کرنے والوں کی بڑی تعداد، حیدرآباد، سکھر، شکار پور، نواب شاہ کے ساتھ ساتھ کراچی میں آ کر آباد ہوئی، کراچی زمانے کے مد و جذر کے ساتھ مختلف سیاسی کشمکش اور ہنگاموں آرائیوں سے گزرتا رہا جن میں لسانی اور فرقہ وارانہ فسادات شامل تھے۔ بھٹو دور میں دو اہم واقعات ہوتے ہیں جن کی وجہ سے کراچی میں سیاسی پولرائزیشن کا عمل شروع ہوا، ایک لسانی بل اور دوسرا کوٹہ سسٹم کا نفاذ، جس کے تحت میرٹ کے بجائے ڈومیسائل کی بنیاد پر سرکاری نوکریاں دی جانی تھیں، اور جس کا فائدہ قدیم سندھی باشندوں اور نقصان نئے سندھی باشندوں کو ہونا تھا، یہاں سے کراچی کے مہاجر باشندوں میں بے چینی شروع ہوئی۔

لسانی بل اور کوٹہ سسٹم کے خلاف پیدا ہونے والی بے چینی اور تعلیمی اداروں میں لسانیت کے نام پر تنظیمیں (پنجابی و پشتون اسٹوڈنٹ فیڈریشن) بننے کے نتیجے میں 1978 میں الطاف حسین کی قیادت میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا قیام عمل میں آ چکا تھا جو 1984 میں مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے ایک سیاسی تنظیم میں تبدیل ہو گئی

پھر کچھ ایسے اندوہناک واقعات ہوئے جن کے نتیجے میں کراچی کی ایک قومی و سیاسی شناخت ابھرنے لگی۔ 15 اپریل 1985 کو ایک جواں سال طالبہ بشری زیدی اور اس کی بڑی بہن نجمہ زیدی کو ایک تیر رفتار منی بس نے کچل کر ہلاک کر دیا اور ڈرائیور فرار ہو گیا، بس پھر کیا تھا طلبہ اور عوام شدید رنج و غم کے عالم میں احتجاج کرنے سڑکوں پر آ گئے، چلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ شروع ہو گیا اور بہت ساری منی بسیں اور ٹرک جلا دیے گئے، جو زیادہ تر کراچی سے باہر سے آنے والے پشتونوں کی ملکیت تھے، ہنگاموں کا سلسلہ اتنا بڑھا کہ انتظامیہ کو فوج طلب کرنی پڑی اور کرفیو لگانا پڑا۔

اندازہ ہے کہ ان فسادات میں تقریباً دو سو افراد ہلاک ہوئے، اردو بولنے والے مہاجروں اور پشتونوں کے بستیاں ایک دوسرے کے مد مقابل آ گئیں اور کلاشنکوف اور گھر میں بنائے گئے ہینڈ میڈ بموں اور اسلحے کا آزادانہ استعمال ہوا۔ اس کے بعد 14 دسمبر 1986 کو سہراب گوٹھ پر منشیات فروشوں کی مافیا کے خلاف آپریشن کے رد عمل کے طور پر منشیات فروشوں کے مسلح جتھے اورنگی ٹاؤن کی غریب مہاجر بستیوں پر ٹوٹ پڑے اور عورتوں اور بچوں سمیت سیکڑوں معصوم افراد ہلاک کر دیے گئے، اس کے بعد ردعمل کے طور پر کراچی میں پشتون بستیوں پر حملے ہوئے اور کئی سو معصوم شہری ہلاک ہوئے

ان خوفناک فسادات کے بعد ایم کیو ایم کی مقبول اور پذیرائی میں بہت زبردست اضافہ ہوا اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بہت بڑے بڑے جلسے اور جلوس منعقد کیے جن میں مردوں کے شانہ بشانہ خواتین کی بڑی تعداد پرجوش طریقے سے شامل ہوتی، لوگ الطاف حسین کی مسحور کن قیادت سے متاثر تھے، ان کی ایک آواز پر لاکھوں کے مجمعے میں پن ڈراپ  سائلنس ہو جاتی تھی۔ کراچی کے الطاف حسین یوں سمجھ لو ممبئی کے بال ٹھاکرے، یا پھر ممبئی کے بال ٹھاکرے کراچی کے الطاف حسین کی طرح گلوریفائیڈ کیرزمیٹک لیڈر تھے۔

اور پھر ایم کیو ایم نے ہر بلدیاتی، صوبائی اور قومی اسمبلی کے الیکشنز میں فقید المثال کامیابیاں حاصل کیں۔ اس وقت خیال کیا جاتا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی طاقت کو توڑنے کی خاطر اسٹبلشمنٹ نے ایم کیوں ایم کو ”سافٹ کارنر“ فراہم کیا۔ ایم کیو ایم نے کراچی پر مکمل ہولڈ کر لیا، بلدیاتی اداروں کے ایم سی، واٹر بورڈ اور کے ڈی اے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ ایم کیوں ایم کے بلدیاتی نمائندے اپنے دفاتر میں مصالحتی عدالتیں چلایا کرتے تھے، عوام کے مسائل مثلاً شناختی کارڈ، برتھ و ڈیتھ سرٹیفیکیٹ اور دیگر سپورٹ عوام کو محلے کی سطح پر ملنا شروع ہو گئی۔

لوگ کہتے ہیں کہ ایم کیو انتخابات میں دھاندلی کرتی تھی، مگر دھاندلی کی ضرورت نہیں تھی، الیکشن کے موقعے پر کراچی کے ایم کیو ایم کے گڑھ مانے جانے والے علاقوں ناظم آباد، لانڈھی، کورنگی، ملیر، شاہ فیصل، لیاقت آباد، نیو کراچی، بلدیہ، صدر وغیرہ میں بھاری تعداد میں لوگ جوق در جوق پہنچتے تھے اور ووٹنگ کا ٹائم ختم ہونے کے بعد ہزاروں لوگ ووٹ کاسٹ کیے بغیر ہی واپس آ جاتے تھے

اسٹبلشمنٹ ایم کیو ایم کی بڑھتی ہوئی طاقت سے پریشان رہی اور اس نے پارٹی میں بغاوت اور دھڑے بندیاں کروائیں جس کے نتیجے میں شہر میں ٹارگٹ کلنگ، بوری بند لاشوں اور تشدد کا ایک خوفناک سلسلہ شروع ہو گیا۔ جنرل پرویز مشرف کا زمانہ غالباً ایم کیو ایم کا گولڈن پیریڈ تھا جس میں مشرف نے ایم کیو ایم کو کھل کر سپورٹ اور فنڈ دیے جن کی مدد سے اس وقت کے میئر مصطفی کمال کی قیادت میں کیے جانے والے ترقیاتی کاموں نے کراچی کو ایک جدید شہر بنا ڈالا۔ مشرف کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایم کیو ایم کی سیاست ریاستی آپریشن اور مختلف نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی دھڑے بندیوں کا شکار ہو گئی، الطاف حسین ملک سے باہر چلے گئے۔

2018 کے انتہائی متنازع انتخابات میں اسٹبلشمنٹ کے پی ٹی آئی کو کراچی کی بیشتر قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں جتوائیں۔ مگر آج کراچی کی سیاست ایک خاموش قبرستان کا منظر پیش کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران سندھ کی حکومت نے بلدیاتی حکومت کو سارے اختیارات اور فنڈز لے کر عملی طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا۔ مون سون کے موسم میں بارشوں کے نتیجے میں شہر سیلاب سے مفلوج ہوجاتا ہے، کئی کئی دن بجلی غائب رہتی ہے، کراچی اسٹریٹ کرائم، موبائل چھیننے والوں اور ڈاکؤوں کی جنت بن چکا ہے، کراچی میں سیاسی بے چینی اور نمائندگی سے محرومی کا تاثر جڑ پکڑتا جا رہا ہے، کراچی میں پانی، بجلی، کوڑا کرکٹ وغیرہ کے مسائل گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں اور یہاں کے باشندوں میں یہ کراچی کے سیاسی طور پر لاوارث ہونے کا احساس شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔

یہ سارے مسائل یقیناً اور شہروں میں بھی ہیں مگر وہاں عوام کے پاس ان کی جدی پشتی رہائش پذیر مقامی قیادت موجود ہے جو ان کے مسائل حل کرواتی ہے، مگر کراچی میں تو ایک جانب مقامی بلدیاتی حکومت پاور اور فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث اپاہج ہے دوسری جانب پی ٹی آئی کے پیرا شوٹر سیاستدانوں کو نمائندہ بنا دیا گیا ہے جو فری اینڈ فیئر الیکشن میں ایک کونسلر تک کی سیٹ نہیں جیت سکتے تھے۔

کراچی جسے ہم منی پاکستان کہتے ہیں، جو دو بندرگاہوں اور صنعتوں کی وجہ سے ریوینیو پیدا کرنے والا بڑا کمرشل شہر ہے، اس کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟ یہ ایک اہم سوال ہے کیونکہ تا حال ایم کیو ایم لندن کے علاوہ، جس کے قائد الطاف حسین لندن میں، اسٹبلشمنٹ کی لگائی پابندیوں کے باعث، گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں، ایم کیو ایم کے کسی بھی اسپلنٹر دھڑے یعنی ایم کیو ایم پاکستان، بہادر آباد، حقیقی یا مصطفی کمال کی پی ایس پی، کسی بھی پارٹی کو بھی عوامی حمایت حاصل نہیں، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کو بھی کراچی کے عوام نے پذیرائی نہیں بخشی۔

کراچی کے عوام کی اکثریت اب خود کو سیاسی طور پر لاوارث سمجھتی ہے، کیونکہ جو لوگ حکومت، اسٹبلشمنٹ، پولیس، فوج۔ غرض کسی بھی اہم ادارے کو چلانے والے اس شہر کو باسی نہیں بلکہ ان کے گاؤں اور شہر کہیں اور ہیں، اور اسی لیے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ کرچی کو کوئی اون نہیں کرتا، کیا الطاف حسین کی ایم کیو ایم کو دوبارہ سیاست کرنے کی اجازت دی جائے گی؟

کیا کراچی کی اکثریت کسی اسٹبلشمنٹ کی پارٹی پر ٹرسٹ کرے گی؟ جس کا فی الحال کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ تو پھر کراچی کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟ کیا مہنگائی، بیروزگاری، سیاسی محرومی، جرائم، ووٹ کا حق چھین لینے کے نتیجے میں، سیاست کے اس پریشر ککر میں غصے کا دباؤ پڑھتا رہے گا جو کسی وقت دھماکے سے پھٹ پڑے گا یا کراچی ایک طویل سیاسی نیند یا ہائبرنیشن میں چلا جائے گا؟

اس وقت سیاسی طور پر یہ خاموشی کیا کسی نئے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوگی، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر ہمارا ماننا ہے کہ طویل عرصے تک سیاسی خلا ایک بڑے طوفان کا سبب بنتا ہے

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments