نون کا مقدمہ


نون میرا ایک دوست ہے۔
”ن“ ندیم، ناصر، نوید یا نذیر آپ کوئی بھی نام تجویز کر سکتے ہیں۔

”ن“ کو غصہ آیا ہوا تھا۔ مملکت خداداد پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قائد اعظم کے دیو قامت پورٹریٹ کے سامنے فوٹو شوٹ کیا گیا اور میڈیا ایسے خاموش ہے جیسے اس کو سانپ سونگھ گیا ہو۔

”ن“ کا کہنا ہے یہ محض ایک فوٹو شوٹ نہیں بلکہ فحاشی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہ میڈیا چیخ اٹھتا ہے جب وزیراعظم کا بیان آتا ہے کہ ہماری خواتین کو مناسب لباس پہننا چاہیے لیکن وہ کیوں خاموش ہو جاتے ہیں جب اس طرح کی بے حیائی ہوتی ہے۔

جب عورت کو پروڈکٹ کے طور پر اور تشہیری مہم کے لیے استعمال کرنا شروع کیا گیا تب سگریٹ کی ڈبیا میں نیم برہنہ عورت کی تصویر ڈالی گئی اور ”پبلک ری ایکشن“ دیکھا گیا۔ جب اس پر کسی قسم کا ری ایکشن نہیں آیا تو بل بورڈز سے لے کر فحش فلموں تک عورت کو ایک کھلونے کی طرح استعمال کیا گیا۔

”ن“ کی دلیل میں وزن تھا۔ تشہیر سے یاد آیا آج کل بریانی فیسٹیول میں ایک اشتہار بھی گردش میں ہے۔
شی از ہاٹ
شی از سپائسی
شی از ارائیونگ

بریانی نہ ہوئی کوئی الہڑ مٹیار ہوئی۔ اور کھمبوں پر لٹکتے اشتہار گلی کے غنڈے ہیں۔ جو اس الہڑ مٹیار پر فقرے کس رہے ہیں۔

” ن“ کا کہنا ہے ریپ ایسی ہی فقرے کسنوں سے شروع ہوتا ہے اور قتل پر انجام پذیر ہوتا ہے۔
جیسے عورت کو ”پروڈکٹ“ سمجھ کر بیچا گیا اسی طرح بریانی بھی اب عورت سمجھ کر فروخت ہو گی۔
”ن“ کا مقدمہ اپنی جگہ لیکن اس کا غصے میں سیخ پا ہونا میرے لیے ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا۔

”ن“ نے ایک لمبا سانس لیا۔ ایک طرف ہم جب عورت کو چاردیواری کی زینت بنا کر باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا اس کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں تو ہمارے نام نہاد لبرلز کو عورت گھٹن اور قید کا شکار نظر آتی ہے۔ حقوق اور برابری کا جھانسہ دے کر عورت کو پروڈکٹ کی طرح استعمال کرتے ہیں اور بے حیائی کے خلاف بولنے پر ان کے گلے میں گھگھی بندھ جاتی ہے۔ قائد کے پورٹریٹ کے سامنے بیہودہ فوٹو شوٹ ہو یا وزیراعظم کا بیان، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایوان میں اسلامی قوانین کے عین مطابق خواتین کے حق میں قانون سازی ہو یا دیگر عوامل۔ نام نہاد لبرلز کی ایک فوج ظفر موج برسات کے مینڈکوں کی طرح نکل آتی ہے اور سیاق و سباق کو چھوڑ کر مطلب کا ٹرانا شروع کر دیتے ہیں۔

میں نے پانی کا ایک گلاس ”ن“ کو پکڑایا۔ جسے وہ غٹاغٹ پی گیا۔ اب جب اس نے بولنے کے لیے پر تولے تو میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روکا۔

میرے موبائل فون پر ایک نیوز الرٹ تھی۔ ایک عورت کو نوکری کا جھانسہ دے کر بلوایا گیا۔ اس کے ساتھ ایک آٹھ سالہ بچی بھی تھی۔

تین دن دونوں ماں بیٹی کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا۔ جب پولیس نے بازیاب کروایا تو بچی کی انتڑیاں جسم سے باہر نکلی ہوئی لٹک رہی تھیں۔

بچی نے اپنی قمیض اٹھائی اور پولیس والے سے کہا۔ ”انکل یہ دیکھو نا ان لوگوں نے میرے ساتھ کیا کیا“ ۔
میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور میں وہاں سے اٹھ کر آ گیا۔
نون مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments