زندگی میں موبائل سگنلز کی وجہ سے آنے والی تبدیلیاں اور ذہنی دباؤ


آپ نے تھوڑا غور کیا کہ آج کل لوگوں میں اچانک ہارٹ اٹیک اور فوری موت کے واقعات بہت رپورٹ ہو رہے ہیں۔ ستلج دریا کے قریب رہائش پذیر ہمارے جاننے والے ایک صاحب کے بھائی اپنے ڈیری فارم پہ دوستوں رشتہ داروں کے ساتھ گپ شپ اور ہنسی مذاق میں مصروف تھے۔ کسی دوست کا فون آیا وہ ڈیری فارم کے صحن میں ٹہلتے ہوئے ہنس ہنس کے بات چیت کر رہے تھے کہ اسی دوران ہارٹ اٹیک ہوا۔ وہ گرے اور فوت ہو گئے۔ ہمارے عزیزوں میں ایک خاتون واشنگ مشین پہ کپڑے دھو رہی تھیں۔ کپڑے نکال کے النگنی کی طرف بڑھیں کہ ہارٹ اٹیک ہوا، وہ فرش پہ گریں اور وفات پا گئیں۔

ایک پولیس افسر کی ویڈیو بھی حال ہی میں وائرل ہوئی۔ وہ اپنے ماتحت عملہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہارٹ اٹیک ہوتا ہے اور وہ فوت ہو جاتے ہیں۔ ماضی میں اس طرح کے واقعات بہت کم ہوتے تھے۔ ہارٹ اٹیک ہوتا بھی تھا تو پہلے سینہ میں درد اٹھتا تھا پھر ہسپتال پہنچایا جاتا تھا۔ ابھی حال یہ ہے کہ پہلے سے دل کی بیماری کے کوئی آثار تک نہیں ہوتے لیکن آناً فاناً ہارٹ اٹیک ہوتا ہے اور موقع پہ ہی فوری موت واقع ہو جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ میں اس بلاگ میں اسی پہ بات کروں گا۔

برسوں پہلے میں نے ابا جی سے کہا مجھے ریڈیو لا دیں۔ وہ حاصل پور سے میرے لیے اوریجنل جاپانی نیشنل ریڈیو لے آئے۔ اس پہ براؤن کلر کا لیدر کا کور بھی چڑھا ہوا تھا۔ والد صاحب تو بس اس پہ بی بی سی کی خبریں سنتے لیکن میں رات کو باقاعدگی سے لتا منگیشکر، محمد رفیع، مکیش، کشور کمار اور آشا بھوسلے کے گانے سن کر سوتا۔ اکثر ایسا ہوتا صحن میں سوئے اور تاروں کو تکتے ریڈیو سنتے سنتے میں نیند کی باہوں میں چلا جاتا، والد صاحب اٹھتے، ریڈیو بند کرتے۔

چونکہ چندی پور گاؤں میں رات کو خنکی ہو جاتی تھی تو ایک چادر مجھ پہ اوڑھا دیتے۔ ریڈیو پہ دو میڈیم ویو تھے۔ شارٹ ویو میڈیم لگاتا تو نا سمجھ آنے والی زبانوں میں پروگرام آ رہے ہوتے۔ کوئی کوئی لفظ سمجھ آ جاتا جیسے جرمنی، رشیا، جاپان یعنی مختلف ملکوں کے پروگرامز ریڈیو کیچ کر رہا ہوتا۔ مجھے بڑی حیرت ہوتی کہ یہ کیا راز ہے؟

پہلے میں نواب آف بہاول پور کے بنائے ہوئے گلزار صادق پارک میں واک کے لیے جاتا تھا۔ طویل واک سے میں ریلیکس ہو جاتا۔ مجھے بڑا سکون ملتا۔ پھر گھر کے قریب ایک پارک میں جانا شروع کر دیا۔ وہاں بھی واک کرنا اچھا لگتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ وہاں عوام کی سہولت کے لیے حکومت کی طرف سے فری وائی فائی لگا دیا گیا۔ اب مجھے محسوس ہوتا ہے میں جب بھی واک کے لیے پارک جاتا ہوں میری طبیعت یا اعصاب کہہ لیں ان پہ ایک دباؤ سے آ جاتا ہے۔

واک سے بجائے سکون ملنے کے ایک بے چینی سے محسوس ہوتی ہے۔ اچھا بہا ول پور شہر میں جن علاقوں میں موبائل فون کمپنیوں کے ٹاورز بہت لگے ہیں وہاں سے بھی جب گزرتا ہوں تو مجھے بیک وقت ذہن اور جسم میں بے چینی سی محسوس ہوتی ہے۔ جب چندی پور جاتا ہوں یا شہر سے باہر دیہاتی علاقے میں یا اوپن ایریا میں چلا جاتا ہوں تو ریلیکس محسوس کرتا ہوں۔ اچھا، ایک اور عجیب و غریب بات میرے مشاہدہ میں آئی ہے کہ جن گھروں میں لگا انٹرنیٹ وائی فائی ڈیوائس چوبیس گھنٹے آن رہتا ہے وہاں ماں باپ اور اولاد یا بہن بھائیوں کے آپس کے جھگڑے بہت بڑھ گئے ہیں۔

وہ سٹریس، ڈپریشن اور انگزائٹی کا شکار ہو گئے ہیں جس کا رزلٹ چڑچڑے پن اور اچانک ہارٹ اٹیک کی صورت میں بھی برآمد ہو رہا ہے۔ اب آپ کہو گے کہ اکبر شیخ اکبر یہ سب تمہارے نفسیاتی واہمے ہیں۔ چلو مان لیا لیکن کوئی نہ کوئی بات ہے ضرور۔ پاکستان اور جنوبی ایشیا کی حکومتوں اور سائنسدانوں کو مقناطیسی سگنلز اور اچانک ہارٹ اٹیک والے معاملے پہ تحقیق لازمی کرنا چاہیے۔

میرا مشورہ ہے کہ موبائل فون کمپنیوں کے ٹاورز شہروں سے دور نصب کیے جائیں۔ جدید ٹیکنالوجیز آ چکی ہیں تو کمپنیاں اپنے اخراجات بچانے کے لیے شہروں کے اندر ہی پرانی ٹیکنالوجی کو زیر استعمال رکھنے کے لیے ٹاورز نصب رکھنے پہ اصرار کیوں کرتی ہیں؟

میرے پاس ایک پرانا چھوٹا سمارٹ فون ہے جس پہ میں بس واٹس اپ پیغامات چیک کرتا ہوں اور یہ فون عموماً مستقل گھرمیں ٹیبل پہ پڑا رہتا ہے۔ ایک بٹنوں والا چھوٹا موبائل فون ہے جس پہ فون کال سنتا اور کرتا ہوں۔ یہ میری جیب میں رہتا ہے۔ رات کو دونوں فون تکیہ کے ساتھ رکھنے کی بجائے بستر کے سامنے لگی ٹیبل پہ رکھ دیتا ہوں۔ مہنگے موبائل فون خریدو، ایک سامنے والی جیب میں، دوسرا سائیڈ پاکٹ میں اور تیسرا ہاتھ میں۔ نا سائیں نا۔

ہم تو سادہ مزاج بندے ہیں سادگی میں ہی سکون ہے۔ سادگی سے خود پہ مقناطیسی سگنلز کا بوجھ کم کرو۔ میرے پیارے اللہ نے طبیعت ہی ایسی دی ہے کہ دوسروں کو ان چیزوں سے مرعوب یا امپریس کرنے کی خواہش ہی نہیں ہے۔ اچھا، میں ٹریول چینلز پہ دیکھتا رہتا ہوں کہ امریکہ اور یورپ کے لوگوں کی اکثریت کے ہاتھ میں صرف ایک سمارٹ فون ہوتا ہے۔ ہاتھ میں بیک وقت تین تین سمارٹ فونز رکھنے کا ”اعزاز“ ہم پاکستانیوں اور دیگر جنوبی ایشیائی باشندوں کو حاصل ہے۔

(امریکہ یورپ والو! تم کس کس بات میں ہمارا مقابلہ کرو گے۔ ہم جنوبی ایشیائی تو روٹیاں بھی تین تین کھاتے ہیں سالن کی تین تین پلیٹیں سامنے رکھ کے اور پھر تین تین ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں۔ ہاں البتہ تین تین بیویاں نہیں رکھ سکتے ورنہ مارے جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ امریکہ یورپ والو! بہتر ہے تم ہمارے زیر نگیں ہو جاؤ ورنہ۔ ورنہ کیا؟ ورنہ ہم چپ کر کے بیٹھ جائیں گے اور کیا۔ ایسے جیسے اپنی بیویوں کے سامنے چپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ )

اچھا، ایک مشورہ ہے جو لوگ افورڈ کر سکتے ہوں وہ شہروں سے باہر کسی دیہاتی علاقہ میں بھی ایک مکان بنا لیں۔ یورپ کے کئی ملکوں بشمول رشیا، کینیڈا، جرمنی اور فرانس میں تو صدیوں سے کلچر چلا آ رہا ہے کہ وہاں کے صاحب حیثیت لوگ شہروں کے ساتھ ساتھ دیہات میں بھی اپنا ایک گھر رکھتے ہیں جہاں وہ سال کے چند مہینوں کے لیے قیام کرتے ہیں۔ پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے افراد جب شہروں میں اپنے اندر سٹریس ڈپریشن، انگزائٹی، سینہ اور دل پہ دباؤ اور دماغ کے گرد یعنی کنپٹیوں میں درد والی کیفیت محسوس کریں تو بجائے ڈاکٹروں کے پاس چکر پہ چکر لگانے کے وہ اپنے دیہات والے گھر میں چند دن آرام کرنے کے لیے چلے جائیں۔

اس طرح سے وہ فضا میں چھوڑے گئے مقناطیسی سگنلز کے دباؤ سے چند دنوں کے لیے مکمل نہ سہی تھوڑی بہت نجات پا لیں گے اور ذہنی طور پہ ریلیکس ہو جائیں گے۔ اسی طرح وہ لوگ جو پاکستان اور دیگر ممالک میں اپنا گاؤں چھوڑ کے مستقل طور پہ شہر میں آباد ہونا چاہتے ہیں تو ان کے لیے میرا مشورہ ہے کہ مفت کا عذاب مول نہ لیں۔ ٹیکنالوجیز میں جیسے جیسے جدت آ رہی ہے، فضا میں مقناطیسی سگنلز کا دباؤ ویسے ویسے بڑھ رہا ہے۔ اپنے سکون سے پیار ہے تو بس خود کو گاؤں کا رہائشی ہی رکھیں۔

حکومتوں سے بھی میری گزارش ہے کہ شہروں کے درمیان جو رابطہ سڑکیں ہیں ان کے کناروں پہ دیہات کے لوگوں کے لیے جدید اسکول، کالج اور ہسپتال بنوائیں۔ نجی شعبہ کو بھی کہیں کہ وہ وہاں اپنے تعلیمی ادارے بنائے، دیہات کے لوگ وہاں اپنے بچوں کو داخلہ دلوا کے فیس ادا کر سکتے ہیں۔ ان سہولتوں کے گاؤں کے قریب ملنے سے انھیں شہر میں منتقل ہونے کی ضرورت ہی نہ ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments