کیا ڈپریشن کا علاج مذہب سے ممکن ہے؟


حال ہی میں ڈاکٹر سہیل کا کالم ”کیا ڈپریشن کا علاج مذہب سے ممکن ہے“ نظر سے گزرا۔ اس مضمون کو پڑھ کر میں نے محسوس کیا کہ اس میں کچھ اضافہ ممکن ہے۔ اس لیے یہ مضمون لکھ رہی ہوں۔

ایک مرتبہ میں کسی ایک شہر سے دوسرے شہر جہاز میں جا رہی تھی۔ آدھے راستے میں موسم خراب ہونے کی وجہ سے جہاز نے جھٹکے کھانے شروع کر دیے۔ میرے ساتھ ایک کیتھولک خاتون بیٹھی تھیں۔ انہوں نے اپنے بیگ میں سے ایک تسبیح نکالی اور اس کو جپنے لگیں۔

ان کے ہاتھ میں تسبیح دیکھ کر میں سوچ رہی تھی کہ کوئی بھی بار بار دہرانے والے کام سے انسان بے چینی میں بہتری محسوس کرتے ہیں۔ اگلے وقتوں میں اکثر ڈاکٹر اپنی مریضاؤں کو مزید سویٹر بننے کا مشورہ دیتے تھے جس سے ان کی بے چینی اور گھبراہٹ کم ہوجاتی تھی۔ اسی دہرانے کے طرز عمل کو مختلف مذاہب نے جذب کر لیا۔ محلے بھر کا جمع ہو کر پاپڑ بیلنا اور کھیتوں میں کام کرتے ہوئے ساتھ میں گانے گانا اسی طرح انسانوں کو اپنے روزمرہ مشکل دنوں اور کاموں کو نسبتاً آسانی سے مکمل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

انسانوں کے اجتماع سے افراد میں سہارے کے احساس کو بھی مختلف مذاہب نے مل جل کر رسومات ادا کرنے کے طریقوں سے عبادات کا حصہ بنالیا۔ اس کے علاوہ اپنے دل کا حال کسی کو بتا کر بھی انسان خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں۔ اگر ہم سے کوئی غلطی ہو جائے تو بھی اس کے بارے میں بات کرنے سے ہم بہتر محسوس کرتے ہیں۔ اسی لیے عیسائیت میں جالیوں کے پیچھے سے اعتراف گناہ کی رسم موجود ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہی طریقہ کونسلنگ کی بنیاد ہے۔

سکھر کے قریب ایک گاؤں ہوتا تھا جس کا نام باگڑجی تھا۔ ہم خود تو کبھی وہاں نہیں گئے لیکن سنتے تھے کہ وہاں ایک پیر کا مزار ہے جس کے باہر درخت ہیں۔ لوگ دور دراز سے اپنے پاگل لاتے ہیں اور ان کو ان درختوں سے باندھ دیتے ہیں تاکہ وہ بہتر ہوجائیں۔

دنیا کے تمام انسان اپنی سوچ، اعتقادات اور تعلیم کے لحاظ سے اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ روحانیت اور مذہبیت دنیا کے انسانوں کی قدیم معلومات اور سمجھ کا نچوڑ ہیں جن کی بنیاد زیادہ تر مشاہدات اور توہمات پر مبنی ہیں۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کافی ساری تحقیق مشاہدات کی بنیاد پر ممکن ہے۔ روحانیت اور منظم مذاہب دو الگ حقائق ہیں جو کبھی ہم آہنگ ہوتے ہیں اور کبھی نہیں۔ یہ یاد رکھنا کہ ہم حقیقت میں کون ہیں ہماری روحانی راہ پر بیداری کا پہلا قدم ہے۔ پیدائش سے لے کر موت تک کے سفر کے دوران، انسان زندگی پر سوال اٹھاتے ہیں، بہتری کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، علم حاصل کرتے ہیں اور ایک بے ربط اور پیچیدہ دنیا میں زندگی کے معنی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

خدا کا تصور انہی بے جواب سوالوں سے ابھرا ہے۔ سادہ الفاظ میں، یہی جدوجہد روحانیت کا جوہر ہے۔ ہم تمام دنیا کی تاریخ اور حال سے دیکھتے ہیں کہ انسانوں کی روحانی مشق کئی شکلیں اختیار کر سکتی ہے، کیونکہ روحانیت کو اپنانا ایک بہت ہی ذاتی کوشش ہے۔ اگرچہ بہت سے لوگ اپنی روحانیت کا تعلق خدا یا دیوی سے کرتے ہیں، الہی کی تلاش، یا کائنات کے ساتھ وحدت، ہمیشہ اندر سے پھوٹتی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کو اپنا روحانی راستہ کہاں سے ملتا ہے۔

ہم سب بنیادی طور پر روحانی مخلوق ہیں اور اس کا جوہر ہمارے حقیقی نفس کو سمجھنے اور ایک ایسا سکون تلاش کرنے میں ہے جو بیرونی دنیا کے بجائے ہمارے اندر سے آتا ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اپنے ذاتی راستے پر بیدار ہوتے ہیں۔ نفسیاتی مسائل کو دو حصوں میں بانٹ سکتے ہیں۔ ایک وہ جو مشکل حالات کی وجہ سے پیش آئیں اور دوسرے وہ جن کا تعلق حالات سے نہ ہو بلکہ وہ دماغی ڈھانچے یا کیمیائی توازن کے بگڑنے سے لاحق ہوئے ہوں۔

انسان ایک سماجی جانور ہے۔ انسانوں کے لیے دیگر انسانوں کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے۔ دنیا کے مختلف معاشرے اور مذاہب انسانوں کے بنائے ہوئے سماجی ڈھانچے ہیں۔ میری نظروں میں مذاہب وڈیو گیمز یا شطرنج کی بساط کی طرح ایک خیالی دنیا ہیں جن کے خیالی اصول اور ضوابط ہیں جو صرف اس کھیل کے اندر ایک حقیقت ہوتے ہیں اور اس کے باہر محض خیالات۔ مذاہب یا روحانیت کی بنیاد چاہے خیالی ہو لیکن حقیقی دنیا میں وہ انسانوں کے گروہوں کو سہارا دینے کے لیے مفید سماجی اداروں کا کردار صدیوں سے ادا کر رہے ہیں۔

یہ ایک اور دن کے لیے بحث ہے کہ انہوں نے انسانیت کو فائدہ زیادہ پہنچایا ہے یا نقصان۔ ڈپریشن، افسردہ علامات اور مذہبی اور روحانی طرز عمل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن ان کے چوراہے کو مین اسٹریم ذہنی صحت کے پیشہ ور افراد کی طرف سے نسبتاً کم توجہ ملی ہے۔ اس مضمون میں 2012 میں چھپنے والے مقالے سے مدد لی گئی ہے جس میں پچھلے 50 سالوں ( 1962 سے 2011 ) کے دوران مذہبیت اور روحانیت کے میدان میں کی گئی تحقیق کا جائزہ لیا گیا ہے۔

کم از کم 444 مطالعات نے اداسی اور مذہبیت یا روحانیت کے تعلقات کو مقداری طور پر جانچا ہے۔ ان میں سے، 60 فیصد سے زیادہ مذہبی اور روحانی افراد میں کم ڈپریشن بتاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ مذہبی اور روحانی افراد میں ڈپریشن سے تیزی سے چھوٹ حاصل ہوئی یا پھر ڈپریشن کی شدت میں کمی پیدا ہوئی۔ اس کے برعکس، صرف 6 فیصد مذہبی اور روحانی افراد زیادہ ڈپریشن کی شکایت کرتے ہیں۔ 178 مطالعات میں سے، 119 میں یہ دیکھا گیا کہ مذہبیت اور روحانیت اور ڈپریشن کے مابین الٹا تعلق یا ریورس پروپورشن موجود تھی۔

مذہبی عقائد چاہے وہ حقیقت ہوں یا نہیں اور طرز عمل لوگوں کو زندگی کے دباؤ کے حالات سے بہتر طور پر نمٹنے، معنویت اور امید دلانے میں مدد دے سکتے ہیں اور افسردہ افراد کو ایک معاون کمیونٹی کے ساتھ سہارا دے سکتے ہیں۔ کچھ آبادیوں یا افراد میں، تاہم، مذہبی عقائد احساس جرم کو بڑھا سکتے ہیں اور حوصلہ شکنی کا باعث بن سکتے ہیں کیونکہ زیادہ تر انسان اپنی مذہبی روایت کے اعلی معیار پر قائم رہنے میں ناکام رہتے ہیں۔

روحانی راستہ روز مرہ کے معمولات اور ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی دنیا سے نکلتا ہے جو ایک مقصد یا طرز زندگی سے ہمارے ذاتی تعلق کی تصدیق کرتا ہے۔ ہمدردی، شکرگزاری، قدردانی، معافی، سخاوت، مراقبہ، اور کسی کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنا کسی کی روحانی زندگی کا حصہ بن سکتا ہے۔ ذاتی روحانیت کی تلاش ایک عمل ہے۔ مذہبیت اور روحانیت ہر جگہ اور ہر گروہ کے لیے مثبت نتائج نہیں دکھاتی ہے۔ جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے حال ہی چھپنے والے آرٹیکل کے مطابق امریکہ میں تمام دیگر مذاہب کے مقابلے میں مسلمانوں میں خود کشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

اس کی اندرونی اور بیرونی وجوہات ہیں۔ امریکہ میں زیادہ تر مسلمان دیگر ممالک سے ہجرت کر کے پہنچے ہیں جن کی اخلاقیات مختلف ہیں جو وہ اپنی اولاد پر لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ میں مسلمان ایک زیر عتاب اقلیت ہیں۔ پی ای ڈبلیو ریسرچ کے مطابق امریکہ میں پل کر بڑے ہونے والے چار افراد میں سے ایک اسلام چھوڑ چکا ہے۔ افسردگی کو روکنے میں مذہبیت اور روحانیت کے عوامل کے کردار کو سمجھنے سے معالجین کو یہ طے کرنے میں مدد ملے گی کہ یہ ایک وسیلہ ہے یا انفرادی مریضوں کے حالات پر مبنی ہے۔

روحانیت کی اہمیت کو قبول کرنا ایک صحت مندانہ فیصلہ ہو سکتا ہے، کیونکہ ایک روحانی مشق میں ایسی عادات شامل ہوتی ہیں جو صحت مند زندگی کو فروغ دیتی ہیں۔ اس عمل، سوچ اور رسم کا احتیاط سے تعین کرنے کے لیے وقت نکالنا اہم ہے جو ہمارے منفرد ذہن سے ہم آہنگ ہو۔ ہمارے انتہائی گہرے روحانی تجربات ان سادہ پیچیدگیوں سے بھی آ سکتے ہیں جو ہماری عام روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں۔ تمام چیزوں کا باہمی ربط دیکھیں۔ جب آپ اپنے ”اندرونی کام“ کو تلاش کریں گے تو آپ اپنے روحانی راستے پر چل رہے ہوں گے اور کائنات کے ساتھ اپنی وحدت کو محسوس کریں گے۔

خاندان، مذہب، روحانیت اور سماجی ڈھانچے پر انحصار اور اس سے مدد حاصل کرنا ہر انسان کا حق ہے۔ لیکن ان سہاروں کی افادیت اور ان کی محدودیت کو سمجھنا لازمی ہے۔ اسی لیے ہمارے جو بھی اینڈوکرائن کے مریض اپنی کسی بھی بیماری کا کسی بھی روحانی، مذہبی یا جڑی بوٹیوں سے علاج کرنا چاہیں، ہم ان کو نہیں روکتے۔ لیکن اعداد و شمار سے جو بھی دوائیں مفید ثابت ہو چکی ہوں انہی کے استعمال کو ترجیح دینے کا مشورہ ضرور دیتے ہیں۔

اور یہی پیغام ڈاکٹر سہیل نے بھی اپنے کالم میں دینے کی کوشش کی ہے کہ سنجیدہ نفسیاتی بیماریوں کو توہم پرستی کے بجائے باقاعدہ ثابت شدہ مفید علاج سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ ”سائنس روشنی ڈال کر وضاحت تو کر سکتی ہے لیکن یہ انسانوں کے گہرے مسائل حل نہیں کر سکتی، کیونکہ معلومات کے بعد چناؤ اور عمل کا مرحلہ آتا ہے جو کہ دونوں انتہائی ذاتی چیزیں ہیں۔“ پروفیسر پال بی سیئرز۔ یونیورسٹی آف اوکلاہوما۔ 1935

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments