تین بار کے وزیرِ اعظم سے ہماری  کچھ توقعات ہیں!


کیا نواز شریف ایک بار پھر اپنی بقا کے لئے تمام تر امیدیں مغرب سے وابستہ کر چکے ہیں؟ کارگل کے کئی سال بعد ایک اہم امریکی عہدیدار نے 4 جولائی 1999 کو واشنگٹن پہنچنے والے پاکستانی وزیر اعظم کو یاد کرتے ہوئے کہا، ’۔ he was not a man of great courage۔‘ (صفحہ 291، فرام کارگل ٹو کو۔ نسیم زہرا) ۔ اپنے حالیہ انٹرویو میں شہباز شریف نے تصدیق کی ہے کہ کئی دن امریکی صدر سے تنہائی میں ملاقات کے لئے منت سماجت میں مصروف بڑے بھائی سے انہوں نے آرمی چیف کو امریکہ ساتھ لے جانے کا کہا تھا۔ مشورہ مان لیا جاتا تو اندازہ یہی ہے کہ پاکستان کی تاریخ آج کہیں مختلف ہوتی۔

کارگل بحران سے بہت پہلے نواز شریف صدر کلنٹن سے اسامہ بن لادن کے اغوا سمیت افغانستان میں امریکی اہداف کے حصول کے لئے ان کا ساتھ دینے کا وعدہ کر چکے تھے۔ دوسری طرف واجپائی جی سے بھی خفیہ مذاکرات جاری تھے۔ جب واجپائی لاہور آئے تو کیا اپنے زیر تسلط پورے کا پورا کشمیر خیر سگالی کے طور پر نواز شریف کے حوالے کرنے آئے تھے؟ کچھ تو عہد و پیمان ہماری طرف سے بھی ہوئے ہوں گے۔ کارگل کی جنگ نے جہاں پاکستان کو اندرونی طور پر منتشر کیا، وہیں ہندوستان کی جہاندیدہ قیادت نے اس بحران کو خوب مہارت سے اپنے حق میں استعمال کیا۔ بی جے پی نے قومی انتخابات میں جہاں پہلے سے بھاری اکثریت حاصل کی، وہیں شٹل ڈپلومیسی کے نتیجے میں امریکہ اور بھارت کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملا۔ ’فطری اتحادیوں‘ کے نزدیک اب پاکستان نہیں، نواز شریف کی ذات اہم تھی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں چار آرمی چیفس نے اقتدار پر براہ راست قبضہ کیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سویلین دور حکومت میں جنرل اسلم بیگ جیسے آرمی چیف بھی رہے ہیں، منتخب جمہوری حکومت کو گرانے کی منصوبہ سازی کا جن پر الزام ہے۔ انتخابات میں کسی ایک شخص کو جتوانے کے لئے اتحاد بنانے کے لئے رقوم جن کی ناک کے نیچے بانٹی جاتی رہیں۔ بے جا بیان بازی سے جو منتخب حکومت کو اکثر مشکلات میں ہی ڈالتے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں جنرل آصف نواز، جنرل کاکڑ اور جنرل جہانگیر کرامت جیسے پیشہ ور سپاہی بھی آئے۔ تمام تر ترغیبات کے باوجود جنہوں نے آئین کی بالا دستی کو ملحوظ خاطر رکھا۔

جنرل آصف کو میاں صاحب نے نہایت بھونڈے انداز میں خریدنے اور سیاست میں الجھانے کی کوشش کی۔ جنرل جہانگیر کرامت کو بے توقیر کر کے گھر بھیجا گیا۔ ہر آرمی چیف کے ساتھ بد گمانی پر مبنی تعلقات کار اور اس کے برعکس بھارتی حکمرانوں بالخصوص مودی حکومت اور اس کے خاص کارندوں سے ساتھ میاں صاحب کے مراسم کی پر اسرار نوعیت کو بار بار دہرا کر میاں صاحب کی تضحیک ہر گز مقصود نہیں۔ حقائق کو مگر درست پیرائے میں بیان کرنا ضروری ہے۔

پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنا کسی بھی حکومت کی پہلی ترجیح ہو نا چاہیے۔ پاکستانی معیشت بھارتی جنگی جنون کے مقابلے میں دائمی تناؤ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ خطے میں مسائل کا سلجھاؤ بات چیت سے ہی ممکن ہے۔ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے نتیجے میں صورت حال تیزی سے بدل رہی ہے۔ طالبان ماضی کی طرح سرعت کے ساتھ ملک کے طول و عرض میں پھیل گئے ہیں۔ افغان سکیورٹی فورسز جو امریکہ نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے کھڑی کی تھیں، طالبان کی یلغار کے سامنے تاش کے پتوں کی طرح بکھر رہی ہیں۔

خطے میں بھارتی عزائم خاک میں ملتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ کابل میں خود ترحمی کا مارا ٹولا سوکھے زرد پتوں کی طرح لرز رہا ہے۔ اس ماحول میں امریکہ، اس کے مغربی اتحادی، بھارت اور کابل میں محصور کٹھ پتلی حکمران بیک زبان پاکستان اور اس کے اداروں کو تمام خرابی کے لئے مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ پاکستان کے اندر بھی ہمہ وقت غراتا ہوا ایک غول ہے جو طالبان کو زمینی حقیقت ماننے کے لئے تیار نہیں۔

لگ بھگ بیس سال بعد بظاہر عزیمت پر تلے نواز شریف کیا ایک بار پھر گھبرائے ہوئے ہیں؟ کیا ایک بار پھر سیاسی بقا کے لئے اپنی ساری امیدیں وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے وابستہ کر چکے ہیں؟ اوپر تلے رونما ہونے والے کچھ واقعات اور میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کے رویوں کی بنا پر ہر دو کے بارے میں پہلے سے موجود بد گمانی زور پکڑ رہی ہے۔ تاثر مستحکم ہو رہا ہے کہ میاں صاحب بیرون ملک بیٹھے مغربی ممالک سے رابطوں میں ہیں جبکہ اندرون ملک مغرب زدہ لابی ان کی حمایت میں پر جوش ہے۔

آزاد کشمیر کے اندر انتخابی مہم کے دوران مریم نواز نے عمران خان کی ذات اور اسلام آباد میں حکومت کو بے رحمی سے نشانے پر رکھا۔ بار بار توجہ دلائے جانے کے باوجود بھی مودی اور اس کے مظالم پر ایک لفظ نہیں بولا۔ صاحبزادی نے افغان سفیر کی بیٹی والے معاملے میں بلا جواز اور غیر ضروری طور پر پاکستان کو رگیدا تو دوسری طرف لندن میں میاں صاحب اس افغان کارندے سے ملاقات کرتے ہوئے پائے گئے، پاکستان کے خلاف جو غلاظت اگلتا ہے۔ 5 اگست والے دن کو پاکستان اور کشمیر میں ’یوم استحصال‘ کے طور پر منایا گیا ہے۔ مریم نواز کا ٹویٹر اکاؤنٹ ساری دن متحرک رہا۔ مجال ہے کہ مظلوم کشمیریوں سے متعلق ہمدردی کا ایک پھوٹا حرف بھی لکھا گیا ہو!

متروک اشتراکی، آج جو خود اسی ’مغربی استعمار‘ کے کارندے ہیں، شہباز شریف کے حالیہ انٹرویو کے بعد سخت مشتعل ہیں۔ خود اپنی محبت میں گرفتار ان بد مزاج ’مغرب زدہ انتہا پسندوں‘ کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ تین بار ملک کے وزیراعظم رہنے والے شخص کے متعلق مگر یہ تاثر ہر گز مناسب نہیں کہ وہ گھبرا کر مغرب کی طرف بھاگتا ہے۔ سرکاری مشینری، انصاف کے سیکٹر اور میڈیا میں موجود طاقتور عناصر میاں صاحب کی پشت پر کھڑے ہیں۔

ان کی صاحبزادی ’کراؤڈ پلر‘ بن چکی ہیں۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ باپ بیٹی کا بیانیہ پنجاب نے قبول کر لیا ہے۔ اندریں حالات بہتر تو یہی ہے کہ میاں صاحب عوامی تائید پر انحصار کریں۔ اب جبکہ ان کے ویزے میں توسیع کی درخواست مسترد ہو چکی ہے تو میاں صاحب کو باعزت راستے کا انتخاب کرنا چاہیے۔ پہلے قدم کے طور پر انہیں چاہیے کہ وہ لندن میں پاکستانیوں کے ایک ایسے بڑے جلسے کا انعقاد کریں، جیسا جلسہ عمران خان نے ٹرمپ سے عین ملاقات سے قبل واشنگٹن میں کیا اور امریکی قیادت کا مزاج بدل کر رکھ دیا تھا۔

اسی جلسے میں وہ پاکستان واپسی اور جیل میں بیٹھ کر ایک عظیم الشان مزاحمتی تحریک کی قیادت کا اعلان کریں۔ تحریک زور پکڑے گی تو نہ صرف یہ کہ شہباز شریف کا مفاہمتی بیانیہ خود بخود دم توڑ دے گا بلکہ کل کلاں کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکے گا کہ میاں صاحب آڑے وقت میں جرآت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے مغربی ممالک کی طرف دیکھتے ہیں۔ ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والی شخصیت کے بارے میں یہ کوئی اچھا تاثر نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments