لفظ ”لبرل“، لغات اور پاکستان: چند آراء


انگریزی زبان سے آیا ہوا لفظ ”لبرل“ ، لغات میں جو معنی رکھتا ہے تقریباً ً وہی سوچ پوری دنیا میں رائج ہے۔ مگر پاکستان کے مختلف طبقات اسے جدا جدا مفاہیم میں استعمال کرتے ہیں۔ اسی تناظر میں ہم نے چند احباب سے رائے لینے کی کوشش کی ہے۔ جیسا کہ ”ہم سب“ کی پالیسی بھی ہے، ہم نے متنوع نقطہ ہائے نظر کو بغیر کسی تدوین کے یہاں یکجا کر دیا ہے۔

کچھ احباب نے ”لبرل“ کے معنی بتاتے ہوئے اختصار سے کام لیا ہے۔ ان کے نزدیک لبرل کا مطلب ہے آزاد خیال، صلح کل کا ماننے والا، غیر جانبدار اور جس کے لئے گمان کی نسبت دلیل اہم ہو۔

آسٹریلیا سے ایک وسیع المطالعہ پاکستانی ادیب نے اپنے خیالات کا تفصیلی اظہار ان الفاظ میں کیا ہے ”افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے پیارے وطن میں لبرل کا لفظ گالی کے طور پر زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں لبرل سوچ کا مطلب ہے، جیو اور جینے دو۔ لبرل بندے کی قوت برداشت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ اختلاف رائے سے خوف نہیں کھاتا۔ اپنے جذبات شدت سے برانگیختہ نہیں کرتا۔ مختلف عقیدہ رکھنے والوں کو برا یا حقیر نہیں سمجھتا۔

اپنی نیکی اور بہترین مخلوق ہونے کے زعم اور تکبر میں مبتلا نہیں ہوتا۔ اپنے علم، تجربہ، سوچ اور سمجھ کو حرف آخر کی بجائے نامکمل سمجھتا ہے۔ اسی لئے تمام وقت مزید سیکھنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ کوئی بات سمجھانے کے لئے ڈنڈا اٹھانے کی بجائے علم الکلام استعمال کرتا ہے۔ واجب القتل کا فتویٰ نہیں دیتا۔ لبرل بندہ انسانیت سے پیار کرتا ہے“ ۔

ایک صاحب کی رائے ہے کہ کچھ الفاظ کے ڈکشنری مطلب بڑے معنی خیز ہوتے ہیں۔ ان کا بظاہر مطلب تو بہت مثبت ہوتا ہے لیکن جب عملی طور پر اس کو زندگی میں اپلائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کے اثرات منفی نظر آتے ہیں۔ لفظ لبرل ڈکشنری کی تعریف کے مطابق کھلے دماغ کا اور نئی راہیں تلاش کرنے والا بھی ہے۔ دوسروں کی رائے اور نقطۂ نظر کا احترام کرنے والا بھی۔ لیکن اس کی ایک تعریف قدامت پسندی اور پرانی روایات سے بیزاری بھی ہے۔

جب ہم آخری مطلب کے ساتھ دیکھتے ہیں تو یہ ہمارے خاندانی نظام پر بھی ضرب لگاتا ہے۔ ہماری معاشرتی اقدار کو بھی تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ ہمارے سوشل سسٹم کو بھی متاثر کرتا ہے۔ میرے خیال میں اس تعریف کے ساتھ یہ منفی احساس دیتا ہے، جو ہماری صحیح اور متوازن بنیادوں کو ہلاتا ہے اور مادر پدر آزادی کی راہ ہموار کرتا ہے۔

ایک ادیبہ جو فطرت کی رومانی منظر کشی کے لئے جانی جاتی ہیں، کا کہنا ہے ”میرے خیال میں رنگ، نسل، مذہب اور جنس کی بنیاد پرایک لبرل کسی کو اچھا یا برا نہیں کہتا۔ میرے نزدیک لبرل وہ ہوتا ہے جو تنقیدی شعور سے مالامال ہو۔ جو سوال کو ایڈریس کرتا ہے۔ جو تحقیق پر یقین رکھتا ہے۔ جو قوت بازو پر بھروسا کرتا ہے۔ جو اپنی ذمہ داری خود ادا کرتا ہے۔ جو نیکی اور بدی کے مروجہ فارمولوں سے کچھ وسیع سوچ رکھتا ہے۔ جو کسی انسان کے مدد مانگنے پر اللہ خیر کرے گا کہہ کر منہ دوسری طرف نہیں پھیر لیتا“ ۔

ایک صاحب نے سختی سے اپنا موقف بیان کیا ہے۔ ”پاکستان میں جو شخص بھی خود کو لبرل کہتا ہے وہ اسلام سے بیزار ہے اور اس کا مقصد دین اسلام پر تنقید ہے۔ یہ بے حیائی کے فروغ کے لئے کام کرنے والے گروہ کا نام ہے۔ بظاہر اسے آپ جو مرضی نام دیں ”۔

ایک صاحب علم کا موقف درج ذیل تھا

” لبرل کا تصور اور فہم پاکستان میں مختلف کیوں ہے؟ اس کی مکمل تصویر تب ہی بن سکتی ہے، جب ہم تاریخ کو کم از کم اس وقت سے دیکھیں، جب اس خطے پر بیرونی حملہ آوروں نے یورشیں شروع کیں۔ بلکہ اس کی کڑیاں تو ہزار سال سے بھی پہلے جا کر ملتی ہیں اور سائنسی توجیہہ تو کئی ہزار سال پیچھے تک جاتی ہے۔ اگر اس کا کوئی قریب قریب بہتر جواب میرے تصور میں آتا ہے تو، وہ پچھلی سات دہائیوں کی غفلت اور مقتدر طبقے کی گھناؤنی کارکردگی ہے۔ تفصیل۔

1۔ مذہب کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنا۔
2۔ عوام کی نفسیات سے کھیلنا۔
3۔ نظام تعلیم اور درسی کتب۔
4۔ منفی برین واشنگ۔
5۔ اپنے قومی مفاد پر دوسروں کے مفاد کو ترجیح دینا۔

میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ جو معدودے چند افراد لبرل اور سیکولر کے عالمی معیار پر پہنچے، وہ یا تو غیر مقبول یا پھر معتوب رہے۔ چند سمجھدار افراد بہتر معاشروں اور ممالک میں ہجرت کر گئے۔ جو بہت تھوڑے سے ادھر رہ گئے ہیں، ان پر غداری اور لادینیت کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔ لبرل ازم ہو یا کوئی اور مثبت آزادی، اس کے ساتھ سنجیدہ ذمہ داری کا بھاری لیکن از حد ضروری بوجھ اٹھانا لازم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ آخر میں مختصر جواب۔ کہ ہمارے یہاں دوسری کون سی ایسی خوبی یا خصلت رہ گئی ہے جو عالمی سچائیوں کے معیار پر پورا اترتی ہے؟ ”۔

جرمنی سے ایک ادیبہ کا استدلال ہے۔ ”میرے نزدیک لبرل کے لفظی، سماجی اور لغوی معنی تو آزاد خیالی اور انفرادی ترقی پسند نظریہ ہے لیکن جو ملک خود نظریاتی بنیاد پر وجود میں آیا ہو وہاں اس کے معنی بھی اسی نظریہ کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ (دو قومی نظریہ کو ذہن میں رکھئیے ) ۔ لبرل ازم ایک عالمی نظریہ ہے جو انیسویں صدی میں ابھر کر سامنے آیا۔ لبرل ازم کا نظریہ بنیادی طور پر انفرادیت یا آزاد منفرد خیال کے ساتھ منسلک ہے۔

لیکن پاکستان میں اس کے معنی یا استعمال اس لئے الگ ہے کہ معاشرتی اور سیاسی سطح پر وہاں نہ فرد آزاد ہے اور نہ ہی آزادانہ ترقی اور خود مختاری کا کوئی تصور ہے۔ چوہتر سالوں سے جہاں جمہوریت اور جمہوری رویے نہ پنپ سکے ہوں، جہاں انفرادی معاملات میں ریاستی مداخلت اور پابندیاں موجود ہوں، جہاں اظہار رائے کی آزادی صرف کاغذی سطح پر دکھاوے کے لئے ہو، وہاں انفرادیت یا منفرد سوچ رکھنے والے، ترقی پسند افکار کو عملی جامہ پہنانے والے بہت کم ہی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ریاست کے ساتھ انفرادیت اور ترقی پسندی کی راہیں ہموار ہونے کے لئے ابھی وقت لگے گا۔ اردو زبان، ادب اور معاشرہ و تہذیب ابھی ارتقائی منازل میں ہیں۔ لبرل ازم بھی“ ۔

جرمنی میں ہی مقیم ایک اور پاکستانی دوست کا کہنا ہے۔ ”دنیا کے کسی بھی ملک میں ’لبرل‘ کے وہ معنی نہیں لئے جاتے جو پاکستان میں رائج ہیں۔ نہ ہی ’دیسی لبرل‘ یا ’انتہا پسند لبرل‘ جیسی اصطلاحات کہیں اور استعمال ہوتی ہیں۔ سیاسی فلسفہ کے طور پر لبرل ازم، شخصی آزادی اور ریاستی مذہبی لاتعلقی پر مشتمل ہے۔ دائیں بازو اور بائیں بازو کے درمیانی طبقے نے یہ تحریک کئی سو سال پہلے متعارف کروائی تھی۔ اس کا مقصد جاگیرداری اور مطلق العنانی کے خلاف جدوجہد تھی۔

جرمنی میں ایک نہایت معتبر سیاسی جماعت ’فری ڈیموکریٹک پارٹی‘ جسے لبرل پارٹی بھی کہا جاتا ہے، میں مذہب کو ماننے والے جرمن باشندے ہیں۔ لیکن کبھی کسی نے نہیں کہا کہ یہ سیاسی پارٹی مذہب کے خلاف ہے۔ جرمنی کے علاوہ بھی بہت سے ممالک جیسے کینیڈا، جاپان وغیرہ کی لبرل سیاسی جماعتوں میں کبھی مذہبی بحث مباحثہ نہیں ہوتا، بلکہ لبرل ازم کو صرف سیاسی مناسبت سے دیکھا جاتا ہے۔ تو پھر پاکستان میں ایک لبرل کو اسلام کے خلاف اور ’کافر‘ کیوں سمجھا جاتا ہے؟“ ۔

ایک صاحب جو خود کو عالم دین کہلانے کے خواہش مند ہیں، نے زور دے کر کہا ”لبرل ازم کا یک نکاتی ایجنڈا ہے، اور وہ ہے اسلام کی مخالفت۔ یورپ والے لبرل ازم کے بہت بڑے دعویدار ہیں لیکن ان کی تہذیب منافقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ وہاں مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ تعصب پایا جاتا ہے۔ حجاب تو کیا وہ مسلمان عورتوں کو سکارف تک استعمال نہیں کرنے دیتے۔ ترکی میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جب وہاں سیکولرازم آیا تو عربی زبان میں اذان تک پر پابندی لگا دی گئی۔ حج اور عمرہ سے بھی منع کر دیا گیا۔ بتائیے ذرا کہاں ہے لبرل ازم کی وہ رواداری جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے؟“ ۔

ایک خاتون جو پاکستان میں سوشل ایکٹیوسٹ بھی ہیں، کا استدلال ہے ”اسلام کے لیڈران سمیت دائیں بازو کے تمام طبقات کو ہمارا احسان مند ہونا چاہیے کہ ہمارا راستہ انقلاب کی بجائے اصلاحات کا راستہ ہے۔ اگر وقت کے ساتھ ساتھ ہر شعبہ میں ضروری اصلاحات وقوع پذیر ہوتی رہیں تو انقلاب سے بچا جا سکتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ انقلاب کا کوئی قانون نہیں ہوتا۔ ہمارے مطالبات تو ویسے بھی عین اسلامی ہیں۔ کیا صنف و نسل کی مساوات اور اظہار رائے کی آزادی اسلامی شعار نہیں ہیں؟

فرق صرف اتنا ہے کہ آپ نے یہ سب کاغذوں کتابوں تک محدود کر رکھا ہے اور ہم اس کی عملی تعبیر کا مطالبہ کرتے ہیں۔ قدامت پرستوں، روایت پسندوں اور مذہب کے کاروباری ٹھیکیداروں کو اپنی دکانداریاں چلانے کے لئے کسی دشمن کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس وقت لبرل ان کا آسان شکار بنے ہوئے ہیں۔ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وہ بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں میں ہمارا ساتھ نہیں دیں گے تو پھر انہیں کسی خونی انقلاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور انقلاب ہماری طرح گفتگو اور مطالبے نہیں کرتا بلکہ جو کرنا ہو کر گزرتا ہے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments