بلوچستان: ایسا دیس ہے میرا


اکیسویں صدی میں جہاں ہر طرف خبروں کی بھر مار و بہتات ہے۔ وہاں ہمارے دیس کی خبریں کس طرح گم ہو جاتی ہیں؟ اندازہ لگائیں اور ملاحظہ کریں چند تصویری جھلکیاں جو آپ کو مین سٹریم میڈیا تو کیا کسی بھی میڈیا میں دکھائی نہیں دیں گی۔

پہلا منظر صوبے کے معروف سرکاری ہسپتال کا ہے جس کو کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ اتفاق سے میں اسی ہسپتال کے آئی سی یو میں ایک مریض کے ساتھ ہوں۔ تمام مریض آکسیجن کی کمی کا شکار ہیں اور تشویشناک حالت میں ہیں اور کچھ انتہائی نازک حالت میں۔ کچھ مریض اپنا آکسیجن لیول برابر کر کے واپس زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں اور کچھ ہمیشہ کے لیے یہ سنسار چھوڑ کہ جا رہے ہیں۔ غرض دکھ کی کیفیت ہے اور ہر چہرہ مرجھایا ہوا ہے۔ کیا مریض کیا لواحقین سب ہی خوفزدہ ہیں کہ اگلی باری کس کی؟

ساتھ والے بیڈ پہ ایک حاملہ خاتون نازک حالت میں ہیں۔ ڈاکٹر ان کے لواحقین کو بتا رہے ہیں کہ آپ لوگ خاتون کو ڈیلیوری کے لیے کسی دوسرے ہسپتال لے جائیں۔ کیونکہ خاتون نہیں بچ سکتی آپ بچے کو بچا لیں۔ مگر لواحقین بضد ہیں کہ ہم نہیں جائیں گے۔ کیونکہ اس خاتون کے پہلے سے تین بچے ہیں یہ نہ رہی تو انہیں کون پالے گا؟ اس لیے ہمارے لیے خاتون کی زندگی زیادہ اہم ہے۔ تو ہم چانس لینا چاہتے ہیں۔ مگر ڈاکٹر مسلسل چیخ رہا ہے یہ کیسے جاہل لوگ ہیں ان کو بات سمجھ نہیں آ رہی۔ دل تو چاہا ڈاکٹر کو گریبان سے پکڑ کر اسے کہوں جاہل وہ لوگ نہیں آپ خود ہو۔ یہ ایک حقیقت ہے ماضی کے برعکس آج کل ہمارے اکثر ڈاکٹر میڈیکل بکس کے علاوہ کوئی دوسری کتاب پڑھتے نہیں اس لیے انسانی المیوں سے ناواقفیت اور کم فہمی ان کے قول و فعل سے عیاں ہے۔

دوسرے بیڈ پہ بھی ایک خاتون مریضہ ہیں۔ پتہ چلا کہ پنجگور سے آئے ہیں۔ لواحقین میں سے ایک خاتون ہے جو خود کو مریضہ کی بہن بتاتی ہیں۔ ان کے بقول میری بہن زیادہ عمر کی نہیں مگر اسے غموں نے پاگل کیا ہے۔ پہلے ان کے شوہر کو قتل کیا گیا پھر ان کے جوان بیٹے کو قتل کیا گیا۔ انہیں کرونا ہے یا نہیں لیکن حواس ضرور کھو بیٹھی ہیں۔ جس نے قتل کیا ہے ان کا نام لینے کی جسارت ہم نہیں کر سکتے۔

میں سو چنے لگا ہمارے لوگ کس دہری اذیت کا شکار ہیں؟ ایک طرف یہ وبا اور دوسری طرف غربت یہ حالت یہ بے بسی یہ وحشت؟

رات کے کسی پہر چیخ و پکار سے آنکھ کھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے پھر کوئی چل بسا۔ میں اٹھ کر باہر بنچ پہ جا کہ بیٹھتا ہوں۔ چاند تو نکلا ہوا ہے مگر گرد و غبار کے مارے دھندلا اور شاید میلا بھی لگ رہا ہے۔ بالکل ویسا ہی ابر آلود ماحول میرے دل کا ہو رہا ہوتا ہے۔ چیخ و پکار جاری ہے۔ اس خاص ماحول میں مجھے جیسے زندگی سے نفرت ہو رہی ہے۔ اور میں سوچتا ہوں کہ وبا سے تو پوری دنیا مر رہی ہے اس کا گلہ ہی کیا؟ مگر یہ جو دیگر معاملات ہمارے ساتھ ہیں یہ شاید کہیں نہ ہوں۔ رونا دھونا اور زیادہ ہو جاتا ہے۔ اب مجھے غصہ آنے لگتا ہے۔ کہ آخر اس ماحول میں ہم زندگی کی تمنا ہی کیوں کرتے ہیں اور پھر اس معاشرے میں مزید زندگی (اولاد) کی خواہش کیا خود ایک جرم نہیں؟

اس المیے کے بیچ صبح کاذب ہوجاتی ہے مگر زندگی اور موت کا کھیل جاری رہتا ہے۔ دو چار دن اور گزرتے ہیں ہمارے مریض کی حالت کچھ بہتر ہونے لگتی ہے۔ اب ہمیں ویکسین کا کہا جا رہا ہے اور بار بار کہا جا رہا ہے۔ چنانچہ میں ویکسین سینٹر پہ پہنچتا ہوں بنیادی معلومات لینے۔ وہاں بیٹھے لڑکے سے میں نے پوچھا کہ چلو آپ کے کہنے پہ ہم مان لیتے ہیں کہ یہ ویکسین ہی ہے کوئی تجرباتی دوا نہیں۔ مگر کیا آپ لوگوں نے ویکسین کے حوالے سے بنیادی پروٹوکول کو برقرار رکھا ہے؟ کہنے لگا بنیادی پروٹوکول سے کیا مراد ہے آپ کی؟ میں نے کہا کولڈ چین وغیرہ۔ کیا ائر پورٹ سے مین سٹور یا بڑے ہسپتال سے دیگر چھوٹے ہسپتال اور صوبے کے دوردراز تحصیلوں اور قصبوں جہاں اکثر اوقات بجلی نہیں ہوتی وہاں تک ویکسین کی منتقلی کے دوران کیسے اس سارے پروٹوکول کو برقرار رکھتے ہیں؟ اور بالفرض اگر آپ کولڈ چین کو بر قرار نہیں رکھ پاتے تو کیا ویکسین غیر موثر نہیں ہو جاتی؟ کہنے لگا نہیں پتا ہمیں تو جب ویکسین ملتی ہے ٹھنڈی ہوتی ہے باقی زیادہ نہیں پتا۔ ویکسینیٹر تھا کیا جواب دیتا۔ ڈاکٹر بھی ہوتا تو کیا جواب دیتا؟

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا میں افغانستان کے بعد اگر کوئی بڑی انسانی آبادی ہر حوالے سے تجربہ گاہ بنی ہوئی ہے تو وہ ہے بلوچستان۔ ہماری حیثیت لیبارٹری کے ان چوہوں سے زیادہ مختلف تو نہیں کہ جن پہ ان کی مرضی کے بر خلاف تجربات ہوتے ہیں۔ سو ہم بھی ان چوہوں کی مانند بے خبر اور بے بس ہیں۔

سارے قضیوں، قصوں میں دو ایک روز اور گزر جاتے ہیں۔ ہمارے مریض کی حالت مزید بہتر ہوتی ہے تو ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں کہ آکسیجن تو گھر پہ چلتی رہے گی۔ روٹین کی زندگی میں واپسی ہوئی دو چار دن تو کچھ سمجھ نہ آیا۔ پھر ذرہ گرد و پیش کی خبر ہوئی تو پتہ چلا کہ سانحات اور اموات صرف ہسپتال تک محدود کہاں ہیں؟ باہر بھی وہی کھیل جاری ہے صرف مقام تبدیل ہو گیا ہے۔ پہلے ہسپتال تھا اب سڑک۔ یعنی روڈ حادثات۔

بلوچستان حادثوں کی زمین ہے۔ قدرتی اور زیادہ تر انسانی پیدا کردہ آفتوں کا دیس ہے۔ بلکہ یوں کہیں تو غلط نہ ہو گا کہ یہاں زندگی سے مراد ایک حادثے سے دوسرے حادثے کے درمیانی وقفہ کا نام ہے۔ گو یہاں حادثوں سے مراد صرف روڈ ایکسیڈنٹ نہیں۔ مگر چلیے سڑک پہ مرنے والے لوگوں کی ہی بات کر لیتے ہیں۔ ویسے تو بلوچستان کی ہر شاہراہ تباہ حال ہے ہے مگر کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ تو مسلسل مقتل بنی ہوئی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ حادثہ نہ ہو۔ ایک سانحے کا خون سڑک سے خشک نہیں ہوتا کہ دوسرا حادثہ ہو جاتا ہے۔ جو پہلے سے زیادہ خطرناک، پہلے سے زیادہ افسوسناک اور جان لیوا ہوتا ہے۔ ماہ و سال کا حساب رہنے دیں تازہ داستان سنیں۔

پچھلے چار دنوں میں دو ایسے حادثے جو میرے سامنے نہیں تو پڑوس میں ضرور ہوئے ہیں۔ پہلے حادثے میں ایک موٹر مکینک اپنے بیٹے کے ساتھ کراچی سے خضدار کی سمت رواں ہے۔ ان کے ہاں ایک اور بیٹے کی پیدائش ہوئی تو بیٹے کا نام رکھنے کے لیے اپنا جمع پونجی لے کر گھر آرہے ہیں۔ مذکورہ مکینک ایک پرانی گاڑی کے مالک ہیں اور انتہائی محتاط ڈرائیور بھی۔ اس لیے گاڑی کے پیچھے لکھوا رکھا ہے ”کبھی نہ پہنچنے سے دیر سے پہچنا بہتر ہے“ ۔ اپنی اسی گاڑی میں کراچی سے خضدار آتے ہوئے راستے میں دو سواریاں اور بٹھا لیتے ہیں کہ چلو تیل پانی کا خرچ کچھ کم ہو جائے گا۔ مگر کسے خبر کہ یہ سفر ہی آخری ہے۔ انتہائی محتاط ڈرائیونگ کے باوجود سامنے سے آتی ایک تیز رفتار کوچ ان چار لوگوں کی زندگی کو نگل جاتی ہے۔ کس سے فریاد کرتے، کس کے پاس جاتے؟ کوئی انکوائری نہیں، کوئی ایف۔ آئی۔ آر نہیں، کوئی فریاد نہیں کہ غریب تھے مافیا سے ٹکر لینے سے کیا حاصل کہ آخر میں قصور ان کا نکلنا تھا۔ سو خاموش رہے اور اپنی کٹی پھٹی لاشیں اٹھا کہ دفنا دیں قصہ تمام۔

دوسرا حادثہ ایک اور غریب گھرانے کا ہے۔ جو انتہائی مفلسی کے باوجود ہمت نہیں ہارتے۔ مفلسی اور محنت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ باپ بھی سفید ریش اور بیٹے بھی۔ یعنی مشکل سے پتہ چلتا ہے کہ بیٹا کون سا ہے اور باپ کون ہے؟ تمام عمر کی محنت مشقت کے بعد قسطوں پہ ایک پرانا مزدا گاڑی لیتے ہیں۔ گاڑی کیا آئی کہ خاندان بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ تھوڑی آمدنی ہوئی تو باپ مطمئن ہوا کہ چلو بیٹے کسی رہ لگ گئے۔ ماں خوشی سے پاگل اور بہنیں سر شار کہ بھائی کچھ اچھا کمانے لگے ہیں تو دن بدلتے دیر نہیں لگے گی۔ مگر کسے خبر تھی کہ یہ خوشی بھی سراب ثابت ہوگی۔

دو دن پہلے دونوں بھائی اپنے نائب ڈرائیور اور ایک ساتھی کے ساتھ گاڑی لوڈ کر کے کہ کراچی کی سمت رواں دواں تھے کہ قاتل روڈ انہیں بھی زندہ نگل گیا۔ خود تو جان سے گئے گاڑی بھی سکریپ بن گئی۔ اتفاق سے شہدا میں سے ایک کا فون سلامت مل گیا۔ المیہ دیکھئے کہ جیسے ہی عزیر و اقارب لاشیں لے کر گھر کی سمت روانہ ہوئے تو راستے میں اسی موبائل پہ ایک آدمی کا فون آتا ہے جو رقم کا مطالبہ کر رہا ہے یعنی مزدا کی قسط کا۔ جواب ملتا ہے وہ شخص اب نہیں رہا۔ ہم ان کی میت لے کہ گھر آرہے ہیں آپ وہیں آجانا۔

ایسے حادثوں میں مرنے والوں کا جنازہ اکثر لیٹ ہوتا ہے۔ وجہ یہ کہ ان کا جسم سلامت نہیں ہوتا تو غسل دینے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ یعنی جسم کے ٹکڑے سمیٹ کر اکٹھے کرنا اور غسل دینا کس اذیت کا کام ہے یہ کوئی ان سے پوچھے جو غسل دیتے ہیں۔ اس کے بعد جو سب سے مشکل مرحلہ ہے وہ یہ کہ میتوں کا دیدار کروانے زنان خانے بھجوایا جائے یا نہیں؟ یعنی مرنے والے کا چہرہ نہیں پہچانا جاتا اس حالت میں ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کیسے دیکھے گی؟ بہتر یہی ہے کہ گھر نا بھیجا جائے۔ تدفین کر دی جائے۔ دوسری رائے آتی ہے ہرگز نہیں۔ گھرکی خواتین کا حق ہے چاہے لاش جس بھی حالت میں ہے۔ وہ دیدار کریں گی تو ہی تدفین ہوگی۔ آخر دوسری رائے پر عمل ہوتا ہے۔ اور میتیں دیدار کے لیے زنان خانہ بھجوا دی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی روح کو چیر دینے والی چیخیں سماعت سے ٹکراتی ہیں۔ اور کہیں رات گئے جاکر تدفین ہوتی ہے۔ اگلے دن تعزیت جاری ہے۔ ذرہ سوچیئے کہ اس غریب باپ سے تعزیت کے سلسلے میں کیا لفاظی ہو سکتی ہے دنیا میں وہ کون سے الفاظ ہیں جو اس کے غم کا مداوا کرسکیں؟ ایک تو جوان بیٹوں کے جنازے کو خود اٹھانا اور اوپر سے اس حادثے کی وجہ سے قرض کا نیا بوجھ۔ غم سے نڈھال باپ کے کاندھے ہیں جو جھکے چلے جاتے ہیں زمین میں دھنسنے کے لیے۔

دوسری طرف میڈیا کی کوریج دیکھئے کہ مقبول ٹی وی چینل پر ہر آدھے گھنٹے بعد بے ترتیب سماعتوں پہ گراں گزرنے والے بے ڈھنگے میوزک کے ساتھ چلنے والے نیوز بلیٹن میں بلوچستان کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ کوئی اطلاع نہیں ہوتی۔ ہاں خبر ہوتی ہے تو اقتدار والوں کی، ان کے خوبصورت شہروں میں پنپنے والی بد صورت کہانیوں کی جن کی بے جا تشہیر سے کانوں کے پردے پھٹنے لگتے ہیں۔ مگر خبر ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتی۔ آپ سننا نہیں چاہتے پھر بھی زبردستی آپ کے کانوں میں انڈیلا جا رہا ہے کہ اسلام آباد میں ایک امریکن پلٹ کروڑ پتی نے اپنے ہی طبقہ سے تعلق رکھنے والی دوست لڑکی کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ بڑے باپ کی بیٹی تھی بلوچستان کی طرح لاوارث تو تھی نہیں۔ سو قاتل تمام تر لوازمات قتل و ثبوتوں کے ساتھ پکڑا گیا۔ اب اس کا انجام جو ہو سو ہو۔ مگر نہیں ٹی وی چینلز اور معروف جریدوں پر آنے والے کئی دنوں تک اپنی ریٹنگز بڑھانے کے لیے اس واقعے کا ڈھول پیٹا جائے گا۔ اور ہم اتنے بے وقعت کہ ہماری درد ناک موت کی خبر بھی ان کی ریٹنگز نہیں بڑھا سکتی۔

اور ہمارے لوگ اتنے سادہ کہ اپنے غم و غیر فطری سانحات بھول بھال کر ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ یار اسلام آباد لڑکی والے قصے کا کیا بنا؟ بہت ظلم ہوا وغیرہ وغیرہ۔ ایسے تمام دوستوں سے میرا شکوہ ہے کہ یار آپ انسان ہو کوئی زومبی تو نہیں کہ میڈیا جو دکھا رہا ہے آپ دیکھے چلے جا رہے ہیں؟ اس دکھاوے میں آپ کا حصہ کہاں ہے؟ یعنی آپ کے دکھ درد ٹی وی پہ کیوں نہیں دکھائے جاتے؟ اگر میڈیا آپ کی نمائندگی نہیں کر تا تو ان فضول خبروں پہ بے جا تبصرے سے کیا حاصل؟ تو بہتر ہو گا آپ خود اپنے گھر کی خبر لیں۔ اپنے شکستہ دیوار و در پہ نظر ڈالیں اور آنگن میں اگنے والے خود رو غم کے پودے کو کاٹنے کی تدبیر کریں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments