ناصر کاظمی اور”پہلی بارش“



ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے

ناصر کاظمی جن کو میر ثانی بھی کہا جاتا ہے 8 دسمبر 1925 کو انبالہ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ ان کی شاعری کے آغاز میں سب سے بڑا ہاتھ ان کے گھر کی فضا اور اس ادبی ماحول کا ہے جس میں ناصر نے اپنا بچپن، لڑکپن اور جوانی گزاری۔ کہتے ہیں کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے ناصر کی والدہ کو شاعری سے گہرا شغف تھا اور وہ فن شاعری سے بخوبی واقف تھیں۔ ناصر نے اپنی ماں کی گود سے ہی شاعری کا درس لیا۔ ناصر اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں :

”شاعری میں میرا صحیح استاد میری والدہ تھیں اور ویسے آغاز میں کچھ احباب سے مشورے بھی لیتا رہا رہا ہوں اور حفیظ ہوشیار پوری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔“

ناصر کاظمی کی والدہ جو کہ میر تقی میر اور میر حسن کو پڑھا کرتی تھی لہذا ایسی بنیاد پر ناصر کاظمی نے بھی میر تقی میر اور اختر شیرانی کی پیروی اور تقلید کی ناصر کاظمی نے چونکہ میر تقی میر اور اختر شیرانی کا گہرا مطالعہ کیا تھا اسی لئے ان کی شاعری کے اندر میر تقی میر اور اختر شیرانی کی خوشبو رچی بسی ہوتی ہے لیکن یہاں یہ بالکل بھی نہیں کہا جا سکتا ہے میر کی 100 فیصد پیروی کی ہاں البتہ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ناصر کی شاعری میں میر تقی میر اور اختر شیرانی کی شاعری کی جھلک اور رنگ ہے۔ ان کے مختلف مجموعے منظر عام پر آئے جن میں (1) برگ نے (2) دیوان (3) پہلی بارش (4) نشاط خواب، انتہائی اہم ہیں۔

”برگ نے“ اور ”دیوان“ میں ان کی غزلیات شامل ہیں ”نشاط خواب“ میں ان کی ملی اور قومی نظمیں شامل ہیں۔ ناصر نے جس زمانے میں شعور کی آنکھیں کھولیں وہ غزل کے لئے ایک سازگار زمانہ نہ تھا۔ ترقی پسند تحریک کا آغاز ہو چکا تھا اور چہار جانب سے غزل پر حملے کیے جا رہے تھے۔ ناصر کاظمی نے لوگوں کی نبض دیکھی اور کوشش کی اس بات کا پتہ لگایا جائے کہ لوگ غزل سے نفرت کیوں کرنے لگ گئے ہیں اور آخرکار ناصر کاظمی اس نتیجے پر پہنچے کہ لوگوں کو غزل سے کوئی نفرت نہ ہے بلکہ غزل کے پرانے موضوعات سے نفرت ہے۔

اس وقت غزل کی ان خامیوں کو دور کرنے کی کوشش میں پہلے سے ہی دو بہت بڑے نام شامل تھے۔ فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی ان کے بعد ناصر کاظمی نے غزل کے اندر نئی فکری تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ غزل کو نئے موضوعات سے ہم آہنگ کرنا شروع کر دیا غزل کی ہئیت کو بھی متاثر کیا جس میں چھوٹی بحر کی غزل بغیر قافیہ کی غزل اور بغیر ردیف کے غزل کے علاوہ بغیر مقطع کے غزل بھی شامل ہے۔

اسی طرح ناصر کاظمی نے غزل کے اندر نئی فکری اور فنی تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے غزل کو کھویا ہوا وقار واپس دلوایا اور اس کے ساتھ ساتھ کلاسیکیت اور جدیدیت کے امتزاج کی مدد سے نئی اور جدید غزل کی بنیاد رکھی۔

یہاں پر مقصود ہے کہ ان کی ”پہلی بارش“ جو کہ 24 غزلوں کا مجموعہ ہے اس کا فنی و فکری جائزہ لیا جائے ”پہلی بارش“ ایک طویل نظم کے آہنگ میں لکھی گئی تھی اور غزل در غزل مجموعہ ہے۔ اس میں ایک ہی قافیہ، سہل ممتنع اور چھوٹی بحر کا استعمال کیا گیا ہے۔ غزل در غزل کے اس مجموعہ کلام کے اندر ناصر کاظمی نے ایک نیا تجربہ کیا ہے اس میں تمام غزلیں چھوٹی بحر میں لکھی گئی ہیں ان کی زبان انتہائی سادہ، سادہ تشبیہات آسان استعارات کے علاوہ انتہائی عمدہ تلمیحات کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ آئیے غزل در غزل کے اس مجموعہ کا کلی طور پر فنی اور فکری جائزہ لیتے ہیں!

پہلی بارش کے مجموعہ کی اگر پہلی غزل کا جائزہ لیا جائے تو ناصر کاظمی کی شاعری میں تصوف ایک فکری خوبی کے طور پر سامنے آتا ہے ناصر کاظمی کہتے ہیں کہ:

میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا
جو پایا ہے وہ تیرا ہے
جو کھویا ہے وہ بھی تیرا تھا

ناصر کاظمی یہاں کہنا چاہ رہے ہیں کہ اے میرے مولا میں نے تیرے ہی نام سے لکھنا شروع کیا تھا تیرا ہی نام سب سے پہلے لکھا تھا تیری ہی مداح کی تھی اور اگلے شعر میں وہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ میں تیری رضا میں خوش ہوں اپنی رضا کو تیری رضا میں شامل کرتا ہوں ہر چیز تیری ہے جسے ہم پالیں یا پھر کھو دیں اور کسی بھی چیز کو کھونے سے ہمیں تیری ذات سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ ناصر کاظمی کی شاعری میں روحانی محبت جسمانی محبت سے اعلی درجے پر فائز نظر آتی ہے ان کے نزدیک محبت دو روحوں کے ملاپ کا نام ہے وہ اپنے محبوب کی روحانی انداز میں سراپا نگاری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں محبوب کو ایک اعلی درجے کی چیز سمجھنا ناصر کی اعلیٰ فکر کی عکاسی کرتا ہے۔

دو روحوں کا پیاسا بادل
گرج گرج کر برس رہا تھا

ناصر کے نزدیک محبت ایک روحانی جذبے کا نام ہے۔ وہ اپنی خواہشات کو روحانی پیرائے میں اس طرح سامنے لاتے ہیں کہ جیسے ان کی خواہش میں شامل ہے کہ دو روحوں کا ملاپ ہو جائے۔ ناصر کاظمی کی شاعری میں ایک اور فنی پہلو بھی ہے کہ وہ اپنی شاعری کے اندر نیچر کی بھرپور عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری میں اکثر دریا، پہاڑ، درخت، پرندوں، ندی نالوں، ریل گاڑی، کبوتر، ہریالی، چاند، سورج، ستارے، رات، دن، اجالا اور موسم، اسی طرح کے کئی الفاظ سامنے آتے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ناصر کاظمی کو فطرت سے خصوصی انس اور لگاؤ تھا۔ ناصر کاظمی کی شاعری میں کبوتر اور ریل گاڑی کا ذکر زیادہ ملتا ہے کیونکہ ان کو بچپن میں ریل گاڑی دیکھنے کا بہت شوق تھا اور اس کے علاوہ انہوں نے کبوتر بھی رکھے ہوئے تھے۔ قدرتی طور پر ان کو کبوتر بہت پسند تھے جس کا اظہار ان کی پہلی بارش کے اندر غزل نمبر تین میں واضح طور پر کیا گیا ہے ہے!

لال کھجوروں کی چھتری پر
سبز کبوتر بول رہا تھا۔

ناصر کاظمی کی شخصیت اور شاعری میں ایک بے وجہ سی اداسی بھی پائی جاتی ہے۔ وہ اس اداسی میں داخل ضرور ہوتا ہے لیکن اداسی کو اپنے سر پر سوار نہیں ہونے دیتا۔ ناصر کاظمی نے اداسی اور ویرانی کو اپنی فکر کے اندر سمونے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اس لئے اداسی اور ویرانی ان کی شاعری کا ایک اہم فکری پہلو بن کر سامنے آتی ہے۔ ناصر کاظمی ہی کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں!

؎ دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

اس کے علاوہ ناصر کی اداسی اور ویرانی کے فکری پہلوؤں کو ان کی غزل نمبر چار کے یہ اشعار بیان کرتے ہیں :

؎ شام کا شیشہ کانپ رہا تھا
پیڑوں پر سونا بکھرا تھا
جنگل جنگل، بستی بستی
ریت کا شہر اڑا جاتا تھا
تیری پلکیں بوجھل سی تھیں
میں بھی تھک کر چور ہوا تھا

ناصر کاظمی کی شاعری میں یہ بھی ایک فن موجود ہے کہ وہ کسی بھی چیز کا نقشہ کھینچ کر ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ پہلی بارش کے اندر بھی ان کی محاکات نگاری جگہ جگہ ہمارے سامنے آتی ہے۔ وہ تمام چیزوں کی محاکات نگاری انتہائی سادہ اور دلچسپ انداز میں کرتے ہیں۔ قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے گویا وہ ساری صورتحال اور ماحول کے اندر خود بھی شامل ہو چکا ہے اور پورے ماحول کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہا ہے۔ پہلی بارش مجموعہ کی غزل نمبر 5 کے درج ذیل اشعار اس بات کو سمجھنے میں کافی ممدون ہیں :

؎ دن کا پھول ابھی جاگا تھا
دھوپ کا ہاتھ بڑھا آتا ہے
ٹھنڈی دھوپ کی چھتری تانے
پیڑ کے پیچھے پیڑ کھڑا تھا

پہلی بارش کے ان اشعار میں ناصر کاظمی کا فن کھل کر قاری کے سامنے آتا ہے اور قاری اس ساری صورتحال سے محظوظ ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ ناصر کاظمی کی شاعری کا ایک فکری پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے 22 سال کی عمر میں ہجرت کی اور اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان کی طرف آ گئے۔ اس وقت کیونکہ شہروں کے شہر خاموش نظر آتے تھے، گلیاں ویران نظر آتی تھیں، کوچے بے رونق اور ان میں بے شمار سناٹا تھا۔ ناصر کاظمی کی طبیعت بھی نازک تھی اور ان کی فکر بھی نازک تھی۔ وہ اس طرح کی صورتحال میں شہروں کی حالت زار کا نقشہ بھی کھینچتے ہیں اور شہروں کی بربادی کا نقشہ کھینچ دیتے ہیں اور اس ویرانی کو اپنے اشعار میں جگہ دیتے ہیں۔ ان کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں :

؎ پتھر کا وہ شہر بھی کیا تھا
شہر کے نیچے شہر بسا تھا
پیڑ بھی پتھر پھول بھی پتھر
پتا پتا پتھر کا تھا
چاند بھی پتھر جھیل بھی پتھر
پانی بھی پتھر لگتا تھا
لوگ بھی سارے پتھر کے تھے
رنگ بھی ان کا پتھر کا سا تھا

ان اشعار کا اگر فکری سطح پر مطالعہ کیا جائے تو ان میں ناصر کاظمی نے شہر کی حالت زار کا بیان کیا ہے لیکن اگر انہیں اشعار کا فنی سطح پر مطالعہ کریں تو ان اشعار کے اندر صنعت تکرار استعمال کی گئی ہے کیونکہ ہر ایک شعر کے اندر پتھر کا لفظ بکثرت استعمال کیا گیا ہے۔ اس طرح ناصر کی شاعری میں بیک وقت فکری اور فنی دونوں پہلو پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ناصر کاظمی کی شخصیت اور شاعری کے اندر ماضی کا دکھ اور یاد کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔

اس کے ماضی سے بہت ساری چیزیں وابستہ ہیں ماضی میں ہجرت کرنے سے پہلے اس کا اپنا گھر تھا، اپنے دوست تھے، اپنا وطن تھا، ایک محبوبہ بھی تھی اور کئی اور بھی بہت عزیز رشتے دار ہجرت کی نذر ہو گئے اور ناصر کاظمی سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آ جاتے ہیں اور ابھی تک ان کا کوئی گھر ہے نہ دوست، نہ رشتہ دار، بس اسی تناظر میں وہ ماضی کی یاد کو گلے سے لگا رکھتے ہیں اور ان کی فکر کا ایک خاص پہلو بن جاتی ہے۔ پہلی بارش میں وہ ماضی کی یاد کا بیان ان الفاظ میں کرتے ہیں غزل نمبر آٹھ میں گویا ہوتے ہیں کہ!

؎ گئے دنوں کی خوشبو پاکر
میں دوبارہ جی اٹھا تھا
سوتی جاگتی گڑیا بن کر
تیرا عکس مجھے تکتا تھا
وقت کا ٹھاٹھیں مارتا ساگر
ایک ہی پل میں سمٹ گیا تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments