زرد ہتھیلی اور دوسری کہانیاں


جیم عباسی کے افسانوں کا مجموعہ “زرد ہتھیلی اور دوسری کہانیاں” کئی مہینے پہلے مل گیا تھا۔ زیادہ تر کہانیاں پہلے ہی آج میں پڑھیں ہوئی تھیں۔ مگر اب بھی کتاب میں کچھ ایسا مواد بھی شامل تھا جو میرے لیئے نیا تھا۔

میں کمپیوٹر یا موبائل کی اتنی چھوٹی سی سم کو دیکھ کر اتنا حیران نہیں ہوتی کہ انسانی دماغ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے کہ ساری دنیا سمیٹ کر ایک نکتے میں سما دی ہے اس کے بلکل برعکس ایک سطر، ایک کہانی، ایک نظم، اچھی تقریر یہاں تک کہ کسی کے فیس بک وال پہ ایک لائین کی تخلیقی پوسٹ پہ حیران رہ جاتی ہوں کہ انسان کا تخیل کہاں سے یہ سب حاصل کر لیتا ہے۔

مجھے قدرت کا یہ کرشمہ سب سے خوبصورت لگتا ہے کہ استاد ارسطو نے کہا تھا کہ انسان کا تخیل دوسری دنیا تخلیق کرتا ہے لہذا یہ حضرت انسان بھی تخلیق دنیا میں شریک کار ہے۔۔۔

سچی بات یہ ہے کہ علم و ادب کی دنیا تو چھوڑو، سماج کے اندر بھی تخلیقی ذہن سے جلد متاثر ہونا میری کمزور رگ ہے۔ میں ایک عام انسان ہوں مگر مجھے یقین ہے کہ تخلیقی ذہن عام نہیں ہوتا۔۔ یہ عنایت صرف مخصوص لوگوں کو عطا ہوتی ہے۔

فکشن رائٹر اس حوالے سے بھی دنیا کی حسن کاری میں شریک کہ اسے عام کو خاص بنانے کا ایک ہنر حاصل ہوتا ہے۔ اور اگر میں کہوں کہ کہانی کے میدان میں جیم عباسی اس ہنر میں یکتا ہیں تو وہ کوئی غلط بات نہیں ہوگی۔ مجھے نہیں معلوم کہ کہانی اس کے ذہن سے تخلیق ہوتی ہے یا وہ سیدھا سادہ زمین سے اٹھا کر اسے پنوں پہ اتار دیتا ہے کمال یہ ہے کہ کہانی زندگی کا عکس نہیں، سانس لیتی زندگی ہی محسوس ہوتی ہے۔

جیم کی کہانی کا کینوس دیکھو تو سندھ کا ایک عام سا دیہاتی ماحول۔۔۔ جس کے گلی محلے میں بکھرے پڑے عام سے کردار اور کہانی کا سرا پکڑو تو اس میں کیا خاص بات ہوئی، بالکل مقامی اخبار کی دو کالمی خبر جیسی تو کہانی ہے۔۔۔ دیکھیئے ذرا۔۔۔

” شوہر نے بیوی کو کاری کہہ کر کلہاڑی سے ذبح کر دیا “

” مدرسہ میں تشدد سے طالب علم ہلاک۔ “

” وڈیرے کے ہاتھوں کسان کی تذلیل ” یہ اخبار کی دو کالمی سرخیاں ہی تو ہیں۔۔

مگر جیم عباسی کے تخیل سےگذرتی ہیں تو یہ خبریں شاہکار تخلیق بن جاتی ہیں۔

دو کالمی خبر کا تاثر اور وار کہانی کی تاثیر کا اندازہ اسے ہو سکتا ہے جس نے جیم عباسی کی کہانی پڑھی لی ہو۔ جیم کی کہانی پڑھنے والا اس لمحے کی گرفت میں قید رہتا جس میں کہانی چل رہی ہوتی ہے۔ فلمی اسکرین پہ کبھی کبھی عام فلموں کے درمیان تھری ڈی مووی آ جاتی ہے۔۔وہ فلم میکنگ کی ایسی ٹیکنیک ہے کہ دیکھنے والے کو گرفت میں لے کر اس ماحول کا حصہ بنا دیتی ہے جو اسکرین پہ چل رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح جیم کی کہانی تھری ڈی مووی کی طرح اپنے قاری کو اس ماحول کا اس طرح حصہ بنا دیتی ہے کہ مونچھوں میں اٹکے خون کے قطرے کو قاری اپنے چہرے سے صاف کر رہا ہوتا ہے تو کہیں مدرسے میں چیختے طالب علم کی آواز پہ قریبی مدرسے کی طرف اس کا دھیان چلا جاتا ہے۔

میں روایت پسند تنقید نگاروں کا حال نہیں جانتی مگر میرے جیسا عام آدمی اگر جیم کی کہانی پڑھنے لگے تو پہلا صفحہ ہی اس کے لیئے خوش آمدیدی استقبالیہ بن جاتا ہے جو قاری کو کہانی کے ماحول میں لے جاتا ہے۔

جیم عباسی سے ملاقات پہلے تھی، کہانی اس کی بعد میں پڑھی۔۔۔یہ لڑکا اتنا تخلیقی ہے یہ سوچ کر بس میں اس پہ فدا ہو گئی۔ جیم کی کہانی جس سرزمین سے جنم لیتی ہے میرا تعلق اسی زمین سے ہے شاہد اس لیئے بھی مجھے اس کہانی کے اندر موجود ہر کردار باقاعدہ چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔

یہ حسن جیم عباسی کے قلم کا ہے کہ وہ نذرو لنگڑ ے کی کہانی کے اختتام کے بعد بھی موتی کی کہانی جاری رکھے ہوئے ہے۔

آخوند دریانو مل کی زلفیں منڈواتا تھانیدا ر کے خدو خال اگرچہ کہانی میں کہیں لکھے نہیں گئے مگر اس کی پھنکارتی آوا ز ” تو ہندو ہو کر ہم پہ حکم چلاتا ہے؟ ہمیں نوکر سمجھ رکھا ہے کیا؟ ہاں تیرے باپ کا راج ختم ہوگیا یہاں۔ سمجھے؟ بہت ہو گیا۔ نکل یہاں سے اور اپنے سگوں کے ملک جا۔ وہاں جا کر یہ کنجرپن چلانا “

جیم کے قلم سے نکلی تھانیدار کی یہ پھنکارتی ہوئی آواز تھانیدار کے وجود کی ساخت سمیت چہرے کے تمام خدوخال کی شناخت

واضح کر کے رکھ دیتی ہے۔

ساتھ ہی صدیوں سے اس دھرتی کے مکین دریانو مل کے چہرے کے ذلت بھرے تاثرات اور خاک ہوتی آبرو کو بہ آسانی پڑھا جا سکتا ہے جو تاریخی جبر کے ہاتھوں عزت، ناموس کی ملیا میٹ ہوتے اس کے وجود پہ دھرائے گئے۔

جیم عباسی ایک ایسا تخلیق کار ہے جسے کہانی کی تخلیق کے لیئے کہیں دور جانا نہیں پڑتا، کرداروں کی نفسیات کے بیان کے لیئے کسی بڑے تجربے سے نہیں گزرنا پڑتا۔ بیشک ماحول مختلف ہے یہ کسی کوٹھے کی طوائف کے بانکے شہری معشوق کا ذکر نہیں، ایک باریش، باکردار مولوی کے جنسیاتی مخمصے کا بیان ہے مگر جیم کی کہانی مفتی پڑھتے منٹو کا سا اثر ضرور محسوس ہوتا ہے۔ عجب رنگ اس کہانی میں یہ ہے کہ باریش مفتی پہ دین اسلام میں رہبانیت اور نفس کشی کی ممانعت اور جنسیت سے پرہیز کو حقیقت سمجھ بیٹھنے والی سادہ جہالت کا اسرار کھولنے کا ذریعہ ایک مائی صاحبہ ہے۔۔۔جو نہ ویشیا ہے، نہ بدکردار ہے نہ کسی کوٹھے کی طوائف ہے۔۔۔مگر جنسیت کے فطری تقاضوں کو دین میں موجود احکامات کی تکمیل کی خواہشاں ہے۔۔۔ مولوی کا دین تو اسکے آڑے نہیں آتا مگر یہ گتھیاں کھولتے جیم عباسی منٹو سے ایک قدم آگے ہی چلے جاتے ہیں۔۔۔۔

جیم کی ساری کہانیاں پڑھو تو لگتا ہے کہ گائوں میں گلی سڑک چلتے کسی بھی آدمی کو دیکھ کر اس کی آنکھیں ایک کردار تلاش کر لیتی ہیں جس کو بعد میں زندگی کے باریک بین مشاہدے میں گوندھ کر اس کا تخلیقی ذہن ایک کہانی بن لیتا ہوگا۔۔۔

میں اگر ایک قاری کی حیثیت سے فیصلہ کروں کہ اس مجموعے میں بہترین کہانی کون سی ہے تو وہ فیصلہ مشکل ہوگا کہ مفتی، زرد ہتھیلی، مونچھیں میں اٹکے ایک قطرے کی کہانی میں سے کس کو سرفہرست رکھوں۔

میڈیا اور ڈیجیٹل دور میں جب ہر ایک واقعے کا ڈیجٹل امیج اور ویڈیو آپ کی ٹچ اسکرین کی موبائل میں قید ہو وہاں دو کالمی خبر سے کہانی کی تخلیق آسان فن نہیں ہے وہاں قاری کو لمبی نشست کے افسانے میں الجھائے رکھنا سہل نہیں۔ مگر یہ جیم عباسی کے فن کا کمال ہے کہ میرے جیسے لوگ جن کو افسانوی ادب پڑھے زمانے ہوئے ان کو ایک نشست میں کتاب پوری کرنے پہ مجبور کر دیا ہے۔

میں۔ قاری کی حیثیت سے جیم عباسی کی شکر گزار ہوں کہ اس نے دوبار ہ مجھے افسانوی ادب کی طرف لوٹا دیا ہے۔

آخر میں ایک بات ضرور کہوں گی کہ جیم عباسی کی کہانیوں کا پس منظر اور پیش منظر سندھ، سندھی سماج اور سندھ کا دیہات ہے۔ اس لیئے سندھی آمیز محاورے کی تشکیل ہوسکتا ہے کہ سندھی اور اردو والوں کی جانب س نئے محاورے کی تشکیل پہ اعتراض ہو۔ اور عین ممکن ہے کہ جب دونوں زبانوں کے نقاد کہانی کار کی حیثیت میں اس کا شمار کریں تو شاید دونوں ہی خالص نہ ہونے کی بنیاد پہ اس کو اپنی قطار سے خارج کریں پر ایک قاری جو سندھ کے پس منظر و پیش منظر سے واقف ہو اس کے لیئے یہ تجربہ کامیاب کہا جا سکتا ہے۔

اردو افسانوی ادب کے ایک بڑے نام حسن منظر صاحب نے بھی اس قسم ک خوشگوار تجربہ ضرور کیا ہے۔ حسن منظر تو خیر حیدرآباد سندھ سے تعلق رکھنے والے تھے مگر چونکہ ماہر نفسیات ڈاکٹر ہیں اس لیئے ان کی مریضوں سے قربت اور پھر خود حیدرآباد کے اپنے کلچرل اظہار کے طور پہ اپنے افسانے میں کئی خالص سندھی الفاظ اور محاورے استعمال کرتے رہے ہیں۔

شاعری میں ایسا تجربہ میری محبوب شاعرہ فہمیدہ ریاض نے بھی خوب کیا۔۔۔ اور شیخ ایاز کے ترجمے میں تو کئی الفاظ سندھی کے ویسے ہی رکھ دیئے کہ ان کی جڑیں ہندی یا سندھی تہذیب میں پیوستہ ہیں۔ ان کا ماننا تھا کہ اس طرح اردو کی ساہو کاری میں اضافہ تو ہوگا مگر اس کے ساتھ اردو اس زمین سے جڑنا بھی سیکھ لے گی۔

اور مجھے بھی یقین کہ جیم عباسی کی کہانی اردو کو سندھ کی جڑوں میں جذب کرنے سکھا دے گی اور یہ حسین تجربہ تہذیبی اعتبار سے خوش آئند ہے کہ ہندستان کی بعد کئی دہائیوں تک ایک ساتھ ایک ہی سرزمین پہ بسنے والی دو زبانوں کی ایک دوسرے سے اجنبیت کی برف پگھلے گی اور یہ جیم عباسی کی کہانی اگر دو زبانوں کی شناسائی میں اضافی کرنے کے امکان رکھتی ہو تو کیوں نہ اس کو اردو و سندھی ادب میں ایک نئے خوشگوار اضافے کے طور پہ خوش آمدید کہا جائے۔

جیم عباسی بلاشبہ اس وقت اپنے ہنر میں یکتا ایک نئے سفر پہ روانہ ہیں۔۔ مجھے قوی امید ہے کہ اردو ادب کے افق پہ سندھی تہذیبی جڑیں رکھنے والا یہ ستارہ آنے والے کئی زمانوں تک روشن رہے گا۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments