بھٹو، عمران اور صحافی


پاکستان کے بہت سے سیاسی مدبرین، تجزیہ نگار، محققین اور پڑھے لکھے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ قائد اعظم کے بعد اگر پاکستان میں کوئی لیڈر پیدا ہوا ہے تو وہ ذوالفقار علی بھٹو ہے اور کیوں نہ ہو۔ شکست خوردہ قوم کی ڈھارس باندھنا، آئین پاکستان، 90 ہزار قیدیوں کی وطن واپسی، قوم کو سیاسی شعور دینے کی کوشش کرنا، ایٹمی پلانٹ کی بنیاد رکھنا اور بہت کچھ۔

مگر ان سب چیزوں کے باوجود جب ملک میں تیسرا مارشل لاء لگا تو بہت سے صحافیوں نے سکھ کا سانس لیا اور جنرل ضیاء کو ایک مسیحا گردانا۔ جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بھٹو صاحب نے اپنے مخالفین خواہ صحافی ہوں یہ سیاستدان، پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ اس عظیم لیڈر میں برداشت کا مادہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ وہ تنقید کو تضحیک سمجھتا۔ اختلاف و تنقید پر اس نے اپنے ساتھیوں کو بھی نہ بخشا اور FSF (فیڈرل سکیورٹی فورس) کو اپنے ذاتی کاموں کے لئے استعمال کیا۔ ان کے مزاج کو سمجھنے کے لئے ایک مثال ملاحظہ کیجئے۔

2جولائی 1974 کو جے۔ اے۔ رحیم جو کہ بھٹو مرحوم کے استاد اور دیرینہ دوستوں میں سے تھے اور پیپلز پارٹی کے بعض دیگر رہنماؤں کو شام 8 بجے وزیراعظم ہاؤس میں عشائیہ کے لئے مدعو کیا گیا۔ مگر میزبان بھٹو مقررہ وقت پر نہ پہنچ سکے۔ وقت خاصا گزر گیا تو جے۔ اے۔ رحیم یہ کہتے ہوئے گھر چلے گئے کہ میں لاڑکانہ کے شہزادے کے لئے مزید انتظار نہیں کر سکتا۔ بھٹو تک یہ خبر پہنچی تو انہوں نے بوڑھے سیاستدان کو سبق سکھانے کا حکم دیا۔ چنانچہ اگلی صبح چیف سیکورٹی افسر نے جے آئی رحیم کو مکوں، ٹھڈوں اور رائفل کے بٹ سے مارا۔

استاد دامن نے بھٹو صاحب پر ایک طنزیہ نظم ”کیہ کری جانا“ (یہ تم کیا کرتے جا رہے ہو؟ ) لکھ ڈالی۔ نظم خاصی مقبول ہوئی تو اس درویش شاعر کو قید میں ڈال دیا گیا۔

اس دور میں بہت سے مخالفین کو اٹھایا جاتا اور آزاد کشمیر دلائی کیمپ میں بھیج دیا جاتا جہاں وہ قید میں سڑتے رہتے

ایک معروف صحافی نے بھٹو پھٹو کا پمفلٹ چھاپا تو انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی سے ایک ٹی۔ وی پروگرام میں پوچھا گیا کہ آپ نے ضیاء الحق کو خوش آمدید کیوں کہا تو انہوں نے جواب دیا کیونکہ ضیاء الحق نے ہمیں بھٹو کے قہر سے بچایا تھا۔

سنسرشپ (Censorship) ، اخباری پابندیاں، کسی اخبار میں اپوزیشن کی دو کالمی خبر کا نہ چھپ پانا، ان سب حالات میں مجیب شامی کے اس قدم کو شاید ٹھیک کہا جا سکتا ہے۔

ایسا ہی کچھ موجودہ دور میں بھی دیکھنے میں ملتا ہے۔ کچھ ماہ قبل میر شکیل الرحمن کو نیب کے ذریعے سبق سکھانے کی کوشش کی گئی۔ انہیں کسی اراضی کے معاملے میں (Complaint Verification) کے لیے بلایا گیا۔ میر شکیل کے وہاں پہنچتے ہی انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ حالانکہ اس ابتدائی مرحلے میں نیب کے پاس کسی کو گرفتار کرنے کی قانون اجازت ہے ہی نہیں۔ انہیں مہینوں حراست میں رکھا اور بعد ازاں بغیر کچھ ثابت کیے رہا کر دیا۔ مطیع اللہ جان کو دن دیہاڑے اغوا کر لیا گیا، ابصار عالم کو گولی مار دی گئی، اسد طور کے فلیٹ میں گھس کر ان پر تشدد کیا گیا۔ مگر تاحال ان میں سے کسی واقعے کی تحقیقات نہ ہو سکیں۔

کچھ دنوں قبل سینئر اینکر پرسن ندیم ملک کو ایف۔ آئی۔ اے کے انسداد دہشت گردی ونگ کی طرف سے نوٹس بھیج دیا گیا۔ مبینہ طور پر انہیں یہ نوٹس اس لیے بھیجا گیا کہ انہوں نے اپنے پروگرام میں یہ اندرونی کہانی سنائی تھی کہ جج ارشد ملک نے کس دباوؑ کے تحت نواز شریف کے خلاف فیصلے دیے تھے۔

اور اب ہفتہ کی صبح صحافی عمران شفقت اور عامر میر کو ایف آئی اے کی جانب سے گھروں سے بغیر کسی نوٹس کے گرفتار کر لیا گیا۔ الزامات کچھ تو وہی پرانے کہ عدالتی ججوں اور فوج (بہتر الفاظ میں کچھ جرنیلوں) کو تضحیک (بہتر الفاظ میں تنقید) کا نشانہ بنایا گیا۔ البتہ ایک الزام نیا تھا کہ ملزمان نے خواتین کے ساتھ بھی تضحیک آمیز رویہ رکھا۔ تفصیلات پوچھنے پر بتایا گیا کہ آپ نے خاتون اول بشریٰ بی بی کے حوالے سے کچھ نامناسب باتیں کی ہیں۔ اگر معاملہ یہ تھا بھی تو تمام قانونی ضوابط کو پورا کرتے ہوئے باقاعدہ نوٹس دے کر بلایا جاتا۔

اگر صحافیوں کے ساتھ یہ ناروا سلوک اور ہراسانی کا سلسلہ نہ رکا تو شریف خاندان اور زرداری فیملی کی کرپشن کے باوجود میڈیا کو ان کا ساتھ دینا پڑے گا جیسے مجیب الرحمان شامی کو بھٹو کے کارناموں کے باوجود جنرل ضیا جیسے آمر کا ساتھ دینا پڑا۔

احسان احمد، والٹن، لاہور
Latest posts by احسان احمد، والٹن، لاہور (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments