سیکنڈ ہینڈ


کہانی کار : ویکوم محمد بشیر
مترجم : جیلانی بانو

غصہ میں بھری ہوئی، بال بکھرائے شاردا، آج تانڈو ناچ کے موڈ میں تھی۔

”تم تو جانتی ہونا شاردے۔ آج مجھے کتنا ضروری کام ہے! کل اخبار نکلنے کا دن ہے نا! تو بھئی اگر کھانا تیار ہو تب مجھے جلدی سے دے دو۔“ نامہ نگار گوپی ناتھ نے بڑی نرمی سے کہا۔

”کھانا؟“ شاردا نے تیز آواز میں کہا۔

”میں بہت بیزار ہو چکی ہوں کھانا بنانے سے۔ میرا دل آج بالکل نہیں چاہتا کہ کچھ پکاؤں۔ جی چاہے تو خود ہی کچھ بنا کر کھا لو۔“

شاردا کو گوپی ناتھ سے کبھی بھی محبت نہیں تھی۔ اس نے شادی سے پہلے بھی کہہ دیا تھا کہ میرے دل میں محبت ہی نہیں ہے، اس لیے میں کسی سے محبت نہیں کر سکتی۔

گوپی ناتھ نے شاردا سے آج تک کچھ نہیں کہا۔ کبھی کسی پیار بھرے رومانی نام کے ساتھ اسے چوما تک نہیں۔

گوپی ناتھ نے کہا، ”میں یہ فضول باتیں بہت دن سے سن رہا ہوں۔ میں نے تمہاری مرضی کے خلاف تو کچھ نہیں کیا نا؟“

”تم نے مجھ سے شادی کیوں کی؟“ اس نے بڑے غرور سے چھاتی تان کر پوچھا۔
گوپی ناتھ ایک دم چونک پڑا۔
”تم نے شادی کیوں کی تھی؟“ گوپی ناتھ نے پوچھا۔
”یہ سب پوچھنے سے اب کیا فائدہ؟“ شاردا کی نظر کھڑکی سے گلی میں بھٹک گئی۔
تیز ہوا سے مینہ کی بوندیں کمرے میں آنے لگیں۔

”دیکھتے نہیں پانی اندر آ رہا ہے۔ تمہارے بھیگنے سے تو کچھ نہیں ہوگا، لیکن کمرہ بند ہوا جا رہا ہے۔“ شاردا نے کہا۔

گوپی ناتھ نے کھڑکی بند کی۔ وہ شاردا کے پاس آ گیا۔

شاردا کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں میں بجلی کا عکس جھلملا رہا تھا۔ ”مر جاتی تو اچھا ہوتا۔“ اس نے سینہ کوٹتے ہوئے کہا۔

گوپی ناتھ نے شاردا کے ہاتھ پکڑ لیے۔
”مجھے مت چھوؤ۔ میں تو ایک گندی چیز ہوں نا؟“ اس نے چلا کر کہا۔
گوپی ناتھ نے اس کا منہ بند کرنے کی کوشش کی۔

’میں مرجاؤں گی۔ ”شاردا نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور دیوار سے اپنا سر ٹکرانے لگی۔ غصے کے مارے خود ہی اپنی ساڑی پھاڑ ڈالی۔

”مجھے ایسی نفرت انگیز زندگی کیوں ملی؟“ بے دلی سے اپنے ہاتھوں کے کنگن توڑ کر اس نے پھینک دیے اور دوسرے کمرے میں جاکر پلنگ پر گر پڑی اور زور زور سے سسکیاں لینے لگی۔

گوپی ناتھ فکرمند ہو کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ بار بار سوچ رہا تھا کہ اس نے شاردا سے کچھ بھی تو نہیں کہا، پھر بھی وہ ناراض ہی رہتی ہے۔ عورت ذات بھی عجیب و غریب ہستی ہوتی ہے۔

گوپی ناتھ کے دل میں زندگی سے نفرت کرنے کا خیال شروع ہی ہوا تھا کہ شاردا سے اس کی ملاقات ہو گئی۔ اس زمانے میں اس کی حالت ایسی تھی جیسے تپتے ریگستان میں بھٹکنے والے کسی راہی کی ہوتی ہے۔

وہ عورت کو ٹھنڈے پانی سے بھرا ہوا تالاب سمجھتا تھا۔ کوئی عورت نظر آ جاتی تو جیسے اس کی روح کو سکون مل جاتا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ کسی کی محبت بھری چھاتی سے لپٹ کر میٹھی میٹھی باتیں کرے۔ مگر کس سے؟

ان ہی دنوں میں ایک عجیب و غریب ڈھنگ سے شاردا اس کی زندگی میں داخل ہو گئی۔ وہ بھی بھری برسات کی رات تھی۔ اخبار کے آفس سے گوپی ناتھ گھر آیا تو دیکھا کہ کوئی دروازے پر کھڑا ہے۔ جب وہ قریب آیا تو دیکھا کہ وہ ایک عورت ہے۔ اس وقت تک گوپی ناتھ شاردا کو نہیں جانتا تھا۔

پہلے تو شاردا نے گوپی ناتھ کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔
برسات کی ٹھنڈی ہوا میں کانپتی ہوئی اس عورت سے گوپی ناتھ نے کہا کہ وہ اندر آ جائے۔
مگراس نے گوپی ناتھ کی بات ان سنی کردی اور خاموش کھڑی رہی۔
”تمہارا باہر کھڑا رہنا اچھا نہیں ہے۔ اندر آ کر بیٹھو نا۔“ گوپی ناتھ نے کہا۔

وہ دروازے کی طرف آئی۔ اس کے ہاتھ میں ایک اٹیچی تھی۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اور گالوں پر اب بھی آنسوؤں کی نمی تھی۔ وہ چوڑے کنارے کی سفید ساری اور کالا بلاؤز پہنے تھی۔ اندر آ کر وہ گوپی ناتھ کی طرف یوں دیکھنے لگی جیسے کوئی گائے شیر کی طرف دیکھتی ہے۔ گوپی ناتھ نے اسے اطمینان دلاتے ہوئے کہا، ”ڈرو مت اندر آ کر بیٹھو۔“

جب وہ اندر آ گئی تو گوپی ناتھ نے دروازہ بند کر لیا۔
”تمہیں کہاں جانا ہے۔ ؟“
”۔“

”دوسرے کمرے میں جا کر گیلے کپڑے بدل لو۔ میں یہاں اکیلا رہتا تھا۔ مجھ سے بالکل مت ڈرنا۔ میں تمہارا بھائی ہوں۔ باپ ہوں۔ اور۔“ آگے بات کہتے کہتے وہ رک گیا۔

اس نے کہا، میرے پاس بدلنے کے لیے کپڑے نہیں ہیں۔

دنیا کی جھنکار جیسی مدھر آواز سن کر گوپی ناتھ پگھل گیا۔ اس نے اپنے بکس میں سے دھلے کپڑے نکال کر دیے۔ وہ دوسرے کمرے میں جا کر کپڑے بدل آئی۔

”تم نے کھانا وانا بھی کھایا ہے یا نہیں۔ ؟“ گوپی ناتھ نے پوچھا۔
”مجھے کچھ نہیں چاہیے۔“ اس نے آہستہ سے کہا۔
”لیکن تم میری مہمان ہو۔ اس لیے ایک کپ چائے تو پینا ہی پڑے گی۔“ یہ کہتے ہوئے گوپی ناتھ مسکرانے لگا۔
وہ چپ چاپ بیٹھی رہی۔

گوپی ناتھ نے اپنا تعارف خود ہی کروا دیا۔ ”میرا نام گوپی ناتھ ہے۔ ایک معمولی سے اخبار کا ایڈیٹر ہوں۔ اور تمہارا نام کیا ہے۔ ؟“

”شاردا“ وہ مترنم آواز میں بولی۔

گوپی ناتھ چائے بنانے کے لیے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ دونوں کھڑکیوں پر ساڑی، بلاؤز، بریسریر اور اسکرٹ سوکھ رہے تھے۔ گوپی ناتھ کے ہاں پہلی بار عورت کی خوشبو پھیل رہی تھی۔ اس کے دل سے، خوشبو کی لہر سی اٹھی۔ وہ اپنے آپ کو روک نہ سکا۔ چھپ کر اس نے ساڑی کو چوم لیا اور پھر بریسریر کو بھی۔

پھر اسٹو جلا کر چائے بنائی اور دو گلاسوں میں لے کر شاردا کے پاس پہنچا تو وہ میز پر سر جھکائے بیٹھی تھی۔ شاردا کے چہرے پر تھکن کے آثار تھے۔ وہ آہستہ آہستہ چائے پینے لگے۔

”ہاں۔ میں کرسی پر سو جاؤں گی۔“ شاردا نے کہا۔
”نہیں نہیں۔ دوسرے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر کے سو جاؤ۔ اس کرسی پر میں سو جاؤں گا۔“

شاردا نے کوئی عذر نہیں کیا اور اندر سے دروازہ بند کر کے کمرے میں لیٹ گئی۔ گوپی ناتھ کو نیند نہیں آئی۔ وہ بہت سی باتیں سوچتا رہا کہ یہ کون ہے۔ کہاں سے بھٹک کر آئی ہے۔ کیوں رو رہی ہے؟ اس نے کئی سگریٹ سلگائے اور کافی رات گئے سویا۔ صبح باہر کے کمرے میں ٹہلنے کی آواز سن کر شاردا نے دروازہ کھولا۔ گوپی ناتھ نے صبح بخیر کہا۔ اس نے بھی جواب میں کہا،

”صبح بخیر۔“
”نیند تو اچھی طرح آئی نا؟“
”ہاں۔“
’نہاؤ گی؟ ”

گوپی ناتھ نے صابن، تیل، منجن اور تولیہ وغیرہ دے کر باتھ روم بتا دیا۔ اس کے بعد وہ تھرماس میں کافی اور ناشتہ خرید کر لے آیا۔ شاردا نہا کر نکلی۔ گوپی ناتھ بھی نہایا۔ پھر دونوں نے کافی پی۔ اب گوپی ناتھ نے ذرا غور سے شاردا کا چہرہ دیکھا۔ اس کے منہ پر نقاہت سی تھی۔ گوپی ناتھ آفس جانے کے لیے تیار ہوا۔ اس نے سفید کوٹ، قمیض اور بھورے رنگ کے جوتے پہنے۔ اس کے بعد اس نے شاردا سے پوچھا، ”تم کہاں جا رہی ہو؟“

شاردا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
”روتی کیوں ہو؟“
”یوں ہی“ اس نے نظریں نیچی کر کے جواب دیا۔
”کل رات کہاں سے آئی تھیں۔ ؟“
”ہاسپٹل سے۔“
”نرس ہو“
”نہیں“
”ڈاکٹر؟
”پڑھ رہی ہو؟“
”نہیں“
”کوئی کام کرتی ہو؟“
”نہیں“
”گھر کہاں ہے؟“
شاردا نے گاؤں کا نام بتا دیا، ”ستر میل کی دوری پر ہے۔“
”وہاں کیا کرتی تھیں۔ ؟“
”پڑھتی تھی۔“
”کس کلاس میں؟“
”بی۔ اے میں“
’ماں باپ ہیں؟ ”
”جی ہاں“
”تمہارے والد کیا کام کرتے ہیں؟“
”ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں“
”گھر سے جھگڑا کر کے چلی آئی ہو کیا؟“
شاردا چپ رہی۔
”گھر واپس جانا چاہتی ہو؟“
”نہیں۔“
”پھر کہاں جاؤ گی؟“
”مجھے کچھ نہیں معلوم۔ جانے کی کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔“

گوپی ناتھ حیران تھا۔ یہ تو شاید بالکل پاگل ہے۔ مگر ایسا نہیں لگتا۔ وہ بڑی دیر تک سوچتا رہا۔ اس نے آگے کے بارے میں سوچا۔ جیسے ایک بہت بڑے ہجوم کے سامنے تقریر کرنے سے پہلے آدمی گھبراتا ہے۔ وہی حال گوپی ناتھ کا اس وقت تھا۔

”میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔“ گوپی ناتھ نے کہا۔

”ہماری ملاقات گزشتہ رات پہلی بار ہوئی ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے بالکل ناواقف ہیں۔ تمہارے ماں باپ ہیں۔ گھر بار ہے۔ مگر تم کہتی ہو کہ تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ مجھے نہیں معلوم اور نہ میں تمہارے بارے معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ میں تو صرف یہی چاہتا ہوں کہ آئندہ زندگی ہم ساتھ گزاریں گے۔“

کچھ دیر دونوں خاموش رہے۔ پھر شاردا بولی، ”میں کیسے رہوں گی؟“

یہ سن کر گوپی ناتھ خوش ہو گیا۔ ”میری بیوی بن کر۔ میں تم سے محبت کرنے لگا ہوں۔ آج ہی تم سے شادی کرنے کو تیار ہوں۔“

”شادی؟“ وہ چونک پڑی۔
”ہاں۔ میں تم سے پیار کرتا ہوں۔“
پلک جھپکائے بغیر شاردا گوپی ناتھ کی آنکھوں میں دیکھے گئی۔
”آپ کتنے اچھے آدمی ہیں۔“ وہ اداس لہجہ میں بولی۔
”میں آپ کی زندگی سے ناتا جوڑوں! میں کتنی نیچ ہوں۔ شاید آپ نہیں جانتے۔“
”تو میں بھی کوئی مہاتما نہیں ہوں۔“
”میں آپ کو دھوکہ دین انہیں چاہتی۔“
”کیسا دھوکا؟“
”آپ مجھے نہیں جانتے۔“

”عورت اور مرد ہمیشہ آپس میں اجنبی ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے اندر سب کیسے جھانک سکتے ہیں۔ میں روح کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ صرف اتنا جانتا ہوں کہ آنکھیں روح کا دروازہ ہیں۔ اور میں اس میں سے ایک خوبصورت پیکر کا دیدار کرتا ہوں۔ اس سے میں اتنا پیار کرتا ہوں جتنا اپنے آپ سے بھی نہیں کرتا۔“ گوپی ناتھ جذبات میں بہے جا رہا تھا۔

”میں ایک بہت بری عورت ہوں۔“ شاردا سسکنے لگی۔
گوپی ناتھ قہقہہ مار کے ہنس پڑا۔
”تم کیسے بری ہو گئیں۔ ؟ کیا تمہارے جسم پر میل لگ گیا ہے ؟“
”تھوڑی دیر کے تعارف ہی سے آپ کہتے ہیں کہ۔ میں تجھ سے پیار کرتا ہوں۔ آپ مجھ سے شادی تک کرنے کو تیار ہیں۔
لیکن میرا دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ کیا آپ یہ وعدہ بھی کرتے ہیں کہ مجھے سب کچھ دیں گے۔ ؟ ”
چھی! کیسی باتیں کرتی ہو۔ میں ہر طرح سے تیار ہوں۔ ”
”پھر بھی۔“
”یہ پھر بھی کیا چیز ہے۔ ؟“
”میری بیتی زندگی؟“

”اوہ۔ کوئی بات نہیں۔“ گوپی ناتھ نے کہا۔ ”میرے ماضی میں بھی بہت سے اتار چڑھاؤ ہیں۔ مگر ہم دونوں پچھلی باتوں کو چھوڑ دیں گے اور موجودہ پیار سے آنے والی زندگی کو خوشگوار بنا دیں گے۔“

”آپ کچھ نہیں جانتے۔“ وہ دانتوں سے ہونٹ کاٹتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ اور پھر روتے ہوئے بولی، ”میں نے ہسپتال میں ایک بچے کو جنم دیا ہے۔“

پھر دونوں چپ ہو گئے۔ بہت دیر کے بعد گوپی ناتھ نے پوچھا،
”بچہ کہاں ہے؟“
”مر گیا۔“
”اور شوہر؟“
”میری شادی نہیں ہوئی“
”بچے کا باپ۔ ؟“
”میرا کلاس فیلو۔“
”وہ کہاں ہے۔ ؟“
”آنرز میں پڑھ رہے ہیں۔“
”پھر؟“
”اسے اپنے مستقبل کے بارے میں طے کرنا ہے۔ اس نے مجھے بتا دیا تھا۔“
”مستقبل! کیسا مستقبل؟“

”وہ شاعر ہیں۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔ گزشتہ ہفتے سے ان کا امتحان شروع ہوا ہے۔ پاس ہونے پر کالج ہی میں کام ملے گا۔“

”اس شاعر کا نام کیا ہے۔ ؟“
شاردا نے نام بتا دیا۔
”بڑے اصول پرست ہیں۔ ؟“

”ہاں۔“ شاردا نے کہا۔ ”میں ان کی نظمیں پڑھا کرتی تھی۔ ان ہی دنوں وہ ہاسٹل کے سامنے کرائے کے مکان میں رہنے لگا۔ سب سے پہلے ایک کتاب کے لیے میں نے ایک چٹھی بھیجی تھی۔ اس طرح ہم دونوں کا تعارف ہوا۔ ہماری آپس میں خط و کتابت ہونے لگی۔ میری سہیلیوں نے مجھے آگاہ کیا کہ وہ اچھا آدمی نہیں ہے۔ مگر اس کی نظمیں اتنی رومانی تھیں کہ میں نے اس پر اعتبار کر لیا۔ ہم دونوں نے بہت سے وعدے کیے۔ آموں کے گھنے باغوں سے گزر کر وہ رات کو ہاسٹل کی دیوار پھلانگ کر میرے کمرے میں آیا کرتا تھا۔ میں نے بہت چھپانا چاہا مگر میری سہیلیاں سب سے کہتی پھریں۔ گھر آئی تو وہاں بھی یہ بات پھیل گئی۔ اس لیے میں نے گھر چھوڑ دیا۔

ہاسٹل ہی میرا ایک محفوظ سہارا تھا۔ میں نے انہیں کئی خط لکھے۔ آخر کار ان کی ایک سطر والی بے نام کی ایک چھٹی ملی۔ لکھا تھا،

”مجھے اپنے مستقبل کو دیکھنا ہے۔“

”میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ پرسوں رات ہاسپٹل ہی میں، میں نے مرنا چاہا۔ کھڑکی سے باہر کودنے لگی تو پولیس کی سیٹی سنائی دی۔ میں ڈر گئی۔ پھر میں نے زہر پینے کا ارادہ کیا مگر پی نہ سکی۔ ہاسپٹل سے باہر آ گئی۔ بارش کی پروا کیے بغیر چلتی رہی۔ دوپہر سے شام ہو گئی۔ مگر جب اور چلنے کی ہمت نہ رہی تو۔ یہاں آپ کے پاس۔“

”بس اتنی سی بات؟“ گوپی ناتھ نے کہا۔ ”یہ کوئی بات نہیں ہے۔ زندگی رونے کے لیے نہیں ہے۔ تم سے ایک غلطی ہو گئی ہے۔ اکثر نا سمجھ کنواری لڑکیوں کو ایسا دھوکا دیا جاتا ہے ۔ عورت اور مرد دونوں ہی قصوروار ہیں اس بات کے لیے۔ مگر اب پرانی باتوں پر سوچنے سے کیا فائدہ۔ میں جاکر تمہارے لیے کپڑے لے آؤں۔ ؟

”کیوں۔ ؟“
”میری بیوی بن کر رہو گی تو کپڑوں کی ضرورت نہیں پڑے گی کیا؟ میرے کپڑے کب تک پہنے رہو گی؟“
”نہیں یہ شادی ٹھیک نہیں رہے گی۔ آپ کے ماں باپ کیا کہیں گے؟ آپ کے دوستوں کو یہ رشتہ پسند نہیں آئے گا۔“

”لیکن شادی تو مجھے کرنا ہے۔ والدین میں صرف میری ماں ہے۔ اور میری ماں نے بھی میری مرضی کے خلاف اپنی دوسری شادی کرلی ہے۔ بھائی کوئی نہیں۔ ایک بہن ہے اس کی شادی ہو چکی ہے۔ اب میں اکیلا ہوں۔“ گوپی ناتھ نے بتایا۔ ”ہاں میرے پاس روپیہ پیسہ کچھ نہیں ہے۔ میں نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم پائی ہے۔ میری ساری دولت یہ اخبار ہے، جس کا ایڈیٹر بھی ہوں، منیجر بھی اور چپراسی بھی ہوں۔ سب کچھ میں خود ہی ہوں۔ اس لئے بیچ میں رکاوٹ ڈالنے والا اور کوئی نہیں ہے۔“

”لیکن میرے دل میں اب محبت باقی نہیں رہی۔ میں کسی سے پیار نہیں کر سکتی۔“ شاردا نے کہا۔
”شاردا تم مجھ پر اعتبار تو کر سکتی ہونا؟“
گوپی ناتھ کی اس بات پر شاردا نے روتے ہوئے خاموشی سے اقرار کر لیا۔

رجسٹرار کے آفس جاکر وہ دونوں میاں بیوی بن گئے۔ انہوں نے اپنا ایک ساتھ فوٹو کھنچوایا اور اسے اپنے اخبار میں چھپوا دیا۔

اس اخبار کی ایک کاپی شاردا کے باپ کو بھیجی اور ایک کاپی اس شاعر کو بھیجی۔
شاردا کے ماں باپ ان دونوں کو مبارک باد دینے آئے۔

ایک ادبی جلسے میں گوپی ناتھ تقریر کرنے گیا تو وہاں اس نے کرسی صدارت پراس شاعر کو بیٹھے دیکھا۔ تقریر ختم ہونے کے بعد پھولوں کے ہاروں کا ڈھیر لیتے ہوئے شاعر نے بڑی اداس مسکراہٹ کے ساتھ گوپی سے پوچھا،

”ایڈیٹر صاحب کی شادی تو غالباً ابھی حال ہی میں ہوئی ہے؟“
”جی ہاں۔“ گوپی ناتھ نے کہا۔
”اس عورت کو آپ پہلے سے جانتے تھے۔ ؟“
”نہیں۔“
”اس کے کئی محبت نامے ایک آدمی کے پاس ہیں۔“
”ہاں یہ بات مجھے شاردا نے بتائی ہے۔“
”شادی سے پہلے بچہ ہونے کی بات بھی بتا دی ہے؟“
”ہاں۔ اس نے سب کچھ بتا دیا ہے۔“
”اور اس نے یہ بھی کہا ہوگا کہ وہ ایک“ سیکنڈ ہینڈ ”مال ہے۔ کیوں۔ ؟“
وہ شاعر ہنسنے لگا۔ گوپی ناتھ بھی مسکرایا۔
”ہاں۔ شاردا نے یہ بات بھی کہی تھی اور اس دھوکا دینے والے شاعر کا نام بھی بتایا ہے۔“
شاعر کا چہرہ سیاہ پڑ گیا۔ اور گوپی ناتھ نے ہنستے ہوئے اجازت چاہی۔

اس شاعر سے ملاقات کا حال گوپی ناتھ نے شاردا کو نہیں سنایا کیونکہ وہ ہر طرح شاردا کو خوش رکھنا چاہتا تھا۔ شاردا کو کوئی تکلیف نہیں تھی۔ وہ خوش تھی۔

گھر کے کام کاج میں، کھانا بنانے میں اور اخبار میں لپیٹ کر گوپی ناتھ کا ٹفن تیار کرنے میں وہ بڑی سگھڑ تھی۔ مگر ان سب کاموں کو کرتے وقت بھی یہ خیال ہر وقت اس کے دل میں رہتا تھا کہ اس کے دل میں محبت نہیں ہے۔ وہ کسی کو پیار نہیں کرتی۔

بارش اور ہوا کے شور میں گوپی ناتھ کو شاردا کی کہی ہوئی یہ باتیں یاد آئیں۔ اب وہ مجھ سے پوچھتی ہے کہ مجھ سے بیاہ کیوں کیا۔

گوپی ناتھ چھتری لے کر شاردا سے بات کرنے کے لیے کمرے میں آیا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ گوپی ناتھ کا جی چاہا اسے اٹھا کر پیار کرے۔ مگر شاردا اسے پیار نہیں کرتی۔ یہ بات یاد آئی تو وہ رک گیا۔

”پریس ہو آؤں۔ ؟“ اس نے کہا۔
”تم واپس آؤ گے تو میں یہاں نہیں ہوں گی۔“ شاردا نے روتے ہوئے کہا۔
”کہاں جاؤ گی؟“
”کہیں بھی۔“
”یہاں کیا دکھ ہے۔ ؟“
”دکھ۔“ شاردا کا دل کانپ گیا۔ ”کچھ نہیں۔“
وہ چھاتی پیٹنے لگی۔ گوپی ناتھ نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
”مجھے مت چھوؤ۔ میں ناپاک ہوں۔ بہت خراب ہوں۔“
”ناپاک ہو۔ تم کیا کہہ رہی ہو؟“
”کچھ نہیں۔ مجھے مرجانے دو۔“
”تمہیں کیا دکھ ہے شاردا۔ تم کیوں مرنا چاہتی ہو؟“
”افوہ۔ کچھ نہیں۔“ وہ گہرے دکھ بھرے لہجے میں بولی، ”مجھ سے یہ نفرت انگیز زندگی نہیں سہی جاتی۔“
”تمہاری زندگی کو کس نے نفرت انگیز کر دیا ہے؟“ گوپی ناتھ نے پوچھا۔
”آپ نے۔“
”میں نے۔ ؟“ اور گوپی ناتھ پھر کچھ نہ کہہ سکا۔
”ہاں آپ نے۔“ اس نے روتے ہوئے کہا۔
”کیا آپ مجھے پسند کرتے ہیں۔ ؟“
”میں۔ ؟“ گوپی ناتھ نے حیرانی سے کہا، ”تم تو مجھ سے نفرت کرتی ہو۔“

”میں۔ ؟“ ناقابل برداشت غم سے شاردا گوپی ناتھ کی چھاتی میں منہ چھپا کر سسکیاں لینے گی۔ ”میں۔ میں آپ کو اپنی جان سے زیادہ۔“

ہندوستانی کہانیوں کے تراجم کا یہ سلسلہ ہم سب اور ریختہ کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ ہے۔ جس کے تحت ہم ہر ہفتے ہندوستانی زبانوں میں لکھی گئیں تین کہانیاں آپ تک لائیں گے۔ اردو اور دوسری زبانوں کی کہانیاں، اور مضامین پڑھنے کے آپ ریختہ ایب سائٹ وزٹ کریں۔

ریختہ ڈاٹ آرگ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ریختہ ڈاٹ آرگ

ہم سب کے لیے ریختہ ڈاٹ آرگ کی جانب سے ارسال کردہ خاص تحریریں۔ دیسی ادب کی چاشنی، اردو اور ہندی ادب کا انتخاب۔

rekhta has 6 posts and counting.See all posts by rekhta

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments