نور مقدم قتل کیس : آزادی، ذمہ داری مانگتی ہے!


اپنے گزشتہ کالم (نور مقدم قتل کیس: ایک پہلو یہ بھی ہے ) پر رد عمل میری توقع سے کہیں زیادہ تھا۔ منفی کم اور مثبت زیادہ۔ میں نے منفی رد عمل کا بغور جائزہ لیا۔ یہ جاننے کی کوشش کی کہ آزادی کو ذمہ داری، احتیاط اور حدود و قیود کے اندر استعمال کرنے کی مخالفت کرنے والوں کے پاس کیا دلائل ہیں۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مجھے کوئی ایک بھی ٹھوس دلیل نہیں ملی۔ میری نظر سے کچھ ایسے کام بھی گزرے جن میں ”نور مقدم“ کے حوالے سے بحث بلکہ کج بحثی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے عجیب و غریب دلیلیں دی گئی ہیں۔

میں نے اپنے کالم میں بڑی وضاحت کے ساتھ لکھا تھا کہ کسی خاتون کے کسی بھی طرز عمل کے نتیجے میں واقع ہونے والی درندگی یا سفاکی ہر اعتبار سے لائق مذمت ہے۔ ایسے درندہ صفت افراد کو عبرت ناک سزا ملنی چاہیے۔ میں نے اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا تھا کہ طاقت ور، با اثر اور لمبے ہاتھ رکھنے والے مجرم کسی نہ کسی طرح سزا سے بچ جاتے ہیں۔ معاملہ ایف۔ آئی۔ آر کے اندراج، پولیس کی تفتیش اور عدالت میں پیش کیے گئے چالان سے شروع ہوتا ہے۔ اس سارے عمل میں اتنی خامیاں دانستہ یا نا دانستہ طور پر آجاتی ہیں کہ عدالت کے لئے مجرم کو سنگین سزا دینا ممکن ہی نہیں رہتا۔ سو ہمیں اس عمل پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ ہم نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتیں ضرور بنا لی ہیں لیکن مطلوبہ نتائج پھر بھی حاصل نہیں ہو سکے۔

میں پھر واضح کر دوں کہ خواتین کی آزادی یا ان کے حقوق کے بارے میں میرے ذہن میں کوئی ابہام نہیں۔ بلاشبہ عورت بھی اللہ کی تخلیق ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارا دین، ہماری تہذیب اور ہماری معاشرتی قدروں میں آج بھی عورت کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی نام نہاد ترقی یافتہ مغربی ملک میں نہیں۔ صرف ”ماں“ کے درجے اور مقام کو لے لیں۔ ہم فخر سے سر اونچا کر کے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے اور سماج میں ”ماں“ عقیدت و احترام کے ایسے بلند منصب پر فائز ہے جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔

ہمارے ہاں ایسی صورتحال بھی نہیں کہ عورتوں کو زنجیریں ڈال کر گھروں میں قید کر دیا گیا ہو۔ تحریک پاکستان میں بر صغیر کی مسلم خواتین نے جو سرگرم کردار ادا کیا وہ ہماری تاریخ کا سنہری باب ہے۔ میں نے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے لئے کام کرتے ہوئے تحریک آزادی کی ایک مجاہدہ فاطمہ صغریٰ کا انٹرویو کیا تھا۔ اس بہادر خاتون نے 1946 میں لاہور سول سیکرٹریٹ سے برطانوی پرچم ”یونین جیک“ اتار کر مسلم لیگ کا جھنڈا لہرا دیا تھا۔

تب اس نوخیز طالبہ کی عمر صرف پندرہ برس تھی۔ میں نے انٹرویو کیا تو اس وقت محترمہ کی عمر اسی سال کے لگ بھگ تھی لیکن تحریک آزادی کا ذکر کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آ گئی تھی۔ ان بہادر خواتین کو والدین نے اجازت دے رکھی تھی کہ وہ آزادی کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کریں۔ پاکستان بننے کے بعد بھی قومی سیاست میں خواتین کا بھر پور کردار رہا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے وقت کے ڈکٹیٹر کو للکارا اور اس کے خلاف صدارتی انتخاب لڑتے ہوئے جمہوریت کی شاندار جدوجہد کو آگے بڑھایا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی جمہوریت اور آئین کی بالا دستی کے لئے زبردست جدوجہد کی۔ ان کی والدہ محترمہ نصرت بھٹو نے بھی آمریت کے دنوں میں سختیاں برداشت کیں۔ خواتین کے سیاسی کردار کی بات چلی ہے تو بیگم نسیم ولی خان کو بھی ضرور یاد رکھنا چاہیے۔ بیگم کلثوم نواز کے دلیرانہ کردار کو بھی لوگ نہیں بھولے۔ اور آج پاکستان کی سیاست کا ایک بہت بڑا کردار مریم نواز شریف بھی ہیں جو بہت سے تجزیہ نگاروں کی رائے میں مستقبل کی اہم راہنما ہیں۔ کم و بیش یہ تمام خواتین، مشرقی اقدار کی حامل تھیں۔ سب اپنے سروں پر دوپٹہ رکھتی تھیں۔ لیکن ان اقدار کا حامل ہونا، ان کے سیاسی کردار کے راستے کی رکاوٹ نہ تھا نہ ہے۔

معاملہ یہ ہے کہ آزادی اور بے مہار پن میں بڑا فرق ہے۔ آزادی اور مادر پدر آزادی میں بھی بڑا فرق ہے۔ آزادی اور احساس ذمہ داری سے بے نیاز ہو جانے میں بھی بڑا فرق ہے۔ آزادی اور اپنے دین، اپنی تہذیب، اپنے سماج اور اپنی اقدار سے بغاوت کر دینے میں بھی بڑا فرق ہے۔ آزادی ہونی چاہیے کہ خواتین کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔ آزادی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے ذوق و شوق کے مطابق اپنے پیشے کا انتخاب کریں۔ آزادی ہونی چاہیے کہ اپنی شادی یا مستقبل کے فیصلوں میں خواتین کی رائے کو بھی وزن دیا جائے۔

لیکن کیا یہ بھی ”آزادی“ کے زمرے میں آتا ہے کہ جس ماں نے ہمیں جنم دیا، جس باپ نے ہمیں پالا پوسا، جن والدین نے محنت مشقت کر کے ہمیں تعلیم دلوائی، ان کو ہم اس دن اپنی زندگیوں سے خارج کر دیں جس دن ہماری عمر 18 سال کی ہو جائے اور ہمیں ایک شناختی کارڈ جاری ہو جائے۔ کیا شناختی کارڈ کوئی ایسا پرمٹ ہے جو خواتین کو ”اپنا جسم، اپنی مرضی“ کی سند عطا کر دیتا ہے اور اس کے بعد وہ جو کچھ بھی کریں، قابل گرفت نہیں۔

آزادی اور احساس ذمہ داری ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ذمہ داری اور شعور انسانیت کے بغیر آزادی، آزادی نہیں کچھ اور شے ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے فرائض کے بغیر حقوق کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح ذمہ داری کے احساس سے عاری مادر پدر آزادی کا تصور بھی صرف فریب ہے۔ کہا گیا کہ اگر کوئی خاتون رات کو گھر سے نکل کر کسی غیر کے فلیٹ یا پھر گھر چلی گئی اور قتل ہو گئی تو کیا گھروں میں بیٹھی عورتیں قتل نہیں ہو جاتیں؟ اس سے زیادہ مضحکہ خیز اور بودی دلیل کوئی نہیں ہو سکتی۔

آج ساری دنیا کروڑوں افراد کو کرونا ویکسین کے لئے تڑپ رہی ہے۔ تو کیا ضرورت ہے؟ لوگ ویسے نہیں مر جاتے؟ کینسر سے، ٹائیفائیڈ سے، ٹی۔ بی سے، حرکت قلب بند ہو جانے سے، تو پھر ویکسین جیسی احتیاطی تدبیر کی کیا ضرورت ہے؟ لوگ ٹریفک حادثات میں مارے جاتے ہیں لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ کوئی سڑک کے عین بیچ جا کر بیٹھ، بلکہ لیٹ جائے اور کہے کہ کیا سو سو احتیاطیں کرنے، ہیلمٹ پہننے اور ٹریفک قوانین کی پابندی کرنے والے حادثے میں نہیں مر جاتے؟ اور پھر یہ کیا دلیل ہے کہ مدرسے کے طالب علم نشانہ نہیں بن جاتے؟ یہ ساری باتیں حجت بازی کے سوا کچھ نہیں۔ بلا شبہ برائی ہر جگہ برائی ہے، جرم ہر جگہ جرم ہے لیکن کسی انہونی سے بچنے کی تدابیر لازم ہیں۔ انہونی کا ہو جانا اور بات ہے، انہونی کو دعوت دینا اور۔

۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments