کاغذ سے کاغذ تک


ٖ

سیما نے دونوں کاغذ میز پہ رکھ دیے ساتھ ساتھ لیکن ان کے درمیان دس سال کا سفر تھا ایک گھر سے دوسرے گھر کا سفر، جانے پہچانے چہروں سے انجانے چہروں کے درمیان ہونے کا سفر، محبت کے اظہار سے نفرت کے آشکار کا سفر۔ سیما ان پہ لکھے ہوئے الفاظ کی طاقت کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ ایک کاغذ نے اسے دس سال پہلے زاہد سے باندھ دیا اس کی رضامندی کے بغیر، ماں باپ کے اسرار پر ایک امیر گھرانے کے اکلوتے بیٹے کے ساتھ جو کبھی لاڈ و پیار میں اپنے پیروں پر کھڑا ہی نہیں ہو سکا یا اس نے کبھی اس کے لئے عزم ہی نہیں کیا۔

زاہد کی ماں نے بیٹے اور بہو کے لئے تجوری کا منہ کھولا ہوا تھا۔ پچیس سالہ زاہد دراصل ذہنی طور پہ پندرہ سال کا ایک فربہ لڑکا تھا۔ دن کا بیشتر وقت وہ ویڈیو گیمز کھیلتے ہوئے گزار دیتا اور شام میں دوستوں کے پاس چلا جاتا۔ محبت؟ ایک جھوٹ۔ قربت؟ محض ایک عارضی ضرورت۔ دوستی؟ ناپید۔ ذہین، حسین اور نوجوان سیما زاہد کے لئے ایک کھلونا ہی تھی۔ زاہد کی ماں کے لئے یہ سب کچھ صحیح تھا لیکن زاہد کا باپ جو ابھی تک محنت اور دانشمندی سے کاروبار کو آگے بڑھا رہا تھا بیٹے کے رویے سے مایوس ہو چکا تھا۔ سیما کے لئے یہ محل ایک آسیب زدہ آشیانہ تھا جس میں نوکروں کی خال خال آوازوں کے علاوہ ایک بھیانک سناٹا چھایا رہتا تھا۔ سیما نے خود کو زاہد کی زندگی میں داخل کرنے کی بہت کوشش کی تھی لیکن اس کے دل کے سارے دروازے بند تھے فولاد کے دروازے جنہیں نہ تو اس کی خوبصورت مسکراہٹ پگھلا سکی اور نہ ہی اس کے آنسو۔

پہلے سال تو سیما کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ اس کی زندگی کو وقت کس طرف دھکیل رہا تھا۔ نئی نئی آسائیشیں، شاپنگ اور بننے سنورنے کے شوق۔ اس کی سہیلیاں اسے رشک اور حسد سے دیکھتی تھیں لیکن تین سال بعد سیما کی زندگی میں انقلاب آیا۔ اب وہ اکیلی نہیں تھی اس کے ساتھ امیرہ بھی تھی۔ سیما نے سوچا کہ وقت کے ساتھ ساتھ امیرہ کی وجہ سے زاہد کے رویے میں تبدیلی آ جائے گی لیکن زاہد کے لئے امیرہ بھی ایک ننھے منے کھلونے سے زیادہ نہیں تھی۔

اسی طرح کاغذ کے بندھن میں پانچ سال گزر گئے تو سیما نے زاہد اور اس کی ماں سے بغاوت کرتے ہوئے ملازمت شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ بہت شور و واویلا کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ وہ اپنے سسر کی کمپنی میں کام کر سکتی تھی۔ شادی سے پہلے بھی وہ مارکیٹنگ میں کام کرتی تھی، اس نے سسر کی کمپنی میں بھی اسی شعبے میں ملازمت شروع کر دی۔

کام پہ سیما کے ستارے چمک دمک رہے تھے لیکن گھر آ کر وہ رشتوں کی تاریکیوں میں ڈوب جاتی، وہ بقیہ وقت امیرہ کو اپنی دادی کے لاڈ و نخروں سے بچانے کے لیے اپنے ساتھ رکھتی۔ سیما کی مصروفیات کی وجہ سے وقت کا پہیہ اور تیز گھوم رہا تھا۔ جب کاغذ کے بندھن کو دس سال ہونے والے تھے سسر نے گھر میں کھانے کی میز پہ یہ بات کر دی کہ وہ سیما کو کمپنی سنبھالنے کی تربیت کے لئے مزید ذمہ داری سونپنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ یہ ایسے تھا جیسے زاہد اور اس کی ماں کے لئے صور پھونکا گیا تھا۔ دونوں کے نوالے گلے میں اٹک گئے تھے اور غصے سے منہ لال پیلے ہو رہے تھے۔ سیما کے چہرے پہ ایک فاتح کی مسکراہٹ تھی لیکن اس نے اپنی نگاہیں نیچے کی ہوئی تھیں۔

اب زاہد اور اس کی ماں نے سیما سے بات چیت بند کر دی تھی جیسے وہ کوئی غیر انسانی مخلوق تھی جس کی طرف دیکھنے یا بات کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ سیما کو بہت تجسس تھا کہ بند دروازوں کے پیچھے ساس اور شوہر میں کیا سرگوشیاں ہو رہی تھیں، کیا فیصلے ہو رہے تھے اس کے بارے میں، امیرہ کے بارے میں! پھر وہ رات آئی جب زاہد تیسرے پہر تک ٹی وی لاؤنج میں ٹہلتا رہا۔ صبح سویرے ہی وہ گھر سے چلا گیا اور شام گئے جب وہ واپس آیا تو سیما اور امیرہ برآمدے میں بیٹھی ہوئی تھیں۔

زاہد سیما کے سامنے کھڑا ہو گیا ایک پتھر کی مانند اس کو گھورنے لگا۔ آج کتنے عرصے بعد اس نے سیما کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا تھا لیکن اس کی اپنی آنکھیں بے جان تھیں جذبات اور احساسات سے عاری، چہرہ تنے کی طرح سخت۔ سیما نے سوچا کہ شاید زاہد کچھ کہنا چاہتا ہے کوئی ایسی بات جو اسے بہت پہلے کہہ دینی چاہیے تھی۔ وہ خاموشی اور تجسس سے زاہد کے چہرے کو پڑھ رہی تھی۔ زاہد نے اچانک بازو ہلایا اور بغل میں دبائی ہوئی سبز رنگ کی فائل سیما کے ہاتھ میں تھمائی، بھری نظروں سے امیرہ کو دیکھا اور ایک لفظ کہے بغیر غائب ہو گیا۔

سیما نجانے کتنی دیر وہیں بیٹھی رہی ایک بت کی طرح۔ امیرہ نے اسے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر سکتے سے نکالا تو وہ اپنے کمرے میں چلے گئی۔ سیما جب پوری طرح ہوش میں آئی تو اس نے ایک فائل میں سے دس سال پرانا کاغذ نکالا اور اس نئی فائل میں لگا ہوا کاغذ بھی اور دونوں کو میز پہ رکھ دیا۔ جب اس نے دس سال پہلے اس پرانے کاغذ کو نہیں پڑھا تھا تو آج اس نئے کاغذ کو پڑھنے کی کیا ضرورت تھی! وہ تیز تیز قدموں سے اپنے میز کی طرف گئی، دراز میں سے ایک خوبصورت قلم نکالا لیکن وہ کیا لکھے کس کے نام لکھے!

وہ دیوار کو گھورنے لگ گئی۔ دیوار پہ لگے ہوئے آئینے پہ اس کی نظر جم گئی۔ ’یہ تم ہو سیما جس نے کبھی اپنی ذات کو پہچانا ہی نہیں۔ میں ہاتھ پھیلا کر دس سال بیٹھی رہی کہ شاید وہ اپنی توجہ کی تھوڑی سی بھیک میرے کشکول میں ڈال دے، شاید ایک بیٹی کی محبت کی کچی ڈوری سے وہ بندھ کر میری طرف کھچ آئے، یا میری دلکشی سے متاثر ہو کر میری زلفوں کا اسیر ہو جائے۔ اور تو اور میں نے یہ تک زاہد سے کبھی نہیں پوچھا کہ وہ روز شام کو کہاں جاتا ہے اور کس سے ملتا ہے، بس خود کو وقت کے دھارے پہ چھوڑ دیا۔

اس دس سال کی زندگی کے ضیاع کی میں بھی اتنی ہی مجرم ہوں جتنا کہ زاہد۔ اگر زاہد میرے لئے اجنبی بنا رہا تو میں نے بھی تو خود سے کبھی دوستی نہیں کی۔‘ پھر اس نے آئینے ہی میں میز کی طرف دیکھا۔ ’ان کاغذ کے ٹکڑوں میں کتنی طاقت ہے جنہوں نے میری ہئیت الٹ پلٹ کے رکھ دی، کبھی جوڑ دیا پھر توڑ دیا بلکہ شاید پہلے کاغذ نے مجھے شہنائیوں کی گونج اور روشنیوں کی چمک کی اوٹ میں توڑ دیا۔‘

سیما اپنے آنسوؤں کے ریلے کو روک کر مسکرائی۔
’اور آج ایک دوسرے کاغذ نے ایک بے آواز ملاقات کے ذریعے مجھے اپنے آپ سے جوڑ ریا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments