بمبوریت: کیلاشہ تہذیب کا مسکن

بمبوریت کی فضاؤں میں جہاں ایک دل موہ لینے والی رواداری ہے وہاں ایک خاص قسم پراسراریت بھی محسوس ہوتی ہے۔ کیلاشہ کمیونٹی عجیب و غریب ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی وسیع و عریض قتل گاہ میں ان لوگوں کا قافلہ بیدردی سے قتل کر دیا گیا ہو اور ان میں سے کچھ بندے اپنی جان بچا کر غاروں میں چھپ گئے ہوں۔ ان چند لوگوں سے یہ نسل دوبارہ چلی ہو اور انہوں نے اپنے اعتقادات، اقدار اور رسومات کے ساتھ ساتھ وہ خوف بھی ان کو منتقل کر دیا ہو جس میں انہوں نے اپنے پیارے کھو دیے تھے۔ یوں ارتقاء کا سفر ایک خاص مقام پر پہنچ کر رک گیا ہو اور ان کے اعتقادات، رسومات اور رہن سہن میں نابود ہونے کا خوف شامل ہو کر ان کی زندگی کا حصہ بن گیا ہو۔
بمبوریت میں جس ہوٹل میں ہماری رہائش تھی وہاں ساتھ والے کمرے میں ایک لڑکی بھی رہائش پذیر تھی۔ خوش شکل و خوش اخلاق و خوش گفتار۔ میں کہاں اور مستنصر حسین تارڑ صاحب کہاں لیکن یقین جانیے ایسا ہی تھا۔ بمبوریت پہنچنے کے لئے جو ہزیمت اٹھائی تھی، لازم تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنا کرم کرے اور اچھے لوگوں سے ملاقات کی سبیل پیدا ہو۔ نردا وادیٔ چترال میں آباد کیلاشہ لوگوں پر تحقیق کر رہی تھی۔
بمبوریت وادی آیون میں واقع ہے۔ چترال شہر سے واپس لواری ٹاپ کی جانب آنا پڑتا ہے۔ یہ سڑک بالکل ٹھیک ہے۔ لگ بھگ پندرہ کلومیٹر طے کر کے آپ کو سڑک سے نیچے اتر کر دریائے چترال پار کرنا پڑتا ہے۔ ایک چڑھائی چڑھ کر نیچے اتریں گے اور بائیں جانب مڑ کر وادی آیون میں داخل ہوں گے۔ جونہی آپ اس مقام پر پہنچتے ہیں تو آپ کو گاڑی روک کر اترنا پڑے گا کہ نیچے دریا کنارے لہلہاتے سر سبز و شاداب کھیت آپ کو دعوت نظارہ دیں گے۔ دریا اس مقام پر زیادہ وسیع ہے اور یوں بل کھاتے پانی کا رنگ کھیتوں کی ہریالی سے ہم آہنگ ہو کر خوبصورت منظر کو جنم دیتا ہے۔ یہ واقعی دل میں اترنے والا منظر ہے۔ میں نے گاڑی ایک طرف پارک کی اور موبائل میں اس منظر کو قید کرنا شروع کیا۔
نیچے اتر کر دریا پر لکڑی کا ایک پل پار کیا تو سامنے پولیس کی چوکی نظر آئی۔ چترال میں جہاں بھی جس چوکی پر آپ ٹھہریں گے، پولیس کو انتہائی مہذب، پیشہ ور اور مددگار پائیں گے۔ پولیس چوکی سے متصل ایک چھوٹی سی مسجد تھی۔ اتر کر نماز ادا کی، پانی پیا اور چل دیے۔ ہماری منزل بمبوریت میں واقع انیژ گاؤں تھا جہاں اسلم صاحب ایک پولیس چوکی پر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ مرکزی سڑک سے بمبوریت تک زیادہ سے زیادہ بیس کلومیٹر کا فاصلہ ہے لیکن سڑک ایسی کہ چار سے زائد گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
چار پانچ دفعہ گاڑی خالی کر کے اوپر چڑھنا پڑا۔ اس علاقے میں فطرت جتنی فیاض ہے سڑکیں اتنی ہی تنگ بالکل ہمارے دل و دماغ کی طرح۔ سارے راستے مخالف سمت سے آنے والی گاڑیاں حالت حرکت میں ایک دوسرے سے گزر نہیں سکتیں، دو میں سے ایک گاڑی کو کسی نسبتاً کھلی جگہ رک کر دوسری گاڑی کو گزرنے کے لئے جگہ دینی پڑتی ہے۔
برادرم فرید کی مہربانی کہ اپنے دوست فاروق نبی کے وسیلے سے یہاں ایک مقامی بندے اسلم صاحب سے ہمارا رابطہ استوار کیا تھا۔ اسلم ہمارے منتظر تھے لیکن راستے میں موبائل نیٹ ورک نہ ہونے کے باعث اسلم سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ شام کے سائے پہاڑوں پر ہر لمحہ اتر رہے تھے اور اسید کی ماں کے چہرے پر گھبراہٹ صاف نظر آ رہی تھی۔ اسید نے البتہ سارے راستے اپنے اعصاب پر قابو رکھا اور گاڑی سے اتر اتر کر میری مدد کرتا رہا۔
ہم اس پولیس چوکی پر پہنچے، جہاں ہمیں اسلم صاحب سے ملنے کی توقع تھی۔ اسلم صاحب کا پوچھا، اسلم صاحب نے ہم سے ہماری گاڑی کا نمبر لیا تھا اور اس مقام پر ہمیں ان سے ملنا تھا۔ پولیس سپاہیوں نے کسی بھی اسلم نامی بندے کو پہچاننے سے انکار کیا تو ہمیں پریشانی لاحق ہوئی کہ اب کیا کریں؟ اسی مقام سے دو راستے نکل رہے تھے ایک وادی بریر اور دوسرا بمبوریت۔ دونوں وادیوں میں کیلاشہ لوگ رہتے ہیں۔ ہم پریشانی میں بمبوریت کے بجائے بریر کی طرف نکلنے کو تھے کہ ایک پولیس والے نے ہماری گاڑی کا نمبر نوٹ کیا اور ہمیں بتایا کہ اسلم صاحب ہمارا انتظار کرتے کرتے ابھی یہاں سے گئے ہیں۔ آپ یہ والا راستہ لیں اور سیدھا چلتے جائیں۔ دراصل ہمیں ان کا نام حجت الاسلام بھیجا گیا تھا لیکن مقامی لوگوں میں انہیں اسلم پکارا جاتا تھا۔
ہم لگ بھگ ایک گھنٹہ بمبوریت کے راستے پر مزید آگے گئے تو خدا خدا کر کے موبائل سگنلز آ گئے۔ اسلم کو کال کی تو انہوں نے سفر جاری رکھنے کا کہا کہ وہ آگے انتظار کر رہے تھے۔ گاڑی پھر پھنس گئی لیکن مقامی لوگ مدد کو آئے اور مشکل مقام پار کرنے میں سرخرو ہوئے۔ اسلم کو آگے اپنا منتظر پایا۔ خندہ پیشانی سے ملے، سیدھا ہوٹل لے کر گئے۔ کمرے میں پہنچتے ہی چائے طلب کی جو پلک جھپکتے ہی پہنچ گئی۔
ہوٹل انتہائی سادہ لیکن صاف ستھرا تھا۔ سادگی درحقیقت حسن ہی کا ایک پرتو ہے۔ ہوٹل میں اوپر نیچے چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ آپ اپنی فیملی کی تعداد کے مطابق دو، تین اور چار بیڈز پر مشتمل کمرے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ کرایہ انتہائی مناسب۔ ہم پہلی منزل پر تھے، جہاں سے سامنے والے پہاڑ کا نظارہ مسحور کن تھا۔ سارے ہوٹل میں سیب، خوبانی، املوک، ناشپاتی، خوبانی، اخروٹ اور آڑو کے درخت دل و دماغ کو فرحت اور تازگی بخش رہے تھے۔ سیاہ املوک کے ایک درخت کی شاخیں ہماری برآمدے تک پھیلی ہوئی تھیں، جس میں انگور کی بیلیں اوپر تک پھیل گئی تھیں۔ بیلوں میں انگور کے مخروطی گچھے سیاہ املوک کے درخت میں لٹکے ہوئے تھے۔ ہم نے اجازت لے کر چند دانے توڑ ڈالے لیکن ابھی ان کے پکنے میں وقت تھا۔
اسید حیرت سے بولا؛ ’بابا کمرے میں پنکھے نہیں ہیں‘ ۔ میں نے کہا بیٹا یہاں پنکھوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اسید اپنی عادت کے مطابق جلد ہی جگہ سے مانوس ہو گیا۔ ہوٹل میں چار پانچ کتے تھے، اسید کتوں کے ساتھ کھیلنے لگا، ہر کتے کی تصاویر موبائل میں اتاریں، جنہیں وہ گھر اپنے بہن بھائیوں کو بھیجنا چاہتا تھا لیکن انٹرنیٹ کی سپیڈ نہ ہونے کے برابر تھی۔ شام کو اسید میرے پاس آ کر کہنے لگا، ’بابا یہاں ایک لڑکی ہے جس کا نام نردہ ہے، ۔ اس کے پاس بھی ایک کتا ہے، جس کا نام جوئے ہے‘ ۔
شام کو نردہ سے ملاقات ہوئی۔ نردہ کا تعلق لاہور سے تھا اور وہ ناروے میں کسی یونیورسٹی سے پڑھ رہی تھی۔ ان کی تحقیق کا موضوع رقص تھا، بڑی تگ و دو کے بعد اپنے اساتذہ کو کیلاشہ رقص پر تحقیق کے لئے آمادہ کیا تھا کیونکہ یونیورسٹی کی پالیسی تھی کہ طلبہ و طالبات اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر کسی بھی ملک کے رقص پر تحقیق کر سکتے ہیں۔ نردہ نے انہیں قائل کیا کہ پاکستان میں آباد یہ قدیم تہذیب اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے اور یہ کہ معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار اس تہذیب پر تحقیق بین الاقومی ضرورت ہے۔
نردہ رات کو اپنے کمرے میں جا رہی تھی تو ہمیں برآمدے میں بیٹھا پا کر ہمارے پاس ہی بیٹھ گئیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ کیلاشہ کمیونٹی کے متعلق یہ خیال کہ یہ لوگ سکندر اعظم کے ساتھ اس علاقے میں آئے تھے اور پھر یہی رہ گئے، اگر چہ درست نہیں لیکن ان کے یونانی ہونے کے قوی اشارے ان کی زبان میں موجود ہیں۔ یہ لوگ بھلے سکندر اعظم کے ساتھ نہ آئے ہوں لیکن یونانی تہذیب سے ان کے کوئی نہ کوئی تعلق ہونے کے امکانات موجود ہیں۔
نردہ نے کمال کے ڈرائنگز بنائے تھے جن کی مدد سے وہ کیلاشہ رقص میں جسم کے حرکات و سکنات کے پیچھے چھپے مطالب سمجھے کی کوشش کر رہی تھی۔ رقص کے آثار انسانی تاریخ میں نو ہزار سال پیچھے تک جاتے ہیں۔ رقص کے ذریعے اقوام کی بہت ساری چیزوں کے متعلق قیاس کیا جا سکتا ہے۔ نردہ بلاشبہ ایک متاثر کن شخصیت تھیں۔ ایک بچی جو اس دور دراز علاقے میں بغیر کسی خوف کے نہایت جانفشانی اور لگن کے ساتھ تحقیق کر رہی تھی۔ ان کی تحقیق شائع ہوگی تو امکانات کے نئے جہان ہویدا ہوں گے۔
وجاہت مسعود صاحب سے میری کبھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی لیکن جہاں پر کہیں کسی کو اچھا کام کرتے دیکھتا ہوں تو نہ جانے وجاہت صاحب یاد آئے ہیں۔ نردہ نے کہا کہ انہیں اپنی تحقیق میں بسا اوقات مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ میں نے انہیں وجاہت صاحب کا بتایا کہ تہذیبوں کا مطالعہ ان کا مشغلہ رہا ہے۔ وجاہت صاحب کے متعلق سن کر نردہ بہت خوش ہوئیں، اپنی نوٹ بک میں ان کا نام تحریر کیا اور بولیں کہ وجاہت صاحب سے رابطہ تو کر لوں لیکن نہ جانے وہ جواب بھی دیں گے کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ آپ رابطہ کر گزریں، آپ کو خوشگوار حیرت ہوگی۔ گلگت کے متعلق انہوں نے پوچھا تو بے دھڑک میں نے وقار احمد صاحب کا حوالہ دیا۔ خوبصورت لوگوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ ان سے ملے بغیر آپ اعتماد کے ساتھ ان کا حوالہ دے سکتے ہیں۔
غالباً 21 اگست کو کیلاشہ کمیونٹی کا ایک بڑا فیسٹیول ہے جسے اچال کہتے ہیں۔ اسی اچال کے سلسلے میں اگلی رات رٹ نٹ ہو رہا تھا۔ اگلے دن ہم صبح قریب ہی واقع کیلاشہ کمیونٹی کے گاؤن کراکل گئے۔ کیلاشہ کمیونٹی کے ساتھ وقت گزارا، رات کو انیژ نامی کیلاشہ گاؤں میں رٹ نٹ دیکھا۔ اچال اور رٹ نٹ اور کیلاشہ کے متعلق کچھ نہایت دلچسپ معلومات اکٹھی کی ہیں۔ ایک آدھ دن میں آپ کے ساتھ شریک کرتا ہوں۔
- کہاں سے آئے صدا؟ - 24/02/2023
- درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا - 02/10/2022
- جذباتیت پر مبنی پاپولسٹ پالیٹکس - 18/07/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).