ابھی نسل ہمارے ہاتھ میں ہے


اگست 2047، پاکستان کا 100 واں یوم آزادی، میں کمیونٹی گراؤنڈ میں کھڑا ہرے اور سفید رنگ کی نت نئی، جدید آرائشی اشیا کی سجاوٹ دیکھ رہا تھا تبھی کچھ نوجوانوں کا گروپ قریب سے گزرا، ”کاشان، بچوں یوم آزادی مبارک ’، یہ سبز اور سفید رنگ میں رنگ کر کہاں کی تیاری ہے؟‘ ،“ Happy independence Day uncle، آج تو ہم خوب تفریح کرنے والے ہیں، کیونکہ آج independenace day ہے نا انکل، you know independence day آزادی کا دن، کچھ بھی کرنے کی آزادی، کہیں بھی جانے کی آزادی، we love Azadi ”یہ کہہ کر تمام دوست آپس میں تالی مارتے ہوئے اپنی راہ چل دیے اور میں پر ہجوم ماحول، شورو غل، میوزک اور رنگ و بو کے طوفان کے درمیان نوجوان نسل کے ذہنوں میں آزادی کا مطلب و مفہوم کھوجتا رہ گیا۔

”علی! علی! سو گئے کیا؟“ کانوں میں بیوی کی آواز سے چونکا، چندھیائی آنکھوں سے دیوار پر لگے کلینڈر کو دیکھا جس نے آنکھیں مکمل کھولنے پر مجبور کر دیا، 14 اگست 2021، پاکستان کا 74 واں یوم آزادی، ”تو کیا نماز کے بعد پاکستان کی ترقی کی دعائیں کرتی نیند میں کھو گیا تھا، اور کیا یہ میرا خواب تھا، غفلت کا خواب؟“ اس غفلت کے خواب کے کبھی پورا نہ ہونے کی دعا کرتا گھر سے باہر نکل آیا۔

محلہ 14 اگست کی مناسبت سے ہرے اور سفید رنگ میں نہایا ہوا تھا، چھوٹے بڑے سب سبز و سفید رنگ زیب تن کیے آزادی کی خوشیوں میں گم تھے، گلی میں کھیلتے بچوں کے پاس کھڑا ہوا تو بچے اپنے خوبصورت ملبوسات بڑے شوق سے دکھانے لگے ”انکل یہ دیکھیں میری گھڑی، انکل میرا چشمہ اور یہ دیکھیں ہمارے کپڑے اچھے ہیں نا؟“ اور میں مختلف کارٹونز کی شکل سے سجی گھڑی، چشمہ اور کپڑوں کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ کیوں یہ بچے ان کارٹونز کے علاوہ آزادی کی جد و جہد کے ہیروز سے واقف نہیں، ہم کہاں غلطی کر رہے ہیں، اتنے میں سامنے والے گھر سے نکلتی بچی پاس آرکی ”السلام علیکم انکل، یہ دیکھیں میری نئی فراک، امی لائیں تھیں دبئی سے 14 اگست کے لئے، سب بہت تعریف کر رہے ہیں، امی کہتی ہے پاکستان میں کہاں ملتی ہیں ایسی چیزیں، اچھی ہے نا انکل؟“ ”اچھی تو بہت ہے، لیکن بیٹا کیا ہے جو پاکستان میں نہیں ملتا، کون سی نعمت نہیں ہے جو پاکستان میں۔“ میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ”میرے بنا سیلفی نہ لینا کی آواز لگاتی بچی اپنی دوستوں کے پاس چل دی اور میں اللہ کی نعمت پاکستان کا شکر ادا کرتے آگے بڑھ گیا۔

”کیسے ہو بیٹا دانش؟“ کیاری میں لگے پودوں کو پانی دیتے بچے سے پوچھا تو وہ خوشی خوشی بتانے لگا ”انکل یہ دیکھیں میں نے آج یوم آزادی پر پودا لگایا ہے اور یہ دیکھیں یہ پودا کتنا بڑا ہو گیا جو میں نے پچھلے سال لگایا تھا“ میں نے ایک نظر لمبی قطار میں بنی کیاری پر ڈالی جہاں ہرے بھرے پودوں کے بیچ کئی رنگ برنگے پھول مسکراتے ہوئے پاکستان کے روشن مستقبل کا منظر کشی کر رہے تھے، ”انکل دیکھئے گا میں اور میرے دوست نئے پودے لگا کر محلے کی ہر کیاری کو پھولوں سے بھر دیں گے، دیکھئے گا انکل جیت ہماری ہو گی“

” انشاء اللہ“ میں دانش کے عزم کو سراہتا، جشن آزادی پر چیزوں سے سجے اسٹال کی جانب بڑھا جہاں ایک بچہ دکاندار سے باجا خرید رہا تھا ”انکل مجھے بڑے والا باجا چاہیے سب سے بڑا والا وہ کتنے کا ہے؟“

”تم یہ باجا کیوں خریدنا چاہتے ہو بیٹا؟“

”انکل میں باجا بجا کر دور دور تک، چیخ چیخ کر اپنی آزادی کا جشن سب کو سنانا چاہتا ہوں، دیکھئے گا بہت مزہ آئے گا“

”بیٹا آزادی کا اعلان چیخ کر نہیں، اپنے عمل کی گونج سے کیا جاتا ہے، وہ عمل جو ہمارے آبا و اجداد کی قربانیوں کا ثبوت ہو“

”جی جی ضرور انکل آپ صحیح کہہ رہے، یہ دیکھیں میں نے کتنا بڑا باجا خریدا ہے“ بچہ یہ کہتا زور سے اپنا بجا بجاتا دوستوں میں جا ملا، اور میں نت نئی آرائشی اشیاء، غباروں، برقی آلات، روشنیوں سے جگمگ کرتے مصنوعی ہرے رنگ میں نہائے گراؤنڈ کو دیکھ کر ٹھہر گیا، جا بجا لہلہاتے جھنڈے اور اسی کے رنگ میں رنگے، جشن مناتے لڑکے لڑکیاں اور میوزک کا بے ہنگم شور ”نا جانے یہ نوجوان نسل کس آزادی کا جشن منا رہی ہے“ کندھے پر کسی کے ہاتھ کا دباؤ محسوس ہوا تو پتا لگا نجانے کب چچا امین برابر میں آ کھڑے ہوئے تھے، ”کیا دیکھ رہے ہو اور کس سوچ میں ہو بیٹا؟“

”چچا یہ نوجوان نسل کس آزادی کا جشن منا رہی ہے؟ ہماری روایات کیوں بدلنے لگی ہے؟ کیا ہم کچھ بھول گئے ہیں؟“

”بیٹا یہ لوگ شاید آزاد ملک کے با مقصد شہری کی ذمہ داریوں سے آزادی کا جشن منا رہے ہیں، باپ دادا کی پریشانیوں، قربانیوں اور جذبے کو فراموش کردینے سے آزادی کا مطلب اور مفہوم بھولنے لگتا ہے“

”کیا آپ کے بچے بھی جشن آزادی ایسے مناتے؟“

”ارے نہیں بیٹا میری ڈاکٹر بیٹی تو آج کے دن بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے ڈیوٹی پر ہے اور بیٹا وہ آزادی کی نعمت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت بڑے مقاصد پر نظریں جمائے ہوئے ہے، امتحانات کی تیاری کر ریا ہے، تم فکر نہ کرو بیٹا یہ نوجوان بھی سنبھلیں گے، قائد اعظم کو بھی ایسی ہی رکاوٹوں کا سامنا تھا لیکن ہم اس وقت بھی کامیاب ہوئے تھے آگے بھی جیت ہماری ہو گی، انشاء اللہ، آؤ گھر چلیں۔“

گھر میں قدم رکھتے ہی بیٹے کی آواز کانوں سے ٹکرائی ”ابو کہاں چلے گئے تھے میں کب سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں، یہ دیکھیں“

”بہت مبارک ہو بیٹا مجھے پورا یقین تھا کہ تم ضرور کامیاب ہوں گے،“ بیٹے کے ہاتھ میں کوئز مقابلے کی ٹرافی دیکھ کر میری خوشی دیدنی تھی،

”آپ کو پتا ہے ہمارے ٹیچر کہہ رہے تھے کہ اگلے سال ہماری ٹیم نیشنل کوئز مقابلے میں شرکت کرے گی“
”اس کے لئے تمھیں بہت محنت کرنا پڑے گی بیٹا“

”وہ تو ضروری ہے لیکن ابو آپ کی دعائیں اور دادا ابو کے سنائے آزادی کی جد و جہد اور قربانیوں سے بھرپور سچے واقعات میرے ذہن میں محفوظ ہیں جو مجھے کسی بھی مقابلے میں کامیاب کرنے میں بہت مدد دیتے ہیں اور مجھے کسی امتحان میں فیل نہیں ہونے دیں گے، دیکھئے گا اگلی بار بھی جیت ہماری ہو گی“ ، میرا بیٹا مستقبل کے خواب سجا رہا تھا اور میں اپنے ہاتھ میں تھاما اس کا ہاتھ دیکھ کر یہ سوچ رہا تھا کہ ابھی دیر نہیں ہوئی، ابھی نسل ہمارے ہاتھ میں ہے بس قربانیوں کی نافراموش اور طویل داستانوں کی یاددہانی شرط ہے یہ قوم ایک بار پھر جاگ اٹھے گی اور جیت ہماری ہی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments