ریاضت بے ثمر


ارے شاہ میر آپ کیوں رو رہے ہیں؟ وہ بھی یہاں ہسپتال میں اتنی رات گئے۔ یہ بستر پر پڑی میری ہم شکل عورت کون ہے؟ آپ مجھے بتاتے کیوں نہیں؟ بچے بھی نظر نہیں آ رہے۔ آپ سارہ کو سکول سے لینے گئے تھے ناں اور علی کو بھی ساتھ ہی اٹھا کر لے گئے تھے۔ کہاں ہیں دونوں بچے؟ آپ تو ایسے روئے جا رہے ہیں جیسے میری بات سن ہی نہ رہے ہوں۔ کچھ تو بولیں! میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔

اسی دوران کمرے کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر نے کہا آپ فی الحال گھر جا سکتے ہیں۔ میت ابھی ہسپتال میں ہی رکھنی ہو گی۔ جب تک میڈیکل بورڈ موت کی وجہ دریافت نہیں کر لیتا تب تک انگلینڈ کے قانون کے مطابق آپ کو میت نہیں دی جا سکتی۔

” لیکن ڈاکٹر صاحب میں اپنی بیوی کو ایسے کیسے چھوڑ کر جا سکتا ہوں؟“ شاہ میر کے یہ الفاظ نہ تھے گویا گرم پگھلتا ہو سیسہ تھا جو اس کے کانوں میں اتارا گیا تھا۔ وہ تڑپ کر بولی، ”آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ میں تو یہاں کھڑی ہوں۔“ جیسے ہی اس نے شوہر کے کندھے پر ہاتھ رکھنا چاہا تو وہ اسے تھام نہ سکی۔ اس نے بغور اپنے ہاتھوں کو دیکھا تو اسے کچھ کچھ سمجھ آنے لگی کہ اس کی روح جسم سے جدا ہو چکی ہے۔ اس لیے ہی تو شاہ میر اسے سن نہیں پا رہا تھا۔

ہائے میرے بچے! شاہ میر یہاں ہیں تو بچے کہاں ہیں؟ میرے معصوم چھوٹے بچے۔ وہ تیزی سے بچوں کی تلاش میں باہر بھاگی اور کاؤنٹر کے قریب نرسوں کے پاس صوفوں پر انھیں بے خبر سویا ہوا پایا۔ اس کی روح اپنے بچوں کو دیکھ کر بے تحاشا رو رہی تھی۔ اس کی عمر بھر کی پونجی، اس کا عشق، جینے کی امنگ، دعاؤں کا محور اس کا یہ چھوٹا سا خاندان ہی تو تھا۔ شوہر، چھ سالہ بیٹی اور ایک سال کا بیٹا۔ وہ وہیں ان کے پاس دو زانوں بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

کچھ وقت کے بعد شاہ میر جھکے سر کے ساتھ بوجھل انداز میں بچوں کے پاس آیا اور ایک ایک بازو پر، سوئے ہوئے بچوں کو اٹھا کر باہر گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ ندا یہ سارا منظر دیکھتے ہوئے خون کے آنسو رو رہی تھی۔ وہ بھی خاموشی سے ساتھ ہو لی۔ بس ایک ٹک اپنے شوہر اور بچوں کو دیکھے جاتی تھی اور غمگین ہوتی جاتی تھی۔ چڑیا سا تو دل تھا اس کا، کیا خبر تھی یہ دن بھی دیکھنا پڑے گا۔ ادھر شاہ میر اس اچانک افتاد پر کھل کر رو بھی نہ سکا تھا۔ وہ ندا کا ساتھ محسوس کر رہا تھا۔ بظاہر اس کا سارا دھیان راستے پر تھا، کبھی کبھی بیک ویو مرر سے بچوں پر بھی نظر ڈالتا۔ ندا اس سے بات کرنا چاہتی تھی لیکن خاموشی سے کبھی بچوں کو اور کبھی شوہر کو تکتی جاتی تھی۔

اچانک گاڑی رکی تو خیال آیا کہ گھر آ چکا ہے۔ شوہر نے پہلے جا کر گھر کا تالا کھولا اور پھر دونوں بچوں کو گود میں اٹھانے لگا جنہیں اس نے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر سلایا ہوا تھا۔ وہ بھی مغموم سی اس کے ساتھ ہی گھر میں داخل ہوئی۔ اسے معاملہ اب بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب ہوا کیسے؟ شاہ میر تو بچوں کو کمرے میں لے گیا لیکن وہ وہیں لاونج میں صوفے کے پاس اس جگہ آن گھڑی ہوئی جہاں اس کا لیپ ٹاپ کھلا رکھا تھا۔ جس کی کالی سکرین بتا رہی تھی کہ اس پر کام کرنے والے نے ابھی اپنا کام مکمل نہیں کیا تھا۔

”ارے میں ہی تو بیٹھی کلائنٹ سے آرڈر لے رہی تھی۔ ہم دونوں میاں بیوی نے کس قدر خون پسینہ ایک کر کے یہ کاروبار شروع کیا تھا۔ میں نے مصروفیت کی وجہ سے شاہ میر سے کہا تھا کہ جا کر سارہ کو سکول سے لے آئیں اور ساتھ میں بیٹے کو بھی لے جائیں۔ میں آپ کے آنے سے پہلے یہ سب کام نمٹا لوں گی اور کھانے کی ٹیبل بھی لگا رکھوں گی۔ پھر سب مل کر کھانا کھائیں گے۔“ اس کے ذہن میں سارا منظر گھومنے لگا۔

” اس کے بعد کیا ہوا تھا؟“ وہ سوچنے لگی۔ ”ہاں میرے سر میں ایک دم شدید درد اٹھا تھا اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا تھا۔“ اسے بس یہیں تک یاد آیا۔ پھر وہ نم آنکھوں کے ساتھ اپنے کمرے میں گئی جہاں شاہ میر بچوں کو اپنے بستر پر لٹا چکا تھا اور اب ان کے جوتے اتار رہا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر مدد کرنا چاہی لیکن پھر ایک دم رک گئی اور اشکوں کی جھڑی میں سے اپنی متاع حیات کو حسرت سے تکنے لگی۔

شاہ میر وہیں بچوں کے ساتھ لیٹ گیا اور بیٹے کو سینے سے لگاتے ہوئے ان کی زندگی سے بھرپور ماں کی رفاقت میں گزرے ہوئے وقت کو یاد کرنے لگا۔ جب اس کی شادی ایک حسین، سرو قد اور ہرنی جیسی حسین اور مسکراتی آنکھوں والی ندا سے ہوئی تو وہ خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین شخص تصور کرتا تھا۔ وہ خود جس قدر کم گو تھا، ندا اتنی ہی باتونی اور معصوم لڑکی تھی۔ اس کا دل اس قدر صاف و شفاف تھا کہ کوئی بھی چہرے پر معصوم مسکراہٹ سجائے نظر آنے والی اس لڑکی کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔

وہ خود کو بہت سجا سنوار کر رکھتی تاکہ وہ اپنے شوہر کے دل کی ملکہ بنی رہے۔ جب شاہ میر نے انگلینڈ میں سیٹ ہونے کا فیصلہ کیا تو وہ بہت تڑپی کہ اکیلے نہیں جاو۔ اگر جانا ہے تو مجھے اور سارہ کو بھی ساتھ لے جاو۔ شاہ میر نے کہا کہ اجنبی ملک میں پہلے مجھے جانے دو۔ جگہ کا انتظام کرتے ہی تم دونوں کو بلا لوں گا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی دکھی دل کے ساتھ اس نے شاہ میر کی بات مان لی۔ اسے قسمت آزمانے کے لیے اکیلا جانے دیا۔

اس کے جانے کے بعد اس نے خود کو مصروف رکھنے کے لیے نوکری کر لی۔ صبح سویرے بچی کو ضروری ساز و سامان کے ساتھ اپنی امی کے گھر چھوڑتی اور نو سے پانچ کام کے بعد شام کو بیٹی کو ساتھ لے کر سسرال چلی جاتی۔ اس قدر مصروف وقت میں بھی وہ روزانہ صبح بخیر کے میسج کے ساتھ اپنی تازہ سیلفی شاہ میر کو بھیجنا نہ بھولتی۔ اگر کسی دن سیلفی بھیجنے میں دیر ہو جاتی تو شوہر کا میسج ملتا کہ سب خیریت ہے ناں؟ آج تمہاری تصویر نہیں ملی۔

ندا میسج ملتے ہی مسکراتے ہوئے تصویر بنا کر بھیج دیتی۔ بظاہر تو یہ ایک بے ضرر سی معصوم حرکت معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقت میں وہ بہت سیانی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ صبح سویرے اپنی تصویر بھیج کر شوہر کی نظروں کے سامنے رہنا چاہتی ہوں۔ گوریوں کے دیس میں اگر اس کی نظر کسی پر پڑ بھی جائے تو میری تصویر اسے میری یاد سے بیگانہ نہ ہونے دے۔

پھر جب شوہر کی طرف سے بلانے کا سگنل ملا تو اس نے چند دنوں میں ہی بھاگم بھاگ ویزا حاصل کیا، تیاری مکمل کی اور سارہ کے سنگ اپنے پیا سے جا ملی۔ وہاں انھوں نے مل کر بزنس کو آگے بڑھایا۔ رب نے انھیں بیٹے کی نعمت سے نوازا تو گویا فیملی مکمل ہو گئی۔ اب بھی وہ گھر، فیملی اور بزنس کے ساتھ ساتھ اپنی فٹنس کا خیال رکھنا نہ بھولتی، کیونکہ اسے تو سب سے خوبصورت دکھنا تھا۔ اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے، شوہر کے ساتھ مل کر بہت کام کرنا تھا۔ زندگی میں اپنوں کے ساتھ کو بھرپور طریقے سے محسوس کرتے ہوئے اپنے حصے کی خوشیاں سمیٹنی تھیں۔

شاہ میر پریشان تھا کہ دکھ کی اتنی بڑی خبر ندا کے ماں باپ تک کیسے پہنچائے۔ پھر روتے ہوئے اس نے اپنے اور ندا کے گھر والوں کو یہ خبر دے ہی ڈالی۔ ندا فون پر اس کی باتوں سے دوسری جانب خبر پانے والوں کے ردعمل کو محسوس کر رہی تھی اور جیسے ہی اپنے ابو کی آواز اس کے کانوں میں پڑی جو کہ یقین ہی نہیں کر پا رہے تھے، ان کی آواز اونچی ہوتی جا رہی تھی اور ندا کو محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ایک بار پھر سے اس کی جان نکل رہی ہے۔

آج، موت کے پندرہ دن بعد اپنے وطن میں سب اپنوں نے اسے آخری مرتبہ دیکھا اور پھر وہ پھول سی لڑکی منوں مٹی تلے پھولوں کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سو گئی۔ وہ خواب جو اس نے اور شاہ میر نے ساتھ دیکھے تھے، اب شاہ میر کے دل کو بوجھل کر رہے تھے کہ وہ تو اپنے حصے کی ریاضت کر کے چلی گئی۔ ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے اب اسے تنہا اک طویل سفر کرنا تھا۔ مگر اک خلش اسے ستا رہی تھی کہ وہ کس قدر لگن کے ساتھ ان تھک محنت کرتی ہوئی چلی گئی۔ خوابوں کی تعبیر پر اس کا بھی تو حق تھا۔

حنا ہمدانی
Latest posts by حنا ہمدانی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments