ٹوکیو اولمپکس اور سپورٹس مین وزیراعظم


ٹوکیو میں امسال کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلے موسم گرما اولمپکس 2020 کے نام سے، ایک سال تاخیر سے 23 جولائی سے 8 اگست 2021 منعقد ہوئے۔ اس دفعہ جن کھیلوں نے شہرت حاصل کی ان میں جمناسٹک، ٹریک اینڈ فیلڈ یعنی جیولن تھرو، تیراکی، فٹبال، ہینڈ بال، ویٹ لفٹنگ، ٹینس اور مختلف فاصلوں کی دوڑیں شامل تھیں۔

، اولمپکس کھیلوں کے مقابلوں کے نتائج کے مطابق سونے، چاندی اور کانسی کے حاصل شدہ کل تمغوں کی تعداد کے اعتبار سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ اول نمبر پر رہا جس نے 113 تمغے اٹھا کر پہلی پوزیشن حاصل کی۔ جب کہ چین نے 88 تمغے اٹھا کر دوسری اور روس نے 71 تمغے اٹھا کر تیسری پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد بالترتیب برطانیہ نے 65، جاپان نے 58، آسٹریلیا نے 46، نیدر لینڈ نے 40، فرانس نے 37، جرمنی نے 36، اٹلی نے 33 اور کینیڈا 24 تمغے اٹھا کر فخر سے اپنے اپنے دیسوں کو لوٹے۔ ان کے علاوہ بھی قوموں کی ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے مختلف کھیلوں میں ایک سے لے کر تئیس تک تمغے جیتے۔

اس دفعہ پاکستانی کھلاڑیوں نے چھ مختلف کھیلوں میں حصہ لیا تھا۔ افسوس صد افسوس کہ پاکستان ان مقابلوں میں ایک تمغہ بھی حاصل نہیں کر سکا۔ حالانکہ پاکستان میں کھیلی جانے والی تمام کھیلیں اولمپکس میں شامل ہیں : مثلاً بیڈمنٹن، ہینڈ بال، فٹ بال کراٹے، ہاکی، تیرا کی، سکواش، ٹیبل ٹینس اور مختلف فاصلوں کی دوڑیں یعنی اتھلیٹکس وغیرہ وغیرہ۔

ایک وقت تھا کہ پاکستانی کھلاڑی اتنے زیادہ تمغے نہ سہی مگر کم از کم اولمپکس میں اپنی موجودگی کا احساس ضرور دلاتے تھے۔ اگرچہ پاکستان اولمپکس میں آج تک کل 10 تمغے جیت سکا ہے۔ مگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو 1956 اور 1992 کے درمیان پاکستان کی ہاکی ٹیم نے تواتر سے 9 میچوں میں 8 تمغے جیتے تھے۔ ان میں 2 سونے اور 2 کانسی کے تمغے شامل تھے۔

1960 کے روم اولمپکس میں پاکستان کے حصے میں 2 کانسی کے تمغے آئے تھے۔

1988 کے سیؤل ۪ جنوبی کوریا کے اولمپکس میں پاکستان کو کشتی اور باکسنگ میں ایک جمع ایک، 2 تمغے ملے۔ اور 2010 کے کینیڈا کے شہر وینکوور میں منعقدہ اولمپکس میں محمد عباس پاکستان کے واحد اتھلیٹ تھے جنھوں نے الپائن سکینگ کیٹیگری کے لئے کوالیفائی کیا تھا۔

حالیہ ٹوکیو اولمپکس میں جیولن تھرو کے مقابلوں میں پاکستانی کھلاڑی ارشد ندیم جب فائنل میں پہنچا تو پاکستانی میڈیا کو یاد آیا کہ پاکستان بھی ٹوکیو اولمپکس میں حصہ لے رہا ہے۔ اور ہمارے ٹی وی چینل بڑھ چڑھ کر ندیم کو کوریج دینے لگے۔ مگر بد قسمتی سے وہ میڈل بھی بھارت لے گیا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت ویٹ لفٹنگ میں بھی رہی۔

دلچسپ عجیب اور کسی حد تک تکلیف دہ امر ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم بذات خود ایک کھلاڑی ہیں جو پاکستان کو کرکٹ میں ورلڈ کپ دلوا چکے ہیں۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد کھیلوں کے حوالے سے ان میں وہ والی گرمجوشی اور سنجیدگی نظر نہیں آتی جو 2018 کے انتخابات سے قبل تھی۔ شاید اسی لئے انھوں نے پاکستان سپورٹس بورڈ کی سربراہ اتحادی جماعت کی ایک ایسی خاتون کو سیاسی مفاد کے لئے کھیلوں کا اضافی چارج دے رکھا ہے۔ ورنہ فہمیدہ مرزا بین الصوبائی روابط کی وفاقی وزیر ہیں۔ جن کا دور دور تک کھیلوں سے کوئی علاقہ نہ ہے۔

پھر کرونا کا بہانہ بنایا جاتا ہے۔ جب کہ دوڑ لگانے کی مشق، نیزہ بازی کی مشق اور ویٹ لفٹنگ کی مشق کے لئے کرونا ایس او پی آڑے نہیں آتی۔ اور جس ملک نے سب سے زیادہ تمغے حاصل کیے شاید وہاں پر کرونا سب سے زیادہ پھیلا تھا۔ پھر کرونا کی وبا تو ایک سال قبل کی بات ہے۔ اس سے قبل اولمپکس کی تیاری کیوں نہ کی گئی؟

ایسا ہر گز نہیں کے ہمارے نوجوان کھیلوں جیسی صحت مندانہ سرگرمی کرنا نہیں چاہتے۔ اور نہ ٹیلنٹ کی کمی ہے۔ یہ امر باعث دلچسپی ہے کہ بلوچستان میں باکسنگ کی نمبر ون کھلاڑی ملائکہ زاہد نامی تیرہ سالہ بچی ہے جو نیشنل کڈ پلیئر کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ارشد ندیم بغیر کسی حکومتی سر پرستی کے ایک سکول کے گراؤنڈ میں اپنی محنت سے مشق کر کر اولمپکس کے فائنل میں کس طرح پہنچا؟ یہ ہمارے نوجوانوں کی دلچسپی اور ٹیلنٹ کا آئینہ دار ہے۔

پاکستان میں کھیلوں کی سہولیات کی بھی کمی نہیں ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں اس وقت 45 کرکٹ، ہاکی اور فٹ بال کے اسٹیڈیم موجود ہیں جو کھلاڑیوں کی راہ تکتے رہتے ہیں۔ جن میں تماشائیوں کی گنجائش ایک 1000 سے لے کر 30000 تک ہے۔ پاکستان میں صرف کرکٹ کے 29 سٹیڈیم ہیں۔ جن میں تماش بینوں کی گنجائش 5000 سے 50000 تک ہے اس کے علاوہ جہاں جہاں فوجی چھاؤنیاں موجود ہیں وہاں پر ہاکی، تیرا کی، شوٹنگ، تیر اندازی، فٹبال، بیڈمنٹن، ہینڈ بال اور دوڑ لگانے کے میدان وافر تعداد میں موجود ہیں۔

ان اعداد و و شمار میں گورنمنٹ کالجز، ملٹری کالج اور کیڈٹ کالج شامل کریں تو تعداد ہزاروں میں جاتی ہے۔ گورنمنٹ سکول اور آرمی پبلک اسکول اس کے علاوہ ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اس طرف توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ بادی النظر میں عوام کو ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند رکھنا شاید حکومتی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ صحت مند

کھیلیں تندرست جسم اور روشن اذہان کے ساتھ ساتھ سپورٹس مین سپرٹ پیدا کرتی ہیں۔ کھیل کود، لٹریری آرٹس اور تھیٹر نوجوانوں کے اذہان سے شدت پسندی ختم کر کے ان کو پر امن شہری اور انسان دوست بناتے ہیں۔

جسمانی ورزش، تخلیقی سر گرمیاں اور کھیلوں کے مقابلوں کی عدم دستیابی سے نئی نسل سوشل میڈیا، منشیات اور سماجی جرائم کی طرف مائل ہو جاتی ہے کیونکہ نوجوانوں میں بے پناہ توانائی ہوتی ہے اس کو درست سمت نہ ملے تو وہ خود بخود منفی سمت میں چل پڑتی ہے۔ پھر خدا نخواستہ نور مقدم جیسے واقعات ہوتے ہیں۔

اور پاکستان عورتوں کی حفاظت کے اعتبار سے دنیا کا چھٹا خطرناک ترین ملک بن کر ابھرتا ہے۔ پاکستان کو کھیلوں کی زبوں حالی سے نکلنے کے لیے یہ چند تجاویز::

تحصیل، ضلع اور صوبائی سطح پر کھیلوں کے مقابلے منعقد کیے جائیں۔
اسکول کالج یونیورسٹی کی سطح پر کھلاڑی منتخب کر کے قومی سطح پر آئیں۔

جب کم از کم 10 کھیلوں کی ٹیمیں وجود میں آ جائیں تو ان کی سخت ترین مشقیں کروانے کے لئے قریبی فوجی یونٹوں میں بھیجا جائے۔

اگر وزیراعظم کھیل کی طرف توجہ دیں رہنمائی کریں اور وسائل مہیا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اگلے اولمپکس میں کم از کم دو یا تین درجن تمغے نہ جیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments