طالبان کا غزنی پر بھی کنٹرول کا دعویٰ، عمران خان کا کہنا ہے کہ طالبان اشرف غنی حکومت سے مذاکرات پر آمادہ نہیں


طالبان

طالبان اور سرکاری ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان جنگجوؤں نے صوبہ غزنی کے صدر مقام پر قبضہ کر لیا ہے جس کے بعد یہ ایک ہفتے کے دورانیے میں طالبان کے قبضے میں آنے والا دسواں صوبائی دارالحکومت بن گیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صوبائی کونسل کے سربراہ ناصر احمد فقیری نے بتایا ہے کہ کابل سے قندھار جانے والی سڑک پر واقع غزنی کے گورنر ہاؤس، پولیس ہیڈ کوارٹرز اور جیل پر اس وقت طالبان کا قبضہ ہے۔ تاہم مرکزی افغان حکومت نے اس معاملے پر فی الحال کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔

ناصر احمد فقیری نے اے ایف پی کو بتایا کہ اگرچہ شہر کے مختلف علاقوں میں لڑائی ابھی بھی جاری ہے تاہم غزنی کا زیادہ تر حصہ طالبان کے زیر اثر آ چکا ہے۔

بی بی سی پشتو کے مطابق طالبان ترجمان قاری یوسف احمدی نے غزنی کے گورنر ہاؤس، پولیس ہیڈکوارٹر کے علاوہ نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی پر کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

غزنی سے موصول ہونے والی تصاویر میں طالبان کو اہم سرکاری عمارتوں کے سامنے کھڑے اور انتظام و انصرام سنبھالتے دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ گذشتہ ایک ہفتے میں طالبان کے قبضے میں آنے والا دسواں صوبائی دارالحکومت ہے اور اس کا کنٹرول کھونے کے بعد افغان فوج کی دارالحکومت کابل سے شورش زدہ جنوبی علاقوں تک تازہ دستے بھیجنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔

یاد رہے کہ طالبان سرِ پُل، سمنگان، قندوز اور جوزجان کے دارالحکومتوں کے ساتھ ساتھ صوبہ بلخ کے دارالحکومت مزارِ شریف کے نواحی علاقوں پر بھی قابض ہو چکے ہیں۔

افغانستان کا نقشہ

جمعرات کو طالبان نے دعویٰ کیا کہ ان کے جنگجو صوبہ بادغیس کے دارالحکومت قلعہ نو میں بھی داخل ہوئے ہیں اور شہر کی کئی چوکیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔

دوسری جانب قندھار اور لشکرگاہ میں، جن پر طالبان نے پہلے ہی قبضہ کرنے کا دعوی کر رکھا ہے، طالبان اور افغان فوج کے درمیان جھڑپوں میں شدت آ گئی ہے۔

طالبان کی جانب سے ایک اور بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صوبہ ہلمند کے صدر مقام لشکرگاہ میں بھی اُن کے جنگجووں نے پولیس ہیڈکوارٹر پر کنٹرول حاصل کر لی ہے۔

اس سے پہلے اُنھوں نے قندھار شہر کے مرکزی جیل پر بھی کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ سوشل میڈیا پر کئی ایسی ویڈیوز بھی شئیر کی جا چکی ہیں جس میں قیدیوں کو جیل سے فرار ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

افغانستان کے چیف آف سٹاف تبدیل، ملک کے مختلف حصوں میں طالبان کی پیش قدمی

طالبان کے زیر قبضہ علاقوں کی جیلوں سے قیدی کیوں آزاد کر دیے جاتے ہیں؟

افغان طالبان کی موجودہ حکمت عملی ماضی سے کتنی مختلف ہے؟

غزنی پر طالبان کے قبضے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ ملک کے شمالی حصے اب تقریباً افغان حکومت کے ہاتھوں سے نکل گئے ہیں۔ واضح رہے کہ 1990 کی دہائی میں جب طالبان کی افغانستان میں حکومت تھی، اس وقت بھی وہ شمالی افغانستان پر پوری طرح قابض نہیں تھے۔

تاہم حکام کے مطابق افغان افواج مقامی ملیشا کے ساتھ مل کر طالبان کی جارحانہ پیش رفت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

غزنی

غزنی کے پولیس ہیڈکوراٹر کے سامنے طالبان نظر آ رہے ہیں

امریکی انٹیلیجنس کی پیش گوئی: طالبان 30 دن میں کابل میں ہوں گے

طالبان کی پیش قدمی کی رفتار کو دیکھتے ہوئے امریکی انٹیلیجنس کا ماننا ہے کہ اگر ان کے جنگجو اسی رفتار سے آگے بڑھتے رہے تو وہ 30 دن تک کابل کا محاصرہ کر لیں گے اور شاید 90 دن میں اسے فتح کرنے میں بھی کامیاب ہو جائیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے ایک امریکی دفاعی اہلکار نے کہا کہ اگرچہ یہ صورتحال ناگزیر نہیں اور افغانستان کی فوج طالبان کا ڈٹ کر مقابلہ کریں تو ایسا ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔

اس وقت کابل میں چاروں طرف سے پناہ گزینوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔

پناہ گزین

یہ سب لوگ ایسے علاقوں سے نقل مکانی کر کے آئے ہیں جہاں یا تو شدید لڑائی جاری ہے یا پھر وہ علاقہ طالبان کے قبضے میں آ چکے ہیں۔

امریکی ذرائع کا کہنا تھا کہ اس ہجوم میں خودکش بمباروں کی موجودگی کے خدشات ہیں اور ڈر ہے کہ اگر کوئی بمبار سفارتی کوارٹر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ملک میں بچی کھچی بین الاقوامی کمیونٹی بھی کابل چھوڑنے پر مجبور ہو جائے گی۔

طالبان اشرف غنی حکومت سے مذاکرات پر آمادہ نہیں

عمران اور غنی

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ طالبان افغان صدر اشرف غنی سے مذاکرات کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات رُک گئے ہیں تاہم امریکہ اب پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے انھیں امن معاہدے پر آمادہ کرے۔

بدھ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جب طالبان قیادت کا وفد اسلام آباد آیا تھا تو پاکستان نے ان پر افغان حکومت کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے زور دیا تھا۔

تاہم وزیراعظم کے بقول طالبان نے کہا کہ جب تک صدر غنی اقتدار میں ہیں وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

یاد رہے کہ قطر میں طالبان کے نمائندے محمد عباس ستانکزئی نے بھی جنوری کے آخر میں کہا تھا کہ اگر اشرف غنی اقتدار چھوڑتے ہیں تو وہ نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔

صدر اشرف غنی نے خود اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ اقتدار نہیں چھوڑیں گے تاہم ان کے مطابق وہ قبل از وقت انتخابات کے لیے تیار ہیں۔

عمران خان کا یہ تبصرہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ، روس، چین اور پاکستان کے نمائندے تاشقند میں افغانستان کے بحران کے خاتمے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔

افغان حکومت اور طالبان کے وفود بھی اجلاس میں شرکت کر رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32286 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp