وہی کارواں وہی راستے


طوفانی رات تھی اور منظر بہت ہیبت ناک تھا۔ بادلوں کی گھن گرج اور کڑکتی بجلیوں کے ساتھ شدید تیز بارش کا شور تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ آسمان کے سب دریچے کھل گئے ہیں اور پانی آبشاروں کی طرح گر رہا ہے۔ جنگل کے تمام جانور سہم کر اپنی اپنی پناہ گاہوں میں چھپ گئے تھے۔ اس تاریک رات میں ایک بھٹکا ہوا توتا اپنی جان بچانے کی سعی کرتے ہوئے ایک گھنے برگد کی ٹہنیوں میں پناہ ڈھونڈ رہا تھا۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کے قریب کوئی اور بھی ہے۔ وہ شاخ پر کھسک کر تھوڑا آگے بڑھا عین اسی وقت بجلی چمکی اور اس نے دیکھا کہ اس کے بالکل قریب ایک مینا بیٹھی ہے۔

”اف! تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔ میں سمجھی کوئی خطرناک جانور میری طرف بڑھ رہا ہے۔“ میں نے کانپتی آواز میں کہا۔

”اس طوفان میں تو خطرناک جانور بھی اپنی جان بچانے کی فکر میں ہوں گے۔ تمہارے اندیشے بے بنیاد ہیں پیاری مینا۔“ توتے نے خوشگوار انداز اختیار کرتے ہوئے ماحول کی ہیبت ناکی کم کرنے کی کوشش کی۔

”بہت شکریہ، تمہاری آواز سن کر کچھ ڈھارس بندھی، مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔ مینا نے چونچ کھول کر ایک گہری سانس لی۔

”فکر مت کرو، یہ کالی رات ختم ہو جائے گی اور روشن دن طلوع ہوگا، ہم پھر اپنے پیاروں کے درمیان خوش و خرم ہوں گے۔“ توتا بولا۔

مینا نے سر ہلا دیا۔ وہ بارش کے رکنے کا انتظار کرنے لگے لیکن بارش اسی زور و شور سے جاری تھی، اس کے ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہ آتا تھا۔ تب مینا نے توتے سے کہا کہ کوئی کہانی سناؤ تاکہ خوف کی کیفیت کچھ کم ہو اور رات کٹے۔ توتے نے سر ہلایا۔

”اگر یہ بات ہے تو میں ایک کہانی سناتا ہوں جو میں اپنے بزرگوں سے سنتا آیا ہوں۔“
”ہاں ہاں سناؤ، میں ہمہ تن گوش ہوں۔“ مینا بولی تب توتا یوں گویا ہوا۔

سنو یہ انسانوں کے ایک خاندان کی کہانی ہے۔ ایک شخص تھا جس کی ایک بیوی اور چھ بچے تھے۔ ایک بیٹی اور پانچ بیٹے۔ وہ ایک بستی میں سکون سے زندگی بسر کر رہے تھے۔ پھر بستی میں پھوٹ پڑ گئی۔ پر امن بستی میں خون ریزی کے واقعات ہونے لگے۔ بھائی بھائی کا دشمن بن گیا۔ اس خاندان کے لئے بھی جینا دوبھر ہو گیا۔ تب ایک دن باپ نے اپنے خاندان کو اپنے گھر میں اکٹھا کیا۔ اس اکٹھ میں باپ کے دو بھائی اور ان کی اولادیں بھی شامل تھیں۔ باپ نے کہا۔

”سنو مرے عزیزو! اب ہمارے لئے اس بستی میں رہنا ممکن نہیں رہا۔ کیوں کہ اس بستی میں بے دین لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور اب ایک دوسرے دین کے لوگ بھی یہاں آ بسے ہیں۔ اگر ہم یہیں رہے تو تو شاید ہم اپنے دین سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں یا پھر مارے جائیں۔“

”بھائی جان آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن ہمارے پاس اور چارہ ہی کیا ہے؟ اس کے بستی کے سوا ہم کسی علاقے کو جانتے ہی نہیں ہیں۔“ منجھلے بھائی نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

”بھائی ہمارے پاس ایک حل ہے۔ ہماری بستی ایک بہت وسیع و عریض جنگل کے کنارے ہے لیکن مجھے معلوم ہے کہ اس جنگل کے پار ایک بہت خوب صورت علاقہ ہے۔ وہاں کی مٹی سونا اگلتی ہے۔ وہاں کے پہاڑ ہیروں سے بھرے ہیں اور وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔“

”بھائی ہو سکتا ہے کہ آپ کی معلومات درست ہوں لیکن غلط بھی ہو سکتی ہیں۔ ہم میں سے کوئی کبھی اس جنگل کے پار نہیں گیا۔ ہمیں کیا خبر کہ ہمیں کتنا سفر کرنا ہو گا اور پھر جنگل کا سفر بہت خطرناک ہو گا۔ ہمارے پاس بیل گاڑیاں بھی ہیں اور گدھے بھی لیکن نہ جانے جنگل کے خطرناک درندوں کا ہم مقابلہ کر پائیں گے یا نہیں۔“ چھوٹے بھائی نے پریشانی ظاہر کی۔

”میری بات پر یقین رکھو، واقعی وہ بہت خوب صورت سر زمین ہے ہم وہاں اپنی مرضی سے خوشحال زندگی گزاریں گے۔“ باپ نے زور دے کر کہا۔

”لیکن یہاں ہمارے کھیت ہیں، جانور ہیں، ہم کیسے جا سکتے ہیں؟“ منجھلے بھائی کو اب بھی اعتراض تھا۔

”ٹھیک ہے اگر کوئی یہاں رہنا چاہتا ہے تو رہ جائے میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کل یہاں سے نکل جاؤں گا۔“ باپ نے حتمی فیصلہ سنایا۔ اس کے بعد کسی میں کوئی دلیل دینے کی ہمت نہیں تھی مگر چند چہروں پر ناگواری کے تاثرات تھے۔

دن طلوع ہوا تو بستی میں طوفان آ گیا۔ ایسے کالے بادل تھے کہ دن پر رات کا گماں ہوتا تھا۔ شدید بارش تھی، بجلیاں گرتی تھیں۔ سیلاب کے ریلے تھے۔ ایسے میں بستی کے شر پسند لوگوں نے لوٹ مار شروع کر دی۔ اس کے بعد قتل و غارت گری شروع ہو گئی۔ باپ نے اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لیا مگر باہر حالات بہت خراب تھے۔ باپ نے کچھ گدھوں اور بیل گاڑی کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ انہوں نے رسیوں سے گدھوں کو بھی بیل گاڑی سے باندھا اور روانہ ہوئے مگر تھوڑی دیر بعد ہی دو خونخوار جنگجوؤں نے ان پر حملہ کر دیا۔

بیٹوں نے بیل گاڑی سے چھلانگ لگائی اور ان سے گتھم گتھا ہو گئے۔ دونوں حملہ آور ان کی بہن کو اغوا کرنا چاہتے تھے۔ ایک نے خنجر سے وار کیا تو ان خنجر ان کی بہن کی کمر میں پیوست ہو گیا۔ اس کی زور دار چیخ بلند ہوئی تو پانچوں بھائی حملہ آوروں پر پل پڑے۔ دونوں حملہ آور زخمی ہو کر بھاگ نکلے۔ وہ ان کا پیچھا کرنے چاہتے تھے لیکن زخمی بہن کی چیخوں نے روک لیا۔

”کیا ہوا بہن؟“ ایک بھائی نے چیخ کر پوچھا۔

”بھائی میری ٹانگیں حرکت نہیں کر رہی ہیں۔“ بہن رو رہی تھی۔ تب ان پر انکشاف ہوا کہ خنجر کے وار سے ان کی بہن کا آدھا دھڑ مفلوج ہو چکا ہے۔ بہرحال فوری طور پر ادھر سے نکلنا ضروری تھا، کسی نہ کسی طرح وہ بستی سے نکل آئے۔ بستی پیچھے رہ گئی اور جنگل کا سفر شروع ہوا۔ خوشی کی بات یہ تھی کہ باپ کے بھائی اور ان کی اولادیں بھی ان سے آ ملی تھیں۔ اب یہ قافلہ سفر پر روانہ ہوا۔ جیسے جیسے وہ جنگل میں آگے بڑھتے چلے گئے بارش کا زور بھی ٹوٹنے لگا۔ پھر بارش تھم گئی۔ وہ کافی دور نکل آئے تھے اور تھک بھی گئے تھے لہٰذا پڑاؤ کیا۔

یوں بھی وہ رک کر جائزہ لینا چاہتے تھے کہ کیا کیا ساتھ لانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور کیا کیا پیچھے رہ گیا ہے۔ جب سب اکٹھے بیٹھے تو پتا چلا کہ چند جانور، تھوڑے سے زیورات اور کھانے پینے کے محدود سامان کے سوا ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ تھی کہ انہوں کے اپنے کئی پیاروں کو کھو دیا تھا۔ باپ کے دونوں بھائیوں کی بیویاں بھی ماری گئی تھیں۔ باپ کو اپنی بیٹی کے آدھے دھڑ کی فکر بھی کھائے جاتی تھی لیکن فوری طور پر کیا ہو سکتا تھا۔ کچھ دیر آنسو بہانے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ جو ہوا سو ہوا اب پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے۔ چناں سفر دوبارہ شروع ہوا۔ رات کو ایک محفوظ جگہ کا انتخاب کیا گیا۔

”بھائی صاحب ہم سوئیں گے کہاں؟“ منجھلے بھائی نے فکر انگیز انداز میں پوچھا۔

”فکر مت کرو، میں نے سفر کی تیاری پہلے سے کر لی تھی۔ ان گدھوں پر موجود سامان میں خیمے بھی ہیں۔ جنگلی جانوروں سے خود کو بچانے کے لیے میں نے چند کلہاڑیاں، خنجر اور چاقو بھی رکھے ہیں۔ تیر اور کمان بھی ہیں۔ پہلے ہم خیمے لگائیں گے اور خشک شاخیں کاٹ کر آگ کا الاؤ جلائیں گے تاکہ جنگلی جانور ہمارے قریب نہ آئیں۔“ باپ نے مسکرا کر کہا۔

خاندان کے سب لوگ باپ کی حکمت پر بہت خوش ہوئے اور فوراً کام پر لگ گئے۔ جب الاؤ روشن ہوا تو وہ سب اس کے گرد بیٹھ گئے اور بستی سے جو کھانا اپنے ساتھ لائے تھے نکال کر کھانے لگے۔ کھانے کے بعد ماضی کی تلخیوں اور مستقبل کے حسین خوابوں کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔

”بھائی صاحب! ہم اس بستی سے نکل آئے۔ سفر بھی شروع ہو گیا لیکن ہمارے پاس سامان کم ہے اور کھانا تو آج ہی ختم ہو گیا۔ کل ہم کیا کریں گے کیا کھائیں گے اور کیا پئیں گے۔“ چھوٹے بھائی نے کہا۔

”میرے عزیزو! میں بہت سوچ سمجھ کر اس سفر پر نکلا ہوں۔ میں نے ہر پہلو سے تیاری کی ہے۔ کل ہم سفر کے دوران شکار بھی کریں گے۔ اس جنگل میں ہرن بھی ہیں اور نیل گائے بھی۔ ہو سکتا ہے ناشتے میں آپ کو ہرن کا مزے دار بھنا ہوا گوشت ملے۔“ باپ نے کہا۔

”واہ! میرے منہ میں تو ابھی سے پانی آ رہا ہے“ چھوٹے بھائی نے کہا۔

”بھائی صاحب! ناشتا تو تب کریں گے ناں جب زندہ بچیں گے۔ اس جنگل میں درندے بھی ہیں۔ ایسا نہ ہو ہم رات کو سوئیں یہاں خیمے میں اور صبح آنکھ کھلے کسی درندے کے پیٹ میں۔“ منجھلے بھائی نے کہا۔

”اس کا حل بھی ہے۔ ہم سب کے سب نہیں سوئیں گے۔ ہم میں سے کچھ رات کو پہرہ دیں دیں گے۔“ باپ نے مسکرا کر کہا۔

”بہت خوب۔ آج رات کون پہرہ دے گا؟“
”ہم دیں گے۔“ منجھلے بھائی کے دونوں بیٹوں نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”ہم بھی آپ کا ساتھ دیں گے۔“ چھوٹے بھائی کے دونوں بیٹوں نے بھی ہاتھ کھڑے کیے۔ ”
”ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔“ باپ کے پانچوں بیٹوں نے کہا۔

”سب لوگ پہرہ دیں گے تو سوئے گا کون؟ آپ رہنے دیں ہم چار بہت ہیں۔ بلکہ ایسا کرتے ہیں کہ ہم رات کی ڈیوٹی سنبھال لیتے ہیں آپ چاروں دن کی ڈیوٹی سنبھال لیں۔ خوراک کا انتظام کرنا آپ کے ذمے رہا۔ ہم چاروں محافظ بن جاتے ہیں۔“

”یہ ٹھیک رہے گا۔“ باپ نے اتفاق کیا۔ اس طرح یہ معاملہ طے پایا اور پہلی رات گزری۔ دوسری صبح طے شدہ پلان کے مطابق پانچوں بھائی شکار پر نکلے۔ بھنے ہوئے ہرن کے ناشتے کے بعد وہ ایک بار پھر سفر پر روانہ ہوئے۔ باپ کے پاس ہر مسئلے کا حل تھا۔ باپ نے ان کو بتایا کہ اس جنگل میں سمت کا حساب کیسے رکھنا ہے تا کہ وہ مسلسل آگے بڑھتے جائیں بے سمت چلنے سے سفر معکوس بھی ہو سکتا ہے۔ سورج اور چاند اس سلسلے میں معاون ثابت ہوں گے۔

دوسری رات وہ ہوا جو ان کے گمان میں بھی نہیں تھا۔ رات اچانک باپ کی طبیعت خراب ہو گئی۔ جب تک بیٹوں کو جگا کر بتایا گیا تب تک باپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ ان حالات میں وہ یہ صدمہ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ وہ سب غم و اندوہ کے عالم میں یوں بیٹھے تھے جیسے ان سے سب کچھ چھن چکا ہو۔ ایسے میں منجھلے بھائی نے گلہ صاف کیا اور کہنا شروع کیا۔

”میرے بیٹو! صبر کرو، ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ اب مستقبل کی فکر کرو۔ تمہاری بہن ہے جس کا آدھا دھڑ مفلوج ہے، ماں ہے اس کا خیال بھی تمہیں رکھنا ہے۔ ہمت کرو اب ہمیں ہر حال میں سفر جاری رکھنا ہے۔“

تب بیٹوں کو ہوش آیا۔ انہوں نے اپنی ماں کی طرف پہلی بار غور سے دیکھا اور عہد کیا اپنی ماں کی خاطر وہ جان دینے سے بھی دریغ نہ کریں گے۔ سفر شروع ہوا۔ اب وہ طے شدہ قواعد و ضوابط کے تحت چلتے تھے۔ محافظ بھائیوں نے ماں کی حفاظت کا ذمہ بھی لیا تھا۔ باپ کے پانچوں بیٹے اپنی بہن سے بھی بے حد محبت کرتے تھے اور اسے یہ احساس بھی نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ مفلوج ہو چکی ہے۔ انہیں امید تھی کہ ایک دن وہ پھر اپنے پیروں پر کھڑی ہو گی۔

سفر یونہی جاری تھا لیکن ایک مسئلہ یہ تھا کہ ان پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹا بھائی اکثر ناراض رہتا تھا۔ بڑے بھائی اس سے مذاق بھی کرتے کہ ہم تم سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں تم تو سکول بھی نہیں گئے تھے اور پھر جنگل کا سفر شروع ہو گیا۔ پھر ایک دن بڑا تلخ واقعہ ہوا۔ پانچویں بھائی نے ان کے ساتھ آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔

چار بھائیوں نے منانے کی بڑی کوشش کی مگر وہ ضد پہ اڑا تھا۔

”تم یہ کہتے ہو کہ میں نکما ہوں، میں شکار کرنے میں بھی پیچھے رہتا ہوں، ٹھیک ہے میں تم سے الگ ہو جاؤں گا۔“

چاروں بھائیوں نے اپنی سی کوشش کی پھر اپنے کزن بھائیوں سے بات کی۔ وہ چھوٹے بھائی کو منانے لگے لیکن چھوٹے بھائی نے ایک نہ سنی اور ایک خیمہ اور گدھا لے کے چلا گیا۔ چاروں بھائی بے حد افسردہ تھے لیکن وہ اسے روک نہ سکے اور یوں انہیں ایک اور صدمہ اٹھانا پڑا۔ وہ اس کے پیچھے جانا چاہتے تھے لیکن ان کے چچا زاد بھائیوں نے کہا کہ جانے دو اسے۔ ٹھوکریں کھائے گا تو خود ہی واپس آ جائے گا۔

چاروں بھائی دکھی دل کے ساتھ پھر سفر پر روانہ ہوئے۔ اب بہت دن گزر چکے تھے مگر وہ علاقہ ابھی تک نہیں ملا تھا جس کے بارے میں ان کے باپ نے بتایا تھا۔ ایک صبح چاروں بھائیوں نے مشورہ کیا کہ ہماری ماں بوڑھی اور کمزور ہے ہمیں جلد از جلد اس علاقے تک پہنچنا چاہیے جہاں دھرتی سونا اگلتی ہے، جہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے چچا زاد بھائی سمت کا اندازہ لگانے میں غلطی کر رہے ہیں۔ کیوں نہ آج ہم سمت کو تھوڑا سا تبدیل کریں۔ جب ان کے چچا زاد بھائی جاگے تو انہوں نے اس بات کا تذکرہ کیا۔ یہ بات سن کر ان کے چچا زاد بھائیوں کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔

”اس کا مطلب ہے کہ آپ کو ہم پر بھروسا نہیں ہے۔ حالاں کہ ہماری وجہ سے آپ چین سے سوتے ہیں۔ ہم بالکل ٹھیک سمت میں سفر کر رہے ہیں۔“ چچازاد بھائی نے منہ بنایا۔

”ہمیں آپ پر پورا بھروسا ہے لیکن ہمارے باپ نے ہمیں اس علاقے کے بارے میں بتایا تھا اور سمجھایا تھا کہ وہاں کیسے پہنچنا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو ساتھ لے کر جانا ہے، اب تو ہمیں لگتا ہے کہ ہم نہیں آپ ہمیں ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔“ باپ کے بڑے بیٹے نے کہا۔

”بھائی صاحب! آپ ہمیں ساتھ لے کر چلیں یا ہم آپ کو، بات تو ایک ہی ہے، ہماری منزل ایک ہے، اس لیے اس چکر میں نہ پڑیں کہ کون کس کو لے کر چل رہا ہے، بس چلتے رہیں۔ ویسے بھی ہم مضبوط ہیں، ہتھیار چلانا بھی جانتے ہیں، جنگلی جانوروں سے بچا سکتے ہیں، آپ تو کچھ نہیں کر سکتے بس سفر کر سکتے ہیں۔“ چچا زاد کزن کا لہجہ مضبوط تھا۔

چاروں بھائیوں نے سر ہلا دیا۔ اس کے سوا وہ کیا کر سکتے تھے۔ سفر ایک بار پھر شروع ہوا۔ ان کی آنکھوں میں خواب تھے۔ وہ اب مزید انتظار نہیں کر سکتے تھے وہ جلد از جلد خوابوں کی سر زمین تک پہنچنا چاہتے تھے۔

یہاں تک کہہ کر توتا خاموش ہو گیا۔ طوفان اسی طرح جاری تھا۔ تاریک رات میں بارش اسی تندی اور تیزی سے برس رہی تھی۔ بادل زور سے گرجا اور بجلی چمکی۔ مینا کانپ اٹھی۔ اس نے بجلی چمکنے کے لمحے میں توتے کو اداس اور خاموش دیکھا۔

”کیا ہوا توتے؟ چپ کیوں ہو گئے، آگے کیا ہوا؟ کہانی سناؤ ناں بڑی دلچسپ کہانی ہے۔“ مینا جلدی سے بولی۔

”کیا سناؤں مینا! بس اتنی ہی کہانی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ وہ ابھی تک اسی جنگل میں ہیں۔ ان کا سفر اب بھی جاری ہے۔“ مینا نے ایک گہری سانس لی اور اپنا سر اپنے پروں میں چھپا لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments