میرے دوست! مسئلہ کدھر ہے؟


روزمرہ کی زندگی میں کئی نوجوانوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ ہر کسی کو پروردگار نے بہت ساری خوبیوں اور خاصیتوں سے نوازا ہے۔ جیسا کہ دنیا کے سارے کوٹیشن حالات کے تناظر میں لکھے گئے ہیں۔ یوں ہی انسان کبھی اسی حالات کے ہاتھوں مجبور تو کبھی وہی حالات اس پر مہربان رہتے ہیں۔ پر ایک عادت جو اسی ٹیکنالوجی کے وقت کی پیدائش ہے اور نئی نسل اس عادت کو اپنا اٹوٹ حصہ بنا چکی ہے وہ ہے ہر بات کا ”شارٹ کٹ“ لینا۔ ہمارے مہربان دوست سریش کمار کھتری کہتے ہیں، ”شارٹ کٹ“ والا فارمولا تو ہم انجنیئر لوگ کبھی کبھی اپناتے بھی ہیں پر آج کے نوجوان اس شارٹ کٹ کو بھی ”کٹ شارٹ“ کر دیتے ہیں۔

انسان جب بھی کبھی کسی مشکلات کا شکار ہوتا ہے، مسائل روزمرہ کی زندگی میں سامنے آتے ہیں تو اسے پریکٹیکلی حل کرنے کے بجائے وہ جذبات کے گھوڑے پر سوار ہو جاتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بجائے جذبات کو اپنے قابو میں رکھے بچارا خود جذبات کے ہاتھوں قابو ہو جاتا ہے۔ اپنے اندر کو دوست بنانے کے بجائے وہ اس سے دشمنی کرنے لگتا ہے پھر نتائج یوں ہوتے ہیں کہ جس کا اس نے زندگی میں کبھی بھی تصور نہ کیا ہو۔ پڑھائی، نوکری، گھر کے حالات، معاشی مسائل، پیار و محبت کی کہانیاں، سیاسی و سماجی انار کی، عقیدے کی پرچھائیاں، یوں تو یہ مسائل سب کے ساتھ ہوتے ہیں پر اس کی زبانی ؛ ”دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ، میرا مسئلہ ہے“ ۔

اور وہ مسئلہ بھی حق اور ناحق کے لکیر کھینچے بغیر اپنی چوائس سے حل کروانا چاہتا ہے۔ رشتوں میں حقیقت کی حیثیت انکاری ہو گئی ہے۔ ”کچھ بھی اچھا نہیں لگتا، رشتے دار مطلب کے ہیں، دوست تو صرف کام کے وقت ہی یاد کرتے ہیں، نوکریاں یا تو امیروں کے لیے ہے یا پرچی پر میرٹ کا بلیدان ہوتا ہے، قسمت ہمیشہ مجھ سے ہی ناراض کیوں رہتی ہے، جو بھی کوئی آتا ہے مجھ کو ہی برا بھلا کہتا ہے، مجھ سے کوئی بھی پیار نہیں کرتا، مجھ کو کوئی عزت نہیں دیتا“ ، یہ سب جملے اور باتیں اس کی ڈائری کا وہ حصہ ہیں جسے وہ ہر روز پڑھتا ہے۔

خود سے جھگڑتا ہے، پھر کبھی ان لوگوں کے نمبر ڈیلیٹ کرنا، کبھی جذبات بھرے میسیج کرنا، کبھی اور دوستوں کے ساتھ گلے و شکوے کرنا بس یہی مشغولی بن جاتی ہے۔ خلیل جبران نے اس ساری ماجرا کا جواب یوں دیا ہے کہ؛ ”درد؛ تمہارا اپنا انتخاب ہے“ ۔ آج جو تمہیں دکھ دے رہے ہیں، پریشان کر رہے ہیں اور جس کے لیہ تم رو رہے ہو سو وہی لوگ تو ہیں جن کے ساتھ گزرے کل میں قہقہے لگائے تھے۔

تاؤ نے ٹھیک لکھا ہے، ”جو بات کہی نہ جائے وہ سچ ہے“ ۔ وہ سچ سن نہیں سکتا پر پوری کوشش کرتا ہے دوسروں کو سچ کہوں۔ پھر یہ ادھورا سچ پورے جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ منزل سے بھٹکا ہوا مسافر، پھر کبھی نشے آور چیزوں کا سہارا لیتا ہے اور مے کے عالم میں مخمور ہو کر سرور میں سکون کی تلاش کرتا ہے تو کبھی لفظوں کی چادر پھین لیتا ہے اور سگریٹ کے کش لگا کے اپنے حصے کے خیالی بادل بناتا ہے۔ تو کبھی مذہب کی طرف لگن لگتی ہے۔ پر سب چیزیں وقتی ہوتی ہے جس طرح کام میں مستقل مزا جی نہیں ہوتی اس طرح ایک جگہ کہیں ٹھکانا نہیں ہوتا۔

ایک وقت تھا کہ کتابوں کا میلہ لگا رہتا تھا، اخبار کے اچھے آرٹیکل پر نوجوانوں میں بحث ہوتی تھی۔ سیاسی و سماجی تنظیموں میں کارکنوں کی صلاحیت بڑھانے کے لیہ اسٹڈی سرکل ہوتے تھے۔ پری ڈجیٹل ایج میں خطوط کی بڑی اہمیت ہوتی تھی۔ پانچ، سات صفات کی تحریر میں دنیا بھر کا علم نچوڑ کے ڈالتے تھے اور آخر میں لکھتے تھے ”تھوڑا لکھنا، بہت سمجھنا“ اور بھی بہت ساری نصیحتیں ہوتی تھی۔ پر آج کے وقت نے لٹریچر کو چھین کر موبائل دے دیا ہے۔

بچے کو چپ کرانے سے لے کر، پیار، محبت کے قصے، شادی و غمی کے احساسات، معاشی تنگی، پالیسیوں پر بحث، سب کچھ انگوٹھے پر۔ ٹیکنالوجی نے ”سماجی جانور“ کے محاورے کو ”اکیلا جانور“ میں تبدیل کر دیا ہے۔ ساری فرسٹریشن اور ڈپریشن فیس بک اور ٹویٹر پر بھری ہوئی ہے۔ بس جی ”بنا پڑھنے کے لکھنا اور بنا لکھنے کے پڑھنا“ اس جنریشن سے اور کیا امیدیں کی جا سکتی ہیں۔ واٹس ایپ اسٹیٹس، لنکڈ ان پروفائل، فیس بک ڈی پی یا ٹویٹر پر ٹویٹ لکھنے سے آدمی کی ذہنیت کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں محض جذباتی باتوں میں الجھنے کے بجائے حقیقت سے سیکھنا پڑے گا۔ ہمارے ایک استاد صاحب کہتے تھے، ”لفظ تو لفظ ہی سکھاتا ہے، آدمی آدمی بناتا ہے“ ۔ ٹیکنالوجی اچھا روبوٹ تو بنا سکتی ہے اور اس سے زیادہ کام بھی لے سکتی ہے پر اس سے اچھا آدمی کبھی نہیں بن پاتا ”۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے سماج اور اردگرد کے ماحول میں دیکھ رہے ہیں کہ ”برداشت“ کا پہلو نوجوان نسل میں سے غائب ہو رہا ہے۔ ہلکہ سی بات یا مذاق میں ہم سرحدوں کے تناؤ پر پہنچ جاتے ہیں۔ بن دیکھے، بن جانے، بن سنے، بن بات کے کسی بھی چیز خواہ آدمی پر کمینٹس کی بھرمار کر دیتے ہیں۔ ریسرچ اور ڈیٹا کی باتیں تو صرف کتابوں میں ہی ملتی ہیں پر ہم نے تو اپنی ہی سائنس بنا ڈالی ہے۔ یاد رکھیں؛ ہمارے اپنے عقیدے یا سوچ ہو سکتی ہے پر ہماری اپنی سائنس کبھی نہیں ہو سکتی ہے سائنس سب کے لیے ایک ہے اور اس کے نتائج بنا کسی رنگ، نسل، مذہب سے بالاتر ہے۔ کیلکیولیٹر پر حساب آپ امریکا، یورپ، امریکہ یا ایشیا کہیں بھی کریں جواب ایک ہی ہوگا۔

اس نوجوان نسل کو سمجھنا ہوگا، موبائل اور لیپ ٹاپ کی دنیا سے باہر ایک اور دنیا ہے جسے ہم انسانوں کی دنیا کہتے ہیں۔ جہاں عزیز و قریب، رشتے دار اور دوست رہتے ہیں ہر رشتے کی اپنی اپنی اہمیت اور حیثیت ہے۔ موبائل و لیپ ٹاپ سے کئی گنا بڑھ کر یہ دنیا ہے جہاں رشتوں کے روٹھنے سے جذبوں کا قتل ہوتا ہے۔ اس کے بعد کسی بھی بات اور فیصلے کے حل کے لیہ کوئی جلد بازی نہیں ہوتی۔ ایک دوسرے کو سمجھنے کے ساتھ ایک دوسرے کو سنبھلنا بھی پڑتا ہے۔

جہاں مجبوری پر ضد نہیں ہوتی اور مسکراہٹ پر کوئی وار نہیں ہوتا صرف احساس کی بولی سے ہی رشتوں کی اہمیت بڑھتی ہے۔ جہاں بہادر لوگ برداشت، صبر اور معاف کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ شارٹ کٹ کے چکروں میں لانگ لائف کے پتنگ کی ڈوری کبھی بھی ٹوٹ سکتی ہے۔ فلمیں، ڈرامے یہ حقیقت نہیں ہے اور نہ حقیقی زندگی ایسی ہے۔ سچ ان باتوں سے بہت دور ہے۔ سچ سے بھاگ کے کبھی بھی کہیں نہیں جا سکتے اس کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ زندگی کا ہر دن خوشی کا دن نہیں ہوتا اور خوشیوں کے گیت بنا محنت کے گائے نہیں جا سکتے۔

بنا محنت کی کمائی ہوئی دولت کبھی بھی نہیں ٹکتی۔ گلیمر کی دنیا اور حقیقت میں بہت بڑا فرق ہے۔ رشتے گر واسطوں میں بدل جائیں تو بندھن کو احسانوں کے ترازو میں تول کر چلنا پڑے گا۔ تیری زندگی کے ہر مسئلے کا حل صرف تیری ہی موجودگی میں ہے، صرف اپنے آپ میں ہے۔ مارکیٹ سے لی ہوئی ”پریشانیوں کے حل کی کتاب“ مزید پریشانیاں بڑھاتی ہے۔ شراب پے کے سب کچھ بھولنے و بھلانے کی خواہشیں ہوش میں آنے کے بعد درد کو دگنا کر دیتی ہے۔

خود کو پڑھیں، جانیں اور سمجھیں۔ اپنے آپ سے کھلی فضا میں جا کے باتیں کریں، جہاں غلط ہو وہاں ٹھیک کریں۔ باہر کوئی غلطی نہیں اور نہ ہی کوئی غلط ہے جسے ٹھیک کر نیکی ضرورت ہے۔ صرف دوسروں پر الزام لگانے سے، شکایتیں کرنے سے، اور بڑی کتابوں کا حوالہ دینے سے تم اپنے آپ کو کبھی بھی بدل نہیں سکتے۔ ہر بات پر نا الجھیں، ”اپنا ٹائم آئے گا“ کے چکر میں آج کا ٹائم ضائع نہ کریں۔ یہ فلمی ڈائیلاگ، حقیقی زندگی میں محض لطیفوں کی طرح ہے اسے سننے تک ہی رکھیں۔ اپنی پریشانیوں کو دبا کے اوروں کی پریشانیاں حل کرنے کا نہ سوچیں۔ برائی اور بدلے کی آگ سے بچیں، خود سے بے انتہا محبت کریں اور خود کو حوصلہ دیں کیونکہ مسئلہ بھی آپ ہیں اور حل بھی آپ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments