پاکستانی ملی نغمہ: ’دل دل پاکستان‘ دل کی بات تھی جو دلوں میں اتر گئی

طاہر سرور میر - صحافی، لاہور


ڈرم کے ہائی ہیٹ سمبل (تانبے کی پلیٹ) کی آواز آتی ہے۔ ردم میں گٹار اور آرگن کی آوازیں بھی شامل ہوتی ہیں اور سکرین پر چار جواں سال لڑکے ساز بجاتے دکھائی دیتے ہیں۔ کیمرہ ماحول کی شادابی اور سبزے کے درمیان میں سے ایک جیپ کو آتے دکھاتا ہے جس پر یہ لڑکے سوار ہیں اور وہ وطن سے محبت کا یہ گیت گا رہے ہیں، ’دل دل پاکستان، جان جان پاکستان‘۔

یہ 1987 کی بات ہے جب یہ تاریخ ساز ملی نغمہ جنید جمشید نے گایا تھا جبکہ روحیل حیات، نصرت حسین اور شہزاد حسن ان کے ساتھی تھے۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ملی نغمے بڑے بڑے استادوں اور بادشاہانِ فن نے گائے جنھیں فن موسیقی میں یکتائے فن تسلیم کیا گیا تھا اور ان کے گائے گیتوں کو قبول ِعام بھی ملا لیکن ‘دل دل پاکستان ‘ایسا ملی گیت رہا جس نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑے۔

آج سے 34 سال پہلے یہ گیت وائٹل سائنز بینڈ نے گایا تھا۔ اس گیت کی دھن، استھائی (مکھڑا)، ایرینجمنٹ اور ویڈیو بنانے کا سہرا ملک کے نامور ڈائریکٹر شعیب منصور کے سر ہے جبکہ شاعری نثار ناسک کی تھی۔

اس بینڈ کے مرکزی گلوکار جنید جمشید تو اب اس دنیا میں نہیں لیکن ان کے ساتھی اور وائٹل سائنز کے بیس گٹارسٹ شہزاد حسن شاہی نے اس دور کو یاد کرتے ہوئے بتایا ’یہ 1986 کی بات ہے۔ ہم پشاور یونیورسٹی سے فارغ ہوئے تھے۔ سب شوقیہ طور پر میوزک کر رہے تھے، ہم نے ایک بینڈ بنا رکھا تھا جس میں میرے ساتھ بچپن کے دوست روحیل حیات پارٹنر تھے اور کچھ عرصہ بعد نصرت حسین بھی شامل ہوگئے تھے۔

’وائٹل سائنز بنانے کا قصہ بڑا دلچسپ ہے۔ ہمارا ووکلسٹ ہمیں چھوڑ کر کسی دوسرے بینڈ میں چلا گیا تھا تو ان دنوں ہمیں اپنے میوزک بینڈ کے لیے ایک گلوکار کی تلاش تھی۔ ایک دن بازار میں جنید جمشید سے ملاقات ہوئی تو خیال آیا کیوں نہ اسے اپنے بینڈ میں شامل کیا جائے؟ہم سب چونکہ چھاؤنیوں میں رہتے تھے لہٰذا ایک دوسرے کو جانتے تھے، ہم نے جنید کو اپنے بینڈ میں شامل ہونے کی دعوت دی تو اس نے کہا ٹھیک ہے میں تو میوزک کو سنجیدگی سے کرنا چاہتا ہوں، لیکن میرے ساتھی میوزک میں دلچسپی نہیں لے رہے، اس نے ہمیں اپنا میوزک کنسرٹ سننے کی دعوت دی۔ جنید کی دعوت پر روحیل حیات، نصرت حسین اور میں اس کا کنسرٹ سننے گئے، جنید نے اس رات وہاں بہت عمدہ پرفارم کیا اور اس کے بعد ہم نے اکٹھے ہوکر وائٹل سائنز بنایا اور باقاعدگی سے گانا شروع کر دیا۔

‘دل دل پاکستان’دل سے گایا اور تاریخ بن گئی

شہزاد حسن نے بتایا کہ یہ وہ وقت تھا جب وہ اور ان کے ساتھی انگریزی موسیقی اور گانے سنتے تھے۔ ’ نازیہ حسن اور زوہیب ہماری انسپریشن تھے، دل دل پاکستان کی دھن اور کمپوزیشن بھی مغربی انداز سے کی گئی تھی جو ہم پر جچی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دل دل پاکستان کا آئیڈیا شعیب منصور کا تھا۔ اصل میں ہوا یہ تھا کہ جشنِ آزادی کے موقعے پر پی ٹی وی میں ملی ترانوں کا ایک مقابلہ کروایا جا رہا تھا جس میں نوجوان گلوکاروں کو یہ ہدف دیا گیا تھا کہ وہ اپنے بینڈ کے ساتھ ترانہ تیار کریں۔ شعیب صاحب نے لاہور سے رابطہ کیا، ہم لوگ راولپنڈی میں تھے، انھوں نے بتایا کہ اس طرح یہ بول ہیں اور پھر انھوں نے ہمیں اس کی دھن یاد کرائی۔ شعیب صاحب نے استھائی تیار کی ہوئی تھی پھر باقاعدہ شاعری کے لیے نثار ناسک صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں۔ چند دن ریہرسل کرنے کے بعد اس کی آڈیو ریکارڈ نگ کی گئی۔ آڈیو تیار ہو گئی تو اسلام آباد میں شکرپڑیاں، گالف کلب اور شاہراہ دستور پر اس کی ویڈیو کی شوٹنگ کر لی گئی۔‘

شہزاد حسن نے بتایا کہ یہ گیت 14 اگست کے موقعے پر ہی پیش کیا گیا تھا۔ ’چند دنوں میں یہ ملی ترانہ پاکستان بھر میں مشہور ہو گیا تھا۔ ہم نے اس طرح کے زبردست فیڈ بیک سے متعلق کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ہم جہاں جاتے لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا، لوگ ہمیں سڑکوں اور بازاروں میں روک لیتے تھے، آٹو گراف اور تصویریں بناتے ہوئے گھنٹوں گزر جاتے تھے۔‘

تاریخ ساز مقبولیت کی وجہ کیا بنی؟

‘دل دل پاکستان ‘ کی تاریخ ساز مقبولیت کی وجہ کیا بنی تھی، اس سوال کے جواب میں شہزاد حسن نے کہا کہ ’میرے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ تو سادگی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا ’آپ دیکھیں اس گیت کا مکھڑا کتنا سادہ ہے ’دل دل پاکستان، جان جان پاکستان‘۔ جس طرح یہ مصرعہ لکھنے اور پڑھنے میں آسانی سے یاد ہو جاتا ہے، اس کی دھن، کمپوزیشن اور ایرینجمنٹ میں بھی سادہ تھی۔ شعیب منصور پڑھے لکھے اور ذہین انسان ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر کسی گیت یا نعرے کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ہے تو پھر سادگی سب سے اہم ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’دل دل پاکستان‘ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ جس نے بھی سنا اسے یاد ہو گیا، جس نے بھی ترانہ گایا اس کے دل میں اتر گیا۔ ہم نے دیکھا کہ اس ترانے کو گلی، محلوں، سکول، کالج، یونیورسٹی، مدرسوں سب جگہ گایا گیا ہے۔

شہزاد حسن نے کہا کہ ‘دل دل پاکستان ‘ کو اگر پاکستان کا دوسرا قومی ترانہ کہا جاتا ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ یہ نغمہ نہیں دل کی بات تھی اور دلوں میں اتر گئی تھی۔ دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اسے میڈیا نے کبھی بُھولنے نہیں دیا۔ ریاست، حکومت، میڈیا اور عوام نے ‘دل دل پاکستان’ کو وطن سے محبت کا اظہاریہ بنائے رکھا جس کی وجہ ہے کہ یہ گیت چوتھی دہائی کی طرف گامزن ہے۔

گلوکار جواد احمد کا کہنا ہے کہ دراصل ‘دل دل پاکستان’ ان ملی ترانوں کا تسلسل ہی تھا جو اساتذہ نے گائے تھے لیکن اسے جدید انداز میں بنایا گیا تھا۔ شام چوراسی گھرانے گلوکار رفاقت علی خان نے اس گانے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا تعلق اگرچہ کلاسیکی گھرانے سے ہے لیکن میں ایک عرصہ سے پاپ اور کلاسیکی موسیقی کا فیوژن بھی کررہا ہوں اس لیے ‘دل دل پاکستان’ پر کھلے دل سے بات کر سکتا ہوں۔‘

’دل دل پاکستان ایک آسان میلوڈی ہے جس پر مغربی موسیقی کی چھاپ نمایاں ہے اور اس کی شاعری بھی آسان، ہلکی پھلکی اور غیر روایتی ہے۔ گورے چٹے گلوکار ،جینز جیکٹ پہنے ہوئے ہاتھوں میں آرگن اور گٹاریں پکڑی ہوئیں لوگوں کو اچھے لگے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ملی ترانے عموماً جنگی ترانے بھی ہوتے ہیں جس میں دشمن کے چھکے چھڑانے کی بات کی جاتی ہے، لیکن اس ملی گیت میں دشمن سے لڑنے جھگڑنے کی بجائے ‘بڑھتی رہے یہ روشنی چلتا رہے یہ کارواں’ جیسی بات کی گئی ہے ۔میرے خیال میں یہ بڑی بہترین سوچ ہے۔‘

ان کے مطابق ’دل دل پاکستان’ کی غیر معمولی مقبولیت کی بڑی وجہ تو اس کی سادہ اور دل میں اتر جانے والی میلوڈی کے علاوہ اس کی غیر معمولی پروموشن بھی ہے جس کے باعث آج چونتیس، پینتیس سال بعد بھی ’دل دل پاکستان‘ لوگوں کی زبان پر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp