اوول میں پاکستان کی جیت اور فضل محمود: جب پاکستانی ٹیم کا مذاق اڑایا گیا کہ یہ کاؤنٹی میچ بھی جیت لے تو بڑی بات ہو گی

عبدالرشید شکور - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


باؤلر فضل محمود اوول ٹیسٹ کے بعد پویلین لوٹتے ہوئے
فضل محمود (سب سے آگے) اوول ٹیسٹ کے بعد دیگر کھلاڑیوں کے ہمراہ پویلین لوٹتے ہوئے
سنہ 1953 میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان کھیلی گئی سیریز کے آخری ٹیسٹ میں انگلینڈ نے بیس سال کے صبر آزما انتظار کے بعد روایتی ایشیز دوبارہ حاصل کی تو اوول کرکٹ گراؤنڈ میں ایک عجیب ماحول تھا۔

شائقین کے ہجوم کے سامنے انگلینڈ کے کپتان لین ہٹن، اوول گراؤنڈ کی بالکونی سے فاتحانہ انداز میں ہاتھ ہلا کر سب کو جواب دے رہے تھے۔

بظاہر یہ انگلینڈ کی فتح تھی لیکن یہ 26 برس کے ایک پاکستانی نوجوان کے دل کو چھو گئی تھی جس نے یہ جیت دیکھ کر اپنے ملک کو بھی اسی طرح فاتح بنانے کی ٹھان لی۔ اور پھر ٹھیک ایک سال بعد 17 اگست 1954 کو یہی نوجوان اسی اوول کرکٹ گراؤنڈ کی بالکونی میں پاکستان کی تاریخی جیت کے مرکزی کردار کے طور پر خوشی سے سرشار دکھائی دے رہا تھا۔

یہ فاسٹ بولر فضل محمود تھے جو سنہ 1953 میں پاکستان کی ایگلٹس ٹیم کے ساتھ انگلینڈ کے دورے پر تھے، جہاں انھیں اپنے وقت کے بہترین کوچ الف گوور سے بولنگ کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔

کوچنگ سے فارغ ہو کر انھوں نے اوول کرکٹ گراؤنڈ کا رُخ کیا تھا جہاں انگلینڈ کی آسٹریلیا کے خلاف تاریخی جیت دیکھ کر ان کے ارادوں میں مزید پختگی آ چکی تھی۔

دورے سے قبل کاردار کے خلاف بغاوت

پاکستانی کرکٹ میں کپتانوں کے خلاف بغاوت کی بڑی دلچسپ کہانیاں موجود ہیں۔

درحقیقت اس کا آغاز پہلے ٹیسٹ کپتان عبدالحفیظ کاردار کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ انھیں کپتانی سے ہٹانے والوں میں پاکستان کے پہلے غیر سرکاری کپتان میاں محمد سعید کے علاوہ ٹیم کے چند کھلاڑی بھی شامل تھے، جنھوں نے لاہور جم خانہ کے پویلین میں بیٹھ کر اپنے طور پر اس کی منصوبہ بندی کی تھی۔

پیٹر اوبون نے اپنی کتاب ’واؤنڈڈ ٹائیگرز‘ میں لکھا ہے کہ ’پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورہ انگلینڈ سے قبل کپتان عبدالحفیظ کاردار کو کپتانی سے ہٹانے کی کوشش کی گئی اور اس میں پنجاب کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر فدا حسن بھی پیش پیش تھے۔ کاردار نے اس کوشش کو ناکام بنانے کے لیے اسکندر مرزا کی مدد لی تھی جو اس وقت سیکریٹری دفاع تھے۔‘

’اسکندر مرزا نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے اُس وقت کے صدر میاں امین الدین کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ لاہور جم خانہ کے پویلین میں جمع ہونے والے ان تمام افراد کو بتا دیں کہ عبدالحفیظ کاردار ہی انگلینڈ کے دورے میں پاکستانی ٹیم کے کپتان ہوں گے۔‘

کاردار

پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان عبدالحفیظ کاردار اوول ٹیسٹ میں فتح کے بعد شائقین کو ہاتھ ہلاتے ہوئے

وجے مرچنٹ کا طنز

پاکستانی کرکٹ ٹیم کراچی سے بحری سفر کے ذریعے انگلینڈ روانہ ہوئی تو کپتان عبدالحفیظ کاردار کو بخوبی اندازہ تھا کہ انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیم کے مقابلے میں ان کے کھلاڑیوں کا تجربہ برائے نام تھا۔

انگلینڈ کی اس ٹیم میں سر لین ہٹن، ڈینس کامپٹن، ٹام گریونی اور پیٹر مے جیسے ورلڈ کلاس بیٹسمین اور الیک بیڈسر، فریڈ ٹرومین، فرینک ٹائسن اور برائن سٹیتھم جیسے غضب کے فاسٹ بولرز اور جم لیکر اور جانی وارڈل جیسے خطرناک سپنرز شامل تھے۔

دونوں ٹیموں کے اسی موازنے میں چند اطراف سے طنزیہ جملے بھی پاکستانی کھلاڑیوں کو سُننے پڑے تھے۔ مثلاً انڈیا کے مشہور ٹیسٹ کرکٹر وجے مرچنٹ نے پاکستانی ٹیم کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا تھا کہ انگلینڈ کے دورے میں پاکستانی ٹیم چار، پانچ کاؤنٹی ٹیموں سے میچز جیت لے اور دس کاؤنٹی میچز برابر کر لے تو اس دورے کو کامیاب سمجھا جائے گا۔

پاکستانی کھلاڑی اُن کے اس بیان پر سخت خفا تھے۔

انگلینڈ کے مشہور کرکٹ رائٹر نیول کارڈس بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہے تھے۔ سیریز کے پہلے تین ٹیسٹ میچز میں پاکستانی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد انھوں نے پاکستان کے ساتھ ٹیسٹ سیریز کو انگلینڈ کے حکام کی غلطی سے تعبیر کیا۔

انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستانی ٹیم یارکشائر، ناٹنگھم شائر، مڈل سیکس یا نارتھمپٹن شائر کی کاؤنٹی ٹیموں کے سامنے بھی نہیں ٹھہر سکتی۔

ان حالات میں پاکستانی ٹیم کو اگر کسی کی حمایت حاصل رہی تو وہ انگریز کوچ الف گوور تھے، جنھیں حنیف محمد اور فضل محمود کی غیرمعمولی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ تھا اور انھوں نے کہہ دیا تھا کہ چار ٹیسٹ میچوں کی اس سیریز میں پاکستانی ٹیم کم از کم ایک ٹیسٹ جیت جائے گی۔

اوول ٹیسٹ

اور پھر اوول ٹیسٹ کا وقت آ گیا

اوول ٹیسٹ سے پہلے پاکستانی ٹیم کے لیے حالات اچھے نہیں تھے۔ اسے ٹرینٹ برج ٹیسٹ میں ایک اننگز اور 129 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لارڈز اور اولڈ ٹریفرڈ میں بارش اس کی مدد کو آ گئی تھی ورنہ 87 اور 90 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد بھلا کون شکست سے بچ سکتا تھا؟

اوول ٹیسٹ کا مختصراً احوال یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم نے پہلی اننگز میں 133 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد انگلینڈ کو 130 رنز پر آؤٹ کر دیا تھا جس میں فضل محمود نے 53 رنز دے کر چھ وکٹیں حاصل کی تھیں۔

دوسری اننگز میں پاکستانی ٹیم نے 164 رنز بنائے تھے۔ انگلینڈ کو میچ جیتنے کے لیے168 رنز کا ہدف ملا تھا لیکن فضل محمود کی 46 رنز کے عوض چھ وکٹوں کی شاندار کارکردگی نے انگلینڈ کو 143 رنز پر آؤٹ کر کے پاکستانی ٹیم کو 24 رنز کی جیت سے ہمکنکار کر دیا تھا۔

فضل محمود نے اس ٹیسٹ میں صرف 99 رنز دے کر 12 وکٹیں حاصل کی تھیں۔

فضل محمود نے اپنی کتاب ’فرام ڈسک ٹو ڈان‘ میں لکھا ہے کہ ’چوتھے دن کا کھیل ختم ہونے والا تھا۔ میں جیت کے بارے میں پُرامید تھا لیکن کپتان کاردار میری طرح نہیں سوچ رہے تھے۔ میں نے دن کے اپنے آخری اوور کے موقع پر ان سے کہا اگر میں ڈینس کامپٹن کو آؤٹ کردوں تو؟ کاردار نے پنجابی زبان میں جواب دیا کہ ’فیر تے جیت جاواں گے‘، میں نے اسی اوور میں کامپٹن کو آؤٹ کر دیا اور اس طرح کھیل کے اختتام پر انگلینڈ کی چھ وکٹیں 125 رنز پر گر چکی تھیں۔

فضل محمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہʹچوتھے دن کے اختتام پر کاردار میرے کمرے میں آئے اور پوچھنے لگے کہ میچ کے بارے میں کیا خیالات ہیں؟ ہمارا لائن آف ایکشن اب کیا ہونا چاہیے۔ میں نے کہا کہ آپ کپتان ہیں آپ کو بہتر معلوم ہو گا۔ میں اس بات سے پریشان تھا کہ جب میں جیت کی بات کر رہا تھا تو دوسرے کھلاڑی اس سے اتفاق نہیں کر رہے تھے۔‘

’میں نے کاردار سے کہا کہ آپ ذوالفقار احمد کا خیال رکھیں۔ وکٹ پر جانی وارڈل موجود ہیں جن کی سلو بولر کے خلاف غلط ہٹ بھی چھکا ہو سکتی ہے۔‘

فضل محمود کہتے ہیں کہ ’کاردار کے جانے کے بعد مینیجر فدا حسن کمرے میں آ گئے اور انھوں نے مجھے لیکچر دینا شروع کر دیا جس پر میں نے انھیں جواب دیا کہ آپ مجھے لیکچر دینے کے بجائے کاردار کو سمجھائیں کہ وہ ایسے کپتان کا طرز عمل پیش کریں جو جیت پر یقین رکھتا ہو۔‘

یہ بھی پڑھیے

پاکستان ٹیسٹ کرکٹ کی کہانی

تین روزہ بارش جس نے دنیائے کرکٹ میں ون ڈے میچز کی بنیاد رکھی

وہ میچ جہاں سے کرکٹ ورلڈ کپ کا سلسلہ شروع ہوا

فضل محمود

فضل محمود نے اس ٹیسٹ میں 99 رنز دے کر 12 وکٹیں حاصل کی تھیں

فضل محمود اور کاردار کے درمیان ٹرینٹ برج ٹیسٹ میں اس بات پر گرما گرمی ہو گئی تھی کہ کاردار یہ سمجھتے تھے کہ فضل محمود ان فٹ تھے لیکن انھوں نے یہ بات چھپائی تھی اور یہ ظاہر کیا کہ وہ کھیلنے کے لیے فٹ ہیں۔

فضل محمود نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’پیٹر مے اور کامپٹن کی جارحانہ بیٹنگ سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے یہ میچ کو چوتھے دن ہی ختم کرنے کے موڈ میں ہیں۔ ایک موقع پر مجھے لگا کہ کاردار میری جگہ کسی دوسرے کو بولنگ دینا چاہتے ہیں تو میں نے یہ کہہ کر گیند ان کے ہاتھ سے چھین لی کہ کیا آپ میچ ہارنا چاہتے ہیں؟‘

’کاردار نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ اس وقت انھوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ پاکستان میچ جیت سکتا ہے۔ ان کا جواب تھا کہ میچ کو آخری دن تک جانے دو۔ ہو سکتا ہے رات کو بارش ہو جائے اور میچ ڈرا ہو جائے لیکن اس گفتگو کے فوراً بعد میں نے جو اگلی گیند پیٹر مے کو کرائی اس پر وہ کاردار کے ہاتھوں اُسی جگہ کیچ ہو گئے جہاں میں نے اپنے کپتان کو کھڑا رہنے کے لیے کہا تھا۔‘

ہم جیت گئے، ہم جیت گئے ہیں

پاکستانی ٹیم کی تاریخی جیت کے بعد شائقین کی بڑی تعداد اوول گراؤنڈ کے پویلین کے سامنے جمع ہو کر ’وی وانٹ فضل، وی وانٹ فضل‘ کے نعرے بلند کر رہی تھی۔ اس جوش و خروش میں اس وقت اضافہ ہو گیا جب فضل محمود بالکونی میں نمودار ہوئے اور ان کا چہرہ بتا رہا تھا کہ یہ جیت ان کے لیے کیا معنی رکھتی ہے۔ وہ اندر گئے لیکن پھر بالکونی میں آ گئے اور ان کے ایک ہاتھ میں سٹمپ تھی۔ اس موقع پر انھوں نے ایک چھ سال کے بچے احمد راشد کو بھی گود میں اٹھایا۔

یہ تصویر آج بھی اوول ٹیسٹ کی چند یادگار تصویروں میں شمار ہوتی ہے جس کی ایک کاپی فضل محمود نے اپنے آٹوگراف کے ساتھ اس بچے کو پیش کی تھی۔

فضل محمود نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ʹمیں نے سر لین ہٹن کو ایک سال پہلے جس بالکونی میں کھڑا دیکھ کر جو ارادہ ظاہر کیا تھا، آج اسی بالکونی میں فاتحانہ انداز میں کھڑا رہنے کا یہ ارادہ اللہ نے پورا کر دیا تھا۔‘

’جیت کے بعد اوول کے ڈریسنگ روم میں عجب سماں تھا۔ آرمی چیف جنرل ایوب خان اور لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان کے علاوہ پاکستانی ٹیم کے پہلے غیر سرکاری کپتان میاں محمد سعید بھی وہاں موجود تھے، جن کا میں داماد تھا۔ اس موقع پر جسٹس کارنیلئس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا جو بلند آواز میں کہہ رہے تھے کہ ہٹن کو بلاؤ، کامپٹن کو بلاؤ، انھیں بتاؤ کہ وہ فضل محمود سے سیکھیں کہ کس طرح کھیلنا ہے۔‘

’ایسے میں بھلا الف گوور کو کون بھول سکتا تھا جو اس میچ کے ایک کمنٹیٹر تھے اور میچ کے بعد یہ کہہ رہے تھے کہ ʹہم جیت گئے ہیں ہم جیت گئے۔‘ وہ یہ بات بھول گئے تھے کہ وہ برطانوی ہیں۔ ان پر پاکستانی ٹیم کی محبت غالب آ چکی تھی جس کی صلاحیتوں پر انھیں ہمیشہ یقین رہا تھا۔ انھوں نے میچ کے بعد میرے ساتھ تصویر بنانے کی خواہش بھی ظاہر کی تھی۔‘

یہ بھی پڑھیے

کرکٹ ورلڈ کپ مقابلوں کے دس یاد گار میچ

’ویوین رچرڈز نے کہا تمہارے آنے سے بھی فرق نہیں پڑا، سکور صفر ہی ہے‘

وسیم اکرم: کالج کی ٹیم کا بارہواں کھلاڑی پاکستانی ٹیم کا فاسٹ بولر کیسے بنا؟

فضل محمود وزڈن کے پانچ کرکٹرز میں شامل

فضل محمود صرف اوول ٹیسٹ ہی کے ہیرو نہیں تھے بلکہ انھوں نے انگلینڈ کے اس دورے میں مجموعی طور پر77 وکٹیں حاصل کی تھیں جس پر وزڈن نے انھیں پانچ بہترین کرکٹرز میں شامل کیا تھا۔

وزڈن نے ان کے بارے میں اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ان کی سب سے خاص بات ان کا بھرپور سٹیمنا ہے اور اس کا وجہ ان کا جلد سونا اور روزانہ صبح اٹھ کر پانچ میل پیدل چلنا اور پانچ میل دوڑنا ہے۔

وزڈن نے لکھا تھا کہ وہ اپنی جسامت، رن اپ اور بولنگ ایکشن میں الیک بیڈسر سے مماثلت نہیں رکھتے لیکن دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں لینتھ کے ماسٹر اور سوئنگ پر توجہ رکھنے والے بولر ہیں۔

وزیر محمد کی اداکاری

اوول ٹیسٹ میں پاکستان کی تاریخی جیت میں جہاں فضل محمود کی بارہ وکٹوں کی شاندار کارکردگی نے کلیدی کردار ادا کیا تھا وہیں پاکستان کی دوسری اننگز میں وزیر محمد کی ذمہ دارانہ بیٹنگ بھی ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی تھی۔

وزیر محمد نے ناقابل شکست 42 رنز بنانے کے علاوہ آف سپنر ذوالفقار احمد کے ساتھ نویں وکٹ کی شراکت میں قیمتی 58 رنز اور آخری وکٹ کے لیے محمود حسین کے ساتھ 24 رنز کا اضافہ کیا تھا۔

اوول ٹیسٹ جیتنے والی پاکستانی ٹیم میں وزیر محمد واحد کرکٹر ہیں جو ابھی تک حیات ہیں۔ برمنگھھم میں رہائش پذیر 91 سال کے وزیر محمد کے پاس اوول ٹیسٹ کی متعدد دلچسپ یادیں محفوظ ہیں۔

وزیر محمد

اوول ٹیسٹ جیتنے والی پاکستانی ٹیم میں وزیر محمد واحد کرکٹر ہیں جو ابھی تک حیات ہیں

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ʹجب میں دوسری اننگز میں بیٹنگ کر رہا تھا تو برائن سٹیتھم کی تیز گیند میرے بائیں پیر کے پنجے پر لگی۔ اگرچہ درد بہت تھا لیکن میں اٹھ کر کھیل سکتا تھا مگر میں نے ڈرامہ کیا اور پیڈ گلووز اتار کر نیچے بیٹھ گیا کہ جیسے میں اٹھ نہیں سکتا۔ کھیل کچھ دیر کے لیے رکا رہا۔ اس دوران وکٹ کیپر گاڈفرے ایونز نے میری حالت دیکھ کر کپتان لین ہٹن کے کان میں کچھ کہا جس پر ہٹن نے سٹیتھم کو ہدایت کی کہ وہ مجھے فرنٹ فٹ پر بولنگ کریں تاکہ میں تکلیف کی وجہ سے نہ کھیل سکوں۔‘

وزیر محمد کا کہنا ہے کہ ’میں بھی یہی چاہتا تھا کہ گیند مجھے فرنٹ فٹ پر ملے کیونکہ بارش کی وجہ سے وکٹ اتنی مشکل ہو گئی تھی کہ اس پر بیک فٹ پر کھیلنا مشکل تھا۔ میں جب بھی ان کی گیندوں کو کھیلتا تو درد سے کراہنے کی آواز بھی ساتھ ساتھ نکال رہا تھا تاکہ انگلینڈ کی ٹیم یہ سمجھے کہ میں واقعی تکلیف میں ہوں۔‘

وزیر محمد کہتے ہیں ’میری وہ اننگز اس لیے بھی اہم تھی کہ میں ٹیل اینڈرز کے ساتھ کھیل رہا تھا، جن کے ساتھ کھیلنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ آپ کو انھیں بولرز سے بھی بچانا ہوتا ہے اور خود بھی رنز کرنے ہوتے ہیں۔‘

وزیر محمد کہتے ہیں کہʹاس دورے میں ہر کھلاڑی کو ایک ہفتے کے سات پاؤنڈ الاؤنس ملتا تھا لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہمارے لیے پیسہ نہیں جذبہ اہم تھا۔ انگلینڈ کی سرزمین پر پہلی ہی سیریز میں ٹیسٹ میچ جیتنا کوئی مذاق نہ تھا اور وہ بھی اس ٹیم کے لیے جو انٹرنیشنل کرکٹ میں بالکل نئی تھی۔‘

وزیر محمد کا کہنا ہے کہ ʹاس جیت کو 67 سال ہو گئے ہیں لیکن آج بھی جب میں لندن میں اوول گراؤنڈ کے قریب سے گزرتا ہوں یا ٹی وی پر کوئی میچ دیکھ رہا ہوتا ہوں تو اس یادگار جیت کا خیال دل میں آ جاتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32559 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp