کہروڑ پکا کی نیلماں ( 4 )


(افسروں کے معاشقوں پر مبنی ایک نیم حقیقی نیم افسانوی واردات قلبی کا احوال)

دھیمے دھیمے اس نے سوچا کاش اس کا میاں سعید گیلانی، اس سامنے بیٹھے اتفاقی مرد، ارسلان کی شخصیت کا دس فیصد ہی دل چسپ ہوتا تو وہ ابھی واپس برمنگھم لوٹ جاتی۔ اس کی دوست جس کا اصل نام تو برمیندر کور تھا وہ اور نیلم شام کو دفتر سے لوٹتے وقت یا توEagle & Ball پب یاBacchus Bar میں بیٹھ کر چل (Chill) کرنے کے لیے ایک ایک گلاس شراب کا ضرور گھٹکاتی تھیں۔ دونوں کے گھر بھی قریب قریب تھے۔ دو گلیاں چھوڑ کر گڈی اپنے بھائی بھابھی کے گھر سے ہٹ کر ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہتی تھی۔

پینے پلانے کا چھوٹا موٹا شوق نیلم کو اپنے استاد اور دلبر، وجدان احمد کی رفاقت میں پڑا تھا۔

موگا۔ مشرقی پنجاب ہندوستان سے شادی کے بعد انگلستان پہنچ کر سب سے پہلے برمیندر نے دو کام کیے۔ پہلے تو اپنے ہتھ چھٹ سکھ میاں سے نجات حاصل کی اور دوسرے برمیندر سے اپنا نام گڈی بدل لیا۔ وہ کہتی تھی برمیند ر اور برمنگھم سننے میں بہت جڑے جڑے سے لگتے ہیں۔ میاں چھوڑ دیا توماں باپ والا نام بھی چھوڑ دیا جائے۔ سکھوں میں ڈولیاں بہت تھیں۔ ہر تیسری لڑکی اپنا نام ڈولی سنگھ بتاتی تھی۔ برمیند نے ڈولی والے نام کو سرسوں کے تیل کی مالش کر کے چھاچھ سے غسل دیا اور اپنا نام گڈی رجسٹر کرادیا۔

گڈی تیز تیزفیصلوں کی عادی تھی۔ وہ دو سال میں ہی بھانپ گئی کہ اس کا بس ڈرائیور میاں اس کے مزاج کے حساب سے لمبی ریس کا گھوڑا نہیں۔ انگلستان نے اس کے اپنے پینڈو فطرت میاں ترلوچن سنگھ اور نیلم کے میاں سعید گیلانی کا کچھ زیادہ نہیں بگاڑا۔ یہ دونوں پنجابی کے محاورہ ”جیہڑے ایتھے پیہڑے او لہور وی پیہڑے“ (گائوں کے لفنگے، لاہور شہر جا کر بھی لفنگے رہیں گے ) ۔ دونوں ازدواجی دھندے میں گھاٹے کا سودا ہیں۔ اس کے اپنے الفاظ میں ٹوٹل لاس، Frustrated Cargo، انسانی نسل اور خوراک کا نرا نقصان۔ شراب کے تین گھونٹ کے ساتھ ہی اس کے اندر کی سکھنی لاچا کس کر ککلی کرنا شروع کردیتی۔ نیلم کو اس وقت گڈی بہت اچھی لگتی۔ وہ گالیاں دیتی اور اپنی فرسٹریشن نکالتی تو نیلم گڈی کا ہاتھ پکڑ کر بار میں ہی جھونٹے لینا شروع کر دیتی

ککلی کلیر دی۔ وزن کے بول
پگ میرے ویر دی۔ پگڑی میرے بھائی کی
دوپٹہ پرجائی دا۔ دوپٹہ میری بھابھی کا
فٹے منھ جوائی دا، منھ کالا ہو ہمارے داماد کا
جوائی بیٹھا کھوئی تے۔ داماد جو کنویں پر بیٹھا ہے
ڈنڈا مارے ڈھوئی تے۔ اسے پیچھے سے ایک لات مارو

bacchus Bar

بار والوں کے لیے وہاں بیٹھے گوروں کے لیے ایک دل چسپ نظارہ ہوتا۔ کبھی کبھار ان کی تقلید میں گورے گوریاں مطلب پوچھ کر ناچنے کھڑے ہوتے تو گڈی اس میں من پسند مغلظات شامل کر دیتی۔ وہاں ایک سماں بندھ جاتا ایسے ہی ماحول کو فرینچ میں bonhomie کہا جاتا ہے جس کا مطلب خوشیوں بھرا دوستانہ ماحول۔ گڈی اس کو سمجھاتی کہ ان لوزرز سے جان چھڑانے میں ہی بہتری ہے۔ اپنے طلاق کے فیصلے کے تمام افکار پریشاں اس نے نیلم سے باآواز بلند اس لیے شیئر کیے کہ اسے سعید گیلانی سے اس طرح کے فیصلے پر پہنچنے میں کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ گڈی نے طلاق کے معاملے میں نیلم کو بھی سعید کی ڈھوئی پر ڈنڈا مارنے کا مشورہ دیا۔ دفتر کے کام سے جڑا کسی اور ادارے کا ملازم ایک عراقی لڑکا اسے بہت پسند کرتا تھا۔ اس کی مرضی تھی کہ نیلم اس سے جڑ جائے۔ جب نیلم نے اسے ٹالا تو کچھ دن تک وہ خود اس کے ساتھ آتی جاتی تھی۔ اس کے کام میں ایسے مواقع اکثر کمپنی کے خرچ پر نکل آتے تھے۔ یورپ کے پچاس ساٹھ ملک ایک دوسرے سے تین تین گھنٹوں کی مسافت پر ہیں۔ ان رفاقت بھری مسافتوں میں گڈی کو اس سے دوستانہ لگاوٹ ہو گئی۔ نیلم کو چھیڑتی تھی کہ مسلمان کوئی اور کام ٹھیک سے کریں یا نہ کریں پر ساڈا دائود بستر میں سکندر اعظم ہے۔ بہت دن بعد نیلم کو پتہ چلا کہ دائود مسلمان نہیں عیسائی ہے تو اس نے گڈی کو بتا دیا تو وہ کہنے لگی

So much water has passed under the bridge۔
In any case he is moving back. Winter here was harsh.We kept each other warm and we saved on gas.

(پل کے نیچے سے بہت پانی بہہ گیا ہے۔ چلو وہ ویسے بھی واپس جا رہا ہے۔ اب کی دفعہ یہاں سردیاں شدید تھیں۔ ہم ایک دوسرے کی وجہ سے گرم بھی رہے اور گیس کا بل بھی کم آیا) ۔ نیلم جو فطرتاً ایک Conformist تھی اسے گڈی کا یہ من چلا اور دنیا کو جوتی کی نوک پر رکھنے کا انداز بہت پسند تھا، اسی وجہ سے وہ اپنے بھائی بھابھی سے ان کی رضامندی کو نظر انداز کر کے ذرا دور اکیلی رہتی تھی۔

نیلم جانتی تھی کہ اس کی مالی حالت میں گھر کے کرائے کی وجہ سے ایک دبائو آ جاتا ہے اس وجہ سے اسے وہ گڈی کو ان کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتی تھی۔ جواب میں گڈی اسے جتاتی تھی کہ تجھے کیا پتہ پلنگ کے دونوں طرف سے اٹھنے کی آزادی کتنی بڑی آزادی ہے۔ وہ کوئی بوائے فرینڈ اپنے گھر نہیں لاتی تھی۔ نیلم کو وہ چھیڑتی تھی کہ وہ جب سعید سے طلاق لے لے تو وہ دونوں Same۔ Sex Marriage کر لیں گے۔ دونوں پنجاب پھرسے ایک ہوجائیں گے۔ ساتھ رہیں گے۔ گا گا کر پیار کریں گے۔ نیلم جس دن میں دلہن ہوں یو سنگ وے ماہی میرا سونے ورگا وے ماہی تینوں چم چم رکھنا، جب تو دلہن ہوگی وی ڈونٹ گوٹو پب میں تینوں ٹب وچ پاکے تے نالے پٹیالہ پیگ پی کے کہوان گی

وے ماہی میرا وہسکی ورگا
وے ماہی تینوں غٹ غٹ پی واں
وے ماہی تینوں۔
ایک ہفتے وہ میاں اور ایک ہفتے نیلم یا جیسے مناسب لگے۔

نیلم کو نوکری بھی گڈی نے ہی دلوائی تھی۔ دونوں بہت گہری دوست تھیں۔ دوستی کے تین ماہ بعد ہی جب کہ نیلم کی شادی دو سال پرانی تھی اس نے نیلم کو طلاق کا مشورہ دیا جس کو ٹالتے ٹالتے مزید چار برس اور بیت گئے۔

زندگی جس رفتار سے گزر رہی تھی ممکن ہے ویسے ہی گزرتی رہتی مگر اب کی دفعہ کرنل ظہیر نے ہمت پکڑی۔ انہوں نے نیلم کی شکایات کو ٹھنڈے دل سے سن کر اسے پاکستان آنے کو کہا۔ انہیں لگا کہ بچی تنگ ہے اور وہ اس کے معاملے میں کوئی حتمی فیصلہ کر نا چاہتے ہیں۔ اس فیصلے کے بارے میں سوچنے کا مرحلہ اس لیے درپیش آیا کہ طاہرہ اور کرنل ظہیر دونوں ہی ایک بڑے حادثے کے نتیجے میں ہمت ہار بیٹھے تھے۔ طاہرہ کے دونوں بیٹے اور نیلم کے سوتیلے بھائی اس وقت حادثے میں ہلاک ہو گئے جب بھمبر جاتے ان کی جیپ ایک کھائی میں جا گری۔ طاہرہ بھی جیپ میں موجود تھی مگر وہ ہلاک ہونے سے اس لیے محفوظ رہی کہ وہ ڈرائیور کے اوپر جا گری تھی جس کی وجہ سے بے چارے کو ہاتھ پیر ہلانے کو موقع ہی نہ ملا کہ جان بچ جاتی۔ وہ کچھ دن ہسپتال میں رہی مگر جب شفایاب ہو کر گھر واپس آئی تو اس کی شخصیت بجھ سی گئی۔ زندگی بہت بے لطف ہو گئی، دنیا داری جاتی رہی۔

نیلم کی طلاق کے موضوع پر طاہرہ نے چپ ہی سادھے رکھی۔ دور کہیں اسے یہ بھی بات سمجھ میں آ گئی کہ ناخوش نیلم کے برطانیہ میں رہنے سے بہتر ہے کہ وہ پاکستان آن کر ان کی جاگیر داری سنبھال لے۔ یہاں کسی عزیز وغیرہ سے شادی کر لے۔ اللہ نے کبھی وطن کی مٹی کو گواہ بنا کر ریٹائرڈ کرنل ظہیر صاحب کے حوصلوں کو جولانی دی تو وہ پھر سے ماں بن جائے گی۔ نیلم سے اسے نو مولود کے ساتھ جائیداد شئیرنگ کا کوئی خطرہ نہ تھا۔ وہ جانتی تھی کہ نیلم سعادت مند ہے۔ ممکن ہے وہی اس نئے بچے کی ماں نما بہن بن کر اسے جاگیر میں حصہ دے دے گی۔ یوں بھی جب اس کے بیٹے عفان اور غفران ہی اس دنیا میں نہ رہے تو نیلم کے برطانیہ میں رہنے کا اسے ذاتی طور پر کوئی فائدہ نہ تھا۔ اس کے سود و زیاں کا اینٹنا کاکروچ کے antennae جیسا تھا۔ وہ ان بے رحم افراد کی طرح سوچتی تھی کہ ”اپنا کام پورا تو بھاڑ میں جائے نورا۔“

نیلماں کی ازدواجی ناآسودگی کی گولی اس نے اپنے کزن فخر الزماں کے کان کے پاس سے ہلکے سے گزار دی تھی۔ بہت آہستگی سے اس نے نیلم کے تاحال کنوارے ہونے اور سعید کی بستر میں پسپائی کا بتا دیا۔ فخر الزماں گیلانی نے لخت جگر کی اس نامرادی کا سنا تو دل میں آئی کہ پوتے ± پوتی کے لیے چیسٹر اسٹریٹ میں گھر کے پاس ہی واقع بلیک برن مسجد کے امام صاحب سے سیدنا زکریا علیہ سلام کی اولاد والی دعا کی درخواست کرے مگر پھر ڈر گیا کہ اس کی بیوی زیب النساء عرف زیبی بھی کچھ ایسی خاص عمر رسیدہ نہیں۔ بیالیس برس کیا ہوتے ہیں۔ اب تک باقاعدگی سے پیراکی بھی کرتی ہے اور وہ دونوں کے جنسی تعلقات میں لطف، چنچل، تواتر اور استحکام ہے۔ Menopause بھی شروع نہیں ہوا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دعا کا اثر نیلم کی بجائے اس کی اپنی بیگم پر ہو جائے۔ وہ حاملہ ہو گئی تو بہت بھنڈ ہو جائے گا۔

نیلم نے پاکستان جانے کا پروگرام بنایا تو سعید نے سوچا کہ وہ آخری ٹرائی کے طور پر برلن میں مل لیں۔ وہاں بات ہو جائے گی۔ وہ نیلم کو سمجھا دے گا کہ والدہ کا جو Daddy ’s All Boutique کا منصوبہ ہے اس میں شریک ہو جائے۔ خاندان بڑا ہے۔ مزید اضافے کے امکانات ہیں۔ برطانیہ میں پٹیل اور گجراتی دونوں ہاتوں سے دولت لوٹ رہے ہیں تو وہ کیوں نہ اپنا حصہ بٹوریں۔ کاروبار میں برکت ہے۔ ہندو نوکری کو نیچ کہتے ہیں۔ بیوپار کو اصل میں یہ گجراتی میمن بے پار کہتے ہیں۔

وہ جب برلن پہنچے تو طاہرہ نے اپنے کزن فخر الزماں کی بہو نیلم کی چند ماہ پرانی شکایات پر غور کیا۔ جن میں ساس سے بدسلوکی سر فہرست تھی۔ نیلم اس کی بیوی اور اپنی ساس کو بہت Trash کرتی ہے۔ شراب بھی روز گھٹکاتی ہے۔ مے بی اس حرامی گڈی کے ساتھ Orgies میں بھی جاتی ہو۔ طاہرہ کے لیے اورجی نیا لفظ تھا مگر وہ سمجھ گئی کہ پی پلا کر یہ دونوں برمنگھم کے نقشبندیوں کی مراقبہ Meet۔ ups میں تو شریک ہونے سے رہیں۔ یہ سوچ کر اس نے اس محفل شہوت و خرافات کے بارے میں تفصیل سے جاننا ضروری نہ سمجھا مگر یہ ٹھان لیا کہ کبھی نیلم ہاتھ لگی تو اورجی کا ذکر ضرور چھیڑے گی۔ دونوں کی عمر میں زیادہ سے زیادہ یہی کوئی دس برس کا فرق تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments