عورت کا پردہ بکارت اور مرد کی بے ضمیری


مملکت خدادا میں چار دہائیوں سے زائد عرصے سے خواتین کے کئی ماہنامے و رسائل شائع ہوتے آ رہے ہیں۔ میٹرک کرتے ہی یہ رسائل پڑھنا شروع کر دیے تھے اور آج تک پڑھ رہی ہوں۔ سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ایک ماہنامے میں ”نفسیاتی ازدواجی الجھنیں“ نامی ایک سلسلہ شائع ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ملک بھر سے خواتین اپنے گھریلو مسائل خط لکھ کر بتاتی ہیں اور ان مسائل کا حل چاہتی ہیں۔ ہر دو تین ماہ کے بعد ان سوالوں و مسائل کے جواب میں دو سطری جملہ لکھا جاتا ہے، گزشتہ کئی سالوں سے وہی نپا تلا اور مہذب جواب۔

” بے فکر ہو کر شادی کر لیجیے، آپ کے شوہر کو کچھ معلوم نہیں ہو گا“

بھلا شوہر کو کیا معلوم نہیں ہو گا؟ ایسی کیا بات پوچھ لیتی ہیں یہ لڑکیاں، اور اس قدر فکرمند ہوتی ہیں کہ رسالے میں خط لکھ کر پوچھ رہی ہیں، کیا وہ اپنے گھر والوں سے اپنی ماں سے نہیں پوچھ سکتیں، یہ سوال کبھی سمجھ نہ آیا، نہ ہی خود کسی سے پوچھا کہ ہمارے سماج میں سوال و جواب ممنوع ہیں۔

زندگی کے کئی برس گزرنے کے بعد اس سوال کا جواب مل گیا، جب دنیا اسمارٹ فون کے ذریعے انسانوں کی مٹھی میں ہے، ہمارے ملک کی عورتیں پردہ بکارت کے ذریعے مرد کی مٹھی میں ہیں، اگر شادی کی پہلی رات پردہ بکارت سے نکلنے والے چند قطرے خون سے بستر کی چادر رنگین نہ ہو، تو عورت کی ہتھیلی پر شادی کی رات ہی علیحدگی کا پروانہ دھر دیا جاتا ہے، اس کو بدکردار اور فاحشہ کہہ کر گھر سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔

رسالے میں فکر مند خطوط لکھنے والی لڑکیاں عموماً اپنے ہی گھر میں کسی قریبی عزیز سے اپنی قیمتی متاع کھو چکی ہوتی ہیں، جیسے جیسے شادی کے دن قریب آتے ہیں ان کو آگاہی ہوتی جاتی ہے کہ یہ تو پہلے ہی ان کے ساتھ ہو چکا ہے، اور وہ دوسرا مرد جو ان کی زندگی کا مالک بن بیٹھا ہے، اب وہ سوال پوچھے گا کہ یہ کیسے ہوا۔ کہ مضبوط خاندانی نظام میں سوال پوچھنے کا حق صرف مرد کو حاصل ہے، چاہے مرد خود پوری دنیا کی خواتین کا ذائقہ سونگھ چکھ کر آ چکا ہو، چاہے وہ ان سے کوئی جنسی بیماری بھی چپکا لایا ہو، چاہے وہ ماضی میں کسی کا عاشق رہا ہو، چاہے پورا خاندان مرد کی زندگی میں آنے والی خواتین سے واقف ہو، لیکن سوال صرف عورت سے ہو گا اور اس عورت سے بھی ہو گا جو انجانے میں لٹ چکی ہے، ملک بھر سے آنے والے ان خطوط میں اپنے لٹنے کی داستان اس فکر کے ساتھ لکھی جاتی ہے، کہ کیا شادی کے بعد ان کی زندگی تباہ ہونے جا رہی ہے، گویا جس سماج میں لڑکی کی زندگی کی خوشیوں کو شادی سے مشروط سمجھا جاتا ہے، وہاں ایک لڑکی شادی طے ہونے کی خوشی کے بجائے اس پریشانی میں ہے کہ اس کی دوشیزگی پر انگلی نہ اٹھے۔

عموماً چار وجوہات لکھی جاتی ہیں۔
خاندان کے کسی سگے خونی رشتے نے یہ کیا تھا۔ بہنوئی، استاد یا قاری نے ایسا کیا تھا۔
سوتیلے باپ نے ایسا کیا تھا۔
خود تجسس میں کچھ کر لیا تھا یا کسی نوعمر عم زاد کے ساتھ مل کر ایسا کیا تھا۔
چوتھی وجہ سب سے کم ہوتی ہے۔ زیادہ تر کیسسز میں انجان نو عمر بچی ہی نشانہ بنائی جاتی ہے۔

جب ہم سماج کے مرد کے غیر مہذبانہ اور ظالمانہ رویئے پر تنقید کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ خواتین کو مرد کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے۔ سارے مرد برے نہیں ہیں، جب کہ پچھلی کئی دہائیوں سے بد سلوکی و بد تہذیبی کے واقعات مختلف روپ بدل بدل کر سامنے آرہے ہیں۔ صدمہ دوچند ہو جاتا ہے جب خواتین اپنی ہی صنف کے اوپر ہونے والے ظلم۔ کا جواز دیتی ہیں، مذکورہ ماہنامہ رسائل میں بھی خواتین خط لکھ کر اعتراضات کرتی ہیں کہ فلاں خط کیوں شائع کیا، فلاں کہانی میں بیڈ روم کا منظر کیوں دکھایا، سرورق پر دلہن کی تصویر نہ دیں۔ سرورق کی ماڈل کو سر پر دوپٹہ اوڑھائیں۔

اور ان سب اعتراضات کا جواز عموماً یہ لکھ کر دیا جاتا ہے کہ ہمارا سماج اسلامی ہے، ہمارا خاندانی نظام مضبوط ہے، اس لیے ایسی باتیں ہم کو زیب نہیں دیتیں، شاباش ہے رسائل کی ٹیم ممبران کو کہ وہ یہ نہیں کہتیں، کہ بی بی کون سا اسلامی سماج؟ کون سا خاندانی نظام؟ وہی جس میں ایک بچی، بچہ یا لڑکی اپنے بچپن میں ہی اپنے قریبی رشتے داروں کے ہاتھوں لٹ چکے ہیں، وہی نظام جہاں ساس بہو کو زندہ جلا دیتی ہے، وہی نظام جہاں والدین بنا سوچے سمجھے یا پھر بیٹے کی آس میں چھ، سات، آٹھ بیٹیاں پیدا کر لیتے ہیں پھر اکلوتے بیٹے کو بیٹیوں کا جہیز جمع کرنے پر لگا دیتے ہیں، اس کی شادی نہیں کرتے، وہی خاندانی نظام جہاں بیٹیاں گھروں سے بھاگ کر شادی کرنے کی کوشش کرتی ہیں، انجان آدمی پر بھروسا کرتی ہیں، اور پھر ان کی پناہ گاہ ایدھی کا گھر ہوتا ہے اسی ایدھی کا گھر جس کو مذہبی پیشوا کافر و مشرک کہتے ہیں۔

اگر بیٹیاں خوش قسمتی سے پسند کی کامیاب شادی کر لیں تو مضبوط و اسلامی خاندانی نظام والے ان کو خود مار دیتے ہیں۔ اسی مضبوط خاندانی نظام میں والدین کو بھی آخری عمر میں ایدھی کے گھر میں پناہ لینی پڑتی ہے جہاں خاندانی و ایماندار قوم کے لوگ صدقہ خیرات دیتے ہیں۔ وہی خاندانی نظام جہاں سسرال کا تصور ایک امتحان گاہ ہے، اور میاں بیوی کے لطائف زیادہ مشہور ہوتے ہیں۔

وہی اسلامی سماج جس کے دین میں مقبروں و مزارات پر جانا ممنوع ہے لیکن مزارات پر جوق در جوق سب اپنی مرادیں و منتیں مانگتے جاتے ہیں۔ وہی اسلامی سماج جہاں پیری مریدی اور جعلی عاملین کی بہتات ہے اور مسلمان و مضبوط خاندانی سسرال والے اپنی بہووں کو ان جعلی عاملین کے پاس اولاد دلوانے لے جاتے ہیں، اپنے ذہنی و جسمانی معذور بچوں کو لے جاتے ہیں، لیکن علاج نہیں کرواتے، کیونکہ علاج کروانے کے لئے پیسے چاہئیں، لیکن اسی اسلامی ملک میں سرکاری بیت المال سے زکوۃ بھی خرد برد کر دی جاتی ہے۔ وہی اسلامی سماج جہاں مکروہ اور حرام ہونے کے باوجود جادو ٹونا عام ہے اور لوگ اپنے رشتے داروں پر کرواتے ہیں۔

یہ تمام مسائل ہم اخبارات و رسائل میں بچپن سے پڑھ رہے ہیں، دیکھ بھی رہے ہیں، لیکن جب بھی ان مسائل کی نشاندہی کی، سماج کے نام نہاد ٹھیکداروں نے یہی کہا کہ نشاندہی نہ کی جائے یہ سماج دشمنی ہے، برائی و خرابی کی نشاندہی کی جائے گی تو دور ہو گی نا، لیکن اس نکتے کو سمجھے بغیر اختلافات در اختلافات، مباحث اور گروہی بیانیوں نے قوم کا اجتماعی اخلاق و ضمیر مردہ کر دیا ہے نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ معصوم بچے بچیاں محفوظ نہیں رہے ہیں، نہ ہی مسافر لوٹ مار سے محفوظ ہیں، سرکاری ذمہ داران سے لے کر عام آدمی تک سب اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بجائے ذمہ داری پوری نہ کرنے کا جواز دیتے ہیں، قانون امیر کی جیب میں دھرا ہے۔

جب سوشل میڈیا پر یہ سب لکھا جائے تو وقتی طور پر سب ریاست و قانون کو برا بھلا کہہ دیتے ہیں لیکن سرکاری ذمہ داران اس عوامی اجتجاج کے باوجود نہیں سدھرتے بلکہ ریاست کی ایما پر ایسے افراد ذرائع ابلاغ میں موجود ہیں جو پرتشدد واقعات اور لاقانونیت کو مجرم سے جوڑنے کے بجائے مظلوم ہی کو نشانہ بناتے ہیں اور اس مقبول بیانئے کو فروغ دیتے ہیں جو سراسر ذمہ داران و مجرمان کو بچاتا ہے۔ عوام بے انصافی کی چکی کے پاٹوں میں پستی رہے ان کو کوئی غرض نہیں۔

وکٹم بلیمنگ ایک ایسا مکروہ اخلاقی جرم ہے، جو سماجی روایات کو دھیرے دھیرے نگل رہا ہے، پچھلے دنوں بنک میں کی جانے والی کھلے عام ہراسانی پر بھی جواز دیے گئے، ایک جواز یہ بھی تھا، کہ خواتین خود بھی اپنے آفس کے کولیگز اور باسز سے ایسے تعلقات رکھتی ہیں، اور اپنے کام نکلواتی ہیں، سوال یہ ہے کہ خاتون اگر ایسا کر رہی ہے تو مرد کیوں استعمال ہو رہا ہے، کیا مرد کے پاس عقل نہیں یا عورت کے پاس ایسی کوئی کمزوری ہے جس کو ہتھیار بنا کر وہ ایسا کرتی ہے۔ کچھ افراد نے یہ رائے بھی دی کہ عورت گھر کے علاوہ، گھر سے باہر بھی عورت کارڈ کھیل کر فائدہ اٹھاتی ہے۔

سماجی رویوں میں یہ اونچ نیچ انسانوں کے ضمیر پر انحصارکرتی ہے، اگر عورت گھر میں بھی اور گھر سے باہر بھی خصوصی برتاو سے نوازی جائے گی تو عین ممکن ہے کہ وہ فائدہ اٹھائے لیکن عورت ایسا صرف خود کو محفوظ رکھنے کے لئے بھی کرتی ہے کیونکہ اس کے پاس کوئی آپشن نہیں ہوتا، لیکن سماج کا مرد جس کے پاس بہت سارے آپشن ہیں، وہ آخر اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کرنے سے کیوں قاصر ہے، وہ کسی بچی کا بچپن خراب کر سکتا ہے، یہ جاننے کے باوجود کہ بچی کی آنے والی زندگی اس مکروہ فعل کے بعد برباد ہو سکتی ہے، وہ خاندان کی یا پڑوس کی بچی کو نشانہ بنا سکتا ہے، کسی نو عمر لڑکی کو محبت کا جھانسہ دے کر ہراساں یا بلیک میل کر سکتا ہے، شادی شدہ عورت سے بھی چھیڑ چھاڑ کر سکتا ہے، اس سے فون نمبر مانگنے کی ضد کر سکتا ہے، آخر ضمیر اس سب کی اجازت کیسے دیتا ہے نہ صرف اجازت بلکہ ضمیر ایسے افعال کے جواز تلاش کر کے اپنے آپ کو بری الذمہ بھی قرار دے دیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ضمیر مردہ ہے اور مذہب و دین آپ کی تربیت کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں اور یہ ناکامیاں ہمارے بچے بچیاں بھگت رہے ہیں اور کیا ہماری آنے والی نسلیں بھی مردہ ضمیر ہوں گی ، یہ ہمیں ہی سوچنا ہو گا۔

( نوٹ۔ ڈائجسٹس کا حوالہ ان پر طنز نہیں ہے بلکہ ان کی ادارت اور کارکنان کی کوششوں اور کاوشوں کو سراہنا ہے جو اس سماج میں عرصہ دراز سے وہ بہتری کے لئے انجام دے رہے ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).